بیگم اختر اور بیگم پارہ - ہندوستانی سنیما کی دو ممتاز بیگمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-16

بیگم اختر اور بیگم پارہ - ہندوستانی سنیما کی دو ممتاز بیگمات

begum-akhtar-and-begum-para

بالی ووڈ کی ہندی فلموں میں مسلم اداکاراؤں کے باب میں دو بیگموں کے نام بہت مشہور و مقبول ہیں۔ ذیل میں انہی دونوں بیگمات کا مختصر تعارف پیش ہے۔


بیگم اختر (پیدائش: 7/اکتوبر 1914، فیض آباد - وفات: 30/اکتوبر 1974، احمدآباد)

شہرۂ آفاق گلوکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور اداکارہ فلمی پردے پر بھی پیش ہوئیں۔ غزل، دادرا اور ٹھمری کی معروف گلوکارہ بیگم اختر نے فیض آباد میں آنکھیں کھولی تھیں۔ بیگم اختر کے والد اصغرحسین ایک وکیل تھے۔ بیگم اختر کی والدہ کا نام مشتری تھا۔ اصغر حسین نے مشتری سے عشق کر کے شادی کر لی تھی مشتری ان کی دوسری بیوی تھیں۔


پٹنہ کے معروف سارنگی نواز اور استاد عماد خان اور پٹیالہ کے عطار خان سے بیگم اختر نے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ پندرہ برس کی عمر میں بیگم اختر نے پہلی مرتبہ موسیقی کے پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ بیگم اختر نے گلوکاری تو کی ہی، سنیما کے پردے پر بھی انہوں نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ محبوب خان کی فلم "روٹی" (ریلیز: 1942) کے علاوہ کئی دیگر فلموں میں بھی وہ نظر آئیں۔ فلم روٹی میں ان کا گایا ہوا نغمہ "چار دنوں کی جوانی متوالے پی لے پی لے" بھی بہت مقبول ہوا تھا۔


1945 میں بیگم اختر نے بیرسٹر اشتیاق احمد عباسی سے شادی کر لی اور بیگم اختر کے طور پر مشہور ہوئیں۔ چونکہ ان کے شوہر کو پسند نہیں تھا کہ وہ گلوکاری کریں اس لیے وہ تقریباً پانچ برسوں تک گائیگی سے دور رہیں۔ گلوکاری ان کی فطرت میں شامل تھی لہذا وہ اس سے دوری گوارہ نہ کر سکیں اور بیمار پڑ گئیں۔ ان کے شوہر نے بعد میں انھیں گائیگی کی اجازت دے دی۔ 30/اکتوبر 1974ء کو بیگم اختر نے اس دنیا کو الوداع کہا۔
جن فلموں میں بیگم اختر نے کام کیا ان میں ممتاز بیگم (1934)، جوانی کا نشہ (1935)، کنگ فار اے ڈے (1933)، امینہ (1934)، روپ کماری (1934)، نصیب کا چکر (1936)، انار بالا (1940)، روٹی (1942) اور جلسہ گھر (1958) شامل ہیں۔


بیگم پارہ (پیدائش: 25/دسمبر 1926، جہلم - وفات: 9/دسمبر 2008، ممبئی)

ہندی فلموں کی اداکاراؤں کے باب میں دوسرا اہم اور دلچسپ نام ہے جن کا اصل نام زبیدہ الحق تھا۔ بیگم پارہ فلمی دنیا میں آنے کے لئے سماج سے ٹکرائیں اور آخر عمر تک اسی دنیا میں رہیں۔ انہوں نے نرم و گرم سارے دور دیکھے اور گردش ایام کے انہیں مراحل کو طے کرتی ہوئیں وہ 2008 کے دسمبر کی ایک سرد تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔


بیگم پارہ اپنے انتقال سے 82 سال قبل جہلم (پنجاب، پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد احسان الحق کا شمار اپنے زمانے کے معزز و محترم اشخاص میں ہوتا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے جج تھے۔ بیگم پارہ نے جب فلمی دنیا میں جانے کا فیصلہ کیا تو کافی شور شرابا ہوا۔ چونکہ اس زمانے میں فلمی اداکاراؤں کا پیشہ شرفاء کے لئے شایان شان تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لئے جب ایک معروف جج کی بیٹی کے فلمی دنیا میں داخلے کی خبر آئی تو لوگوں نے اس کو کافی بڑا اسکینڈل بنا دیا۔ خود بیگم پارہ کے والد بھی فکرمند ہوئے مگر چونکہ گھر والوں کو احساس تھا کہ بیگم کو اس کے ارادوں سے باز رکھنا ممکن نہیں اس لئے انہوں نے ہلکے پھلکے احتجاج پر اکتفا کیا اور اس کے راستے میں بھی حائل نہ ہوئے۔


بیگم پارہ کی پہلی فلم 1944 میں آئی۔ پربھات پروڈکشن کی اس فلم کا نام "چاند" تھا۔ چاند کے بعد تو بیگم پارہ کی فلموں کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے جن میں سے اکثر کامیاب ہوئیں۔ چھمیا، شالیمار (1946)، دنیا ایک سرائے ، لٹیرا، مہندی، نیل کمل اور زنجیر (1947) ، جھرنا ،شہناز اور سہاگ رات (1948)، دادا (1949) ، مہربانی (1950)، لیلی مجنوں اور نیا گھر (1953)، آدمی (1957) اور دوستانہ (1956) ان کی اہم فلمیں رہیں۔
بیگم پارہ کی شادی ناصر خان سے ہوئی جو خود ایک فلمی اداکار اور شہرۂ آفاق سپر اسٹار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی تھے۔ ناصر خان کچھ دنوں تک ساتھ نبھانے کے بعد موت کے بہانے بیگم پارہ کو داغ مفارقت دے گئے اور اس طرح بیگم ایک مرتبہ پھر اکیلی پڑ گئیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ کچھ دنوں کے لئے پاکستان بھی گئی تھیں۔


فلموں سے بیگم پارہ کا جذباتی رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ اپنی بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود انہوں نے 2007 میں فلم "سانوریا" (رنبیر کپور اور سونم کپور کی اولین فلم) میں کام کرنے کے لئے حامی بھر لی۔ چونکہ وہ بہت لاغر ہو چکی تھیں لبدا بدقت تمام وہیل چیئر پر بیٹھ کر سیٹ پر آتیں اور دن بھر شوٹنگ میں مشغول رہتیں۔
اخیر عمر میں وہ اپنے ایام شباب کو شدت سے یاد کرتی تھیں اور ان باتوں کا تذکرہ کرتیں کہ انہوں نے کس طرح کی تنقید اور برائی کو خاطر میں لائے بنا ہمیشہ وہ کیا جو انہوں نے چاہا۔ دسمبر 2008 میں ممبئی میں بیگم پارہ انتقال کر گئیں۔ ان کے صاحبزادے ایوب بھی بالی ووڈ فلموں میں اداکاری سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔


***
ماخوذ از کتاب: ہندی سنیما میں مسلم اداکارائیں (1912 تا 2012)
مصنف: غیاث الرحمن۔ ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی (سن اشاعت: اگست 2012ء)

Begum Akhtar and Begum Para, the two legend Begums of Indian Cinema. Article: Ghyas ur Rahman.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں