مولانا آزاد باغِ عدن میں سیر کر رہے تھے۔ تب ہی ایک بزرگ شخص نے ان سے ملاقات کی۔ رسمی بات چیت کے بعد انہوں نے مولانا سے کہا: "ان دنوں تو ہندوستان میں آپ کی دھوم مچی ہے، پارلیمنٹ کے ایوان میں آپ کا مجسمہ اور سرکاری دفتروں میں آپ کی تصویریں آویزاں ہیں۔ ہر سال دھوم دھام سے آپ کا یومِ پیدائش اور برسی منائی جاتی ہے۔آپ کا یومِ پیدائش سرکار ہر سال نیشنل ایجوکیشن ڈے کے طور پر مناتی ہے۔ ہر گلی میں ایک پرائمری اسکول،قصبہ میں ہائی اسکول، بڑے شہروں میں کالج اور یونیورسٹی آپ کے نام سے قائم ہیں۔ یونیورسٹیوں میں آپ کے نام پر "چیئر" ہیں ۔ بڑے شہروں کے بڑے سے بڑے راستے آپ کے نام سے وابستہ ہیں۔ کئی انعامات آپ کے نام سے منسوب ہیں۔"
یہ سب سن کر مولانا سوچ میں پڑ گئے کہ آخر ماجرا کیا ہے۔میں جب تک زندہ تھا تو کوئی مجھے 'شو بائے آف کانگریس' کہتا، کوئی شرابی، کوئی کم علم اور نہ جانے کیا کیا۔ اور آج جب کہ میں جنّت میں ہوں تو میرےہندوستان ہی میں میری اتنی پذیرائی ہو رہی ہے۔کاش، میں یہ سب کچھ دیکھ سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا کی دعا قبول کی اور انہیں دوبارہ اس دنیا میں بھیج دیا۔
جب وہ اپنے بالی گنج سرکلر روڈ سے متصل اصغر مستری لین میں واقع گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو دربان انہیں روک دیتا ہے: "ارے، کہاں جا رہے ہیں آپ؟ یہ میوزیم ہے بھائی، مولانا آزاد میوزیم، پہلے دستخط کیجئے پھر اندر داخل ہوئیے۔"
بہر کیف، مولانا دستخط کرکے اندر گئےتو حیران رہ گئے کیوں کہ ان کی نشست میوزیم بن چکی تھی جہاں ان کا لباس، ان کی چھڑی، ان کے استعمال میں آنے والی دیگر چیزیں اور تصویریں وغیرہ رکھی تھیں۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ دربان نے آ کر کہا: "چلئے، میوزیم بند ہونے کا وقت ہو گیا ہے۔"
پریشانی اور بے سروسامانی کے عالم میں مولانااپنے گھر سے نکلے۔ تب انہیں خیال آیاکہ پاس کی مسجد میں وہ نمازِ جمعہ پڑھاتے تھے۔ وہیں چلا جائے۔ اور وہاں جا کر انہوں نے ڈیرا ڈال دیا۔
جیسے ہی مولانا آزاد کی اس دنیا میں دوبارہ آمد کی خبر پھیلی، لوگوں کا ہجوم ان کے گھر کے پاس منڈلانے لگا۔ ایسے ہی لوگوں کی ایک جماعت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا:
"حضور، آپ علم و ادب کا گہوارہ ہیں، سیاست کے ماہر، ثقافت کے علم بردار، مذہبی معاملات پر عبور..."
مولانا نے انہیں روکتے ہوئے کہا:
"دیکھئے، آپ میری قصیدہ خوانی چھوڑئیے اور مدّعا کیا ہے یہ بیان کیجئے۔"
"حضور، ہم لوگوں کے گاؤں میں ایک لڑکا ہےجو ہر دوسرے تیسرے ماہ ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرتاہے۔ ہم لوگوں نے اسے بہت سمجھایا لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اسے سمجھائیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے سمجھانے سے وہ سمجھ جائے۔"
مولانا نے کچھ تاخیر کے بعد کہا:
"ٹھیک ہے۔ کل ظہر بعد اسے لے آئیے۔ میں اسے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔"
دوسرے دن وہ لڑکا مولانا کے پاس آیا۔ اِدھر ادھر کی بات کے بعد مولانا ایجنڈا پر آگئے اور اس لڑکے کو سمجھاتے ہوئے کہا:
"دیکھو، تم یہ آئے دن نکاح کی نیک عادت ترک کر دو۔"
"کیوں مولانا ، آخر کیوں؟اس میں برائی کیا ہے؟"
مولانا نے کہا: "دیکھو، اس سے تمہاری بدنامی ہوگی۔"
"مولانا، جتنی بدنامی ہونی تھی وہ ہو گئی۔اب مزید بدنامی کی گنجائش کہاں ہے؟"
مولانا کے بار بار اصرار کرنے پر لڑکے نے موضوع بدلتے ہوئے کہا:
"اچھا مولانا، کیا آپ اب بھی لکھتے ہیں؟"
"ہاں بھائی، لکھتا ہوں۔ ابھی کل ہی ایک مضمون کمپوٹر کی افادیت پر لکھا ہے۔"
"کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ اردو صحافت بلکہ اردو ادب میں آپ کو زندہ رکھنے کے لئے 'الہلال' اور 'البلاغ' ہی کافی ہیں۔ پھر بھی آپ مضمون لکھتے ہیں؟"
مولانا نے غصّے سے کہا: "مجھ سے پوچھتے ہو کہ میں کیوں لکھتا ہوں؟ارے لکھنا میرا جنون ہے، یہ میرے جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے، میری اَنا کی تسکین ہے، میرا پیار ہے۔"
اس لڑکے نے فوراً کہا: "بس بس مولانا، میں تو یہی کہہ رہا تھا کہ نئی نئی شادی کرنا میرا جنون ہے۔ مجھے نئی نویلی دلہنوں سے پیار ہے۔ لہٰذا آپ اپنے پیار سے پیار کیجئے اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے۔"
کچھ دیر بعد دو لڑکے مولانا سے ملنے آئے اور ان میں سے ایک لڑکا مولانا پر برس پڑا۔
"ارے آپ کے ہاتھ میں قلم ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ جو جی چاہے لکھ دیجئے۔آپ کی تقلید میں پہلے یہ بےچارہ اپنی محبوبہ کھو بیٹھا اور عنقریب تھا کہ جان بھی گنوا دیتا۔"
یہ سن کر مولانا ششدر رہ گئے۔ تب ہی کسی نے کہا:
"ارے بھائی، آپ کی بات مولانا کی سمجھ میں نہیں آئی۔ذرا خلاصہ کیجئے۔ تب اس لڑکے نے کہا:
"دیکھئے، میرا یہ دوست آپ کی تحریروں کا دیوانہ ہے۔پہلے تو اس نے 'غبارِ خاطر' کا بغور مطالعہ کیا۔ اور جب اسے پتہ چلا کہ یہ خطوط آپ نے بھیجنے کے لئے نہیں لکھے تھےاور یہ خطوط اردو ادب کے شہ پارے ہیں تب اس نے بھی ٹھان لی کہ وہ بھی مکتوبات کا مجموعہ لائے گا، اور اس مجموعے کا نام ہوگا 'اشک بار شاکر'۔ یہ اپنے جذبات کا اظہار کر کے اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے تھا کہ اس کی چھوٹی بہن کے ہاتھ اس کے خطوط لگ گئےاور اس نے اسے نسرین کو پڑھنے کے لئے دیا۔وہ پڑھتی کم تھی روتی زیادہ تھی۔آخر میں روتے روتے اس نے کہا:
'میرا یقین مانو، اگر ایک بھی خط مجھے مل گیا ہوتا تو آج میں تمہاری بھابی ہوتی۔'
آپ نے ایک خط میں لکھا ہے کہ چائے چینیوں کی ایجاد ہے۔ بس کیا تھا، یہ ہر چائنیز کو چائے کا موجد اور اس کا انسائیکلو پیڈیا سمجھ بیٹھا۔ چائے کے بارے میں مزید جاننے کے لئے اس نے ایک چائنیز سے دوستی بھی کر لی۔ لیکن تقدیر نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ ابھی دوستی پکی بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کے چائنیز دوست مسٹر چینگ کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ یہ تعزیت کے لئے پہنچا۔
'دوست تمہاری بیوی بہت اچھی تھی۔ اس کے گزر جانےکا مجھے بھی کافی غم ہے۔'
مسٹر چینگ نے روتے ہوئے کہا:
'ہاں، تم نے ٹھیک کہا۔ وہ واقعی بہت اچھی تھی۔اس کے گزر جانے کا مجھے بھی کافی ملال ہے۔ '
پھر اس نے مزید دلاسہ دیتے ہوئے کہا: 'ارے دوست، تمہیں زیادہ غمگین نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ چائنیز مال زیادہ دن نہیں ٹکتے۔ اتنے دن چل گیا یہ کیا کم ہے۔'
یہ سنتے ہی چینگ نے غصّے میں چائنیز زبان میں کیا کہہ دیا کہ اہلِ خانہ رونا دھونا چھوڑ کر جسے جو ملااس کی طرف تیزی سے آنے لگے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ یہ اپنے زمانےمیں دوڑ کا چمپئن تھا ورنہ اس کی جان گئی تھی۔"
مولویوں کے ایک گروہ نے مولانا آزادکی خدمت میں حاضر ہو کر کہا:
"اب جب کہ اس دارِ فانی میں آپ دوبارہ آہی گئے ہیں تو اس بات کا بھی جواب ان فرنگی مؤرخین کو دے دیجئے جنہوں نے آپ کی شراب نوشی کا ذکر کیا ہے۔"
"ارے کیسا جواب؟ اور کسے دوں؟ جنہوں نے یہ افواہ پھیلائی تھی سب کے سب راہیِ ملکِ عدم ہو گئے۔اب رہی بات اس الزام کی کہ میں شراب نوشی کرتا ہوں یا نہیں تو اس ضمن میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ان کے ذہن کی اپج ہے۔ آدمی جیسا رہتا ہے ویسا ہی سوچتا ہے۔آپ نے اس سیاہ فام نیگرو کی کہانی نہیں سنی جسے ایک شیشے کا ٹکڑا کہیں سےمل گیا اور جب ا س نے اسے اٹھایا تب اسے اپنا ہولناک چہرہ دِکھا۔ فوراً شیشہ کو پھینک کر کہا:'باپ رے، اس قدر بھیانک تصویر! تب ہی کسی نے اسے پھینک دیا ہے۔' دراصل میری عادت ہے کہ لکھتے وقت میں کالی چائے پیتا ہوں، اور فرنگیوں کو وہ کالی چائے شاید شراب لگی ہوگی۔"
"اچھا خیر، اسے چھوڑئیے، کم از کم مسلم لیگ کو تو ایک کرارہ جواب دیجئے جو ہمیشہ آپ کو 'شو بوائے آف کانگریس' کہتے ہیں۔"
"ارے کسے جواب دوں اور کون سے مسلم لیگ کو؟نواز شریف گروپ کو؟ پییر پگاڑو کو؟مسلم لیگ کا آ ج یہ حال ہے کہ 'اس دل کے ٹکڑے ہوئے ہزار' اور ان کی یہ حیثیت خود اپنے آپ ہی ان کی اس تنقید کا جواب ہے۔"
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک suited, booted شخص نےسلام کر کے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا: "حضور، اگر آپ نہ ہوتے تو میں آزاد پروفیسر نہ ہوتا۔ آپ ہی کی بدولت میں ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہوں"۔
مولانا نے کہا: "چلئے، اچھا ہوا آپ سے بھی ملاقات ہو گئی۔اچھا، یہ بتائیے کہ ان دنوں اردو کا معیار کیا ہے۔"
اس شخص نے کہا: "جی بہت اچھا، بلکہ ان دنوں تو اردو ادب کے طالب علموں کو نہ صرف آپ کی سوانح حیات یا ادبی خدمات ہی سے واقفیت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ احادیث بھی ازبر ہیں جنہیں آپ سنایا کرتے تھے۔ دیکھئے مولانا یہ Answer Script ایم۔ اے کے امتحان میں فرسٹ کلاس فرسٹ آنے والے طالب علم کا ہے۔"
مولانا نے دیکھا کہ کئی سطریں ان کی تعریف میں صرف کی گئی تھیں، اور پھر انہیں مندرجہ ذیل احادیث منہ زبانی یاد تھیں لکھ کر صفحہ در صفحہ اس نے احادیث لکھی تھیں۔
مولانا نے حیران ہو کر دریافت کیا: "ارے بھائی، سوال کیا تھا؟"
آزاد پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا: "جی، مولانا آزاد کی نثر نگاری بیان کیجئے۔"
"لیکن اس نے تو میری نثر نگاری کے بارے میں ایک جملہ بھی نہیں لکھا ہے؟"
"درست ہے، آپ کی نثر نگاری کے متعلق رٹا رٹایا جملہ سبھی نے لکھا ہے لیکن اس نے وہ احادیث یاد کیں جسے آپ اکثر سنایا کرتے تھے اور میں آپ کی وجہ سے آزاد پروفیسر ہوں لہٰذا میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اسے فرسٹ کلاس فرسٹ نہ بناؤں۔"
پھر انہوں نے کہا: "میری طرح ایک اور شخص ہیں جو آپ کے مدّاحوں میں اولین درجہ پانے کے مستحق ہیں۔ آپ نے جاتے جاتے کہا تھا:
'مسلمانو، کبھی اپنی سیاسی جماعت نہ بنانا اور ہر سیاسی جماعت میں شریک ہونا۔ '
لہٰذا یہ صاحب اگر صبح کسی جماعت کا رکن بنتے ہیں تو شام کو دوسری جماعت کا۔اب تک اتنی سیاسی جماعتوں میں شریک ہوئے ہیں کہ ان کے نام بھی گنوانا ان کے بس کی بات نہیں۔ اسی بات پر ایک دن کسی نے جم کر ان کی کھینچائی کر دی تب وہ بھڑک اُْٹھے اور کہا 'دیکھئے آپ لوگوں نے میرے نام کا بہ نظرِ غائر مطالعہ نہیں کیا ہے۔ میرے نام کے پیچھے بھی آزاد لگا ہوا ہے، او رمیں آزاد صاحب کی نصیحت پر عمل پیرا ہوں۔'"
اسی درمیان کسی نے آ کر یہ اطلاع دی کہ 11/نومبر کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر سرکار نے Inter-School Quiz کا انعقاد کیا ہے۔ مولانا نے کہا:
"ٹھیک ہے، میں وہاں جاؤں گا اور وہاں کا حال دیکھوں گا۔"
پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے نقیب نے کہا: "اب ہمارے وزیرِ تعلیم مولانا آزاد کے مجسّمہ پر مالا چڑھائیں گے۔"
وزیر اکڑتے ہوئے کھڑے ہوئے اور باپو جی کے مجسّمہ پر مالا چڑھا دیا۔ ایک شور مجمع سے اٹھا۔ تب ہی نقیب نے کہا:
"سر یہ باپو جی کا مجسمہ ہے، آزاد صاحب کا نہیں۔"
وزیر نے جھڑک کر کہا:
"اگر آپ لوگ جگہ تبدیل کر دیں گے تو میں کیا کروں گا۔ مجھ سے میرے سکریٹری نے کہا تھا کہ دوسرے نمبر کے مجسمے پر مالا چڑھانا ہےسو میں نے چڑھا دیا۔ اور اتنی سی بات بھی آپ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ میں آ ج کے زمانے کا نیتا ہوں۔ میں نے نہ آزاد جی کو دیکھا ہے اور نہ باپو جی کو۔"
کچھ دیر بعد کوئز کا پروگرام شروع ہوا۔ کوئز ماسٹر نے آزاد صاحب کی ایک تصویر جس میں و ہ شیروانی میں ملبوس تھے دِکھا کر سوال کیا:
"بچّو، یہ کس کی تصویر ہے؟"
ایک لڑکے نے فوراً ہاتھ اٹھایا۔ کوئز ماسٹر نے کہا: "ہاں بتاؤ۔"
"سر، یہ ہمارے خاندانی جرّاح ہیں۔ میرا ختنہ بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔"
دوسرے لڑکے نے کہا: "سر، یہ کیا ٹوپی والے ضعیف شخص کی تصویر دکھا کر آپ پوچھ رہے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں بتا پائے گا۔ آپ کو اگر تصویر کے متعلق سوال ہی کرنا ہے تو شاہ رخ خان اور سلمان خان کے متعلق سوال کیجئے۔ ہر سوال کا جواب ہم دیں گے۔"
یہ بے اعتنائی دیکھ کر مولانا نے اللہ سے دعا کی :
"یا اللہ، اس ہندوستان سے مجھے ایک بار پھر اٹھا لے۔ یہ میرا ہندوستان نہیں ہے بلکہ یہ دورِ جدید کا ہندوستان ہے۔"
ماخوذ از کتاب: موجِ قلم (بزمِ نثار کلکتہ کا سالانہ مجلہ، 2012)
ھھھھھ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ داد قبول فرمائے 🌹🌹🌹🌹