شخصیت کی تعمیر میں زبان کا حصہ - پروفیسر خالد سعید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-18

شخصیت کی تعمیر میں زبان کا حصہ - پروفیسر خالد سعید

role-of-language-personality-development

ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں، جس میں قدم قدم پر مقابلے اور مسابقت کا سامنا ہے ۔ اتنی بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ میدان جنگ کا ہو کہ کارزار حیات ، مقابلہ کرنے والے کو ہر دم چوکس و تیار ، دشمنوں کے حملے سے ہوشیار ، امنگوں اور حوصلوں سے بھرپور مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے معمور ، منصوبہ بندی اور حربی ہتھیاروں سے لیس رہنا چاہئے ، تاکہ کامیابی قدم چومے۔ کارزار حیات میں یہ سارے امور شخصیت کی تعمیر ہی سے ممکن ہیں، میں چوں کہ زبان و ادب کا استاد ہوں لہذا آج کے موضوع اور پیشے کی رعایت سیے اپنی گفتگو کو عنوان "شخصیت کی تعمیر میں زبان کا حصہ" تک محدود رکھوں گا۔


سب سے پہلے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نوجوانوں یا طلبہ کی شخصیت کی تعمیر، کسی ایک فرد کا کام نہیں۔ والدین ، اساتذہ ،خاندان والے، محلے کے افراد، بچے کے دوست احباب اور دیگر فلاحی تنظیمیں بھی بچے کی شخصیت کی تعمیر میں حصہ دار وذمہ دار ہوتی ہیں، البتہ ان کی حصہ داری اور شرکت کم زیادہ ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں طلبہ یا نوجوانوں کی حیثیت تعمیر میں استعمال ہونے والے مسالے کی سی ہوتی ہے اور عمارت کی سی بھی ۔ یعنی اقبال کی زبان میں "خود ہی کوزہ و گلِ کوزہ بھی" البتہ عام مواد اور مسالے کے مقابلے میں طلبہ ایک ایسا مواد ہیں جو ایک جیتی جاگتی حیثیت کے حامل ہیں، جن کے اپنے ارادے، حوصلے، امنگیں اور خواہشیں اور جن کی اپنی ترجیحات بھی ہوتی ہیں۔ لہذا ایسے جیتے جاگتے مواد مسالے کی مدد سے شخصیت کی تعمیر کرنا کوئی آسان بات نہیں ۔ غرض شخصیت کی تعمیر کرنے والوں کو مختلف پہلوؤں پر گہری نظر رکھنی پڑتی ہے ۔


کسی بھی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں ، ایک بدنی دوسرا ذہنی ۔ بدنی شخصیت کی تعمیر ایک حیاتی عمل ہے جو فطرت کے ہاتھوں تکمیل پاتی رہتی ہے جس میں دیگر افراد کی حصہ داری اور شرکت کی ضرورت اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ ذہنی شخصیت کی تعمیر میں درکار ہوتی ہے ۔ ویسے ذہنی شخصیت ، بدنی شخصیت کے ساتھ نمو پاتی رہتی ہے لیکن افراد کی شرکت سے اس کی افزائش تیزی سے ہوتی ہے۔ شاید قدرت کا بھی یہی منشا ہے کہ فرد کی شخصیت کی تعمیر محض فطرت کے ہاتھوں ہی مکمل نہ ہو بلکہ معاشرہ بھی شریک و ذمہ دار ٹھہرے۔


یہ بات دھیان میں رہے کہ محض جسمانی شخصیت کا جاذب نظر اور کامل ہونا کافی نہیں۔ ذہنی شخصیت کا توانا اور فعال رہنا زیادہ احسن ہے ۔ طلبہ کی ذہنی شخصیت ان کے احساسات و جذبات سے ، ان کے سوچنے کے ڈھنگ سے ، ان کی امنگوں اور حوصلوں سے، ان کے عزائم اور ان کی قوت ارادی سے، ان کی قوتِ تمیز اور ان کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے، ان کی ذہانت اور ان کی منصوبہ بندی سے عبارت ہے ۔ لہٰذا محولہ بالا عناصر کی نمو اور تربیت ہی سے نوجوانوں کی ذہنی شخصیت بلکہ کل شخصیت کی تعمیر ہوتی جاتی ہے ۔ بدنی شخصیت کے مظاہر اعضائے جسمانی ہیں جب کہ ذہنی شخصیت کا اظہار طلبہ کے خیالات و تصورات اور احساسات و جذبات کے ذریعے ہوتا ہے ۔ گویا نوجوانوں کی ذہنی شخصیت کا اظہار، ان کے اعمال و اقوال اور ان کی گفتگو کے ذریعے ہوتا ہے۔ لہذا اظہار و بیان کے ذرائع پر جب تک عبور حاصل نہ ہو ذہنی شخصیت کا مکمل اور موثر ظہور ممکن نہیں۔ گویا زبان ذہنی شخصیت کے مکمل اور موثر ترین اظہار کا ایک ذریعہ ہے ۔ آپ چاہے کیسی ہی اعلی ترین فکر کے حامل ہوں، چاہے آپ کے ذہن و دل افادی تصورات سے لبریز ہی کیوں نہ ہوں، چاہے آپ اختراعی فکر کے موثر اظہار سے قاصر ہیں تو پھر وہ ساریے مفید خیالات و افادی تصورات بے کار محض ہیں۔


اگر ہم "اظہار" کو کروچے کی اصطلاح میں غور کریں کہ اظہار صرف خیالات ظاہر کرنے کا عمل نہیں بلکہ منکشف ہونے کے عمل سے عبارت ہے، یعنی جو حقائق پہلی بار ہم پر کھلتے ہیں دراصل وہ"اظہار" ہیں تو پھر یہ منکشف ہونے کا عمل، اگر پوری طرح سے نہیں تو بیشتر حد تک زبان ہی کے ذریعے تکمیل پاتا ہے ۔ یعنی بچہ زبان کے ذریعے سوچنے کے قابل ہوتا ہے ۔ زبان ہی کے ذریعے علوم کا اکتساب کرتا ہے ۔ زبان ہی کے حوالے سے اس میں تفکرکی عادت پیدا ہوتی ہے ۔ زبان ہی کے توسط سیے اس میں امنگیں اور حوصلے پیدا ہوتے ہیں ۔ زبان ہی کے ذریعے وہ اپنے تخیل کی پرواز پر گرفت کرسکتا ہے ۔ زبان ہی کے حوالے سے اس میں تمیز کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ گویا زبان شخصیت کی تعمیر اور اظہار کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا کوئی بھی طالب علم جب تک زبان پر قدرت نہ رکھے ، نہ وہ اکتساب کرسکتا ہے نہ اجتہاد ۔ نہ تخلیق کرسکتا ہے نہ تعمیر۔


آپ نے دیکھا کہ زبان بھی ، بلکہ زبان ہی شخصیت کی تعمیر کا ایک موثر اور اہم ترین ذریعہ ہے ۔ لیکن یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ زبان کی تعلیم و تعلم ہی میں ہم لوگ سب سے زیادہ لاپرواہ واقع ہوئے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاضی اور سائنس کی تدریس اہم ہے، نہ نسبت زبان کی تدریس کے ۔ کم سے کم ابتدائی جماعتوں یا اسکول کی سطح پر یہ تصور از حد غلط ہے ۔ خود اساتذہ کے اس رویہ سے طلبہ اور نوجوان بھی یہی سمجھتے ہیں اور زبان کے تعلم میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ اہمیت اور توجہ نہیں دیتے جو دیگر مضامین کو دیتے ہیں۔ نتیجے میں ایک"پڑھی لکھی گونگی نسل" پیدا ہوتی جارہی ہے ، جو اکتساب و تعلم سے معذور ہے تو ایجاد و اختراع سے قاصر۔


یاد رکھئے ہم میں بر تر شخصیت وہی ہے جو اپنے احساسات و جذبات کو ، اپنے افکار و تصورات کو موثر طور پر بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جو اپنے تخیل کو مناسب و موزوں لفظوں میں پیش کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ لیکن جب ہم اپنی نئی نسل پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی فرہنگ (Vocabulary) محدود، مطالعہ کی عادت مفقود، اظہار کی صلاحیت معذور ہے ۔ ان عیبوں کو دور کرنے کا کام زبان و ادب کا استاد ہی کر سکتا ہے۔ لہٰذا آپ زبان و ادب کے ٹیچر ہوں کہ لکچرر، اول تو زبان کی اہمیت و افادیت سے بچوں کو واقف کرائیں۔ واقف کرانے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اول ہم خود اس کی تدریس و تعلم میں دلچسپی لیں تاکہ بچے کی شخصیت کی بہتر طور سے تعمیر ہوسکے ۔


***
ماخوذ از کتاب: پسِ تحریر (تنقیدی مضامین)
مصنف: پروفیسر خالد سعید۔ ناشر: پیش رفت پبلی کیشنز، گلبرگہ (سن اشاعت: 2004ء)

The role of language in personality development. Article: Khalid Saeed.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں