شیشہ و تیشہ - شاہد صدیقی کے مزاحیہ کالموں کی کتاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-07

شیشہ و تیشہ - شاہد صدیقی کے مزاحیہ کالموں کی کتاب

shahid-siddiqui-humorous-and-satiric-columns
شاہد صدیقی کا اصل نام عبدالمتین صدیقی تھا۔ 1911ء میں آگرہ میں پیدائش ہوئی اور حیدرآباد میں 31/جولائی 1962ء کو وہ وفات پا گئے۔ شاعری ، نثر نگاری اور صحافت کا شوق انہیں ابتدا سے ہی تھا۔ مگر طنزنگاری میں انہوں نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ طنز و مزاح پر مشتمل ان کے مضامین روزنامہ سیاست (حیدرآباد) میں نہایت پابندی کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ 'کوہکن' کے فرضی نام سے وہ 'سیاست' کا طنز و مزاح کا کالم 'شیشہ و تیشہ' برسوں لکھتے رہے۔ شاہد صدیقی کے تحریر کردہ کالموں کو "شیشہ و تیشہ" کے عنوان سے پہلی بار ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے ترتیب دیا اور اس کی اشاعت ساہتیہ اکادمی آندھرا پردیش کے زیر اہتمام 1964 میں عمل میں آئی تھی۔ یہ کتاب پی۔ڈی۔ایف شکل میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:
شیشہ و تیشہ - شاہد صدیقی کے مزاحیہ کالم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

شاہد صدیقی کے کالموں کی کتاب کے مقدمہ میں مخدوم محی الدین لکھتے ہیں۔۔۔

جب آپ "شیشہ و تیشہ" کے کالموں کا یہ منتخب مجموعہ پڑھیں گے تو اس جیتے جاگتے زندہ دل شاہد سے ملیں گے جو مرا نہیں۔
شاہد کے بارے میں جگر مرادآبادی نے لکھا ہے کہ:
"وہ بلا کے ذہین، انتہائی ذکی، نہایت حاضر جواب، بذلہ سنج، لطیف مزاح کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ متین، شریف النفس، مخلص، خوددار اور حق پسند انسان ہیں۔"
شاہد کی ذہنی دیانت داری، حق گوئی، اس کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی شیشہ و تیشہ کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہے۔ شاہد کا کمال تو ان کی شاعری ہے، مگر نثر میں اور خاص طور پر طنز نگاری میں اس نے جو تخلیقات چھوڑی ہیں وہ اردو صحافت کے ورثہ کا گراں قدر حصہ ہیں۔
'کوہکن' کے قلم کا نشانہ ادبی، سماجی، سیاسی سبھی نوعیت کے مسائل ہیں، ان کی گہرائی چند فقروں اور پاروں تک محدود ہے، مگر جس روانی، صفائی، بےساختہ پن، ذہانت اور اجمال سے وہ اپنا مافی الضمیر ادا کرتا اور اس سے مضحک اثر پیدا کرتا ہے وہی اصل میں ظرافت نگاری کی جان ہے۔ چھچورے پن اور شستہ مذاق میں بہت بڑا مگر بہت نازک فرق ہے جس کا راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ اس راستے پر کامیابی سے چلنے والے طنز نگار اردو میں کئی ہیں، جن میں سے ایک شاہد صدیقی بھی ہے۔
شاہد کی ان تحریروں کو پڑھنے کے بعد دل کی گدگدی ایک شائستہ مسکراہٹ اور ایک مہذب ہنسی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ شاہد کا طنز جانبدارانہ ہے، وہ مجبور کے حق میں جابر کے خلاف، حسن کے حق میں قبیح کے خلاف، ترقی کے حق میں رجعت کے خلاف ہے۔
ہنسی انسان کی فضیلت ہے۔ اس لیے حکما نے انسان کو ہنسنے والا جانور کہا ہے۔ ہنسی دراصل احساس برتری کا ایک اظہار ہے جو فاتحانہ شان بھی رکھتی ہے۔ ایک ہنسی ایسی بھی ہوتی ہے، جو احساس کمتری سے پیدا ہوتی ہے، جو کھسیانی ہنسی کہلاتی ہے اور کھمبے نچواتی ہے۔ "شیشہ و تیشہ" سے پیدا ہونے والی ہنسی انسان کی فتح و کامرانی کی ہنسی ہے جو زندگی بخش اور جاں فزا ہے۔


اس کتاب کے تعارف میں مجتبیٰ حسین "عرضِ مرتب" کے زیرعنوان لکھتے ہیں۔۔۔

اردو صحافت میں طنز و ظرافت کے کالم کی روایت کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ اب اگر اردو صحافت کے ممتاز کالم نگاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو یہ فہرست دس بارہ ناموں سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مختصر سے عرصہ میں "ظریفانہ کالم نگاری" نے اردو صحافت میں نہایت بلند مقام حاصل کر لیا ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ نامور ادیبوں اور صحافیوں نے ہی کالم نگاری کے فرائض انجام دئے ہیں۔


اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ شاہد صدیقی مرحوم 'کوہکن' کے قلمی نام سے روزنامہ "سیاست" کا ظریفانہ کالم 'شیشہ و تیشہ' لکھا کرتے تھے۔ وہ تقریباً چھ سال تک یہ کالم لکھتے رہے اور اس دوران میں علمی و ادبی حلقوں میں ان کے کالموں نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔


جن اصحاب کو شاہد صدیقی مرحوم کی صحبتوں میں رہنے کا موقع ملا ہے، وہ اس بات سے واقف ہیں کہ شاہد مرحوم کی شخصیت کے دو نمایاں اور متضاد پہلو تھے۔ ایک پہلو فکر اور متانت کا تھا جس کا پرتو ان کی شاعری میں چھلکتا ہے۔ اور دوسرا پہلو بذلہ سنجی ، ظرافت ، حاضر جوابی اور لطیفہ گوئی کا ، جس کی جھلکیاں ان کے ظریفانہ کالموں میں نظر آتی ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ شاہد کی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں میں کون سا پہلو زیادہ جاندار اور تخلیقی تھا۔ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ خود شاہد مرحوم نے کبھی اپنی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں کا موازنہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے مزاج میں بلا کی بیساختگی اور روانی موجود ہے۔


شاہد فطرتاً بڑے بذلہ سنج واقع ہوئے تھے کسی محفل میں بیٹھتے تو اسے اپنے تبصروں اور چٹکلوں سے زعفران زار بنا دیتے۔ اور ان کی اسی فطری ذہانت نے ان کے کالموں میں بڑی روانی اور شگفتگی پیدا کر دی تھی۔ شاہد مرحوم کی کالم نگاری کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شاہد نے اپنے طنز کو ہمیشہ شائستگی کے دائرہ میں محدود اور مزاح کو ہمیشہ کثافت سے دور رکھا۔ بعض مسائل تو ایسے بھی ہوتے جن کے خلاف ان کے جذبات نہایت شدید ہوتے لیکن جب بھی انہوں نے ان مسائل کو اپنے کالم میں طنز کا نشانہ بنایا تو شائستگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اور شاہد کے کالم کی یہی وہ نمایاں خصوصیات ہیں جو انہیں دیگر کالم نگاروں سے ممیز کرتی ہے ، انہوں نے اپنے کالموں کے ذریعہ ہمیشہ رجعت پرستی اور قدامت پسندی کی مذمت کی۔ سماج میں جب بھی انہیں کوئی غیر صحت مند علامت نظر آئی تو انہوں نے اس پر بھرپور طنز کیا۔ کالم نگار کا یہ فریضہ ہوتا ہے کہ وہ سماج کو اس کی خرابیوں اور خامیوں سے آگاہ کرے اور اسے مستقبل کے اندیشوں سے خبردار کرے۔ شاہد نے ایک کالم نگار کی حیثیت سے ان فرائض کو حسن و خوبی کے ساتھ پورا کیا۔ انہوں نے خالص مزاح کی تخلیق کے نام پر کبھی "مقصدیت" سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی۔


ان کی تحریر میں بلا کی روانی تھی ، وہ بڑی پاکیزہ اور شستہ زبان لکھتے تھے۔ جہاں تک لکھنے کا تعلق ہے وہ کسی خاص اہتمام کے قائل نہ تھے۔ بس ایک بار لکھنے بیٹھ جاتے تو پھر نصف گھنٹہ میں ہی کالم مکمل کر لیتے۔ تحریر میں اس قدر رچاؤ اور نظم و ضبط ہوتا کہ کبھی انہوں نے کالم لکھنے کے بعد مسودہ میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کالم کے لئے موضوع کا انتخاب بھی ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ کیونکہ ان کے سامنے بے شمار موضوعات تھے۔ جن پر وہ پوری قدرت اور چابکدستی کے ساتھ تبصرہ کر سکتے تھے۔ ان کے کالموں کو پڑھتے ہوئے کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ کالم نگار نے کہیں تصنع یا بناوٹ سے کام لیا ہو یا پھر طنز اور مزاح کی کیفیت میں جھول پیدا ہوا ہو۔


شاہد کے کالم کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی پیروڈیاں اور مزاحیہ نظمیں تھیں، جو عوام میں بے حد مقبول تھیں۔ ان نظموں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی ان کی کوئی مزاحیہ نظم چھپتی تو اسے ہندوستان اور پاکستان کے اکثر و بیشتر اخبارات نقل کرتے۔ ابتداء میں تو وہ صرف نثر میں ہی کالم لکھتے رہے لیکن اپنی کالم نگاری کے آخری دو برسوں میں انہوں نے مزاحیہ نظمیں لکھنے کی جانب توجہ کی جو ہر اتوار کو پابندی سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ انہیں زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی اور وہ مزاح کے نازک ترین احساس کو بھی اس کی صحیح کیفیت کے ساتھ قاری تک پہونچا سکتے تھے۔ مزاحیہ نظموں میں شاہد کی ظرافت اور بذلہ سنجی اپنے انتہائے عروج پر نظر آتی ہے۔ وہ اپنی ان نظموں کے درمیان اکثر اوقات مشاہیر شعرا کے اشعار کا کچھ اس طرح تصرف کرتے کہ سنجیدہ اشعار میں بھی بے پناہ ظرافت کا پہلو نکل آتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک نظم میں "برتھ کنٹرول" کا تذکرہ ہو رہا ہے اور کوئی صاحب اپنی کثیر العیالی کا شکوہ کر رہے ہیں کہ نظم میں اچانک یہ شعر آجاتا ہے:
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد اس شعر کے اصل معنی و مطالب بدل کر رہ جاتے ہیں۔
شاہد مرحوم نے جگہ جگہ ایسے کئی بر محل اور برجستہ اشعار استعمال کئے ہیں جن سے مزاح کا رنگ دو بالا ہو گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات میں جتنے بھی ظریفانہ کالم شائع ہوتے ہیں وہ سب کے سب نثر میں ہوتے ہیں، لیکن یہ شاہد کا ہی حصہ تھا کہ وہ ہر اتوار کو نہایت پابندی سے ایک طویل مزاحیہ نظم لکھ دیتے تھے۔


آخر میں شاہد کے کالموں کے انتخاب کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ضروری ہے۔
شاہد نے چھ سال کے عرصہ میں بے شمار موضوعات پر کالم لکھے جن میں سے کچھ موضوعات تو بالکلیہ عبوری اور وقتی نوعیت کے ہیں لیکن اکثر موضوعات ایسے بھی ہیں جن کی اہمیت کسی مخصوص وقت کے تابع نہیں رہ سکتی۔ شاہد کے پاس ہمیشہ زندہ رہنے والے کالموں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اور ایسے کالموں کی فراوانی نے ہی انتخاب کے کام کو کسی قدر مشکل بنا دیا تھا۔ اس مجموعہ میں شاہد کے ایسے کالموں کا انتخاب کیا گیا ہے جو ان کے مخصوص مزاح کے آئینہ دار ہیں، سہولت کی خاطر ان کالموں کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔۔ یعنی:
ادبی، سماجی ، سیاسی اور نظمیں۔


غالباً یہ پہلا موقع ہے جب کہ اردو کے ایک ممتاز کالم نگار کے کالموں کا مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اور اس کا سہرا ساہتیہ اکیڈیمی آندھرا پردیش کے سر ہے۔ جس نے شاہد صدیقی کے انتقال کے فوراً بعد اس مجموعہ کی اشاعت کا فیصلہ کیا تھا۔ ساہتیہ اکیڈیمی کا یہ اقدام یقیناً لائق تحسین و ستائش ہے کہ اس طرح شاہد کی مزاح نگاری کے وہ نمونے محفوظ ہو گئے ہیں جو ظاہر ہے کہ چند دنوں کے بعدبھلا دئے جا سکتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ علمی و ادبی حلقوں میں اس انتخاب کو پسند کیا جائے گا۔ اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے کیونکہ شاہد کے یہ کالم روزنامہ سیاست کے قارئین سے بہت پہلے ہی داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔


میں جناب عابد علی خاں صاحب ایڈیٹر سیاست کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ان کالموں کے انتخاب کے بارے میں میری رہنمائی فرمائی اور گرانقدر مشوروں سے نوازا۔ میں محترمہ طاہرہ شاہد صدیقی کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے اخبارات کی فائیلوں سے شاہد مرحوم کے کئی کالم نقل کئے اور اس طرح میرے کام کو بہت آسان بنا دیا۔


- مجتبی حسین
یکم مارچ 1964ء ، حیدرآباد۔


***
ماخوذ از کتاب: شیشہ و تیشہ (مزاحیہ کالم)
مصنف: شاہد صدیقی ، مرتب: مجتبیٰ حسین۔ ناشر: آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈیمی، حیدرآباد (سن اشاعت: مارچ 1964ء)

Shahid Siddiqui's humorous and satiric columns. Essay: Mujtaba Hussain.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں