سید سجاد حیدر یلدرم - شعر و ادب کا دیوانہ شریف علیگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-27

سید سجاد حیدر یلدرم - شعر و ادب کا دیوانہ شریف علیگ

رفقاء اور طلبہ سے اکثر اس مسئلہ پر "بحثنے" کا اتفاق ہوا کہ نامعقول شخص معقول شاعر نہیں ہو سکتا۔ جس شخص میں شریفوں کے اطوار نہ ہوں، اس میں فنون شریفہ کے آداب کہاں سے آئیں گے۔ اصغر گونڈوی اور سید سجاد حیدر یلدرم پیش نظر ہیں۔ ایک کی دل افروز شاعری اور دوسرے کی حسین انشا پردازی تمام تر ان کی شریفانہ شخصیت کی آئینہ دار ہے۔ جو شاعر اور انشا پرداز کی حیثیت سیے بہتوں کو شہرت حاصل ہے لیکن ان کی شاعری اور انشا پردازی میں نقص بھی اسی حد تک رہتا ہے جس حد تک بحیثیت انسان وہ نامعتبر واقع ہوئے ہیں۔ فن اور انسان کی قدریں یکساں ہیں۔ ایسا کوئی فن نہیں جو انسان سے اونچا یا اس سے علیحدہ ہو۔


یلدرم علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے اور اس زمانے کے طالب علم تھے جب زندگی خوش باشی نہ تھی تو گویا کچھ نہ تھی۔ نہ اب جب کہ زندگی سوا خوش رہنے اور خوش رکھنے کے لئے سب کچھ ہے۔ میں نے ان کی طالب علمی نہیں دیکھی، لیکن علی گڑھ کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب ع
بزم کو برہم ہوئے مدت نہ گزری تھی بہت


اس وقت سے اب تک زمانے کے رویہ اور روانی میں بہت کچھ فرق آگیا ہے۔ اقدار کا کیسا کچھ فرق "جن پر مرنے والے لاکھوں تھے"، ان پر "رونے والا کوئی نہیں"۔ لیکن سجاد حیدر کی حیثیت جداگانہ تھی ان میں شروع سے آخر تک بہت کم تبدیلی ہوئی اور یہ ان کی سیرت و شخصیت کا بہت اہم اور مہتم بالشان پہلو ہے۔


انہوں نے روزگار کی بہت سی کروٹیں دیکھیں اور سہیں۔ ایسی کروٹیں جو معمولی اشخاص کو یکسر زیر و زبر کر سکتی تھیں۔ لیکن یلدرم میں فن کا ایسا اعتماد اور ان کی سیرت میں ایسی پختگی تھی کہ ان کو زمانے کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ سیاسی فرائض بھی ان کے سپرد ہوئے ، انتظامی اور ادبی بھی لیکن وہ شروع سے آخر تک اور سر سے پاؤں تک شریف شاعر اور ادیب رہے۔


مسلم یونیورسٹی کے ابتدائی عہد میں مرحوم اس کے رجسٹرار رہے۔ انہوں نے مہاراجا محمود آباد ، صاحب زادہ آفتاب احمد خاں، نواب سر مزمل اللہ خاں، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد سب کے ساتھ کام کیا۔ ان میں سے ہر ایک کا وطیرہ جداگانہ تھا اور ان سب سے جدا سجاد حیدر کا تھا۔ انہوں نے کام سب کے ساتھ کیا سازش کسی سے نہ کی۔ یہی ایک بات یلدرم کی شرافتِ نفس اور سیرت کی پختگی کی بڑی محکم دلیل ہے۔


مرحوم کو ڈپٹی کلکٹری راس آئی نہ رجسٹراری۔ وہ یونیورسٹی میں بھی رہے اور کالا پانی میں بھی لیکن روزگار کی یہ ستم ظریفی بھی دیدنی ہے کہ وہ کالا پانی تو گئے لیکن کسی کردہ یا ناکردہ گناہ کی پاداش میں نہیں جس کے بغیر کالا پانی کے تصور میں نہ گرمی آتی ہے ، نہ روشنی اور یونیورسٹی آئے تو ایسے منصب پر جسے دنیا بھر کی سرگرمیوں سے سروکار ہو سکتا ہے الا شعر و ادب سے۔
اس یونیورسٹی میں شعر و ادب کے دیوانے دو ہی پائے گئے اور دونوں ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو چکے ہیں۔ ایک احسن مارہروی دوسرے یلدرم۔
ترکی۔ ترک اور ترکی ادب سے سجاد حیدر کو عشق تھا۔ ان کا نام آتے ہی ان پر وارفتگی طاری ہو جاتی تھی۔ میں ترکی سے واقف نہیں لیکن ترکی ادب سے آشنا مختلف اصحاب کے ترکی کے اردو تراجم دیکھے ہیں۔ سجاد حیدر اور دوسروں کے ترجموں میں آسمان زمین کا فرق ہے۔


ایک بار سید صاحب سے پوچھا کہ ترکی ادب ہی جاندار ہے یا اس میں آپ کے شائبہ خوبئ تحریر کو بھی دخل ہے؟ جھومنے لگے، آنکھوں میں چمک آ گئی اور چہرہ جگمگا اٹھا کہنے لگے:
جناب (مرحوم جوش میں آتے تو جناب کا لفظ ضرور استعمال کرتے اور اس پر مخصوص انداز سے زور دیتے) ترکی زبان جانتے ہیں کس کی زبان ہے؟ ہماری آپ کی نہیں ہے۔
میں نے بات کاٹ کر کہا یہی تو میں بھی کہہ رہا تھا کہ میری تو یقیناً نہیں ہے آپ کی تو نہیں ہے۔ مسکرائے پھر بولے: ترکی ترکوں ہی کی زبان ہے اور ان ہی کی ہو سکتی ہے۔ یہ ان کی زبان ہے جو نہ کبھی خود غلام رہے نہ کسی کو غلام رکھا۔ مشترکہ آراؤں کی زبان ہے۔ اس میں "ترکبازی" ہے۔ سید صاحب پر اب کیفیت طاری ہو چکی تھی۔ اب نہ وہ اپنے بس میں تھے نہ میرے۔ دیر تک ان پر یہ عالم طاری رہا۔
نامق کمال کا مشہور ڈراما جلال الدین خوارزم شاہ میری ہی درخواست پر سید صاحب نے اردو میں منتقل کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس کا بیشتر حصہ "سہیل" میں شائع ہوا۔
سید صاحب قلم کاغذ لے کر خود ترجمہ کرنے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ کسی کو مامور کر دیا جاتا، سید صاحب ترجمہ بولتے جاتے وہ لکھتا جاتا۔ شاذ و نادر کہیں ترمیم کرتے، ایسا معلوم ہوتا جیسے ترجمہ پڑھتے جا رہے ہوں۔ یہ تو نہیں بتا سکتا کہ مترادفات کیسے ہوتے تھے ، لیکن جہاں تک الفاظ، فقروں اور ترکیبوں کا تعلق ہے مرحوم کے اس کمال کا معترف ہوں کہ وہ بڑے اچھوتے بڑے جان دار اور بڑے گوارا اردو الفاظ استعمال کرتے تھے۔ الفاظ کے انتخاب اور ترکیبوں کی اختراع کا، ترجمہ میں بڑا داخل ہوتا ہے اور یہ بات صرف کسی غیر معمولی مترجم کے حصہ میں آتی ہے۔
یہاں مولوی عنایت اللہ مرحوم دہلوی یاد آتے ہیں جن سا باکمال ترجمہ کرنے والا اردو ادب میں شاید ہی کوئی دوسرا گزرا ہو۔ یہ بات ان ہی کے حصہ میں آ بھی سکتی تھی۔ وہ اردو کے گہوارہ میں نہیں پلے تھے بلکہ اردو ان کے گہوارہ میں پلی تھی۔


یلدرم نے ترکی سے تراجم زیادہ کئے ہیں۔ اردو مضامین نسبتاً کم لکھے ہیں۔ ترکی انشا پردازی کا انداز ان میں کچھ ایسا رچ گیا تھا کہ اردو لکھنے میں ان کا قلم بڑی خوبی سے ترکی رنگ و آہنگ قبول کر لیتا تھا۔ سید کے اسالیب، انشاء اور ان کے موضوعات سید کی شخصیت کی بڑی اچھی ترجمانی کرتے ہیں۔
اردو میں انشا لطیف کی ابتداء شرر، ریاض اور یلدرم کی تحریروں سے ہوئی۔ انشاء لطیف کا رشتہ کھینچ تان کر ملا وجہی کی سب رس سے بھی ملایا جاتا ہے ، لیکن سب رس کا انداز متغزلانہ تصوف کا ہے جو انشاء لطیف سے جوڑ نہیں کھاتا۔ انشاء لطیف نے آگے چل کر ٹیگوریت کا رنگ اختیار کر لیا۔ اور ٹیگوریت نے اردو میں ناقابل التفات درجہ کی تحریروں کو اس درجہ عام اور مقبول بنایا کہ ثقاتِ ادبب کو احتساب کرنا پڑا اور اردو میں یہ انداز جلد ہی ختم ہو گیا۔ یہاں تک کہ جو اصحاب اس کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے تھے وہی سب سے پہلے اس کے نائب ہوئے۔
سبب یہ تھا کہ 'گیتا نجلی' کا جو اردو ترجمہ شائع ہوا اس کے چھلکے کو قبول کر لیا لیکن اس کے مغز سے نا آشنا رہے۔ یہ چھلکا اتنا مسحور کن تھا کہ تہی مغز اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے اور اس سے کام نکالنے کے درپے ہوئے لیکن گاڑی آگے نہ چل سکی۔


شرر اور ریاض کے عاشقانہ مضامین اور یلدرم کی انشاء لطیف میں فرق ہے۔ شرر کا اسلوب، انشاء اور ان کا عشق دونوں کتابی ہیں، بندھے ٹکے ، ڈھلے ڈھلائے شخصی تاثرات کی ترجمانی نہیں، شاعرانہ زبان و بیان کی نمائش ملتی ہے۔ ریاض میں زبان و بیان کا مظاہرہ شرر سے زیادہ غیر معتدل ہے، ریاض کی شاعری میں جو پر تفنن لیکن سطحی شوخی ملتی ہے وہ ان کی نثر میں پہنچ کر سستی ہو گئی ہے۔ شاعری میں جو انداز بیان اس کا حسن ہے، وہ نثر میں مصنوی اور مہمل ہو جاتا ہے۔ موضوع اور سطح کے یکساں ہونے کے باوجود نثر اور نظم کے تقاضوں میں فرق ہے۔ ریاض اور ناصر علی دہلوی نے اس امتیاز کو اپنی اپنی نثر میں نظر انداز کر دیا ہے۔


یلدرم کے یہاں بھی حسن و محبت کا کاروبار ہے۔ لیکن یلدرم میں مجاز کی طرفگی و تازگی ہے۔ شرر اور ریاض کی پیداوار مشینی ہے، سجاد کی دستی۔ سجاد انصاری کو بھی انشاء لطیف کا پیرو قرار دیا جاتا ہے، لیکن سجاد انصاری کے یہاں نفسیاتی تحلیل ملتی ہے جس کو انشاء لطیف سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ انشائے لطیف اور غزل سرائی کا سر چشمہ ایک ہے ع
وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہت گل ہے


لیکن جس طرح غزل میں آرٹ اور اقدار کے اختلافات ملتے ہیں، ادب لطیف میں بھی یہ امتیازات نظر آتے ہیں۔ یلدرم اور ادب لطیف کے بعض دوسرے علم برداروں میں یہ فرق واضح ہے۔ سجاد حیدر کے ہاں شوخی ہے لیکن شہدا پن نام کو نہیں۔ یلدرم کی تحریروں میں عورت کا بڑا عمل دخل ہے لیکن ان کے یہاں خیالات کی رعنائی ملتی ہے اعصاب کا تشنج نہیں۔ مہدی افادی کے ہاں خیالات کی رعنائی اتنی نہیں ہے جتنی جذبات کی رنگینی۔ مہدی کے اعصابب پر اگر عورت کلیۃً سوار نہیں ہے تو ان کو تنہا بھی نہیں چھوڑتی۔ افادی کی تحریروں میں اکثر شوق کی مثنویوں کا رنگ پیدا ہو گیا ہے۔


سجاد حیدر کی تحریروں میں ایک بات واضح طور پر ملتی ہے ، یعنی وہ جذبات کی رو اور روانی میں اپنے وزن و وقار کو بہہ نہیں جانے دیتے۔ مرحوم کے جذبات کچھ زیادہ تیز و تند نہ تھے جہاں خیالات کی رعنائی ہو وہاں جذبات کا ہیجان و طغیان یوں بھی کم ہوتا ہے۔ پھر بھی جہاں کہیں ایسے مواقع آ گئے ہیں سجاد صاحب نے ایک ہلکی جنبش قلم سے ان کو معتدل کر دیا ہے ، وہ بھی اس طور پر کہ اظہار مطلب میں کوئی طرق نہ آیا اور شرم و شرافت کا دامن بھی نہ چھوٹا۔


انشائے لطیف میں خیال کی رنگینی اور نزاکت کے ساتھ جذبہ کی متانت عفت کو جس طرح یلدرم نے متوازن رکھا ہے، شاید کسی اور نے نہیں رکھا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ان کی تحریروں میں جذبات سے زیادہ تخیل کی کار فرمائی ہے۔ قاضی عبدالغفار اس بارے میں یلدرم سے ملتے جلتے ہیں، لیکن دونوں کی ذہنی پرداخت میں تفاوت ہے۔ قاضی صاحب کی تحریر میں طنز کی تیزی و تلخی بھی شامل رہتی ہے۔ عبدالغفار ، سجاد حیدر کی بجائے سجاد انصاری سے زیادہ قریب ہیں۔ انشائے لطیف کے تین بڑے اچھے اور مکمل نمونے ہمارے یہ تین انشاء پرداز بڑی خوبی سے پیش کرتے ہیں: سجاد حیدر، سجاد انصاری اور قاضی عبدالغفار۔


بعض اعتبار سیے سجاد حیدر شروع سے آخر تک نوجوان رہے۔ وہ اس زمانے میں بھی جوان تھے جب جسم و جان کے اعتبار سے نحیف و نزار ہو چکے تھے۔ تعلیم نسواں ، اردو ٹائپ ، اسالیب شاعری میں نئے تجربات اور اس قبیل اور باتوں میں اوائل عمر سے سجاد حیدر ترقی پذیر واقع ہوئے تھے۔ اردو ٹائپ کو مقبول بنانے میں تمام عمر کوشاں رہے۔ عظمت اللہ خاں مرحوم کی نئی شاعری کے بڑے مداح تھے اور ان کی ایک مخصوص نظم بڑے مزے لے لے کر پڑھتے تھے۔


اسی زمانے میں ایک فارسی مجلہ برلن سے ٹائپ میں شائع ہوتا تھا۔ اس کا پہلا نسخہ سجاد صاحب کو موصول ہوا۔ اسی سلسلے میں ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ مرحوم اپنی کوٹھی سے دفتر آ رہے تھے۔ سربمہر بہت سارے لفافے کاغذات کے کچھ منتشر اجزاء ایک آدھ اخبار و رسالے بغل میں دبائے یہی رسالہ پڑھتے چلے جا رہے تھے۔ میں ان سے کوئی بیس بائیس قدم پیچھے تھا، خود ہلکے پھلکے تھے۔ رفتار اس سے بھی زیادہ ہلکی پھلکی ، ہموار کسی قدرتیز چھوٹے چھوٹے قدم لیتے تھے۔ نگاہ نیچی تقریباً عمودی، دس بارہ قدم چل کر ایک ذرا رک سے جاتے اور ٹھیک سامنے ایک اچٹتی سی نظر ڈال کر پھر گرم رفتار ہو جاتے۔
اس پر ان کے ایک بے تکلف دوست نے ایک فقرہ چست کیا تھا کہ سجاد تم چلنے میں سانپ کو شرماتے ہو، وہ بھی چلتے چلتے رک جاتا ہے۔ سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتا ہے اور پھر چل دیتا ہے۔ اس فقرے سے بہت محظوظ ہوئے۔ کہنے لگے سانپوں میں رہ کر صرف سانپوں کی چال آئی اس کی تعریف نہ کرو گے !
اسی انداز سے چلے جا رہے تھے کہ ایک لفافہ سرک کر زمین پر آرہا۔ سجاد صاحب کو خبر نہ ہوئی میں نے اٹھا لیا کچھ دور اور بڑھے تھے کہ دوسرا لفافہ گرا۔ وہ بھی میں نے اٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد تیسرے لفافہ نے بھی مفارقت کی۔ وہ بھی میں نے قبضہ میں کیا۔ سجاد صاحب برابر، رسالے کے مطالعہ میں منہمک رہے۔ سید صاحب کے پیچھے پیچھے یونیورسٹی آفس پہنچا۔ موصوف نے بچیے ہوئے لفافے متعلقہ لوگوں کے حوالے کئے ، معلوم ہوا تین لفافے گم ہیں۔ چونک پڑے اور سخت متفکر ہوئے۔ میں نے تینوں لفافے کچھ کچھ وقفے سے واپس کئے۔ فرمانے لگے آپ بھی کمال کرتے ہیں، اسی وقت کیوں نہ دے دئے۔ میں نے کہا آپ مطالعہ میں منہمک تھے ، مخل ہونا مناسب نہ سمجھا۔


یہ کہنا تھا کہ سب کچھ بھول گئے، فرمایا خوب یاد دلایا یہ ملاحظہ فرمائیے۔ ایران شہر ہے، ٹائپ میں کتنا ستھرا چھپا ہے اور کیسے اچھے اور جاندار مضامین و نظمیں ہیں۔ ایرانی وطن پرستوں نے برلن سے اسے شائع کیا ہے۔ کاش اردو میں ایسا پاکیزہ اور دیدہ زیب ٹائپ رواج پا جائے۔ اور جناب بات تو یہ ہے کہ جب تک آپ "بتِ سنگی" (لیتھو کی چھپائی) سے رشتہ نہ توڑیں گے اردو کی اشاعت مسدود رہے گی۔
عرض کیا سید صاحب، بت سنگی کا تو ہمارے شعر و ادب میں ایک درجہ بھی ہے۔ بتِ آہنی میں کیا رکھا ہے۔ بقول شخصے ع
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا


کسی قدر تیز ہوکر فرمایا یہی تو ستم ہے ، آپ سب کا اب یہی کام رہ گیا ہے کہ اچھی بھلی باتوں میں بھس ملا دیتے ہیں۔ اکبر نے ٹائپ کی خواہ مخواہ مٹی پلید کر دی۔
میں نے عرض کیا سید صاحب اکبر نے کہیں بھس نہیں ملایا۔ بھس میں چنگاری لگائی ہے۔ فرمایا: اور جناب بھی تو کچھ دور نہیں کھڑے ہیں!


سید صاحب نے نظمیں بھی کہی ہیں۔ یلدرم کوئی غیر معمولی شاعر نہ تھے۔ ان کی سب سے یہلی نظم مرزا پھویا بتائی جاتی ہے۔ اس میں شاعرانہ خوبیاں کچھ بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن گزشتہ علی گڑھ کی زندگی کے بعض دل کش پہلو لطف سے بیان کئے گئے ہیں۔ ہلکی پھلکی تفریحی نظموں میں اس کو اچھا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ سید صاحب کی نقاشی نازک خطوط اور ہلکے رنگوں کی ہے۔ ان کا مزاج رومانی تھا، وہ رومان جو انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ پستی کی طرف ہرگز نہیں۔ موجودہ عہد میں رومان کی حیثیت مسخ کر دی گئی ہے۔ اس کو مزاج و خیال کی رنگینی و آزادی کے بجائے شخصی و انفرادی بے راہ روی قرار دیا گیا ہے۔


سجاد صاحب کی ایک نظم جو ان کی طبیعت کی رنگینی اور شخصیت کی دل آویزی کی ترجمان ہے ، 'شملہ کالکا لائن پر ایک نظارہ' کے عنوان سے سب سے پہلے سہیل میں شائع ہوئی۔
سید صاحب کی یاد کے ساتھ یہ نظم ہمیشہ یاد آتی رہے گی:
ماتھے پہ بندی ، آنکھ میں جادو
ہونٹھوں کی بجلی گرتی تھی ہر سو


چال لچکتی ، بات لہکتی
جیسے کسی نے پی ہو دارو


انکھڑیاں ایسی جن میں تھی رقصاں
لمحے میں رادھا لمحے میں راہو


ایسی بھڑک تھی خلق تھی حیراں
ریل پر آیا کہاں سے آہو


سجاد صاحب کو، جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں ترکی، ترکی ادب اور ترکوں سے والہانہ شغف تھا۔ ان میں سے کسی کا نام آجاتا تو وجد میں آ جاتے۔ جس زمانہ میں مسلم یونیورسٹی کے رجسٹرار تھے۔ ایک بار مرحوم کو ترکی جانے کا موقع مل گیا، کیا بتاؤں ان پر کیسا نشاط طاری تھا۔ صحت اچھی نہ تھی میں نے کہا سید صاحب سفر طویل ہے۔ تکلیف دہ بھی ، کیسی گزرے گی؟
فرمایا: ترکی کے خیال سے طبیعت مگن ہے۔ شگون اچھا ہے اور ہر اعتبار سے اچھا۔ یا یہ خاک وہاں کی خاک میں مل جائے گی یا پھر دیکھئے گا کیسا رقصاں و شادماں واپس آتا ہوں۔
چند ماہ بعد واپس آئے۔ سید صاحب یوں بھی سبک رفتار تھے ، واپسی پر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پاؤں میں اسپرنگ لگے ہوئے ہیں، جسم میں توانائی، چہرہ پر بشاشت اور سرخی آ گئی تھی پوچھا: ترکی میں کوئی تبدیلی پائی؟ فرمایا: شروع سے آخر تک تبدیلی ہی تبدیلی نظر آئی۔ لیکن مجھے تو ترکی سے الطفت ہے اس کے بدلنے نہ بدلنے سے کیا سرورکار!


ترکی ادیبہ خالدہ خانم اور ان کی ابتدائی تحریروں کے بڑے دلدادہ تھے، موصوفہ علی گڑھ تشریف لائیں تو یونین میں سجاد صاحب نے ان کو خیر مقدم کیا اور ضمناً موصوفہ کے ابتدائی مضامین اور انشا پردازی کو بڑے لطف سے سراہا۔ خالدہ خانم نے فرمایا کہ اب وہ اپنے اگلے اسلوب انشا سے تائب ہو گئی ہیں اور اسے صرف ایام جہالت کی یادگار سمجھتی ہے۔ سجاد صاحب خاموش ہو گئے۔
بعد میں ایک صحبت میں اس واقعہ کا ذکر آیا تو فرمانے لگے: خالدہ خانم کو کیا معلوم ان کی ایام جہالت کی باتوں نے کیا شگوفے کھلائے پھر خلط مبحث سے کیا حاصل۔ سوال یہ نہیں ہے کہ خالدہ خانم کو کیا پسند ہے، اصل یہ ہے کہ میں کیا پسند کرتا ہوں؟!


بڑے پاکیزہ اور معصوم سرشت انسان تھے ان کو توڑ جوڑ بالکل نہ آتا تھا۔ اپنے آپ پر کبھی فخر کرتے نہیں سنے گئے۔ دوسروں پر بڑی فیاضی سے اکثر فخر کرتے پائے گئے۔ سچے آرٹسٹ اور ادیب کی طرح وہ اہل مناصب سے کبھی مرعوب نہ ہوئے۔ فن کے کمال کی داد دینے میں بڑے سخی تھے۔
سید کو میں نے شاید ہی کبھی "تم" کے لفظ سے کسی کو مخاطب کرتے سنا ہو۔ انہوں نے اپنے منصب اور اپنی غیر معمولی مقبولیت کو ذاتی رفعت اور منفعت کا کبھی وسیلہ نہیں بنایا اور کسی نے ان کو برہمی میں آپے سے باہر نہ پایا اور ہنسی دل لگی میں بھی ان کی زبان سے کبھی ایسے الفاظ نہ سنے جو مذاقِ سلیم پر بار ہوں۔ یلدرم جیسے کڑھے ہوئے آدمی بہت کم دیکھے گئے ہیں۔
وہ تمام آداب ان میں رچے ہوئے تھے جو ثقافت کی جان و جواز ہیں۔ ان آداب کو وہ اس لطف سے برتتے تھے جیسے ایک تندرست سانس لیتا ہے۔ یا ایک حسین اپنے حسن کا حامل ہوتا ہے۔ بغیر کسی ارادے یا تکلف کے، یلدرم میں رسمی تکلف ، بالکل نہ تھا۔ ان کی بے تکلفی میں دوستانہ اور شریفانہ شان پائی جاتی تھی۔ وہ اسی حد تک تکلف کرتے تھے جس حد تک شرافت اور سلیقہ کا اقتضا ہوتا تھا اور بے تکلف بھی اسی حد تک ہوتے تھے جس حد تک بے تکلفی حسن معاشرت کا جز سمجھی جاتی ہے۔
وہ ان لوگوں میں تھے جو اونچی سے اونچی اور بڑی سے بڑی صحبتوں میں ہماری اور خود اپنی نمائندگی کر سکتے تھے۔ شعر و ادب کا ان کا ذوق فطری تھا اور شعر و ادب کے رنگ و رفتار پر حکیمانہ نظر رکھتے تھے۔ اچھی اور بے تکلف انگریزی لکھتے تھے، جو بات ان کے عہد کے ہندوستانیوں میں بہت کم ملتی ہے۔ ان کی قدر کرنے والوں کا حلقہ بڑا وسیع اور متنوع تھا، شعر و شرافت کے جو لوگ حامل یا قدردان تھے وہ تمام کے تمام خواہ ہندوستان کے کسی گوشہ میں ہوں، یلدرم سے واقف اور ان کی خوبیوں کے معترف تھے۔


مرحوم ان لکھنے والوں میں تھے جن کا قائل نہ ہونا کم سواد ہونے کی دلیل ہے۔ کم لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں جن کی تحریر اور شخصیت میں اس درجہ یک رنگی اور توازن ہو ، وہ ہم سے جدا ہو گئے لیکن ہمارے بعد آنے والے ان سے کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یقین ہے فردوس میں ان کو وہ رنگینیاں اور نزہتیں بھرپور نصیب ہوں گی، جن کی صرف جھلکیاں ان کی تحریروں میں ہم کو نصیب ہیں۔


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ - سجاد حیدر یلدرم

***
ماخوذ از کتاب: گنجہائے گرانمایہ (خاکے)
مصنف: رشید احمد صدیقی۔ ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی (سن اشاعت: مارچ 1980ء)

Sajjad Haider Yaldram, a crazy fan of literature. Sketch by: Rasheed Ahmed Siddiqui.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں