پروانہ ردولوی (اصل نام: سید میثم تمار) (پیدائش: 11/نومبر 1933 - وفات: 12/اپریل 2008)
اردو کے ممتاز صحافی اور ادیب رہے ہیں جن کی زندگی کے حالات نشیب و فراز، طلوع و غروب اور عروج و زوال سے عبارت ہیں۔ انہوں نے اترپردیش اسمبلی میں پنڈت پنت کے زمانہ میں اسمبلی رپورٹر سے لے کر مختلف اخبارات کے ایڈیٹر تک کے فرائض انجام دئے ہیں۔ ان کی آنکھوں نے تین نسلوں کی تہذیبی قدروں کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان کی صرف پانچ کتابیں ان کے اپنے نام سے شائع ہوئیں جبکہ درجنوں کتابیں اور سینکڑوں مضامین دوسروں کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ جن میں ادبی، سیاسی، فکشن، مذہبی اور ہر طرح کی تخلیقات شامل ہیں۔ ان کے رومانی ناول "آزمائش" اور "ویرانی نہیں جاتی" اب نایاب ہیں۔ ان کا ایک جاسوسی ناول "وفادار قاتل" 1960ء کے دہے میں کافی مقبول ہوا تھا۔ انہوں نے بچوں کے ادب میں بھی اچھا خاصا اضافہ کیا ہے۔ رسالہ "کھلونا" میں ہر ماہ ان کی کوئی نظم یا کہانی ضرور شائع ہوا کرتی تھی اور وہ اس زمانے کے بچوں کے پسندیدہ ادیب تھے۔
باذوق قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے پروانہ ردولوی کے تحریرکردہ 18 عدد خاکوں پر مبنی مختصر و مفید کتاب پیش ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
پروانہ ردولوی اپنی اس کتاب کے پیش لفظ بعنوان "عرض واقعی" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
اس کتاب میں شامل مضامین کو میں "خاکوں" کا نام دینا پسند نہ کروں گا۔ خاکہ نگاری ایک مشکل کام ہے اور میں خود کو اس کام کا اہل نہیں پاتا۔ میرا خیال ہے کہ آج کل جو خاکے لکھے جا رہے ہیں وہ درحقیقت خاکے نہیں ہیں اور جن لوگوں کو خاکہ نگار کہا جاتا ہے ان کے ساتھ بہت بڑی ادبی بددیانتی اور عیاری سے کام لیا جا رہا ہے۔ خاکہ نگاری چودھری محمد علی ردولوی پر ختم ہو چکی ہے اور خاکہ نگاری کے باب میں ان کی کتاب "کشکول: محمد علی شاہ فقیر" کو حرفِ آخر کی حیثیت حاصل ہے۔ اب سے کوئی بیس پچیس سال قبل رسائل "بیسویں صدی" اور "پیام مشرق" میں خاکوں کے نام سے جو تعارفی مضامین لکھے گئے تھے صرف وہی کسی حد تک خاکوں کی صنف میں شمار کیے جا سکتے ہیں، پوری طرح نہیں کیونکہ وہ بہت مختصر تھے۔ اور ان میں جن شخصیات کا تعارف کرایا گیا تھا تو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا یا بہت گھٹا کر ۔۔۔ ان تحریروں میں یا تعریف کے پہلو تھے یا تضحیک کے ۔۔۔ شخصیات کا غیرجانبداری سے جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔ اور یہ کسی ایک شخص کے لکھے ہوئے بھی نہ تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے لکھنے والوں کے نام بھی آج تک صیغہ راز میں ہیں۔ اب یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ کون سی تحریر مہدی نظمی
مرحوم کی تھی اور کس کا خاکہ زاہد رضوی مرحوم نے اڑایا۔ کس کی شخصیت کی دھجیاں ناز انصاری نے اڑائیں اور کس کا تعارف بسمل سعیدی نے کرایا۔
بہرحال یہ مضامین میں نے کسی کو آسمان پر چڑھانے یا نیزے پر اٹھانے کے لیے نہیں لکھے ہیں۔ ان کو احاطۂ تحریر میں لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے عہد کے چند جانے پہچانے افراد کو جن سے میرے قریبی تعلقات بھی ہیں، میں نے جس نظر سے دیکھا ہے اور ان کی وہ تصویر جو میرے تجربات اور محسوسات کے آئینوں میں اتری ہے، من و عن پیش کر دوں۔ میرا مقصد کسی کی دل آزاری ہرگز نہیں ہے۔
- پروانہ رودولوی
20/اکتوبر 1990ء
اسی کتاب کے ایک خاکہ "فاروق ارگلی" سے کچھ اقتباسات ۔۔۔
فاروق ارگلی کو اردو اور ہندی دونوں زبانوں پر پورا عبور ہے۔ دہلی میں میری نظر میں ایسا کوئی اور اردو کا قلمکار نہیں ہے جس نے فاروق ارگلی جیسی محنت کی ہو اور تہنیتی کارڈوں سے لے کر تاریخ اسلام تک کا مصنف ہو۔ انہوں نے مذیب، اخلاقیات، سماجیات، سیاسیات، ادبیات، فلمیات الغرض ہر موضوع پر اتنا کچھ لکھا ہے کہ اب خود ان کے لیے اپنی تخلیقات کا شمار ممکن نہیں رہ گیا ہے۔
27 یا 28 سال سے وہ میرے آشنا ہیں۔ حالانکہ وہ مجھے اپنا بڑا بھائی مانتے ہیں اور میرے ساتھ بالکل چھوٹے بھائی کی طرح پیش آتے ہیں مگر میں ان کو اپنے دوستوں میں شمار کرتا ہوں۔ "پرتاپ" میں میں ان کے کئی ناول قسط وار شائع کر چکا ہوں۔ ان ناولوں کے لیے ہم نے ان کو جو معاوضہ ادا کیا وہ بہت کم تھا۔ لیکن "پرتاپ" کے قارئین نے ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے طور پر انہیں کافی نوازا اور خود فاروق ارگلی کا بیان ہے کہ" دور دور سے پرتاپ کے قارئین نے انہیں انعامی چیک بھیجے"۔ ایسے چند چیک میں نے بھی بھجوائے جو قارئین نے ان کا پتہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے دفتر پرتاپ کو بھیج دئے تھے۔
اب سے دس سال قبل تک فاروق ارگلی ادب کے ایسے کاشتکار تھے جس کی قسمت میں بےانتہا محنت لکھی ہوئی تھی۔ کبھی وہ روزہ نماز کی ترکیبوں پر مشتمل کتابیں لکھتے تھے تو کبھی جاسوسی ناول۔ وقت پڑنے پر سہرے اور رخصتیاں لکھ کر بھی وہ اپنی اور اپنے بچوں کی پرورش کا سامان کر لیا کرتے تھے۔ انہوں نے ان گنت اردو ناولوں کو ہندی کے قالب میں ڈھالا، جادو ٹونے کی کتابیں لکھیں اور صابون سازی اور رنگ سازی وغیرہ کی تراکیب پر مشتمل صنعتی لٹریچر کی بھی تخلیق کی۔ لیکن ان کی جس تخلیق نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی گہرائی کا ثبوت پیش کیا وہ تھی "اردو کی کہانی" جو مولانا عبدالوحید صدیقی کے "ہما" اردو ڈائجسٹ کے "اردو نمبر" میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اردو اپنی زندگی کی کہانی، مختلف ادوار میں مروجہ لب و لہجہ میں سناتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مولانا عبدالواحد صدیقی مرحوم نے اس مضمون کے لیے جو فیس طے کی تھی وہ ادا کرنے کے علاوہ ان کی ہمت افزائی اور اپنی پسند کے اظہار کے طور پر الگ سے کچھ رقم بھی پیش کی تھی۔
***
نام کتاب: ہو بہ ہو (خاکے)
مصنف: پروانہ ردولوی
تعداد صفحات: 144
ناشر: ایس ایم تحسین، دہلی۔ سن اشاعت: اکتوبر 1990ء
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Hu Ba Hu by Parwana Rudaulvi.pdf
ہو بہ ہو :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | عرض واقعی | 9 |
ب | میرا شریکِ زندگی | 11 |
ج | ایک رنگا رنگ شخصیت (حسن نجمی سکندرپوری) | 17 |
د | وضع دار انسان (مخمور سعیدی) | 21 |
1 | احمد جمال پاشا | 27 |
2 | اقبال عمر | 33 |
3 | امیر قزلباش | 41 |
4 | چندر بھان خیال | 47 |
5 | حسن نجمی سکندرپوری | 52 |
6 | حیات لکھنوی | 60 |
7 | خان عزمی ردولوی | 65 |
8 | زبیر رضوی | 70 |
9 | شریف الحسن نقوی | 76 |
10 | عزیز وارثی | 84 |
11 | فاروق ارگلی | 90 |
12 | کمار پاشی | 96 |
13 | گوپال متل | 103 |
14 | مجتبی حسین | 108 |
15 | محسن زیدی | 118 |
16 | مخمور سعیدی | 125 |
17 | معین اعجاز | 131 |
18 | ہیم وتی نندن بہوگنا | 136 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں