راجندر کمار کا مارچ 1988 میں پاکستان دورہ - کچھ یادیں کچھ باتیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-20

راجندر کمار کا مارچ 1988 میں پاکستان دورہ - کچھ یادیں کچھ باتیں

rajendra-kumar-pakistan-visit-march-1988
راجندر کمار (پیدائش: 20/جولائی 1929 ، سیالکوٹ - م: 12/جولائی 1999 ، ممبئی)
بالی ووڈ فلموں کے ایسے مشہور و مقبول اداکار رہے ہیں، جن کی بیشتر فلموں نے جب سلور جوبلی منائی تو فلم بینوں نے انہیں "جوبلی کمار" کے خطاب سے نوازا۔ 1950 سے اپنا فلمی کیریر شروع کرنے والے اس مقبول عام اداکار نے چار دہائیوں کے دوران ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں اپنی اداکاری کی جوہر دکھائے۔ برطانوی ہند کے علاقہ سیالکوٹ (پنجاب) کے ایک پنجابی ہندو خاندان میں پیدا ہونے والے جوبلی کمار کو جب صدرِ پاکستان جنرل ضیاءالحق کی جانب سے "یومِ پاکستان (23/مارچ)" میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو وہ چند روزہ دورہ پر مارچ 1988ء میں پاکستان پہنچے۔ اپنے دورۂ پاکستان کے تاثرات سے انہوں نے ادارۂ شمع کو آگاہ کیا تھا۔ یہ دلچسپ انٹرویو "شمع" کے مئی 1988ء کے شمارے کے کالم "ستاروں کی دنیا" میں شائع ہوا۔ ذیل میں یہی تاثرات ملاحظہ فرمائیں۔

جوبلی کمار یعنی راجندر کمار سے ان کے گھر پر مسافر کی ملاقات ہوئی۔ وہ پاکستانی دورے کی یادوں کی خوشبو میں بسے ہوئے تھے۔ راجندر کمار کے پاس اپنے اس پہلے پاکستانی سفر سے متعلق کہنے کے لیے اتنی باتیں تھیں اتنی باتیں تھیں کہ ان کے لیے مشکل ہو رہی تھی کہ وہ کہاں سے شروع کریں، کیا کچھ بتائیں، کس کس کا ذکر کریں اور کون کون سے واقعات دہرائیں۔


مسافر نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے پہلا سوال یوں پوچھا:
آپ پاکستان کس سلسلہ میں گئے تھے، وہاں کب گئے تھے، کب آئے؟


بس اس کے بعد راجندر کمار نے یادوں کی نقاب کشائی شروع کر دی اور کہا:
یومِ پاکستان (23/مارچ) کے موقع پر علی بھائی (اداکار محمد علی) کو صدرِ پاکستان کی طرف سے "پرائیڈ آف پرفارمنس" کا ایوارڈ دیا جانا تھا، ان کے ایما پر پروگرام بنایا تو صدر پاکستان کی طرف سے اس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ یہ دعوت نامے اشوک کمار صاحب اور منوج کمار صاحب کو بھی موصول ہوئے مگر دادامنی (اشوک کمار) اپنی خرابئ صحت کی وجہ سے اور منوج کمار اپنی ساس کی بیماری کی وجہ سے نہ جا سکے۔ مصروف تو میں بھی تھا مگر جب اپنی جنم بھومی سے مجھے بلاوا آیا تو میں کشاں کشاں چلا گیا۔
پہلے دہلی گیا، یہ 22/مارچ کی بات ہے۔ ہوائی اڈہ سے سیدھا سفارت خانہ گیا، وہاں سے ویزا لیا اور اسی شام لاہور چلا گیا۔ 22/مارچ 1988ء کو چالیس برس بعد اپنی جنم بھومی پر قدم رکھا۔ اس سرزمین کی خوشبو کو خود میں سمویا جہاں بچپن گزرا اور جوانی کا ابتدائی حصہ گزرا۔
چالیس سال پہلے مہاجر ہو کر یہاں سے گیا تھا۔ اب اس مملکت کے صدر کا مہمان ہو کر وہاں گیا۔ مہمان نوازی بھی ایسی جسے میں نہ آج تک بھول سکا ہوں اور نہ کبھی بھلا سکوں گا۔ میں 22/مارچ کو پاکستان گیا تھا اور 5/اپریل کو واپس بمبئی پہنچا۔ اب یہی تمنا ہے، یہی آرزو ہے کہ خدا کرے سال میں کم از کم ایک بار وہاں ضرور جایا کروں۔

یہ بھی پڑھیے:
راجندر کمار - اردو کا شیدائی بالی ووڈ جوبلی کمار

راجندر کمار نے کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کیں، کچھ پرانی یادوں کو ٹٹولا، کچھ سوئی ہوئی کہانیوں کو جگایا اور کہا:
یوں تو میں نے قریب قریب ساری دنیا دیکھی ہے، بڑی بڑی ہستیوں کا مہمان بننے کا فخر حاصل ہے مگر دو سفر ایسے ہیں جن کے نقوش ان-مٹ ہیں۔ حالیہ سفر پاکستان کا ہے اور پہلا سفر قاہرہ کا تھا جو 1978ء میں کیا تھا۔ وہاں انٹرنیشنل فلم فیسٹول کی پہلی تقریب تھی اور میں واحد اداکار تھا جسے ہندوستان سے مدعو کیا گیا تھا۔

وہ میلہ دس دن کا تھا مگر وہاں کے منتظمین نے 15 دن سے پہلے مجھے وہاں سے جانے نہیں دیا۔ قاہرہ میں بہت سے دکانداروں نے اپنی دکانوں کے نام بدل کر راجندر کمار اسٹور کیے ہوئے تھے۔ کچھ نے میری فلمیں "امن" اور "سنگم" اور فلم سنگم میں میرے نام گوپال کی مناسبت سے امن اسٹور، سنگم اسٹور، گوپال اسٹور نام رکھے ہوئے تھے۔ میلہ کے منتظمین کی طرف سے مجھے ایک ترجمان (interpreter) لڑکی دی گئی تھی جو میرے لیے انگریزی زبان میں عربی کا ترجمہ کرتی تھی۔ اسی طرح دوسرے مندوبین کو بھی فرانسیسی، اطالوی اور چینی اور دوسری زبانیں جاننے والی لڑکیاں فراہم کی گئی تھیں تاکہ وہ ان کی مدد سے عربی سمجھ سکیں اور بات چیت کر سکیں۔
دلچسپ بات یہ ہوئی تھی کہ تمام مندوبین کی لڑکیاں میری کار میں آ کر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ میری کار اتنی چھوٹی پڑ جاتی تھی کہ مجھے اپنے لیے بہت بڑی کار منگوانا پڑی اور میلہ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے دوسرے مہمان حیران ہوئے تھے کہ یہ کون سا اداکار ہے جس کے لیے ان کی ترجمان لڑکیاں انہیں چھوڑ کر چلی گئیں۔


مجھے وہاں کم از کم پچیس (25) فلموں میں کام کرنے کی آفر ملی۔ آخر مصر فلمز کے پروڈیوسر سے معاملات طے ہوئے، ان کے اصرار پر میں نے راتوں رات ایک کہانی کا خاکہ بنایا جسے انہوں نے بےحد پسند کیا اور فلم کا نام "اللہ محب" تجویز ہوا۔ فلم کی موسیقی کے لیے نوشاد صاحب کو لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ میرا معاہدہ اس قسم کا تھا کہ میں نے ہندوستان، برما اور سیلون کے لیے حقوق اپنے لیے رکھے۔ تمام اسلامی ممالک کے حقوق ان کے نام تھے اور باقی دنیا میں ہم دونوں آدھے آدھے کے پارٹنر تھے۔ اس معاہدہ پر ان کی وزارت خارجہ کے سربراہ اور ہندوستانی سفیر نے باقاعدہ دستخط کیے اور اسے منظور کیا۔
میں نے ہندوستان آ کر عربی بھی سیکھنا شروع کر دی تھی تاکہ اپنے مکالمے خود بول سکوں مگر مصری حکومت کو کہانی پر اعتراض ہوا اور میں یہاں آ کر اتنا مصروف ہوا کہ دوسری کہانی کی طرف توجہ نہیں دے سکا۔ پھر ایک دن ان کا فون آیا کہ حکومت نے اسی کہانی پر فلم بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ مگر میری مصروفیات آڑے آتی رہیں اور اس طرح بات پھر نہیں بنی۔


اب قاہرہ سے پاکستان کی طرف واپس آئیں۔۔۔ مسافر نے لقمہ دیا۔
راجندر کمار نے آگے بتایا:
23/مارچ کو اسلام آباد میں 'یومِ پاکستان' کی پریڈ دیکھی۔ شام کو سرکاری اعزازات کی تقریب ہوئی اور صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق کی طرف سے ڈنر دیا گیا تھا۔ ڈنر میں اردن کے شاہ حسین، ان کی ملکہ نور، وزیراعظم پاکستان محمد خاں جونیجو، گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی، وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف اور دوسرے وفاقی اور صوبائی وزیروں سے بھی ملاقات ہوئی۔


راجندر کمار نے مسافر کو مزید بتایا کہ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق سے اسلام آباد کے بعد لاہور میں بھی ملاقاتیں ہوئیں جو ڈنر پر ہی نہیں بلکہ صبح کے ناشتہ پر بھی ہوئیں۔
راجندر کمار نے بتایا کہ صدر پاکستان نے ان سے کہا:
آپ لوگ یہاں آتے جاتے رہا کریں، اس طرح ماحول جلدی سدھرے گا، بہ نسبت سیاست دانوں کے۔


صدر پاکستان کی حلیمی کا ذکر کرتے ہوئے راجندر کمار نے کہا:
مجھے حیرت ہوئی جب صدرِ پاکستان دروازے پر استقبال کرنے کے لیے خود آئے اور واپسی پر بھی دروازے تک ہی نہیں گاڑی تک خود چھوڑنے آئے۔
راجندر کمار نے بتایا کہ صدر پاکستان نے انہیں رخصت کرتے وقت ایک خوبصورت قالین تحفہ میں دیا۔

rajendra-kumar-pakistan-visit-with-mohd-ali
مری کی سڑکوں پر پاکستانی اداکار محمد علی اور راجندر کمار

راجندر کمار نے کہا:
میں نے اپنے اس قیام میں ضلع سیالکوٹ میں اپنا گاؤں سن کھترا تو دیکھا ہی، وہ شہر اور جگہیں بھی دیکھیں جو وہاں رہتے ہوئے نہیں دیکھی تھیں۔ مثلاً کوہ مری، فیصل آباد وغیرہ۔ سرکاری طور پر مجھے ایک بڑی مرسیڈیز ملی ہوئی تھی جس کے پیچھے ایک پولیس کی گاڑی ہوتی تھی اور آگے موٹر سیکل پر پولیس کے مسلح افراد ہوتے تھے جیسے میں کسی ملک کا سربراہ ہوں۔ گارڈ اور پروٹوکول افسر کی رہنمائی میں یہ 15 دن گزرے۔


راجندر کمار نے مزید بتایا کہ:
میرے دادا پہلی جنگ عظیم میں ملٹری کے ٹھیکے دار ہوتے تھے اور والد کراچی میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ میں ہیلی کالج آف کامرس میں پڑھتا تھا۔
اپنے آبائی گاؤں سن کھترا کے بارے میں راجندر کمار نے بتایا کہ:
وہاں اب ہمارا مکان تو نہیں رہا مگر کئی پرانے دوست وہاں ملے۔ ایک عمر رسیدہ خاتون ملیں جنہیں ہم پھوپھی کہا کرتے تھے اور جن کی گود میں ہم نے بچپن کے دن گزارے تھے۔ میں سن کھترا پہنچا اور پھوپھی سے ملا تو سارا گاؤں موجود تھا۔ میں وہاں پیر سن کھترا کے مزار شریف پر بھی گیا اور وہاں دیا جلایا۔


راجندر کمار کچھ دیر خاموش رہ کر بولے:
اس سفر میں فلمی دنیا کے لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ملکۂ ترنم نورجہاں، شمیم آرا، بابرہ شریف سے بھی ملا۔ ادیبوں صحافیوں سے بھی ملا مگر جو مہمان نوازی علی بھائی اور ان کی بیگم زیبا بھابھی نے کی، اس کے شکریہ کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ان جیسا ایک بھی جوڑا ہمارے ہاں نہیں ہے۔
میری دعا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر سے بہتر ہوں۔ پاکستان کے ادیب، شاعر اور اداکار یہاں آئیں اور یہاں ہمارے ساتھ تخلیقی کاموں میں حصہ لیں۔ دونوں ممالک امن اور دوستی کے ساتھ رہیں۔ بقول صدر پاکستان:
فلمی ستارے ہی دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا پل بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے میں چاہوں گا کہ ہمارے یہاں سے فلمی ستارے وہاں جائیں اور وہاں سے فلمی لوگ یہاں آئیں اور ہم ساتھ مل کر امن دوستی کی فضا بنائیں۔


چلتے چلتے ایک بات اور بتاتا چلوں جس نے میرے دل کو چھو لیا۔ وہ یہ تھی کہ صدر پاکستان کی طرف سے شاہ اردن اور ان کی ملکہ نور کے اعزاز میں لاہور میں جو سرکاری ڈنر دیا گیا تھا اس میں سرکاری بینڈ نے ہمارے موسیقار نوشاد علی کی ترتیب دی ہوئی دو دھنیں بھی بجائیں جو کے اختتام پر سب نے پرزور تالیوں سے پسندیدگی کا اظہار کیا۔


راجندر کمار نے مسافر کو بتایا:
لاہور کے دورانِ قیام علی بھائی کے ساتھ لاہور کی تاریخی عمارات دیکھیں، شالیمار باغ گیا جہاں میلہ چراغاں ہو رہا تھا۔ بچپن میں میلہ چراغاں دیکھنے جایا کرتا تھا۔ شالیمار باغ اور شاہی قلعہ کی بھی علی بھائی نے سیر کرائی۔ لوہاری بازار اور انارکلی بھی گھوما۔ لوہاری پہنچ کر مجھے مجھے مچھلی اور دودھ دہی کی دکانیں یاد آ گئیں اور چالیس سال پرانی یادیں تازہ کرانے کے لیے علی بھائی نے اپنے ایک دوست شیخ غفور کے گھر پر مچھلی کا اہتمام کیا۔


راجندر کمار نے کچھ دیر رک کر کہا:
انارکلی کی ایک دکان کا نام مجھے یاد تھا۔ اس دور میں وہاں کیلاش ہوٹل تھا جو مجھے بےحد یاد آیا۔ انارکلی میں بھلہ شو کمپنی تھی۔ اس دکان کے اوپر بنی ہوئی بالکونی بہت تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ پنڈت جواہرلال نہرو تحریک آزادی کی ایک تقریب کے سلسلہ میں راوی کنارے کانگریسی جھنڈا لہرانے کے بعد گھوڑے پر سوار ہو کر انار کلی بازار سے گزر رہے تھے اور ان کے والد موتی لال نہرو بھلہ شو کمپنی کے اوپر واقع بالکونی میں کھڑے ہو کر یہ جلوس دیکھ رہے تھے۔ جب پنڈت نہرو گھوڑے پر سوار اس بالکونی کے نیچے سے گزرے تو پنڈت موتی لال نہرو کہنے لگے کہ رشتہ میں تو جواہرلال میرا بیٹا لگتا ہے لیکن سیاست میں یہ میرا باپ ہو گیا ہے۔ موتی لال نہرو نے جب یہ الفاظ کہے، اس وقت میرے بزرگ بھی وہاں موجود تھے جو شروع سے ہی کانگریس کے ساتھ تھے اور تحریکِ آزادی کے لیے بےدریغ پیسہ دیتے تھے۔


راجندر کمار کے مقبول ترین بالی ووڈ فلمی نغمے:

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: مئی 1988

Rajendra Kumar's visit to Pakistan in March-1988.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں