ہندوستانی فلم صنعت کی ابتداء دھارمک پرانک فلموں سے ہوئی تھی۔ 1913ء سے 1920ء تک صرف انھیں موضوعات پر فلمیں بنائی جاتی رہیں۔ دادا صاحب پھالکے کے علاوہ جو فلم ساز اس صنعت میں آئے انھوں نے بھی یہ فارمولا آزمایا کیونکہ ان فلموں میں محیر العقول واقعات کی بھرمار ہوا کرتی تھی (جو آج بھی ہے) جن سے دیکھنے والوں کا شوق نکتۂ عروج کو چھوتا تھا لیکن جیسے جیسے یہ انڈسٹری ارتقائی منزلیں طے کرتی گئی ایسے فلم سازوں کا اضافہ ہوتا گیا جو روشن خیالات کے حامل تھے۔
ایسے فلم ساز گنتی کے ہی سہی لیکن ان میں بندھی ٹکی روش سے ہٹ کر اور فلم صنعت کو طلسماتی مظاہرے سے نکال کر سماجی ، تہذیبی ، اخلاقی اقدار سے جوڑنے کا جذبہ بھی تھا۔ اس انحراف نے فلم شائق کو فرسودگی کے ہجوم سے نکال کر جب زندگی کے آداب اور اس کے اپنے سماجی ماحول سے روشناس کرایا تو فلموں میں تخلیقی فنکاری بھی آئی ، شائق کو نئے موضوعات کی تجلی بھی ملی اور خیالات میں ندرت بھی آ گئی۔ انسانی ذہن ہر انقلابی یا انحرافی شئے کا متلاشی رہا ہے۔ اس نے روشن اور خود شناس فن کو جلد ہی قبول کر لیا۔ اور فلم صنعت کو شائستگی ملی اور ادبی تخلیقات پر بنائی گئی فلموں سے کلاسیکی نظم و ضبط کی سوغات بھی شائق کو حاصل ہو گئی۔ ایسا نہیں ہوا کہ طلسماتی فارمولے سے فلم ساز یا شائق تائب ہو گئے ہوں۔ دونوں طرح کے موضوع ساتھ ساتھ چلتے رہے اور ان فلموں کو دیکھنے والوں میں بھی کمی نہیں آئی۔ بہرحال مختصراً ایسی فلموں کا جائزہ پیش ہے جو خالصتاً ادبی شہ پاروں پر تخلیق کی گئی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر جو حقیقت درج ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ فلموں کے خاموش دور میں ہی ادبی شہ پاروں پر فلموں کی تخلیق ہونے لگی تھی۔ علاقائی زبان میں سب سے پہلا نام جس تخلیق کار کا سامنے آیا وہ نہ صرف بنگال بلکہ ہندوستان کی عظیم ہستی رابندراناتھ ٹیگور کا ہے۔
اور اردو تخلیقی ادبی شہ پاروں پر بنائی گئی ہندوستانی فلموں پر نظر ڈالی جائے تو اس سلسلے میں سب سے پہلا نام آغا حشر کاشمیری کا سامنے آتا ہے۔ آغا حشر کاشمیری اردو ڈرامے کا اہم ترین نام ہے۔ انہوں نے فرمائش پر ہندی میں بھی ڈرامے لکھے جن پر فلمیں بن کر پیش ہوئیں۔
آغا حشر کاشمیری:
فلم سورداس (1914)، فلم ترکی چور (1922)، 1931ء میں فلم شرون کمار ، فلم یہودی کی لڑکی اور فلم چنڈی داس۔ فلم عورت کا پیار (1933)، فلم خوابِ ہستی (1934)، 1936ء میں فلم صیدِ ہوس اور فلم اسیرِ ہوس۔
رومانیت پر لازوال تاریخی ڈراما "شیریں فرہاد" آغا حشر کا ہی کارنامہ تھا۔ جس پر اسی نام سے 1931، 1945 اور 1954 میں تین بار فلمیں بنائی گئیں۔ ان کے دوسرے ڈرامے "رستم سہراب" پر دو بار فلمیں تیار کی گئیں۔ 1940-41 میں فلم 'رستم اور سہراب' اور 1964ء میں فلم 'رستم سہراب'۔ اس فلم میں ثریا نے پرتھوی راج کے مقابل آخری بار پریم ناتھ کی ماں کا رول ادا کیا تھا۔ آغا حشر کی ایک فلم "بھشم پتاما" بھی تھی جو مکمل نہ ہو سکی۔
سید آغا حسن امانت:
اردو کے پہلے ڈراما نویس تھے۔ ان کے ایک اردو ڈرامے "اندر سبھا" کو جو انہوں نے واجد علی شاہ کے لیے لکھا تھا، اسی نام سے مدن تھیٹرز نے ماسٹر نثار اور جہاں آرا کجن کو لے کر 1932ء میں فلم بنائی تھی۔ اس فلم میں کل 71 گانے تھے۔ گانوں کی اسی تعداد کے باعث آج بھی یہ فلم ورلڈ ریکارڈ رکھتی ہے۔
سید امتیاز علی تاج:
ان کے ایک ہی اردو ڈرامہ "انار کلی" پر ہر دور میں فلمیں بنائی گئی ہیں۔ 1927ء کے خاموش فلمی دور میں انگریزی ٹائٹل
Love of a great Mughal Prince
ہمانشو رائے نے اور اصل ٹائٹل "انار کلی" کے نام سے اردشیر ایرانی نے فلم بنائی تھی۔ 1935 اور 1953 میں فلم "انار کلی" اور اس عہد کی سب سے اہم فلم 'مغل اعظم" 1960ء میں بنائی گئی۔
سعادت حسن منٹو:
نہ صرف اردو بلکہ ہندی ادب کے بھی کامیاب اور مقبول ادیب رہے۔ منٹو نے یوں تو بمبئی ٹاکیز، فلمستان اور دیگر فلم کمپنیوں کے لیے کئی فلم اسکرپٹ لکھے جو ظاہر ہے فارمولا اسکرپٹ تھے۔ ان کی ادبی تخلیق "کیچڑ" پر 1940 میں فلم "اپنی نگریا" بنائی گئی تھی۔
منشی پریم چند:
معاصر افسانے کے مقبول ترین مصنف ہیں۔ ان کی کہانیوں پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ 1934 میں فلم "سیوا سدن" (اردو نام: بازارِ حسن) اور فلم "دی مِل"۔ فلم رنگ بھومی (1946)، فلم پنچایت (1958)، فلم ہیرا موتی (1959)، فلم گودان (1963)، فلم غبن (1966)، فلم شطرنج کے کھلاڑی (1977) اور ٹی۔وی فلم سدگتی (1981)۔
کرشن چندر:
ان کے ڈٖرامے "سرائے کے باہر" کو 1947 میں فلما کر ریلیز کیا گیا تھا۔
رئیس احمد جعفری:
ان کے اردو ناول "درد" پر اے۔آر۔کاردار نے 1947ء میں اسی نام سے بےحد خوبصورت فلم بنائی تھی۔
مرزا ہادی رسوا:
ان کے ناول "امراؤ جان ادا" پر سب سے پہلے 1958ء میں فلم "مہندی" اور 1981ء اور 2006ء میں اصل عنوان "امراؤ جان" پر دو فلمیں (1981ء میں ریکھا اور 2006ء میں ایشوریا رائے) سلور اسکرین پر جلوہ گر ہوئیں۔
رضیہ بٹ:
ان کے ناول "ناہید" پر 1971ء میں فلم "محبوب کی مہندی" بنی تھی۔
علیم مسرور:
ان کے ناول "بہت دیر کر دی" پر مبنی 1985ء میں فلم "طوائف" (اردو سرٹیفیکٹ کے ساتھ) پیش ہوئی تھی۔
عصمت چغتائی:
اپنے فلم ساز شوہر شاہد لطیف کے لیے کئی فلمیں انہوں نے لکھیں۔ ان کی کہانیوں اور افسانوں پر بھی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ فلم ضدی (1948)، فلم آرزو (1950)، فلم خواب آئے گا (1953)، فلم دروازہ (1954)، فلم سوسائٹی (1955)، فلم سونے کی چڑیا (1955)، فلم گرم ہوا (1973)، فلم برکھا بہار (1973)، فلم محفل (1978) کے علاوہ ششی کپور کی فلم "جنون" انہوں نے لکھی بھی اور اس میں کیرکٹر رول بھی ادا کیا تھا۔ یہ تمام فلمیں ان کی کسی نہ کسی کہانی سے متاثر تھیں۔ ان کے علاوہ "چوتھی کا جوڑا" اور کچھ کہانیوں پر ٹیلی فلمیں بھی بیسویں صدی کی نویں دہائی میں قومی دوردرشن چینل سے دکھائی گئی تھیں۔
اقبال مجید:
ان کے ناول "نمک" پر ای۔ٹی۔وی اردو میں "زہرہ خانم" کے نام سے ایک طویل ٹی۔وی سیرئیل سنہ 2000ء کے دوران ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ جس میں آخری بار مشہور اداکارہ نادرہ (وفات: 9/فروری/2006) نے بہترین رول ادا کیا تھا۔
ماخوذ از کتاب: جہانِ فلم (سینما اور فلم کا تاریخی جائزہ، حصہ اول) (سن اشاعت: 2017)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں