شرت چندر چٹرجی - ہندوستانی فلموں کا رجحان ساز بنگلہ ادیب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-23

شرت چندر چٹرجی - ہندوستانی فلموں کا رجحان ساز بنگلہ ادیب

sarat-chandra-chatterjee-bengali-novelist-indian-cinema-trend-setter

علاقائی ادبی تخلیقات نے ہمارے ہندوستانی لٹریچر کو جو ضابطۂ حیات دیا ہے اس کی گواہی ہر دور میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں کے مقابلے میں جنوبی ہند، گجراتی ، پنجابی ، مراٹھی اور دیگر زبانوں میں وہ شہ پارے تخلیق ہوئے ہیں جو آج ہندوستان کے ادب عالیہ کا عرفان تسلیم کئے جا چکے ہیں۔
ان میں سب سے نمایاں، ممتاز اور ناقابل فراموش ادب بنگلہ زبان میں تخلیق ہوا ہے۔ نہ صرف کہانی اور ناول ہندوستانی ادبیات کی دلکش سوغات ہیں بلکہ بنگلہ تھیٹر نے بھی ماضی بعید سے آج تک اپنے اچھوتے موضوعاتی ڈراموں کو تاریخی ابواب میں نمائندگی دی ہے۔ بنگلہ ادیبوں نے کہانی کو جو وژن دیا وہ ہندوستان کی معاشرتی زندگی کی دھڑکنوں میں آج بھی اسی طرح دھڑکتا ہے جتنا ماضی بعید میں رگ و جان میں خون کو رواں رکھتا تھا۔


جن بنگلہ ادیبوں نے اپنی تخلیقات سے بنگلہ ادب کے توسط سے ہندوستان کی شعبہ ہائے زندگی کو جن بصائر کی تازگی دی ان میں رابندر ناتھ ٹیگور سرفہرست ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور نہ صرف بنگلہ تخلیقی ادب کے ماورائے سخن تھے بلکہ وہ شانتی نکیتن درسگاہ کے بانی بھی تھے اور ہندوستان کا ترانۂ قومی بھی انہیں کے زور قلم سے نکلا تھا۔ ٹیگور کی کہانی "دی سیکریفائز" نے ہی سب سے پہلے بنگال کے خاموش سنیما کے عہد میں فلم کو تخلیقی عمل دیا تھا۔
ٹیگور کے بعد قاضی نذرالاسلام اور بنکم چند چٹوپادھیائے بنگلہ ادب کے نمایاں فن کار تھے۔ ان کے علاوہ دو نام اور بھی ہیں۔ جنہیں ٹیگور کی مانند بنگلہ ہی نہیں ، ہندوستان کی تمام زبانوں اور ادب نے بھرپور شناخت دی اور ان کو کبھی اپنے ذہن سے فراموش نہیں کیا۔ شرت چندر چٹرجی اور بمل مترا ایسے ہی بنگلہ ادیب اور تخلیق کار تھے۔ شرت چندر چٹرجی کا تفصیلی تعارف ذیل میں پیش خدمت ہے۔


شرت چندر چٹرجی بنگال کے شہر کلکتہ ہی کے شہری تھے۔ بنگال کے برہمن نثراد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یہ گھرانہ بےحد قدامت پرست تھا۔ اپنی "برہمنائی" سے ہی اس گھرانے کی گذر اوقات تھی۔ شرت چندر چٹرچی کو ابتدائی تعلیم اسی بندھی ٹکی روایات و رسومات کے مطابق دی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیگور گھر گھر پہنچ چکے تھے اور قاضی نذر الاسلام کے بنگلہ گیت ہر بنگالی بہت ذوق و شوق سے گنگناتا تھا۔ شرت چندر چٹرجی کی عمر بھی ان سے متاثر ہوئی۔ وہ ذہنی طور سے خود کو ان قدامت پرست خاندانی روایات سے منکر پاتے تھے، لیکن بغاوت ممکن نہیں تھی۔ در پردہ اُن کے خیالات نے بنگلہ ادب کو قبول کیا اور جب کتابیں زیر مطالعہ آئیں تو ذہن کے کئی در روشن ہو اٹھے اور انہوں نے قلم سے رشتہ جوڑ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بنگلہ ادب کی نمایاں شخصیت بن گئے۔ ان کی کہانیوں نے بنگال کے لٹریچر میں جگہ پائی اور وہ بنگلہ رسائل میں شائع ہونے لگے۔


مختصر کہانیوں کی اشاعت اور اہل ذوق کی پسند نے انہیں حوصلہ دیا اور ان کے وہ ناول منظر عام پر آئے جنہوں نے بنگلہ سے نکل کر نہ صرف ہندی، انگریزی اور اردو افسانوی ادب کو متاثر کیا بلکہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ان کے ناولوں کے تراجم شائع ہو کر بڑی تعداد میں فروخت ہوئے۔ اردو زبان میں بھی ان کے جو ناول شائع ہو کر اہل ذوق کے زیر مطالعہ آئے ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:
1961
برہمن کی بیٹی" (ناشر نسیم بکڈو لکھنؤ)، "امیر بیوی"، تصویر" - (ناشر: کتاب محل لاہور)۔
1967ء
آوارہ، میٹھا درد، ٹھنڈی آگ، سروش۔
1969
تیاگ، اکیلی (ناشر: اہلو والیہ بک ڈپو، دہلی)
1990
ادھورا سوال، کملا (ناشر: جے کے بک ہاؤس، دہلی)۔ رقاصہ (پرنس بک ڈپو، نئی دہلی)۔
ان کی اور بھی ناولیں ہیں جو اب عدم دستیاب ہیں۔


ہمارا علاقائی ادب ہندوستانی تہذیب، معاشرت اور طرز زندگی و طریقہ ہائے حیات و بندگی کی مضبوط بنیادوں پر قایم کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ جدید اور مابعد جدیدیت نے ہمارے معاصر ادب کو متاثر ضرور کیا لیکن یہ وقتی چکاچوند تھی۔ دراصل جس خون میں ماں کے دودھ کی طہارت شامل ہو اور باپ کی سخت کوش نگاہی سے جو ڈھانچہ تیار کیا گیا ہو، اس کو اکھاڑ پھینکنا کسی بھی طوفان، آندھی اور سیلاب کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسے سیلاب بہا ضرور لے جاتے ہیں مگر جب ان کا زور ٹوٹتا ہے تو بنیادیں پھر بھر جاتی ہیں۔


شرت چندر چٹرجی نے جتنے بھی ناول لکھے، ان کا ایک ہی ناول "دیوداس" ان سب پر سبقت لے گیا۔ انہوں نے 1901ء میں جب اپنا یہ ناول لکھا ہوگا تو ان کے ذہن میں ہلکا سا شائبہ بھی نہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں نہ صرف بنگلہ بلکہ ہندی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کا شاہکار ناول مانا جائے گا بلکہ یہ ایک ناول ہی انہیں امر کر دے گا اور جب تک ہمارا ذوق ہمیں آمادۂ مطالعہ رکھے گا، یہ ناول ہر عہد، ہر دور اور زمانے میں عشق کی لازوال داستان سے ہماری تسکین کرتا رہے گا۔
ہندی اور اردو زبان میں عشق و محبت کی کئی داستانیں ہمیں ازبر ہیں۔ لیلی مجنوں ، شیریں فرہاد، سوہنی مہیوال، رومیو جیولیٹ ، سسی پنوں، وامق عذرا، مرزا صاحبان اور سلیم انار کلی۔ ان داستانوں نے ہمارے جمالیاتی ذوق کو ہمیشہ لطیف احساسات کی خوشبو سے شرابور رکھا ہے۔


"دیوداس" عشق کی لازوال کہانی شرت چندر چٹرجی کے قلم سے تراشی گئی ناقابل فراموش داستان ہے جو دیگر داستانوں سے مختلف ہے۔ ہر عشقیہ داستان کو عاشق و معشوق اور محبوب کے ناموں کا عنوان دیا گیا ہے اور ان داستانوں میں ایک منفی کردار مشترک اور لازمی ہے۔ لیکن"دیوداس" کے عنوان با نام کے ساتھ اس کی محبوبہ کا نام نہیں جوڑا گیا ہے۔ یہ داستان بھی سابق تمام داستانوں کی طرح تین کرداروں کو مرکزیت دیتی ہے۔ ہیرو، ہیروئن اور ولین۔ قدیم داستانوں کا ہیرو اپنی محبت میں ناکام ہونے کے بعد جنگل، صحرا اور پہاڑوں میں بھٹک کر زخموں کو مزید زخم دے کر مداوے کی تلاش کرتا ہے۔ یہ صبر کی غیر معمولی انتہا ہے۔


دیوداس بھی تین کرداروں پرمشتمل داستان ہے۔ اس داستان میں کوئی ایسا منفی کردار نہیں جو اس کی محبت ، اس کی محبوبہ کے حصول کا خواہشمند ہو اور اسے اپنے زور بازو سے حاصل کرنے کی قوت رکھتا ہو۔ دیوداس، مجنوں ، رانجھا اور دیگر عاشقوں سے مختلف ہے۔ اس کا بھی نصب العین پارو کی قربت کی خواہش ہے مگر خاندانی وجاہت، تعلیمی روشن خیالی اور نفس کا تقوی بزدلی کی حد تک اس کا دامن گیر ہے۔
اسے اگر کوئی سمجھا ہے تو وہ طوائف چندر مکھی ہے۔ چندرمکھی اس کے قرب کی خواہشمند ہوتے ہوئے بھی اس کی اصل محبت کو اس کے نزدیک لانے کی سعی کرتی ہے لیکن شومئ قسمت کہ پارو کی شادی جوان اولادوں کے معمر باپ سے کر دی جاتی ہے۔ کوئی چارہ نہ پا کر دیوداس خود کو شراب میں غرق کر دیتا ہے اور شراب اس کے اندر ایک حشر بپا کر کے پارو کے سسرال لے جاتی ہے جہاں وہ اپنی محبوبہ کی دہلیز پر اس کے آخری دیدار کی حسرت آنکھوں میں سمیٹے جہان رنگ و بو کو الوداع کہہ دیتا ہے۔


ناول "دیوداس" شرت چندر نے 1901ء میں تحریر کیا تھا اور سولہ سال بعد 1917 ء میں پہلی بار بنگلہ زبان میں شائع ہوا۔ بنگلہ میں اسے بنگلہ ادب کی اعلی تخلیق تو تسلیم کیا گیا مگر اس کی شہرت، غیر معمولی مقبولیت اس وقت ہوئی جب اس عشقیہ داستان پر یکے بعد دیگر فلمیں بنائی گئیں۔ اس اعلی ترین تخلیق کو، اس کے حقیقی ماحول اور کرداروں کو پوری فنکارانہ شدت سے فلم پردے پر پیش کرنا اس سے بڑی تخلیق تھا، لیکن اپنے اپنے عہد میں ہر فلمساز اور فلم ہدایت کار نے "دیوداس" کو اپنے فنی طریقہ کار کے مطابق بنا کر پردۂ سیمیں پر پیش کیا۔
فلم ایسا میڈیا ہے جس کی جادوگری ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی ہے۔ وہ تفریح بھی مہیا کرتا ہے کہ ہمیں تسکین ملتی ہے اور ایسی داستانیں بھی پیش کرتا ہے جو ہمارے جذبات اور احساسات کو مضروب کر کے ایک ایسی اضطراری کیفیت سے ہمیں سرشار کرتا ہے کہ بار بار اس داستان کو دیکھنے کے لئے بقول کسے "اتاؤلے" رہتے ہیں۔
"دیوداس" پر اگر فلمیں نہ بنائی جاتیں تو شاید بہ داستان کتابوں کے صفحات تک ہی محدود رہ کر کتب خانوں میں محفوظ رہ جاتی یا پھر قصۂ پارینہ بن کر ہمارے ذہنوں سے محو ہو جاتی۔


اس ایک عشقیہ داستان پر بنائی گئی فلموں نے شرت چندر چٹرجی کو بھی اسی طرح بے مثال داستان گو بنا دیا جس طرح اس پر بنائی گئی اب تک تمام فلمیں (صرف ایک کو چھوڑ کر) کلاسیک مانی جاتی ہیں۔ 1955ء میں بنائی گئی "دیوداس" تمام دیوداسوں پر سبقت لے گئی اور اسے فن کی اعلی ترین اقدار کا اعزاز حاصل ہے۔ "دیوداس" کے اس کردار کو دلیپ کمار نے اپنی اداکاری کا وہ عروج دیا جس کی مثال ہندوستان کا سنیما دینے سے قاصر ہے۔


شرت چندر چٹرجی کے بیشتر ناولوں پر بنگلہ اور ہندی کے علاوہ تامل وغیرہ میں بھی فلمیں بنائی گئیں۔ ان کا ایک تفصیلی جائزہ ذیل میں پیش ہے۔

* 1922ء "اندھارر آلو" - تاج محل فلم کمپنی نے اسی نام سے بنگلہ زبان میں خاموش فلم بنائی تھی۔
* 1932ء "دینا پاؤنا" - نیو تھیٹر کلکتہ کی پہلی بنگلہ فلم تھی جسے پہلی بار پریم انکور اتورٹھی نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد ان کے ناول "شوڈسی" پر اسی نام سے بنگلہ میں فلم تخلیق ہوئی۔ لیکن نیو تھیٹر جس نے ادبی تخلیقات پر بنگال میں سب سے پہلے فلموں کا آغاز کیا، اسی نیو تھیٹر نے شرت چندر کے ناول "دیب داس" پر سب سے پہلے فلم بنا کر عشق کی اس داستان کو لازوال کر دیا۔ سب سے پہلے خاموش عہد میں یہ فلم تخلیق ہوئی تھی۔
* 1928ء "دیوداس" (بنگلہ) ایسٹرن فلم سنڈیکیٹ کلکتہ۔ ہدایت: نریش چندر متر۔ ستارے : فانی برما، نزایش مترا، مانی گھوش، ٹنکاری چکرورتی ، نہار بالا اور رمادیوی۔

* 1935 ء دیب داس" ( بنگلہ ) اور "دیوداس" (ہندی) نیو تھیڑ کلکتہ۔ ہدایات: پر م تھیش بروا۔ موسیقار : تمر برن۔ گیت و مکالمہ: کیدار شرما۔ ستارے: کندن لال سہگل ، جمنا، راج کماری ، کے سی ڈے اور پہاڑی سانیال۔
* 1936ء "دیوداسا" (تامل)
* 1955 "دیوداس"۔ (ہندی) بمل رائے پروڈکشن ہمبئی۔ ہدایت: یمل رائے۔ مکالمے: راجندر سنگھ بیدی۔ موسیقار: ایس ڈی برمن۔ نغمہ نگار: ساحر لدھیانوی۔ ستارے: دلیپ کمار، وجینتی مالا ، سچترا سین (پہلی ہندی فلم) نذیرحسن، محمود اور کنہیالال۔
* 2002ء "دیوداس"۔ میگھا بالی ووڈ بمبئی۔ ہدایت: سنجے لیلا بھنسالی۔ موسیقار: اسمعیل دربار۔ گیت کار : نصرت بدر۔ ستارے: شاہ رخ خان، مادھوری ڈکشت ، ایشوریہ رائے ، جیکی شراف اور کرن کھیر۔
* 2004 "دیب داس" (بنگالی)۔


شرت چندر چٹرجی کے دیگر ناولوں پر جو ہندی فلمیں بنائی گئیں ان کی تفصیل یہ ہے۔

* 30 اور 40 کے درمیانی برسوں میں شرت چندر چٹرجی کے دو بنگلہ ناولوں "پلی سماج" اور "مجھدار" پر انہیں ناموں سے بنگالی زبان میں فلمیں بنائی گئی تھیں۔
* 1939ء "بڑی دیدی"۔ نیو تھیٹر کلکتہ۔ ہدایت: امر ملک۔ موسیقار: پنکج ملک۔ مکالے اور گیت: کیدار شرما۔ ادا کار : مولنی دیوی، پہاڑی سانیال ، چند راوتی ، زینب ،نواب، رینوکادیوی ،شیراز اور کیدار شرما۔
نوٹ: یہ فلم بیک وقت ہندی اور بنگالی میں بنائی گئی تھی۔ اصل ناول میج دیدی پر، "بڑی دیدی" فلم کا نام تھا۔ بنگلہ گیت اجوئے بھٹا چاریہ، پشو پتی چٹرجی اور جیبن موئے رائے نے لکھے تھے۔ کیمرہ مین بمل رائے تھے۔ اداکار : جوگیش چودھری ، نرمل بنرجی، سیلین چودھری اور بھانو بنرجی وغیرہ۔
* 1940 ء چنگاری"۔ ہدایت:سروتم بادامی۔ موسیقار: گیان دت۔ گیت کار : جمنا سوروپ کیشپ اور پیارے لال سنتوشی۔ اداکار : سبیتا دیوی ، پرتھوی راج ، ای بلمویا، کے داتے ، میرا، سونالنی دیوی اور تارا بائی۔
نوٹ : شرت چندر چٹرجی کے اصل بنگلہ ناول "پنڈت موشائے" پر مبنی فلم تھی۔
* 1952ء "چھوٹی ماں"۔ ہدایت: ہیم چندر۔ موسیقار: پنکج ملک۔ گیت کار : پنڈت بھوشن، بی ایم شرما۔ اداکار: میرا مشرا، پہاڑی سانیال، اشیت سین اور امر کمار۔
نوٹ : یہ فلم اصل بنگلہ ناول "بندور چھولے" پر بنائی گئی تھی۔
* 1953 ء شکست۔ ہدایت : رمیش سہگل۔ موسیقار: شنکر جے کشن۔ گیت کار شیلیندر اور حسرت جے پوری۔ اداکار: دلیپ کمار، نلنی جیونت ، درگا کھوٹے ، لیلا شرد اور اوم پرکاش۔
* 1953ء "پرنیتا"۔ ہدایت : بمل رائے۔ موسیقار : ارون کمار بنرجی۔ گیت کار : بھرت ویاس۔ اداکار اشوک کمار، مینا کماری ، اشیت برن ، نذیر حسین ، منورما، پروتیما دیوی ، اوم پرکاش اور بدری پرساد۔
نوٹ: اس کے پروڈیوسر اشوک کمار تھے اور انہوں نے اپنے ذاتی فلم ادارے اشوک کمار پروڈکشن بمبئی کے لیے یہ فلم بنائی تھی۔


* 1954ء "براج بھو"۔ ہدایت: بمل رائے۔ موسیقار: سلیل چودھری۔ گیت کار : پریم دھون۔ ادا کار: کامنی کوشل، ابھی بھٹا چاریہ، شکنتلا، پران، منورما، افتخار، شریفہ۔
* 1962ء "سوتیلا بھائی"، ہدایت: مہیش کول۔ موسیقار : انل بسواس۔ گیت کار: شیلیندر۔ اداکار: گرودت، پرونوتی بھٹاچاریہ، بپن گپتا، راج کمار (جونیر)، ہنی ایرانی اور کنہیالال۔
* 1967 " منجھلی دیدی"۔ ہدایت: رشی کیش مکرجی۔ موسیقار: ہیمنت کمار۔ گیت کار : نیرج۔ اداکار: مینا کماری، دھرمیندر، للیتا پوار، بین گپتا، کیشٹو مکرجی ، لیلا مشرا، لیلا چٹنس ، ماسٹر سچن۔
نوٹ : اصل ناول "میج دیدی" پر یہ فلم بنی تھی۔
* 1974ء "چرترہین"۔ ہدایت: بشکتی سامنت۔ موسیقار: آرڈی برمن۔ گیت کار : آنند بخشی۔ اداکارہ شرمیلا ٹیگور، سنجیو کمار، یوگیتا بالی ،مدن پوری ،اسرانی ، چندرشیکھر اور اسیت سین۔
* 1976ء "سنکوچ"۔ ہدایت : انل گنگولی۔ موسیقار :کلیان جی آنند جی۔ گیت کار : ایم جی حشمت۔ اداکار: جتیندر ، سلکھشنا پنڈت، اے کے ہنگل اور ارونا ایرانی۔
نوٹ:- یہ فلم "پرنیتا" کے پس منظر اور خیالی مرکز پر تھی۔
* 2005ء "پرنیتا"، ہدایت: پردیپ سرکار۔ موسیقار: شانتنو مئویترا۔ گیت کار : سوانند کرکرے۔ اداکار: سیف علی خاں، سنجے دت ، ودیا بالن (پہلی فلم) ، رائماسین ، دیا مرزا، ریکھا اور سبیہ ساچی چکرورتی۔


ان فلموں کے علاوہ شرت چندر کے ناولوں پر مبنی دو سیرئیل قومی دوردرشن چینل پر دکھائے گئے تھے۔ "چرتر ہین" اور "شری کانت"۔ شری کانت فاروق شیخ کا بہترین سیرئیل مانا جاتا ہے۔


"دینا پاؤنا" پر بنگلہ فلم نیوتھیٹر نے بنائی تھی لیکن اسی ناول پر 1932ء میں نیوتھیٹر کلکتہ نے اردو فلم "محبت کے آنسو" بھی تخلیق کی تھی۔ یہ کندن لال سہگل کی پہلی فلم تھی۔ ان کے ساتھ اختری مرادآبادی، صادق، انصاری اور مہ جبیں نے بھی کام کیا تھا۔


بشکریہ مصنف: رشید انجم
ماخوذ از کتاب: ادب سے فلم تک (سن اشاعت: 2017)

Sarat Chandra Chatterjee, a bengali novelist and trend setter of Indian Cinema.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں