جب دیا رنج بتوں نے ۔۔۔ - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-03

جب دیا رنج بتوں نے ۔۔۔ - کالم از ودود ساجد

wadood-sajid-column-delhi-hc-order

کرناٹک کی بی جے پی حکومت مکر و فریب سے بھرپور قانون بنا کر شرپسندوں کی انتہائی غیر قانونی تعمیراتی سرگرمیوں کو سپریم کورٹ کی تلوار سے بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ پچھلے پچاس سالوں میں کرناٹک میں سرکاری زمینوں، سڑکوں، گلیوں کے کناروں اور کوچہ وبازار میں جو مندر ناجائز طور پر تعمیر کرلئے گئے ہیں انہیں جائز بنانے کیلئے کرناٹک حکومت نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا ہے۔اس بل کے ذریعہ پانچ ہزار سے زیادہ مندروں کو سپریم کورٹ کے "حکم انہدامی" سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس بل کے خلاف کوئی کرناٹک ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا تو دیکھنا ہوگا کہ اس وقت عدلیہ کا رویہ کیا ہوگا۔ یہ سوال تو بہر حال قائم ہوگیا ہے کہ کیا کوئی ریاستی اسمبلی سپریم کورٹ کے حکم کو بے اثر کرنے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے؟


عدلیہ سے رجوع کرنے کی بات آئی ہے تو اطمینان رکھئے کہ کرناٹک کی کلیدی حزب اختلاف، کانگریس تو اس سلسلہ میں کچھ نہیں کرے گی۔اس میں کوئی حیرت کی بات بھی نہیں ہے۔جب سپریم کورٹ کے (2009 کے) پرانے حکم کی روشنی میں کرناٹک ہائی کورٹ کی تازہ لعن طعن کے بعد میسور کے ننجن گوڈ میں ضلع انتظامیہ نے ایک "قدیم مندر" کی انہدامی کارروائی شروع کی تو بی جے پی سمیت تمام شرپسند جماعتوں نے تو شور مچایا ہی خود کانگریس نے بھی اس کے خلاف سخت قسم کے بیانات جاری کئے۔
کرناٹک کے سابق کانگریسی وزیر اعلی سدا رمیا نے ٹویٹ کرکے کہا کہ:
"مندر کا انہدام انتہائی قابل مذمت ہے 'لوگوں کے مشورہ کے بغیر ہی مندر کو منہدم کر دیا گیا' بی جے پی حکومت کو ایک قدیم مندر کو منہدم کرنے سے پہلے علاقہ کے لوگوں سے مشورہ کرنا چاہئے تھا، اس انہدام سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔"


مختلف رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کرناٹک میں پانچ ہزار سے زیادہ مندر ناجائز طور پر سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے تعمیر کئے گئے ہیں۔ کچھ دوسرے مذہبی مقامات بھی ہیں جیسے گرودوارے، چرچ، بودھ وہار۔ کچھ مسجدیں، خانقاہیں اور درگاہیں بھی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کا کلیدی حکم اور پھر عمل آوری کیلئے ہائی کورٹ کا اضافی حکم اتنی بڑی تعداد میں تعمیر مندروں کے ہی پیش نظر آیا تھا۔
حالانکہ محض چلتے پھرتے پوجا کے مقصد سے بنائے جانے والے ایک مندر کی تعمیر بہت چھوٹی سی جگہ پر ہو جاتی ہے لیکن کرناٹک میں تعمیر ان مندروں میں کچھ تو بہت بڑے ہیں۔ یہاں تک کہ میسور کے جس 'مہادیواما' مندر کے انہدام کے بعد ہنگامہ شروع ہوا وہ تو بہت بڑا اور 'قدیم' مندر بتایا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف مسجد اتنی چھوٹی سی جگہ پر تعمیر نہیں ہو سکتی۔ٖ مسجد کی تعمیر کا مقصد بھی کبھی اس چھوٹی سی تعمیر سے پورا نہیں ہوسکتا کہ کوئی راہ چلتا آئے اور اس کی طرف منہ کرکے اور آنکھ بند کرکے کچھ دیر کھڑا ہو جائے اور پھر چلتا بنے۔ چھوٹی سے چھوٹی مسجد اتنی بڑی تو ضرور ہوتی ہے کہ اس میں امام کا مصلی بچھ جائے اور پیچھے دوچار نمازی تو کھڑے ہوجائیں۔ اتنی چھوٹی مسجد بھی کسی گلی کے نکڑ اور کسی برگد کے درخت کے نیچے نہیں بنائی جاسکتی۔ اس کے علاوہ مسجد کسی اور کی زمین پر بغیر اس کی اجازت کے تعمیر نہیں کی جا سکتی۔


ہندوستان بھر میں عوامی مقامات پر چھوٹے بڑے مندروں اور بڑے بڑے مجسموں کی تعمیر کی وجہ سے ہر جگہ لوگوں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں ہی متعدد عوامی مقامات پر مندروں کی تعمیر اور مجسموں کی تنصیب اس کی گواہ ہے۔
دہلی میں قرول باغ کی ایک انتہائی مصروف سڑک پر 108 فٹ اونچا ہنومان کا ایک مجسمہ قانون کی بالا دستی کو نیچا دکھا رہا ہے۔ اس مجسمہ کی تعمیر 1994 میں شروع ہوئی تھی۔ 2007 میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ اس کی تعمیر کیلئے لاکھوں کا عوامی چندہ جمع کیا گیا۔ یہ مجسمہ ایسی تنگ جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے کہ جہاں بعد میں میٹرو کو اپنا منصوبہ بدلنا پڑا۔ راستہ چلنے کیلئے راہ گیروں کو جگہ نہیں ملتی، سڑک کی توسیع نہیں کی جاسکتی، بسوں اور کاروں کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہیں سے ہو کر دہلی کے مشہور اور بڑے ہسپتال سرگنگا رام کا راستہ جاتا ہے۔ یہاں ایمبولینس اور مریضوں کو لے جانے والی گاڑیاں پھنسی رہتی ہیں۔


اس مجسمہ کو یہاں سے شفٹ کرنے کے لئے ایک این جی او نے پہلے سرکاری طور پر کوششیں کیں لیکن کامیابی نہیں ملی تو اس نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت نے متعدد تاریخوں پر دہلی کے بلدیاتی اداروں کو سخت سست سنائیں لیکن کوئی حل نہ نکلا اوریہ مقدمہ جاری رہا۔
فروری 2018 میں دہلی ہائی کورٹ کے کمرۂ انصاف میں این ڈی ایم سی اور ایم سی ڈی کے درمیان یہی جنگ چل رہی تھی کہ جس جگہ ہنومان کا فلک بوس مجسمہ تعمیر کیا گیا ہے وہ کس کی ہے؟
دونوں اس جگہ کو ایک دوسرے کی ملکیت بتا رہے تھے۔ دونوں اس مجسمہ کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دے رہے تھے۔ عدالت کو کہنا پڑا کہ امریکہ میں فلک بوس عمارتوں کو اٹھاکر دوسری جگہ رکھ دیا جاتا ہے، آخر اس مجسمہ کو کیوں نہیں اٹھاکر دوسری جگہ رکھا جا سکتا؟
عدالت نے افسروں سے کہا تھا کہ اگر آپ صرف کسی ایک جگہ پر ہی یہ دکھا دیں کہ قانون پر عمل ہو رہا ہے تو لوگوں کی بھی ذہنیت بدل جائے گی۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں یہ مجسمہ اپنی جگہ پر قائم ہے اور ایک خلق خدا ہر روز اس کی وجہ سے مصائب جھیلتی ہے۔


29 ستمبر 2009 کو سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بنچ نے ایک این جی او کی رٹ پر حکم جاری کیا تھا کہ ہندوستان بھر میں جہاں بھی سرکاری املاک اور عوامی مقامات پر ناجائز طور پر مذہبی مقامات کی تعمیر کرلی گئی ہے انہیں بلا تاخیر منہدم کیا جائے اور کوئی نئی تعمیر نہ ہونے دی جائے۔
تین رکنی بنچ آئینی بنچ ہوتی ہے۔ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ تاوقتیکہ پانچ رکنی بنچ اس فیصلہ کو کالعدم نہ کر دے۔ یا پارلیمنٹ ایک قانون بنا کر اس فیصلہ کو بے اثر کر دے۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر کی تمام ہائی کورٹس کو حکم دیا تھا کہ وہ اس فیصلہ کے نفاذ کی نگرانی کریں اور تمام ریاستی حکومتیں کارروائی کی غرض سے ایسی تمام ناجائز تعمیرات کی فہرست تیار کریں۔
اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر نگرانی کا سب سے زیادہ متحرک کردار کسی ہائی کورٹ نے ادا کیا تو وہ کرناٹک ہائی کورٹ ہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس ابھے سری نواس اوکا نے اس سلسلہ میں بہت شاندار فیصلے اور احکام جاری کئے۔ اب جسٹس اوکا سپریم کورٹ میں ہیں۔


کرناٹک وقف بورڈ نے سپریم کورٹ کے جسٹس دلویر بھنڈاری، وی ایس سرپورکر اوردیپک ورما کی بنچ کے سامنے "رحم" کی اپیل دائر کی لیکن 11 مئی 2011 کو بنچ نے صاف کہہ دیا کہ ہم غیر قانونی طور پر تعمیر کئے جانے والے مندر اور مسجد کے درمیان کوئی فرق نہیں کریں گے۔ یعنی غیر قانونی طور پر تعمیر مسجدوں کو بھی ہر حال میں ہٹانا پڑے گا۔
اس سلسلہ میں دسمبر 2019 میں کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج دس سال کے بعد بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے سخت احکامات کے بعد ہی کرناٹک کے چیف سیکریٹری نے تمام اضلاع کے افسروں کو حکم دیا کہ ہر ہفتہ کم سے کم ایک ناجائز مذہبی عمارت منہدم کی جائے۔ اسی حکم کے تحت میسور کا وہ مندر منہدم کیا گیا جس پر آج پورے ملک میں ہنگامہ ہے اور جس کی بنیاد پر کرناٹک حکومت نے ان ناجائز مقامات کے تحفظ کیلئے اسمبلی میں بل پیش کیا ہے۔


یہ ایک عجیب وغریب صورتحال ہے کہ جو حکم سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے جاری کیا ہے اور جس پر پورے ملک میں عمل کرنا لازمی ہے اس حکم کو بے اثر کرنے کیلئے ایک ریاست کی اسمبلی میں بل پیش کیا گیا ہے۔ میں نے ابھی اس کے قانونی جواز کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس سلسلہ میں آئینی حیثیت کیا ہے۔ لیکن بظاہر یہ ایک معیوب سی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ریاستی اسمبلی قانون بنانے کی جرات کر رہی ہے۔


اب ایک دوسرا پہلو بھی قابل توجہ ہے۔
نرسمہا راؤ کی وزارت عظمی کے دوران بابری مسجد کے خلاف جاری تحریک کے تناظر میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون 1991 وضع کیا گیا تھا۔ اس کی روسے (بابری مسجد کو چھوڑ کر) 15 اگست 1947 کو عبادت گاہوں (مسجدوں) کی جو پوزیشن تھی اسے جوں کی توں رکھنے کی ضمانت دی گئی تھی۔ لیکن 23 مارچ 2021 کوبی جے پی کے ایک سابق ترجمان اشونی کمار اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں اس ایکٹ کو چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے اس رٹ کو سماعت کیلئے قبول بھی کر لیا۔
یہ پہلو تفصیل سے لکھے جانے کا متقاضی ہے۔ لیکن یہ واضح ہو گیا کہ ایسا قانون جو کلیدی طور پر آزادی سے پہلے تعمیر کی گئی مسجدوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے بی جے پی کو منظور نہیں ہے اور سپریم کورٹ بھی اس قانون کو پیش کئے جانے والے چیلنج کو قبول کرکے نوٹس جاری کر دیتی ہے۔
اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے ایسے حکم کو بے اثر کرنے کیلئے بی جے پی (کرناٹک اسمبلی میں) قانون بنا رہی ہے جس کی زد میں کلیدی طور پر آزادی کے بعد تعمیر کئے گئے ناجائز مندر آ رہے ہیں۔ یہ دونوں واقعات بی جے پی کے مبنی بر تعصب کھلے ظلم کی بدترین مثال ہیں۔


ارباب اقتدار کو یہ پیغام پہنچنا چاہئے کہ دنیا میں انصاف کرنے والے خدا کے منکروں کی حکومتیں چلنے کی مثالیں بھری پڑی ہیں لیکن ظلم کی بنیاد پر حکومت چلانے والے جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گئے!!


***
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 3 اکتوبر 2021ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Airlift 108-Foot Hanuman Statue And Relocate It, Say Judges. - Column: M. Wadood Sajid.
Supreme Court's 2009 judgement on illegal religious constructions

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں