لکھیم پور کھیری سانحہ : بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کا موقع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-10

لکھیم پور کھیری سانحہ : بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کا موقع

lakhimpur-kheri-incident

لکھیم پور کھیری سانحہ : بی جے پی کو اقتدار سے باہر کیا جا سکتا ہے اگر۔۔۔

تو ہندوستان ایک 'جمہوریت' ہے !
امریکہ کے ایک دانشور صدر ابراہم لنکن 'جمہوریت' کا تعارف کراتے ہوئے کہہ گئے ہیں:
"عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعے ، عوام پر"۔۔۔
اگر، لنکن کے قول کی روشنی میں 'ہندوستانی جمہوریت' کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں 'جمہوریت' کے معنیٰ الٹ دیئے گئے ہیں :
"آمروں کی حکومت ، آمروں کے ذریعے ، عوام پر"۔


لکھیم پور کھیری میں جو ہوا ، اور وہاں جو کچھ ہو رہا ہے ، کیا اس کی روشنی میں ہندوستان کو ایک جمہوری ملک کہا جا سکتا ہے ؟ اس سے قبل گورکھپور میں جس طرح ایک نوجوان تاجر منیش گپتا کو پیٹ پیٹ کر ، پولس نے جان سے مار دیا تھا، کیا اس کا جمہوری ملک میں تصور کیا جا سکتا ہے ؟
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ منیش گپتا کا ملزم داروغہ فرار ہے۔ یہاں میں آسام کی بات نہیں کروں گا ، جہاں کئی حیوانوں نے مل کر ایک کمسن بچے کو گولیوں سے بھون دیا اور ایک نوجوان کو روند ڈالا تھا۔۔۔ میں ملک بھر میں ماب لنچنگ اور 'لوجہاد' کے نام پر بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر نوجوانوں کی جانیں لینے والی وارداتوں کا بھی ذکر نہیں کروں گا۔
ماب لنچنگ اور ' لوجہاد' کے معاملات کا تعلق تو اس ملک کی دبی کچلی اور پسی ہوئی مسلم اقلیت سے ہے ، بھلا ان کے معاملات پر توجہ دینے کی کسی کو کوئی ضرورت ہے !


یہ تو لوگوں نے دیکھا ہی ہےکہ لکھیم پور کھیری میں احتجاجی کسانوں پر مرکزی وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ اجئے مشرا کے صاحبزادے اشیش مشرا کی گاڑی کے چڑھنے اور آٹھ لوگوں کے مرنے کے بعد کانگریس حرکت میں آ گئی ہے۔ پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی نے یو۔پی کے آمر یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار پر ہلّا بول دیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے نوجوان قائد اکھلیش یادو نے اپنے ترکش کے سارے تیر یوگی کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
یہ سب لکھیم پور کھیری تک پہنچنے اور مہلوکین کے غمزدہ گھر والوں سے ملنے کے لیے آگ کا دریا پار کرنے کے لیے بھی تیار رہے ہیں۔ اور آگ کا دریا پار کر کے راہل اور پرینکا گاندھی لکھیم پور پہنچے بھی ہیں۔ ہم ان کی جرأت اور ہمت کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے ، ساری اپوزیشن نے آسام پہنچ کر 32 سالہ معین الحق اور 12 سالہ فرید شیخ کے غمزدہ اہلِ خانہ سے ملنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ تو یہ اپوزیشن جو ہے ، کانگریس ، سماج وادی پارٹی اور این سی پی وغیرہ ، یہ بھی مذہب اور ذات پات دیکھ کر ہی سرگرم ہوتی ہے۔


بات کہاں سے کہاں جا پہنچی ، ذکر تھا ملک کی جمہوریت اور لکھیم پور کھیری کی انتہائی قابلِ مذمت واردات کا۔ آج جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ اجئے مشرا ٹینی کا بیٹا اشیش مشرا ، جس پر یہ الزام ہے کہ اس نے احتجاجی کسانوں پر دانستہ اپنی کار چڑھائی اور چار کسانوں کو کچل دیا ، پھر اس کے نتیجے میں بھڑکنے والے غصے میں مزید چار لوگ مارے گئے ، یعنی آٹھ افراد کی جانیں گئیں ، لکھیم پور کھیری پہنچا ہے اور پولس نے اس سے بیان لیا ہے۔
اسے جمعرات کو حاضری کے لیے یوگی کی پولس نے نوٹس دیا تھا ، جمعہ کو اسے حاضر ہونا تھا، پولس تین گھنٹے تک اس کا انتظار کرتی رہی وہ حاضر نہیں ہوا ،تو شب میں اس کے مکان کے دروازے پر ایک نوٹس پھر لگا دیا گیا ، سنیچر کے روز وہ حاضر ہوا۔ یہ حاضری بھی پورے 'سرکاری اعزاز' کے ساتھ تھی، اسے پولس اسٹیشن کے عقبی دروازے سے اندر لے جایا گیا تاکہ وہاں موجود اخباری نمائندے اس کی تصویر نہ لے سکیں۔ یہی نہیں جمعہ کی شب اجئے مشرا ، یعنی اشیش مشرا کے باپ ، وزیراعلیٰ یوگی سے جاکر ملے تھے۔۔۔ اور سنیچر کو وہ بذاتِ خود لکھیم پور کھیری میں بی جے پی کے دفتر میں ، جو پولس اسٹیشن سے محض دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، موجود تھے۔


اب اندازہ لگالیں کہ ملک کے نائب وزیر داخلہ کے بیٹے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور نائب وزیر داخلہ ، پولس اسٹیشن میں نہ سہی ، پوچھ گچھ کی جگہ سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ہیں ، تو کیا پوچھ گچھ اور تفتیش 'غیر جانبدارانہ' ہو سکتی ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ پولس کے اعلیٰ افسران نائب وزیر داخلہ کے بیٹے سے ، اُس انداز میں ، جس انداز میں کسی عام آدمی سے تفتیش کی جاتی ہے ، تفتیش کریں؟
اور یوگی تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ "بغیر کسی ثبوت کے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جائے گا "۔ تو یوں سمجھ لیں کہ ' سیاّں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا' مثل، اشیش مشرا پر پوری طرح سے صادق آتی ہے۔
اور پھر ایک نہیں 'سیاّں' تو دو ، دو ہیں۔۔۔ باپ جو نائب وزیر داخلہ ہے اور آدتیہ ناتھ یوگی جو وزیراعلیٰ ہیں۔۔۔


ملک کی سب سے بڑی عدالت ' سپریم کورٹ ' نے لکھیم پور کھیری معاملہ میں یوگی سرکار اور پولس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور یوگی سرکار کو باتیں نہیں کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ شاید یہ جو پولس اسٹیشن کا ڈرامہ ہے اسی حکم کے تحت ہے۔ ویسے سپریم کورٹ کی ڈانٹ کے بعد یوگی کو مارے شرم کے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا لیکن ' شرم ان کو مگر نہیں آتی'۔۔۔


تو یہ ہے ہندوستان کی وہ جمہوریت جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا اور مانا جاتا ہے۔ اور ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی بھی جب امریکہ اور برطانیہ یا دوسرے ملکوں کا سفر کرتے ہیں یا اقوام متحدہ وغیرہ میں دنیا بھر کے قائدین سے خطاب کرتے ہیں تو چھاتی ٹھونک ٹھونک کر گرو سے کہتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سربراہ ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ ' جمہوریت' کی حیثیت ملک کے لیے ایک برانڈ کی سی ہے۔


خیر، آئیں لکھیم پور کھیری کی طرف لوٹیں۔
3/ اکتوبر کو اشیش مشرا کی گاڑی احتجاجی کسانوں پر چڑھی تھی ، اس سے قبل اجئے مشرا ٹینی نے ، جو اتفاق سے یو۔پی کے ' باہوبلی' بھی ہیں، ان کے خلاف درجنوں معاملات درج ہیں ، ایک مجمع میں تقریر کرتے ہوئے احتجاجی کسانوں کو "ٹھیک کرنے " کی دھمکی دی تھی۔ اشیش مشرا پر بھی کسانوں کو دھمکانے کا الزام ہے۔
سچ کہا جائے تو پوری کی پوری بی جے پی ہی کسانوں کو دھمکانے کی قصوروار ہے۔ کسانوں کے مطالبات نہ ہی تو 'ناجائز' تھے اور نہ ہی 'غیر جمہوری' لیکن ملک پر راج کرنے والوں کے لیے، چاہے وہ وزیراعظم نریندر مودی ہو یا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ یا کہ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا، اور یوپی و ہریانہ کے وزرائے اعلیٰ یوگی و کھٹّر ، کوئی بھی کسانوں کے مطالبات کو کہ جو تین زرعی قوانین بنائے گئے ہیں ، جن کے نتیجے میں کسانوں کی خوشحالی تو چھن ہی جائے گی ملک کے عام شہری بھی پریشانی میں پھنس جائیں گے ، واپس لیا جائے ، واپس لینے کو تیار نہیں ہے۔


زرعی قوانین کو ہر حال میں لاگو کرنے یا باالفاظ دیگر تھوپنے کو بی جے پی سرکار نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ملک بھر کے کسان احتجاج کر رہے ہیں ، سال بھر دھرنے کو ہو رہے ہیں اور حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ملک ایک ایسے ' ٹکراؤ' کی سمت بڑھ رہا ہے جس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں ، تو غلط نہیں ہوگا ، مگر سرکار آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
اشیش مشرا کی گرفتاری اور فراہمئ انصاف کے مطالبات منظور نہ کیے جانے کی صورت میں کسانوں نے اور ان کی تنظیم "سمیکت کسان مورچہ" ( ایس کے ایم) نے 12/ اکتوبر کو "شہید کسان یاترا" نکالنے کا اعلان کیا ہے ، اس سے قبل 11/ اکتوبر کو "بھارت بند" کا اعلان ہے۔ مہاراشٹر کی مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار نے بھی ' بند' کا اعلان کر رکھا ہے۔
کانگریس کا رخ سخت ہو رہا ہے ، کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی اور ان کے بھائی راہل گاندھی نے یوگی سرکار پر حملے تیز کر دیئے ہیں۔ یوگی کی سرکار ہے کہ آنکھ اور کان بند کیے ہوئے ہے۔ یوگی کے بڑے بڑے اشتہارات چھپ رہے ہیں کہ یوپی میں امن ہے ، یوپی نے ترقی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ لیکن سچ یہی ہے کہ یوپی میں زبردست ڈر اور خوف کا ماحول ہے۔ یوگی چند فرقوں اور چند طبقات کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کمربستہ ہیں۔


اور اگر کسانوں کی تحریک میں شدت آئی تو اندیشہ ہے کہ یوپی میں فرقہ وارانہ منافرت کو مزید بھڑکانے کے لیے فسادات کروا دیئے جائیں۔ الیکشن کے موقع پر فسادات کی سیاست نے ہمیشہ بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے۔ بہت ہی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔
مگر احتجاج اور دھرنا جاری رکھتے ہوئے کہ یہ اب پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ متحد ہو کر بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کا ایک سنہرا موقع حاصل ہوا ہے۔ کانگریس کو اس موقع پر اپنی انا کو بھول جانا ہوگا ، اب یہ کہہ کر یہ سب سے قدیم پارٹی ہے اس لیے اس کا حق سب سے زیادہ ہے ،کام نہیں چلنے والا۔ اگر یوپی کو بی جے پی ' مکت ' دیکھنا ہے تو کسانوں کے ساتھ تمام ہی کچلے اور دبے پسے ہوؤں کا ساتھ لینا اور انہیں ساتھ دینا ہوگا۔۔۔مسلمانوں کا بھی۔۔۔
اب مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کا مطلب تابوت میں آخری کیل ٹھونکنا ہوگا۔ تو یہ اپوزیشن کے لیے 'کرو یا مرو' کی گھڑی ہے۔ رہی بی جے پی تو اگر ایک ایسے موقع پر جبکہ اس کے اور یوگی کے خلاف لوگوں میں غصے کی لہر ہے ، وہ اسمبلی الیکشن جیت جاتی ہے ، تو وہ ، وہ سب کام کرے گی ، کہ ملک میں بچی کھچی'جمہوریت' کا جنازہ بھی نکل جائے گا۔


***
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن
khansh.rasheed[@]gmail.com

BJP's stand on lakhimpur kheri incident. Column: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں