پرویز ید اللہ مہدی ( طویل نام کی معافی چاہتا ہوں ) ہمارے سینئیر مزاح نگاروں میں سے ہیں۔ سن و سال کے اعتبار سے تو بہت زیادہ سینئیر نہیں معلوم ہوتے لیکن تن و توش کے پیش نظر اور مزاح نگاری کے میدان میں عمل دخل کے اعتبار سے نصف بہتر سے یعنی ۵۰ فیصد سے بھی زیادہ بزرگ ہیں۔ یہ مقام بھی کافی اونچا مقام ہوتا ہے۔ اس مقام کو شاعرانہ زبان میں بالائے بام بھی کہا جاسکتا ہے گوکہ بالائے بام کی ترکیب مردوں کے لیے استعمال نہیں کی جاتی۔ مزاح نگاروں میں ان سے پہلے باریش ہونے کا رواج ذرا کم ہی تھا۔ میں اسے سازش تو نہیں کہتا لیکن مجھے یہ شبہ ہوتا ہے کہ حیدرآباد میں انہوں نے اور مسیح انجم نے باہمی معاہدے کے نتیجے میں اپنے اپنے چہروں پر " ذرا نم ہو تو یہ چہرہ بڑا زر خیز ہے مہدی / انجم "کہہ کر خود کو ‘ زعفران زار ’ بنالیا۔ میں پرویز ید اللہ مہدی ( دوبارہ معافی چاہتا ہوں ) کو صرف زعفران کی فصل کا کاشتکار نہیں ، تاجر زعفران بھی کہنا پسند کروں گا۔ اور مزید ایک مصرع ( ترمیم کے ساتھ ) پیش کروں گا۔ :
جس مال کے تاجر ہیں وہی مال برآمد
پرویز ید اللہ مہدی ( میری مجبوری یہ ہے کہ یہ نام ہے ہی طویل۔ اس نام میں یہ حیدرآبادی کا اضافہ کردیتے تو کوئی تسمہ لگا نہ رہتا ) پہلے ۱۰ سال سے رانگ سائیڈ ، چل رہے ہیں کیوں کہ انہیں عمر کی غلط سمت میں داخل ہو کر ۱۰ سال ہوگئے ہیں۔ معلوم نہیں کس دانشور نے چہل سالہ زندگی کے بعد کی زندگی کو غلط سمت کہہ دیا جب کہ اس صدی میں اور خاص طور پر اس ملک میں ۴۰ سال کی عمر کو پہنچ کر آدمی صحیح راستے پر چلنا شروع کرتا ہے۔ ۴۰ سال کی عمر تک ان کی بے روزگاری برقرار رہتی ہے۔ اس دوران آدمی جو کام کرتا ہے اسے روزگار نہیں بیگار کہا جانا چاہئے اور وہ برسر کار نہیں صرف برسرپیکار رہتا ہے۔ صحیح آدمی اور صحیح جگہ پر (Right Person at the right place ) ایسی صورت اب مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے ورنہ ان دنوں صورت حال عام طور پر یہ ہے :
غلط آدمی = غلط جگہ
غلط آدمی = صحیح جگہ
صحیح آدمی = غلط جگہ
لیکن جہاں تک پرویز ید اللہ مہدی کا تعلق ہے ان کے بارے میں صاف اور صریح لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ (اتفاق سے ) صحیح آدمی صحیح جگہ ہیں۔ ظرافت ان کا اصلی میدان ہے۔ ویسے یہ ریفریجریشن انجینئر ہیں اور یہ فنی ڈگری بھی ان کے فن ظرافت نگاری میں اس لیے کار آمد ثابت ہورہی ہے کہ حالی نے مزاح کو ہوا کا جھونکا کہا ہے۔ ان کا مزاح آدمی کو فرحت سے منسلک کرتا ہے۔ ( فرحت کسی کا نام نہیں بلکہ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو انبساط کی ہمزاد ہے ) انہوں نے شروع شروع میں ظرافت نگاری کے ساتھ ساتھ مزاحیہ شاعری بھی کی۔ لوگوں کو فرقت کا کوروی کا مثنیٰ معلوم ہونے لگے تھے۔ کچی عمر میں غلطی کون نہیں کرتا لیکن انہوں نے کسی کے منع کئے بغیر مزاح گوئی ترک کردی۔ ( مزاح گوئی میں جاگنا بہت پڑتا ہے مشاعرہ پڑھ کر واپس آو تو گھر کا دروازہ مشکل ہی سے کھلتا ہے اس لیے اکثر شاعر تو دوسرے دن صبح ہی واپس ہوتے ہیں )۔ اس طرح اپنے چار شعر سنانے کے لیے مشاعروں میں گھنٹوں صبر کا دامن تھامے بیٹھے رہنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ ڈائس پر ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ بھی زیادہ درکار ہوتی تھی۔ کسی نہ کسی شاعر کو ایک زانو بیٹھنا پڑتا تھا اور جو شاعر بھی ان کے قریب بیٹھتا وہ تو ناظم مشاعرہ کو نظر بھی نہیں آتا تھا۔ بہر حال وجہ کچھ بھی ہو۔ پرویز ید اللہ مہدی نے مزاح گوئی ترک کر کے اوروں کو تو آرام پہنچایا ہی خود اپنے آپ کو بچالیا۔ شاعری کرتے رہتے تو پنج کتابی ، مصنف کیسے ہوتے۔
اس بیچ میں انہوں نے پانچ کتابیں لکھیں۔ یہ پانچ کتابیں ادرک کا پنجہ ، نہیں ہیں کیوں کہ یہ کوئی خام مال نہیں ، چھیڑ چھاڑ ، چوڑی کے غلام ، توتو میں میں اور ٹائیں ٹائیں فش کے بعد پرویز ید اللہ مہدی حسینی کا پانچواں مجموعہ کچوکے ۱۹۹۳ کے اواخر میں چھپا ہے۔ ادھر جتنی بھی کتابیں چھپ رہی ہیں ان کی تعداد ۶۰۰ سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن کچوکے ایک ہزار کی تعداد میں چھپی ہے۔ یہ افراط زر کا معاملہ نہیں اور نہ کسی خوش فہمی کا معاملہ ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ پرویز ید اللہ مہدی کی کتابوں کا لوگوں کو انتظار رہتا ہے۔ لوگ بالعموم خالی ہاتھ رہتے ہیں تاکہ ان کی جو بھی کتاب چھپے اسے ہاتھوں ہاتھ لیں ( لوگوں کو یوں بھی یہاں خالی ہاتھ رہنے کی عادت ہوگئی ہے اسے حسن انتظام کہتے ہیں )۔
کچوکے کے دیباچے میں مصنف نے ڈھکے چھپے الفاظ میں نہیں بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ طنز و مزاح کی کتابیں لوگ دھوکے میں خرید لیتے ہیں ( یہ ان کی انکساری ہے لیکن انداز سپاہ گری کا ہے )۔ پرویز مصروف آدمی ہیں۔ قدرت نے ہر شخص کو دو پاؤں دئیے ہیں لیکن سارے لوگ بالعموم اپنے دونوں پاؤں ایک ہی جگہ رکھتے ہیں۔ پرویز ایسا نہیں کرتے۔ ان کا ایک پاؤں حیدرآباد میں رہتا ہے اور ایک بمبئی میں۔ اسے نثر میں پامردی اور شاعری میں آبلہ پائی کہا جاتا ہے۔
انہوں نے صرف مزاح نہیں لکھا ہے فلموں سے متعلق ہیں اس لیے مکالمے اور اسکرپٹ بھی لکھے ہیں۔ اخباروں میں کالم بھی لکھے ہیں اور یہ سب کام مقررہ وقت پر پابندی کے ساتھ انجام دینے پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی آوٹ ڈور شوٹنگ پہ بھی جاتے ہیں۔ آوٹ ڈور شوٹنگ کے دوران انڈور واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ ان واقعات کے بغیر فلمی رسالے شائع نہیں ہوسکتے۔ جھوٹ پہلے بھی بولا جاتا تھا لیکن اسے شہری ، ملکی اور عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے اتنے وسائل نہیں تھے۔ اخبارات ، رسائل ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی سہولتیں نہیں تھیں۔ آوٹ ڈور شوٹنگ کے لیے یونٹ (UNIT) کو باہر لے جایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اس یونٹ میں سب سے سمجھ دار شخص پرویز ہی ہوا کرتے تھے۔ ایک ظرافت نگار کے لیے ایسا ہونا کچھ مشکل نہیں ہے۔ لطیفے اور چٹکلے بیان کرنے میں پرویز ید اللہ مہدی حسینی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ خاص طور پر کچوکے لگانے میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ ان کی تحریر بھی کچوکوں سے آراستہ رہتی ہے مثلا :
"ہماری ناقص تحقیق کے مطابق مطالعہ تین طرح کا ہوتا ہے۔ نرسری مطالعہ ، سرسری مطالعہ ، خود سری مطالعہ۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد آدمی البتہ اپنی مرضی سے جس قسم کے مطالعے میں خود اپنا سر کھپاتا ہے وہ بلا شبہ خود سری کے مطالعے کی تعریف میں آتا ہے۔ اگلے وقتوں میں خود سری مطالعے کی بنیاد پر آدمی کو ‘ سر ’ کے خطاب کا اہل قرار دیا جاتا تھا جب کہ دور حاضر میں خود سری مطالعہ آدمی کو ‘ سر ’ نہیں خود سر بناتا ہے "۔۔
پرویز ید اللہ مہدی حسینی اپنے نام کی طرح خود وسیع و فراخ آدمی ہیں۔ لباس بھی فراخ پہنتے ہیں اپنے قاریوں کے علاوہ کپڑوں کے بیوپاریوں اور خیاطیوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ اپنی اس قدرتی خصوصیت کی بنا پر اپنے موضوع کو ‘ پھیلانے ’ میں بھی انہیں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ یہ اپنے موضوع کا کوئی پہلو نہ نظر انداز کرتے ہیں نہ اسے تشنہ چھوڑتے ہیں۔ شاعری شاید انہوں نے اسی لیے ترک کی کہ اس میں تنگنائے درپیش تھی جب کہ انہیں اپنے بیان کے لیے وسعت درکار تھی۔ یہ قلم کے دَھنی بھی ہیں اور دُھنی بھی۔ پرویز اپنی جسامت اور ضخامت کے بارے میں خود لکھتے ہیں : مضمون کا عنوان ہے ‘ تلسی تیرے فلیٹ کی ’۔۔
" ہم نے اکثر اپنی نصف بہتر کو یہ شکایت کرتے سنا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے حبثے اور قد و قامت کے سلسلے میں اس قدر فیاضی نہ دکھائی ہوتی یا پھر ہمارے کوارٹر کا نقشہ بنانے والے آرکیٹکٹ ہی کو اتنی توفیق دی ہوتی کہ کم سے کم بیڈروم کے طول و عرض کے معاملے میں اس قدر کاٹ کسر کا مظاہرہ نہ کرتا "۔ ( بیڈ روم کی اتنی تفصیلات کافی ہیں )۔ پرویز نے اپنے دیباچے میں جس انکساری کا مظاہرہ کیا۔ یہاں اس ‘ کسر نفسی ’ کا خیال نہیں رکھا۔ ان کا مزاح افسانوی سے زیادہ واقعاتی ہے۔ اور ان کے مزاح میں اندرونیت زیادہ ہے۔ وہ موضوع کی تہہ تک پہنچنا اور اپنے ساتھ قاریوں کو وہاں تک پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی روا داری بھی ہے اور دست کاری بھی۔ وہ اپنے قاریوں اور اپنے سامعین کے بہت قریب ہیں۔ ان میں کوئی فاصلہ اور کوئی اجنبیت نہیں۔ یہ نتیجہ ان کی سادگی اور پرکاری کا ہے۔
طنز کی تلخی کو مزاح کی شیرینی کے ساتھ ایک خوش رنگ محلول اور مشروب بناکر پیش کرنے کا ڈھنگ پرویز جانتے ہیں۔ حیدرآباد کے تعلق سے ان کا کہنا ہے۔۔
" جس قدرتی ندی کے کنارے یہ شہر بسا ہے وہ عرف عام میں موسیٰ ندی کہلاتی ہے اور کسی زمانے میں برس کے ۱۲ مہینے بہتی تھی لیکن پچھلی نصف صدی کے دوران میں انسان نے جس طرح ایک دوسرے کا خون بہایا ہے اسے دیکھ کر مارے خوف کے موسیٰ ندی خشک ہوگئی ہے۔ موسیٰ ندی اب زمین پر کم اور تاریخ کے صفحات پر زیادہ بہتی ہے "۔۔
پرویز ید اللہ مہدی حیدرآباد میں جانے اور بمبئی میں پہچانے جاتے ہیں۔ یہ بذات خود ایک شخص دو شہروں کی کہانی ہیں۔ فلمی دنیا سے وابستگی نے انہیں زیادہ ‘ آلودہ ’ نہیں کیا ہے لیکن ان کی بنیاد چونکہ ‘ فرخندہ ’ ہے اور انہیں ‘ متوازن ’ رہنے کا اندازہ اور اس کا فائدہ معلوم ہے اس لیے ان کی پر زور ظرافت فلمی دنیا کے پر شور ماحول میں اپنا گلیمر ، برقرار رکھے ہوئے ہے۔۔
یہ بات بہر حال طے ہے کہ ظرافت کی شیریں ، پرویز کو بطور حق دستیاب ہوئی۔ ( انہوں نے اس کا اغواء نہیں کیا۔ سلوک والہانہ بھی ہے اور سپاہیانہ بھی ہے )۔ ویسے میں کہ کمزور دل اور منحنی جب بھی ان سے ملتا ہوں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ناسخ کی صحبت میں بیٹھا ہوں۔ امام بخش ناسخ کو پہلوان سخن کہا جاتا ہے۔ اور یہ مجھے معلوم ہے کہ لوگ ان کی کتابیں ڈر کر خریدتے ہیں۔۔
"شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں