مملکت آصفیہ حیدرآباد دکن کا عظیم الشان ماضی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-06

مملکت آصفیہ حیدرآباد دکن کا عظیم الشان ماضی

glorious-past-of-princely-state-asifia-hyderabad-deccan

مملکت آصفیہ اسلامیہ حیدرآباد دکن کا ناقابل تسخیر آزاد تر اور عظیم الشان ماضی


دکن، جو کسی زمانہ میں نہ صرف تاریخی تمدن کا گہوارہ تھا، جس کے آثار ماقبل تاریخ کا بھی پتہ دیتے ہیں جس کا عروج "بہمنی اور برید شاہی" سلاطین کے شاندار کارناموں سیے ہوتا ہے۔ جس نے شمالی ہند کی زبردست سلطنتوں کی مسلسل یورشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیشہ اپنی علیٰحدہ سلطنت اور جودکو برقرار رکھا۔


حیدرآباد دکن (گولکنڈہ) کی عظیم الشان قطب شاہی سلطنت پر قبضہ کرنے کے لئے "ہندوستان کی عظیم تر مغلیہ حکومت" بار بار حملہ آور ہوتی رہی لیکن حیدرآباد پر قبضے کے لئے "ہندوستانی فوجوں" کو اس وقت تک کامیابی نہیں ہوئی تاوقتیکہ خود حیدرآباد کے ایک میجر جنرل (کمانڈر عبداللہ خاں پنی) اور درباری نے حکومت ہند سے ساز باز کر کے "غداری" نہیں کی۔


21/ستمبر 1687ء کو سازش اور غداری کے طفیل حیدرآباد کی آزاد اور خود مختار سلطنت پر جارحانہ قبضہ کرنے والی "ہندوستان کی طاقتور سلطنت کا شیرازہ بکھرا" تو!
دکن کے مغل صوبہ دار، اٹھارہویں صدی عیسوی کے مشہور مدبر حضرت مغفرت مآب نظام الملک چین قلیج خاں "آصف جاہ اول" میر قمر الدین خاں نے کسی غیر کی مدد کے بغیر بفضل ایزدی اپنی قوت بازو سے دکن میں ایک ہزار سالہ مسلم اقتدار کو بچانے کے لئے 1724ء میں حیدرآباد دکن کی آزاد اور خود مختار عظیم الشان "آصفی سلطنت" قائم کی۔ اور اس طرح حیدرآباد دکن کی سابقہ عظمت اور وحدت پھر ایک بار عود کر آئی۔


شاہان آصفیہ کے زیر نگیں حیدرآبادمیں انتہائی عظیم الشان ہمہ جہتی ترقیاں ہوئیں۔ بہت سی باتوں میں حیدرآباد نے پورے مشرق کی رہنمائی کی اور خاص کر تاجدار دکن اعلی حضرت جلالۃ الملک حضور نظام میر عثمان علی خاں بہادر سلطان العلوم آصف جاہ سابع کی سرپرستی میں نہ صرف علم و ہنر کی شعاعیں تمام دکن اور سارے برطانوی ہندوستان میں پھیل گئیں بلکہ "ہر لحاظ سیے سلطنت آصفیہ اسلامیہ حیدرآباد دنیا کی تمام سلطنتوں سے بڑھ چڑھ کر رہی"
حیدرآباد کے شخصی دور حکومت کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے پہلی بار عدلیہ کو عاملہ سے عملاً علیحدہ کر کے جمہوریہ ہندوستان اور دیگر بڑے ممالک کے لئے عظیم رہنمائی کی۔


بہتر سے بہتر طرز جمہوریت کے مقابلہ میں

دنیا کے جن ممالک میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی اقوام متوطن ہوں وہاں (عدم مساوات اور انتشار کے باعث) عمومی طرز حکومت کی پائیداری کی کوئی ضمانت نہیں۔ لیکن حیدرآباد کی شاہی طرز حکومت میں جہاں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی اقوام متوطن تھیں، وہاں ہر کل پرزہ اپنی اپنی جگہ اسی طرح جمایا گیا تھا کہ دو سو سالہ نظام حکومت میں کہیں بھی عدم استحکام پیدا نہ ہونے پایا۔
حضور نظام کے دور مطلق العنانی میں مساوات اور عدل و انصاف کا جو نظام حکومت تھا، وہ دور حاضر کے بہتر سے بہتر جمہوری طرز حکومت کے مقابلہ میں نظیر کے طور پر آج بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔


بلبل ہند کے تاثرات

ہم نہیں بلکہ سروجنی نائیڈو جو ہندوستان کی جنگ آزادی کی رہنما، کانگریس کے صف اول کی لیڈر جس کی نشست گاندھی جی اور جواہر لال نہرو کے صف میں تھی، انہوں نے حضور نظام کی شخصی دور حکمرانی سے متاثر ہو کر یہ قصیدہ کہا تھا:


* جس کے زیر سایہ ہم آہنگی کے ساتھ سب رہتے ہیں
* وہ تمام لوگ جنہیں تیرے قانون نے اپنے دامن میں جگہ دی
* رنگا رنگ کی قومیں اور نسلیں
* گونا گوں ذاتیں اور مذاہب ترے زیر سایہ ہم آہنگی سے بسر کر رہے ہیں۔
* تیرا نام قوم اپنی دعاؤں میں لیتی ہے
* تیرا ترانہ قوم کی زبان پر ہے
* تیرا عہد اتنا تاباں اور درخشان ہے، جو فردوسی کے نغموں سے آب و تاب میں کہیں بڑھ گیا۔


ہندو رعایا سے حسن سلوک

خانوادہ آصفجاہ کی روا داری اور بے تعصبی ضرب المثل رہی جس کے بہی خواہ ہی نہیں بلکہ عیب جو دشمن بھی معترف ہیں۔ دولت آصفیہ میں معاش کے تقریباً تمام ذرائع ہندوؤں کے ہاتھوں میں رہے۔ زراعت و تجارت ان کی رہی ، حکومت کے دیہی عمال بھی تقریباً تمام تر ہندو ہی رہے۔ مسلمانوں نے صر ف سرکاری ملازمت پر ہی قناعت کی۔ مسلمانوں کے لئے کوئی سیول عہدہ موروثی نہیں تھا جب کہ دیہی عہدوں پر ہندوؤں کو موروثی طور پر برقرار رکھا گیا۔
حیدرآباد میں رعایا سے "انکم ٹیکس یا سیلز ٹیکس" نہیں لیا جاتا تھا اور اس کا فائدہ سب سے زیادہ ہندو رعایا کو ہوتا تھا کیوں کہ کروڑوں روپیوں کی سیٹھ ساہو کاری اور آمدنی کے بڑے ذرائع ہندو رعایا کے پاس تھے۔


مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ ہندو رعایا کے مذہبی جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے حکمران طبقہ کو گائے کی قربانی سے منع کیا گیا۔ ضلع گلبرکہ میں قریب قریب واقع ایک مندر اور مسجد کی درمیانی زمین کی ملکیت کا جھگڑا تھا ، مسلمان اور ہندو دونوں ہی فرقی اسے اپنی اپنی ملکیت بتائے تھے حکومت نے اس نزاعی زمین کے تفصیہ کے لئے قائد ملت نواب بہادر یار جنگ کو حکم بنایا۔ آپ نے اپنی تحقیق اور چھان بین میں ہندو برادران وطن کے کیس کو زیادہ قوی و درست پایا اور حکومت کو رائے پیش کی کہ مندر اور مسجد کی درمیانی زمین ہندوؤں کو دے دی جائے۔
نواب بہادر یار جنگ کی اس رپورٹ اور تصفیہ پر حکومت آصفیہ اسلامیہ حیدرآباد نے مندر اور مسجد کی درمیان کی زمین کو ہندو رعایا کے حوالہ کر دیا۔ سکھوں کی خاطر ضلع ناندیڑ کی سنہری گردوارہ سے متصل قدیم عید گاہ کو حضور نظام کے حکم پر بند کر دیا گیا۔ یہ ہی نہیں بلکہ وہاں ایک قبر کی جگہ پر غیر مسلموں نے اپنی زمین کا ادعا پیش کیا تو وہاں سے مسلمان بزرگ کی نعش کو قبر سے نکال کر دوسری جگہ دفن کیا گیا۔ اس مطلق العنان مسلم دور حکومت میں ہندوؤں کے مذہبی مقامات کا احترام اسی طرح کیا جاتا تھا جس طرح مساجد کا۔


سرکاری عمارات کے پہلو میں تعمیر کے وقت اگر کوئی چھوٹی سی دیول (مندر) بھی آ جائے تو نمایاں بدنمائی کے باوجود اس کو وہاں سے ہٹایا نہیں جاتا تھا۔ چنانچہ ہائی کورٹ ( عدالت العالیہ) کی عالی شان پرشکوہ عمارت کے دونوں پہلوؤں میں چھوٹی سی دیولوں کو نہ صرف قائم رکھا گیا بلکہ اس کی سرکاری طور پر توسیع کی گئی۔ جب کہ ہندو مذہب کے لحاظ سے مقررہ رسم کے ذریعہ مندر کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا تھا مگر اقتدار و حکمرانی کے زرین اصولوں اور رواداری کی خاطر ایسا نہیں کیا گیا۔


حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے مذہبی خدمات جیسے کہ قضاۃ و درگاہوں اور عاشور خانوں کے لئے جو معاشی سہولیات تھیں ان میں بھی کئی معاشیں ہندوؤں کے نام تھیں اس کے علاوہ کئی عاشور خانوں اور درگاہوں کے متولی بھی ہندو تھے۔ مسلمانوں کے آثار قدیمہ سیے زیادہ ہندوؤں کے آثار قدیم کی نگہداشت پر رقم خرچ کی جاتی تھی۔ اور مساجد سے زیادہ مندروں کی تعمیر کی اجازت دی جاتی تھی۔ امور مذہبی سرکار عالی کی رپورٹ کے مطابق 1338 فصلی تا 1341 تک صرف 3 سال کے اندر 392 منادر اور 193 مساجد تعمیر کئے گئے۔ مملکت اسلامیہ حیدرآباد میں جدید منادر کی تعداد پندرہ ہزار پانچ سو کے قریب تھی جن میں سینکڑوں مندروں کی اجازت آصف سابع حضور نظام کے شاہی دور حکومت میں دی گئی (جب کہ آج کے جمہوری اور سیکولر دور میں کتنی ہی مساجد کو مسمار اور بند کر دیا گیا اور کتنی مساجد کو بت خانوں اور گودام میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے مذہبی و معاشی اور ثقافتی حقوق کو پامال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔)
مملک اسلامیہ آصفیہ کی اس غیر جمہوری اور غیر سیکولر حکومت میں سرکاری طور پر مندروں اور ان کے پجاریوں کے لئے لاکھوں روپے کے جاگیرات اور عطیات تھے۔ اس کے علاوہ ہندو رعایا کے مذہبی واعظین اور پنڈتوں (مبلغین) کے وظائف کے لئے ہزاروں روپے کی معاشیں عطا کی گئیں۔


راجندر بابو کا اعتراف

انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر اور ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنی کتاب "ہندوستان کا مستقبل" مطبوعہ 1946ء میں لکھا ہے کہ:
"آج بھی حیدرآباد دکن میں ایک مسلمان مشہور بزرگ کی درگاہ کا متولی ایک 'برہمنوں' کا خاندان ہے ، نظام نے اس درگاہ کے لئے ایک بڑی جاگیر دے رکھی ہے۔ موجودہ زمانہ میں بھی حیدرآباد میں سیتار رام (باغ) کے مندر کے لئے ریاست کی طرف سے کثیر امداد مقرر ہے۔ ایک دوسریے مندر کے لئے بھی جو مشہور ضلع عادل آباد میں واقع ہے ایک جاگیر وقف ہے۔ جس کی سالانہ آمدنی ساٹھ ہزار روپے ہوتی ہے۔ نظام نے سکھوں کے گرودوارہ ناندیڑ کے لئے جو جاگیر دے رکھی ہے اس کی آمدنی سالانہ بیس ہزار روپے ہے۔"


یہ وہ ہیں حقائق جس سے شمالی ہند کے مسلم دشمن متعصب تنظیموں اور ہند یونین کے شر انگیز پروپگنڈہ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ جو مملکت اسلامیہ حیدرآباد اور اس کے فرمانروا کو بدنام کرنے اور مسلم اقتدار کو ختم کرنے کے لئے کیا گیا۔


ہند کے دور غلامی میں

آزاد حیدرآباد کے مسلم بادشاہ کی جانب سے ہندوستان کے دور غلامی میں جس طرح وہاں کے مسلمانوں کے تعلیمی و مذہبی اور تہذیبی اداروں کی خاطر خواہ مالی اعانت اور سرپرستی کی جاتی تھی اسی طرح وہاں کے ہندوؤں اوردیگر غیر مسلم مذاہب کے تعلیمی اداروں اور ان کے مذہبی عبادت گاہوں کو بھی گراں قدر مالی امداد دی جاتی تھی۔ چنانچہ ہندوستان کے کئی منادر کی امداد کے لئے "26 ہزار 491 روپے آٹھ آنے چھ پائی" کی رقم حیدرآباد گورنمنٹ کی جانب سے سالانہ مقرر تھی۔ "ہندو بنارس یونیورسٹی اور "بنارس کے مشہور مندر" اور سکھوں کی مقدس عبات گاہ "سنہری گردوارہ" امرتسر کو اعلی حضرت حضور نظام نے خطیر رقمی امداد اور بیش بہا قیمتی تحفے عطا کئے۔
برطانوی عہد کے بڑے برے شعراء ، ادیب اور مصنفین کو بلا لحاظ مذہب حکومت نظام کی جانب سے ماہانہ وظیفہ مقرر تھا۔ علاوہ ازیں عالم اسلام کے کئی ادارے اور وہاں کے عوام بھی حضور نظام جلالۃ الملک کی فیاضی سے مستفید ہوتے تھے۔


حیدرآباد میں سکھوں کے بچوں کی تعلیم کے لئے سرکاری وظیفہ مقرر تھا ، علاوہ ازین اگر کوئی سرکاری ملازم سکھ لاولد فوت ہو جاتا تو اس کے قریبی رشتہ دار وارث کو تلاش کر کے (اگر وہ پنجاب میں بھی ہو تو) متوفی سکھ کی جگہ اس کا تقرر کیا جاتا۔ اگر وارث نابالغ ہو تو نصف تنخواہ بطور وظیفہ دی جاتی تھی۔ اور بالغ ہونے پر تقرر کیا جاتا۔ اسی طرح عیسائی، پارسی، پست قوم اور دیگر تمام غیر مسلم رعایا حیدرآباد کی مسلم حکومت کی رواداری اور عدل و انصاف سے بہرہ مند ہوتی رہی۔" ملاحظہ ہو مشتے نمونہ !


ایک ذی اثر شخص نے ایک لاوارث پست قوم کی لڑکی کی عصمت ریزی کی تو ایک مسلمان پولیس کے جوان سے لے کر ایک مسلمان جج تک اس لاوارث لڑکی کی اس طرح حمایت کی کہ شاید اس کے ہم قوم وارث بھی نہ کرتے۔ چنانچہ معزز جج ہائی کورٹ نواب ناظر یار جنگ نے خاطی کے مسلمان یا ذی مرتبہ ہونے کا خیال کئے بغیر اس کو طویل قید با مشقت کی سزا دی۔ ( آج کے جمہوری دور میں تقریباً روزانہ کتنی ہی معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی، سنتری سے لے کر منتری تک کرتے ہیں اور سزا سے بچے رہتے ہیں، سفارش، رشوت، عہدہ اور حکومت کا اثر کام کرتا ہے۔) مختصر یہ کہ دور حاضر میں "حیدرآباد دنیا کی وہ واحد مسلم سلطنت تھی جو مسلمانوں سے زیادہ اپنی غیر مسلم رعایا کے معاشی و مذہبی اور تمدنی مفاد کی حفاظت کرتی تھی۔"


ریاست حیدرآباد کی وسیع النظری

مسلمان جو دکن میں سات سو سال سے زائدحکمران طبقہ کی حیثیت میں رہے ہیں رواداری کے پیش نظر ان تمام تر مراعات پر کوئی تعرض نہیں کیا ، کیوں کہ ہم مسلمانوں نے دکن کی ہندو رعایا کو کبھی الگ نہیں سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ دکن میں مسلمان اور ہندو حقیقی معنوں میں میل ملاپ اور بھائی چارگی (یکجہتی) کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔ کسی ہندو کو مسلمان سے اور کسی مسلمان کو ہندوؤں سے ہندو یا مسلمان ہونے کی بنا پر کوئی شکایت کبھی نہیں ہوئی۔


***
ماخوذ از کتاب: زوال حیدرآباد اور پولیس ایکشن
مصنف اور ناشر: محمد مظہر الدین (پانچواں ایڈیشن: ستمبر 1997ء)

The glorious past of the princely State of Asifia Hyderabad Deccan. Essay: Mohammad Mazharuddin.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں