اردو عروض کی اہمیت - از اخلاق حسین دہلوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-12

اردو عروض کی اہمیت - از اخلاق حسین دہلوی

urdu-arooz-importance

شعر و شاعری سے لگاؤ انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ خواہ کسی زبان کا ادب ہو جو زندگی کی حقیقتوں کا آئینہ ہے، شعر و شاعری سے خالی نہیں ہے۔ شعر شاعری کے قاعدے (عروض) زبان کی ساخت اور اس کی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں۔ جو اکثر دوسری زبان کے عروض سے الگ اور بعض ملتے جلتے ہوتے ہیں خصوصاً جن زبانوں کے بولنے والے آپس میں ملتے جلتے رہتے ہیں۔ ان کے بعض قاعدوں میں ہمہ رنگی اور یکسانی کا ہونا اور بعض میں نہ ہونا انسانی فطرت کی نیرنگی اور ہم آہنگی کا کھلا کرشمہ ہے۔


بہرحال اردو آریائی زبان ہے۔ جو شور سینی پراکرت کی پڑپوتی، مغربی ہند کی پوتی اور دلی بھاشا کی بیٹی ہے۔ اور فارسی اور ہندی کے میل ملاپ سے بنی ہے جس کی تمام بنیادی چیزیں خالص ہندی ہیں۔ یعنی سارے فعل جن پر جملے کا دارومدار ہے ہندی ہیں۔ ضمیریں ہندی ہیں۔ حروف جار ہندی ہیں۔ حروف ربط ہندی ہیں۔ صرف و نحوں کے قاعدے ہندی ہیں۔ محاورے، روز مرہ تمثیلیں اور بہ کثرت الفاظ ہندی ہیں۔ البتہ کچھ تشبیہیں ہیں، استعارے، تلمیحیں، مضامین، خیالات اور الفاظ فارسی عربی بلکہ انگریزی اور پرتگالی کے بھی ہیں۔ گویا کہ ہماری زبان کئی زبانوں کی خوبیوں کا سدا بہار گل دستہ ہے۔ اگر چہ بنیادی چیز یں سب آریائی ہیں۔


اس اعتبار سے اردو کی شاعری کے بعض قاعدوں کا خالص ہندی اور بعض کا خالص عربی فارسی اور بعض کا ملا جلا ہونا قرین قیاس اور فطری چیز ہے۔
ابتدا میں چھند یا پنگل کی بحریں اور خصوصاً دوہروں کی بحریں خوب برتی گئیں۔ چناں چہ اردو کے قدیم شاعروں کا کلام زیادہ تر ان ہی بحروں میں ہے۔ اور صدہا سال یہی رنگ رہا اور اب بھی کچھ موجود ہے۔ چناں چہ یہ وزن "فاعلن فاعلن فع" یا اس جیسے اور وزن پنگل ہی سے لیے گئے ہیں بلکہ جو وزن ہندی عروض سے تعلق رکھتے ہیں اردو شاعری میں وہی زیادہ شیریں سمجھے جاتے ہیں۔


بعض بحریں ایسی ہیں جو ہندی میں بھی ہیں اور عربی فارسی میں بھی مثلاً بحر رمل، اسے ہندی میں ہری گیت چھند کہتے ہیں۔ بحر متدارک اسے ہندی میں تربھنگہ کہتے ہیں۔ بحر متقارب اسے ہندی میں بھجنگ پریات کہتے ہیں۔ بحر سریع اسے ہندی میں چوپاٹی کہتے ہیں۔ اور یہ بحریں اردو میں خوب چلتی ہیں۔


ان کے علاوہ بعض بحریں خالص عربی فارسی کی ہیں۔ جو اردو میں برتی جاتی ہیں۔ اور ان میں سے وہ بحریں جن میں ارکان کم ہیں اور جنھیں چھوٹی بحریں کہتے ہیں زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔ اور مقبول ہیں۔ اور یہی نہیں کہ عربی فارسی کی بحروں کو جوں کا توں اختیار کر لیا گیا ہے، بلکہ ضرورت اور ذوق کے مطابق ان میں ترمیم بھی کی گئی اور رد و بدل بھی کیا گیا ہے۔ چناں چہ بعض بحروں میں اتنی ترمیم ہوئی ہے کہ ان کی صورت ہی بدل گئی اور وہ بالکل نئی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اور بعض ترک کر دی گئی ہیں۔


الغرض یہ بحریں اول تو ہندوستانی شاعروں کے ذوق سے قریب تھیں پھر ان میں ترمیم بھی کر لی گئی اس لیے قریب سے قریب تر ہو گئیں اور ہندوستانی فطرت کے سانچے میں ڈھل گئیں۔ لہذا ہندو اہل کمال نے بے تکلف انھیں اپنا لیا اور بے تکلف غزلیں کہنے لگے اور کیوں نہ کہتے اور کیوں نہ اپناتے یہ علم کے پروانے تھے تنگ نظر اور کم ظرف نہ تھے۔


میں ایسے دو بزرگوں کا کلام پیش کرتا ہوں جو اردو شاعری کے باقاعدہ شروع ہونے سے بہت پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان میں سے ایک ہیں منشی پیارے لال شوقی جو عہد جہانگیری کے صاحب کمال بزرگ ہیں۔ ان کی ایک غزل کے دو شعر نقل کیے جاتے ہیں۔ ایک مطلع اور ایک مقطع ؎
جن پیم رس پا کھا نہیں امرت پیا تو کیا ہوا
جن عشق میں سرنا دیا جو جگ جیا تو کیا ہوا


مارگ بسی سب چھوڑ کر دل تن سے تین خلوت پکڑ
شوقی پیارے لال بن سب سیں ملا تو کیا ہوا


لفظ منہ سے پڑے بول رہے ہیں کہ وہ عہد قدیم کی یادگار ہیں۔ بحر دیکھیے تو وہ خالص عربی ہے جس کا نام بحر رجز اور جس کا وزن ہے مستفعلن چار بار۔


دوسرے بزرگ ہیں رائے پنڈت چندر بھان برہمن۔ یہ شاہجہاں کے دربار کے میر منشی تھے۔ ان کی بھی ایک غزل کے دو شعر نقل کیے جاتے ہیں۔ ایک مطلع اور ایک مقطع ؎
خدا نے کس شہر اندر ہمن کو لائے ڈالا ہے
نہ دل بر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے


برہمن واسطے اثنان کے پھرتا ہی بگیا سیں
نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندی ہی نہ نالا ہے


ان اشعار کی بحر بھی خالص عربی ہے اس بحر کا نام ہے بحر ہرج اور اس کا وزن ہے مفاعیلن چار بار۔ کلام کی پختگی، الفاظ کی برجستگی، زبان کی روانی اور صفائی کامل مشاقی کا پتہ دے رہی ہے۔ یہ بزرگ ہیں جن کے دم سے اردو شاعری کا چراغ روشن ہوا اور ان کے نام کو بھی ہمیشہ کے لیے روشن کر گیا۔


ان کے ہم عصر اردو کے مسلمان شاعر اگر ہیں بھی تو پردہ گم نامی میں۔ ولی اورنگ آبادی جو اردو غزل کے بابا آدم ہیں۔ ان بزرگوں سے تقریباً ایک ڈیڑھ صدی بعد ہوئے ہیں۔


بہرحال یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ہندوستان کے ہندو اہل کمال نے فارسی عربی عروض کو اپنانے میں ذرا بھی تامل نہ کیا بلکہ سبقت کی اور علم نوازی کی شان کو دوبالا کر دیا اور ایسا ہی کیا جیسا کہ اس سے پہلے اور بعد کے مسلمانوں نے ہندی موسقی ، ہندی شاعری اور ہندی عروض کے ساتھ کیا تھا۔


اس نووارد عروض کی مقبولیت کا ایک سبب اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ہر نئی چیز کچھ بھلی لگتی ہے اور دل اس کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ یہ بھی اہل ہند کے لیے نئی چیز تھی اور ان کے ذوق کے مناسب تھی۔ اس لیے انھیں بھلی لگی اور سہل معلوم ہوئی لہذا انھوں نے اسے اپنایا اور خوب اپنایا۔
اس کے علاوہ ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پنگل یا چھند کے قاعدے چوں کہ کافی دقیق اور مشکل ہیں۔ اور پدوں اور ماتراؤ کے ہیر پھیر سنبھالے نہیں سنبھلتے بلکہ بڑی مشاقی اور محنت چاہتے ہیں۔ لہٰذا اس دشواری نے طبیعتوں کا رخ ادھر سے ادھر پھیر دیا اور نووارد عروض اپنایا جانے لگا۔ ورنہ بڑی مدت تک ہندی بحریں چلتی رہیں اور ان ہی میں پدماوت جیسی بڑی بڑی نظمیں لکھی گئیں اور شعر کہے گئے اور ان کے مصنف بھی مسلمان ہی تھے۔


اس باب میں یہ بھی ایک اچھا اضافہ ہوگا کہ یہ کھوج لگایا جائے کہ فطری یکسانیت کا اثر ہمارے عروض پر کہاں تک ہے؟
اتنا ہمیں معلوم ہی ہے کہ عربی عروض کا موجد خلیل بن احمد ہے جو آٹھوی صدی عیسوی (721ء تا 787ء) میں مشہور عالم گزرا ہے۔ وہ زمانہ ہے جب مسلمان عراق و ایران، شام و فلسطین ، مصر و بر بر ، اسپین و یونان اور روم سے گزر کر فرانس کے ایک تہائی حصے پر قابض ہو چکے ہیں اور ملک سندھ بھی ان کی ملکیت میں آ چکا ہے۔ علم کی روشنی پھیلنے لگی ہے۔ دوسرے ملکوں سے تعلقات بڑھنے لگے ہیں اور عربی لغات میں نئے الفاط کا اضافہ ہونے لگا ہے۔


کہا جاتا ہے کہ خلیل بن احمد یونانی زبان سے واقف تھا۔ اور اسے عربی عروض کی ایجاد میں یونانی عروض سے مدد ملی۔ یونانی ارکان کو ایدی اور ارجل کہتے ہیں۔ ان ہی دونوں اصطلاحوں سے خلیل نے زحاف کے نام مقرر کیے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ عربی عروض، یونانی عروض سے بنا ہے لیکن دراصل یہ نتیجہ نہیں بلکہ ایک طرفہ فیصلہ ہے کیوں کہ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسے ہندی اشعار اور ان کے اوزان کا بھی علم تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے فارسی اشعار اور ان کے اوزان کا بھی علم ہو اور اگر چہ فارسی شعر و ادب کا سرمایہ سکندر یونانی کی لوٹ مار کے ہاتھوں خاک میں مل گیا تھا اور فارس مدتوں یونان و اسپارٹا کے تمدن سے دبا رہا لیکن اس ملے جلے تمدن کی یادگار جو کلام ملتا ہے وہ بھی بہت قدیم اورخلیل بن احمد کی پیدائش سے کئی صدی پہلے کا ہے۔ ایک قدیم شعر وہ ہے جس کا پہلا مصرع بہرام گور کا اور دوسرا اس کی محبوبہ دل آرام کا بتایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:
منم آں پیل دمان و منم آں شیریلہ (بہرام)
نام بہرام تر اؤ پدرت یوجبلہ (دل آرام )


بہرام گور پانچویں صدی عیسوی (430 تا 432ء) کا مشہور ایرانی بادشاہ ہے۔ دوسرا شعر وہ ہے جو قصر شیریں کے کتبے میں کندہ تھا اور وہ یہ ہے:
ہثر یرابگیہاں انوشہ بزی
جہاں رانگہ باں و نوشہ بزی


خسرو پرویز چھٹی صدی عیسوی کا مشہور ساسانی بادشاہ ہے۔ اور شیریں اس کی محبوبہ تھی۔
گویا کہ یہ دونوں شعرخلیل بن احمد سے صدیوں پہلے کے ہیں مگر عربی عروض کے اعتبار سے ان دونوں کی بحریں خالص عربی ہیں۔ بہرام کے شعر کا وزن ہے:
فاعِلَاتُن۔ فَعِلَاتُنْ۔ فَعِلَاتُنْ۔ فَعِلُن


اور یہ بحر رمل کا ایک وزن ہے۔ اور اس بحر کا نام ہندی میں ہری گیت ہے۔ دوسرے شعر کا وزن ہے:
فعولن فعولن فعولن فعل
یہ بحر متقارب کا ایک وزن ہے اور اس بحر کا نام ہندی میں بھجنگ پریات ہے۔


الغرض اس تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ عربی عروض پر صرف یونانی کا ہی نہیں بلکہ ہندی اور ایرانی اثر بھی ہے۔ یا یہ کہ ایرانی اور عربی دونوں عروض یونانی عروض سے اثر پذیر ہیں۔ یا اس کے برعکس ہے کہ یہ تینوں عروض ہندی عروض سے نکلے ہیں۔
بہرحال کچھ بھی ہو اب ذرا ہندی عروض کا بھی جائزہ لینا چاہیے تاکہ صحیح نتیجے پر پہنچ سکیں۔ کیوں کہ جتنی چھان بین کی جائے گی اور احتیاط سے کام لیا جائے گا، اتنا ہی صحیح نتیجہ برآمد ہو سکے گا۔


ہندی عروض جس سے مراد مقدس سنسکرت کا عروض ہے جسے چھند کہا جاتا ہے اور جو بعد ازاں پنگل کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ بھی خلیل بن احمد سے صدیوں پہلے کا ہے۔ البیرونی جو عربی فارسی عبرانی (یونانی) سریانی اور سنسکرت کا بڑا فاضل اور جوتشی گزرا ہے، دسویں صدی عیسوی میں ہندستان آیا اور سنسکرت وغیرہ تمام ہندی علوم سیکھے اور تمام ہندوستانی علوم و فنون پر نہایت مستند کتاب لکھی۔ جس کا نام "کتاب الہند" ہے۔ اس کی رائے ہے کہ پد کے متعلق یونانی طریقہ بھی وہی ہے جو ہندوستانیوں کا ہے۔
وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ جس طرح عربی اشعار عروض اور ضرب دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہندی اشعار بھی دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں جن کے ہر حصے کو رجل یعنی پد کہتے ہیں۔ اور یونانی بھی ان حصوں کو رجل ہی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ عربی اور ہندی عروض کی باہمی مشابہت اور یکسانی کی اور بھی کئی صورتیں لکھتا ہے۔ مثلاً
لگ (لگہ) - ایک ماترا - عربی میں سبب خفیف ہے
گرد - دو ماترا - عربی میں سبب ثقیل ہے


القاب عربی میں افاعیل یا ارکان ہیں غرض کہ ساکن و متحرک کی صورتیں بھی دونوں جگہ یکساں ہیں نیز وزن میں حروف کے شمار کا قاعدہ بھی یکساں ہے۔ لیکن صرف وہی حروف شمار کیے جاتے ہیں جو بول چال میں آتے ہیں خواہ وہ لکھے ہوئے ہوں یا نہ ہوں۔
یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں بھی یونانی تمدن اپنی جھلک دکھا چکا ہے اور ٹیکیلہ میں اس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
الغرض یہ مختصر سا خاکہ ہے اس معلومات کا جو ایک زبان کو دوسری زبان کے عروض سے جا ملاتی ہے اور فطری یکسانیت کا پتہ دیتی ہے۔


خلیل بن احمد ایک بڑا فاضل اور علم نحوں اور علم لغات کا بہت بلند پایہ عالم اور بہت بڑا استاد فن تھا۔ علم کے نشے میں چور اور ایسا قانع اور خوددار تھا کہ جھونپڑی میں رہتا روکھی سوکھی کھاتا، تنگی ترشی سے بسر کرتا تھا۔ بادشاہ اسے بیش بہا نذرانے بھیجتے مگر قبول نہ کرتا وہ طلب کرتے مگر نہ جاتا اور علمی استغراق و محویت کو چھوڑنا گوارا نہ کرتا تھا۔
وہ ادیب بھی تھا شاعر بھی تھا بلکہ بلند پایہ مفکر بھی تھا اور وہ ان ادبیوں اور شاعروں سے بہت آگے تھا جن کا ادب صرف ان ہی کے زمانے کی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے بلکہ اس کی نظر بہت تیز اور تہہ کو پہنچنے والی تھی۔ اس کی قوت فکر بہت بلند تھی اور مستقبل کا آئینہ تھی۔


اس کے پہلو میں ایک درد مند دل تھا اس کا عمل بتاتا ہے کہ وہ دلوں کو ملانے اور سب کو ایک زبان دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ یہ بہت ہی نیک کام ہے اور بڑی دور اندیشی کی بات ہے۔ وہ انسانی فطرت سے آگاہ اور انسانی کیفیات کا ماہر معلوم ہوتا ہے۔ اس نے اپنے علم و فضل سے کام لیا اور بہت بڑا کام اس نے شاعری کے لیے ایسے وزن تجویز کیے جو انسانی فطرت کے موافق پڑے اور اس نے مخلوق کی یہ بہت بڑی خدمت انجام دی اور بہت بڑی ضرورت پوری کی کہ سب کو ہم آہنگ ہو جانے کی راہ نکالی اسی لیے اسے اپنے ہی زمانے میں مقبولیت نصیب ہوئی جو آج تک قائم و برقرار ہے۔ حالاں کہ ترقی کی رفتار روز بروز آگے بڑھتی جا رہی ہے مگر بارہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی اس کی مقبولیت میں ذرا فرق نہیں آیا۔


اس کا یہ کام ایک اہم اور انسانی فطرت سے کچھ ایسا مناسب واقع ہوا کہ ایشیا اور افریقہ ہی تک محدود نہ رہا بلکہ دوسرے براعظموں تک پھیلا۔ کوئی متمدن ملک ایسا نہیں جو خلیل کی اس ایجاد سے واقف نہیں اور وہاں کے مشرقی علوم کے عالم اس سے بے نیاز ہوں۔ یہ مقبولیت خداداد ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ بارہ سو برس گزر چکے مگر وہ آج بھی بین الاقوامی شہرت کا مالک ہے اور اس کے کمال کا سکہ دلوں پر بیٹھا ہوا ہے۔
الغرض اس تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ خلوص اور نیک نیتی سے مخلوق کی بہبودی کے واسطے جو کام کیا جاتا ہے اسے ثبات اور قرار حاصل ہوتا ہے اور مخلوق اس سے سالوں نہیں قرنوں فائدہ اٹھاتی ہے۔
دنیا میں چراغ سے چراغ جلتا ہی چلا آیا ہے اور ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا تا ہی رہا ہے۔ پھر اگر خلیل بن احمد نے ہندی یا یونانی سے فائدہ اٹھایا تو کیا عیب کیا اور اگر ہم اپنی فطرت کی مناسبت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھائیں تو کیا مضائقہ ہے اور کیا عیب ہے۔


بہرحال جہاں تک فطری مناسبت کا تعلق ہے ایرانیوں نے اسے اپنایا اور جو بحریں ان کے ذوق پر گراں تھیں انھیں یک قلم ترک کر دیا اور بعض بحروں میں ایسی ترمیم کی کہ وہ بالکل نئی بن گئیں۔
یہی عمل ہندستان میں ہوا اور اس طرح نتھرا نتھرایا اور صاف ستھرا فن ہمارے حصے میں آیا۔ ہم بھی اس تخم سے نئے برگ و بار پیدا کر سکتے ہیں۔ اور زمانے کی ضروریات کے مطابق رد و بدل کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیں اختیار حاصل ہے۔ اور کسی کو چوں چرا کا حق نہیں البتہ یہ ہماری لیاقت اور صلاحیت پر مبنی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی محنت کی قدر کریں اور اس سے فائدہ اٹھائیں یا اسے حقیر سمجھیں اور ٹھکرا دیں۔


الغرض یہ ہیں وہ تاریخی شہادتیں جو منہ سے پڑی بول رہی ہیں اور اردو عروض کا حق اور اس کی فوقیت جتا رہی ہیں اور ہر صاحب کمال سے اپنا لوہا منوا لیتی ہیں اور غالباً یہی حقائق مسٹر بوترس کے ذہن نشیں تھی جن کی بنا پر انھوں نے مولوی امام بخش صہبائی سے "حدائق البلاغۃ" کا اردو میں ترجمہ کرایا۔


مسٹر بوترس بڑے علم دوست اور مشرقی علوم کے مربی تھے اور دلی کالج میں پرنسپل تھے۔ مولانا صہبائی بھی دلی کالج میں فارسی کے معلم اول اور اپنے عہد کے مشہور انشاپرداز تھے۔ اور کئی کتابیں ان کی یادگار ہیں لیکن جو مقبولیت ترجمہ "حدائق البلاغۃ" کو نصیب ہوئی وہ کسی کو نہ ہوئی۔ یہ کتاب آنے والے عروضی اہل قلم کے لیے نشان راہ ثابت ہوئی اور آج تک کا رآمد بھی ہے۔ مفید اور مستند بھی ہے اور اکثر امتحانات کے نصاب میں داخل ہے۔
اس کتاب کا تیسرا حصہ یا حدیقہ علم عروض پر ہے۔ جو ایک مستقل کتاب ہے اور عروض پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے اس کے بعد اس موضوع پر اردو میں جس قدر کتابیں لکھی گئیں ان کے مصنف دراصل اسی خرمن کے خوشہ چیں ہیں۔


الغرض صہبائی پہلے اردو انشا پرداز ہیں جنہوں نے اس کٹھن موضوع پر قلم اٹھایا اور ترجمہ کی رعایت سے وہ اس فن شریف کو جس قدر اردو اسالیب سے قریب تر کر سکے انھوں نے کیا۔ البتہ اگر اس موضوع پر اردو میں ان کی کوئی مستقل تصنیف ہوتی تو وہ ضرور اس سے زیادہ مفید ہوتی۔
مگر ان کے اس ترجمے سے جہاں اردو عروض کو بہت کچھ فائدہ پہنچا، یہ نقصان بھی ہوا کہ مستقبل کے عروضی اہل قلم اس کو اردو عروض کی مستقل کتاب سمجھ بیٹھے اور ہو بہو نقل کرنے لگے۔ اور اس غلط فہمی کی بنا پر ہندی کی وہ بحریں جو اردو شاعری میں مروج تھیں اور ہیں اردو عروض کی کتابوں میں داخل ہونے سے رہ گئیں۔ اور یہ بہت بڑی کوتاہی ہے جس کو رفع کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔


اس کے علاوہ بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو اب رواج کی کسوٹی پر کھری نہیں اترتیں اور ذوق کو گراں گزرتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو بحروں کے نام ہیں جو ثقیل اور نامانوس سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں بدل دیا جائے تو مضائقہ نہیں کیونکہ ہر جاندار چیز میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے اور یہی زندگی کا ثبوت ہے۔ ہمارے عروض میں اس سے پہلے بھی کچھ رد و بدل ہوا ہے اگر اب بھی اسے روا رکھا جائے تو کوئی ہرج نہیں۔ ہر ترقی کرنے والے فن کی یہی کیفیت رہی ہے کہ اس میں تغیر اور ترمیم کو قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور جب تک یہ خوبی برقرار رہتی ہے وہ فن زندہ رہتا ہے۔


دوسری چیز زحاف کی کثرت اور ان کے نامانوس نام ہیں ان کی بھی اب ضرورت نہیں ان کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ گل زار عروض اس مقصد کے لئے اچھی کتاب ہے مگر نایاب ہے۔ اس میں بحروں کے لئے بھی ہلکے پھلکے نام منتخب کئے ہیں۔ مثلاً ریحانی نرگس اور سنبلی وغیرہ جو بہت مناسب ہیں۔


تیسری چیز ارکان و افاعیل کے الفاظ ہیں یہ بھی بعض نازک طبع اہل علم کو گراں گزرتے ہیں انہیں بھی بدلا جا سکتا ہے اور گل زار عروض کی روش پر گل و صہبا سے کام لیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ موزونیت اور شعر گوئی خاص طبائع کی خصوصیت ہے اور عروض سے واقفیت خاص الخاص سے علاقہ رکھتی ہے۔ پھر فنون لطیفہ میں سے نہ تو کوئی فن اتنا سہل ہوتا ہے اور نہ اس کی اصطلاحیں کہ ہر عامی آسانی سے سیکھ لے اور نہ کسی زبان کا عروض ہی اتنا سہل ہے جس کے مقابلے میں اردو عروض کو مشکل کہا جا سکے نیز ہر علم و فن میں دست گاہ حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ محنت ضرور درکار ہوتی ہے۔


پھر ہر علم و فن کی یہ بھی عام خاصیت ہے کہ اس کے بعض شعبوں میں گوناگوں اختلاف ضرور ہوتے ہیں۔ اگر اردو عروض میں بھی ایسا ہے تو یہ اس کی دلیل ہے کہ مختلف مزاج اہل کمال نے اس پر ہمت صرف کی اور اسے قابل اعتنا سمجھا ہے۔ اور اس کی جانب مزید توجہ کی جا سکتی ہے۔ نیز یہ گمان کہ اردو عروض اتنہا سہل ہونا چاہئے کہ ہر کس و ناکس اسے آسانی سے سیکھ لے۔ بالکل ہی طفلانہ خیال ہے، اس سے آرام طلب طبیعتوں کو ہم خیال تو بنایا جا سکتا ہے مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر کبھی نہ ہو سکے گا۔


مجھے کوئی بیس برس سے اس فن کی درس و تدریس سے علاقہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ اگر استاد خود اس راہ کا راہ رو ہے اور طالب علم بھی شوق سے سیکھے تو دو ہفتے سے زیادہ مدت صرف نہیں ہوتی کہ ایک مبتدی مبادیات سے گزر کر تقطیع کرنے لگتا ہے ان میں موزوں طبع بھی ہیں اور ناموزوں طبع بھی۔ البتہ موزوں طبع اور بھی پہلے چل نکلتے ہیں۔
بہر حال یہ اردو عروض جو کئی صدی پرانا ملکی سرمایہ اور اردو شعر و سخن کا پیمانہ ہے اور بزرگوں کے خیالات موزوں کو سمجھنے اور پرکھنے بلکہ اعلی ترین خیالات کو نظم کرنے کے لئے بہت کارآمد ہے اور اتحاد کی یادگار ہے۔


***
ماخوذ از کتاب: فنِ شاعری
مصنف: علامہ اخلاق حسین دہلوی (اشاعت اول: 1954ء)۔ ناشر: انجمن ترقی اردو، دہلی (جدید ایڈیشن، طبع دہم: 2006ء)

Importance of Urdu Arooz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں