ممتاز افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-08

ممتاز افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس کا انتقال

prof-baig-ehsas

حیدرآباد (دکن) کے متوطن اردو کے ممتاز افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس آج بروز بدھ 8/ستمبر 2021ء کو انتقال کر گئے۔
پروفیسر بیگ احساس جامعہ عثمانیہ اور حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر کے عہدہ پر فائز رہے اور ادارۂ ادبیات اردو کے ترجمان ادبی جریدہ "سب رس" کی ادارت کا فریضہ بھی تادم نبھایا۔
وہ گزشتہ دو ہفتوں سے ناسازئ مزاج کے سبب حیدرآباد کے ایک اسپتال میں داخل تھے۔ درمیان میں صحتیاب ہوئے مگر دوبارہ خرابئ صحت پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا اور بالآخر آج 8/ستمبر کی صبح انہوں نے آخری سانس لی۔


ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی اپنے تعزیتی پیغام میں لکھتے ہیں ۔۔۔

اردو کے معروف افسانہ نگار اور ماہنامہ "سب رس" کے مدیر پروفیسر بیگ احساس ہمارے درمیان نہیں رہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
وہ کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ ان کے دماغ نے کام کرنا بند کر دیا تھا اور اعضاء بھی ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ انھوں نے آج صبح آخری سانس لی۔
ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ پروفیسر بیگ احساس عثمانیہ یونیورسٹی اور حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی کے سابق صدر شعبۂ اردو تھے۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا اور پچھلے دنوں ان کے افسانوی مجموعہ "دخمہ" کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ وہ بیک وقت ایک اچھے محقق، سنجیدہ نقاد، بہترین ادیب اور کامیاب مقرر تھے۔ نہایت نفیس طبیعت کے مالک اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے پروفیسر بیگ احساس سے اکثر فون پر گفتگو ہوتی تھی اور جب کبھی حیدرآباد جانا ہوتا تو ملاقات بھی ہوتی تھی۔ ان سے پہلی ملاقات 2005 میں نیویارک میں ہوئی تھی۔
وہ یاروں کے یار تھے اور ان کی سب سے اچھی یاری ممتاز مزاح نگار مجتبٰی حسین مرحوم کے ساتھ تھی ۔ وہی ہم دونوں کے درمیان تعلق کا سبب بنے تھے۔ مرحوم کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعاگو ہوں۔


پروفیسر بیگ احساس کے خاص شاگرد اور نامور خطاط غوث ارسلان نے لکھا ہے ۔۔۔

ممتاز افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس ولد جناب مرزا خواجہ حسن بیگ مرحوم کا بعمر 73 سال بروز چہارشنبہ 8 ستمبر 2021ء کو انتقال ہوا۔
پروفیسر بیگ احساس کا اصل نام محمد بیگ تھا۔ 10۔ اگست 1948ء کو ولادت ہوئی۔ جامعہ عثمانیہ سے 1975ء میں بی اے اور 1979ء میں ایم اے کیا۔1985ء میں یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ 1984ء میں بحیثیت لکچرر اردو، جامعہ عثمانیہ سے وابستہ ہوئے جبکہ 2000ء میں پروفیسر کے عہدہ پر ترقی ملی۔ 2000ء سے 2006ء تک کا وقفہ صدر شعبہ رہے۔ 2007ء سے 2013ء تک حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر اور صدر شعبہ اردو خدمات انجام دیں۔


ہند و پاک میں اردو کے ممتاز و مایہ ناز افسانہ نگار کی حیثیت سے شناخت پائی۔ افسانوں کے تین مجموعے خوشہ گندم، حنظل اور دخمہ شائع ہوے۔ "دخمہ" پر2017ء میں ساہتیہ اکیڈیمی نے انعام سے نوازا۔ مخدوم محی الدین کے بعد پروفیسر بیگ احساس حیدرآباد سے ساہتیہ ایوارڈ پانے والے دوسرے ادیب رہے۔
دیگر تصانیف میں شورِ جہاں، کرشن چندر فن و شخصیت اور شاذ تمکنت پر مونو گراف شامل ہیں۔ حیدر آباد لٹریری فورم(حلف) کے معتمد عمومی اور صدر رہے۔ ادارہ ادبیات اردو کے رکن عاملہ اور ترجمان رسالے "سب رس" کے تا آخر ایڈیٹر رہے۔ "ساہتیہ اکیڈیمی کی مشاورتی کمیٹی برائے اردو" کے رکن رہے۔ 2005ء سے 2012ء تک "بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ کمیٹی" کے رکن رہے اس کے علاوہ مختلف جامعات کی کمیٹیوں اور انجموں کے رکن بھی رہے۔


تلنگانہ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی جانب سے "مخدوم ایوارڈ براے کارنامہ حیات" دیا گیا۔ پاکستان، سعودی عرب اور انگلینڈ کا دورہ کیا۔
"ہندستانی بزمِ اردو ریاض، سعودی عرب" نے پروفیسر بیگ احساس کے اعزاز میں تقریب منعقد کر کے ڈیجیٹل ساونیر جاری کیا۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے لیے ہندستان کی متعدد جامعات میں پروفیسر بیگ احساس کی شخصیت اور فن پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ ادبی رسالوں نے خصوصی نمبر اور گوشے شائع کئے۔
ان کے افسانے ہندستان کی کئی جامعات میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن سطح کے نصاب میں شامل ہیں۔ صحافت سے بھی گہرا رشتہ رہا اور حیدرآباد کے روزناموں میں کالم نگاری بھی کی۔


بازگشت آن لائن ادبی فورم کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔

ممتاز افسانہ نگار، نقاد اور استاد پروفیسر بیگ احساس کا 73 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ پروفیسر بیگ احساس کا اصل نام محمد بیگ تھا۔ 10 اگست 1948 کو ان کی ولادت ہوئی۔
عثمانیہ یونی ورسٹی سے1975 میں بی اے اور 1979 میں ایم اے کیا اور1985 میں یونی ورسٹی آف حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کی۔ 1984 میں بحیثیت لکچرر اردو عثمانیہ یونی ورسٹی سے وابستہ ہوئے۔ 2000 میں پروفیسر کے عہدہ پر ترقی ملی۔ 2000 سے2006 تک صدر شعبہ رہے۔ 2007سے2013 تک سنٹر ل یونی ورسٹی حیدرآباد میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انھیں ہند و پاک مایہ ناز افسانہ نگاروں میں اہم مقام حاصل تھا۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے خوشہ گندم، حنظل اور دخمہ شائع ہوئے۔ "دخمہ" پر2017میں ساہتیہ اکادمی نے انھیں انعام سے نوازا۔


مخدوم محی الدین اورجیلانی بانوکے بعد پروفیسر بیگ احساس حیدرآباد سے ساہتیہ ایوارڈ پانے والے تیسرے ادیب تھے۔ ان کی دیگر تصانیف میں شور جہاں، کرشن چندر فن و شخصیت اور شا ذ تمکنت پر مونو گراف شامل ہیں۔
وہ حیدر آباد لٹریری فورم کے معتمد عمومی اور صدر رہے۔ وہ بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سر پرست تھے۔ ادارہ ادبیات اردو کے رکن عملہ اور ترجمانماہ نامہ "سب رس"کے تا حال ایڈیٹررہے۔
ساہتیہ اکادمی کی مشاورتی کمیٹی براے اردو کے رکن رہے۔ 2005سے2012تک بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ کمیٹی کے رکن رہے اس کے علاوہ مختلف جامعات کی کمیٹیوں اور انجموں کے رکن بھی رہے۔ تلنگانہ اردو اکادمی کی جانب سے انھیں مخدوم ایوارڈ براے کارنامہ حیات دیا گیا۔ پاکستان، سعودی عرب اور انگلینڈ کا دورہ کیا۔


ہندستانی بزم اردو ریاض، سعودی عرب نے پروفیسر بیگ احساس کے اعزاز میں تقریب منعقد کرکے ڈیجیٹل سوونیر جاری کیا۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے لیے ہندستان کی متعدد جامعات میں پروفیسر بیگ احسا س کی شخصیت اور فن پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ ادبی رسالوں نے خصوصی نمبر اور گوشے شائع کئے۔ ان کے افسانے ہندستان کی کئی جامعات میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصاب میں شامل ہیں۔
صحافت سے بھی ان کا گہرا رشتہ تھا۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز "فلمی ستارے" سے ہوا تھا۔ انھوں نے حیدرآباد کے روزناموں میں کالم نگاری بھی کی۔


پروفیسر بیگ احساس کی وفات پر اردو ادب کی سرکردہ شخصیات نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیاہے۔ جن میں۔۔۔
جناب سلام بن رزاق، جناب شفیع مشہدی، جناب سید محمد اشرف، پروفیسر غضنفر، پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر نسیم الدین فریس، پروفیسر فاروق بخشی، پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی، جناب فیاض احمد فیضی، جناب سردار علی، محترمہ قمر جمالی، پروفیسر خواجہ اکرام، پروفیسر اشتیاق احمد، جناب میر ایوب علی خاں، پروفیسر پی فضل الرحمٰن، جناب غوث ارسلان، محترمہ ممتاز پیر بھائی، پروفیسر غیاث ا لرحمٰن سید، جناب ملکیت سنگھ مچھانا، پروفیسراحمد محفوظ، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر معین الدین جینابڑے، جناب انور مرزا، جناب سراج عظیم، ڈاکٹر قمر سلیم، ڈاکٹر محمود کاظمی، محترمہ نگار عظیم، جناب قیوم اثر، ڈاکٹر شمس الہدیٰ، ڈاکٹر آمنہ تحسین، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر مشرف علی، ڈاکٹر شمیم احمد، ڈاکٹر سید نجی اللہ، ڈاکٹر ابو شہیم خاں، ڈاکٹر احمد خاں، ڈاکٹر بی بی رضا، ڈاکٹر اسلم پرویز، ڈاکٹر جنید ذاکر، ڈاکٹر فہیم الدین احمد، ڈاکٹر خواجہ ضیا ء الدین، ڈاکٹر ناصر انصار، ڈاکٹر ریحان کوثر، ڈاکٹر نورالامین، ڈاکٹر ریاض توحیدی، ڈاکٹر فریدہ بیگم، جناب مختار خاں، جناب معین الدین عثمانی، جناب طاہر انجم صدیقی، جناب نثار انجم، ڈاکٹر جاوید رحمانی، ڈاکٹر احمد طارق، جناب وسیم عقیل شاہ، جناب ظہیر انصاری، جناب اسمٰعیل گوہر، جناب علیم اسمٰعیل، جناب تنویر احمد تماپوری، محترمہ رخسانہ نازنین، ڈاکٹر فیروز عالم، ڈاکٹر گل رعنا، ڈاکٹر حمیرہ سعید قابل ذکر ہیں۔


ڈاکٹر اسلم فاروقی (استاذ این۔ٹی۔آر گورنمنٹ ڈگری کالج، محبوب نگر) لکھتے ہیں ۔۔۔

بیگ احساس ( پیدائش 10 اگسٹ 1948 - وفات 8 ستمبر 2021) اردو کے نامور افسانہ نگار، صحافی، ادیب ، محقق، نقاد اور دانشور اردو تھے۔ جامعہ عثمانیہ اور سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبے اردو کے صدر بھی رہے۔ بیگ احساس کا اصل نام محمد بیگ ہے لیکن بیگ احساس کے نام سے اردو دنیا میں مشہور ہیں۔
10۔ا گسٹ1948ءکو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی ملازمت اور کچھ عرصہ صحافت سے وابستہ رہنے کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد سے " کرشن چندر شخصیت اور فن " موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو لیکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کے عہدے تک پہونچے۔ جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر سیدہ جعفر، پروفیسر یوسف سرمست، پروفیسر اشرف رفیع، غیاث متین، ڈاکٹر عقیل ہاشمی، ڈاکٹرمجید بیدا راور ڈاکٹر افضل الدین اقبال وغیرہ کے ساتھ شعبہ اردو کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ بعد میں یونیورسٹی آف حیدرآباد میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو رہے۔


اپنے تخلیقی سفر کے دوران ان کی کتابیں خوشہ گندم ( افسانوی مجموعہ1979) ، حنظل ( افسانوی مجموعہ1993) ، کرشن چندر شخصیت اور فن ( تحقیق 1999) ، شور جہاں ( تنقیدی مضامین2005ء)، ہزار مشعل بکف ستارے (2005ء)، درد کے خیمے ( افسانوی مجموعہ2009ء)، مرزا غالب( تعلیم بالغان2004ء) ، بوجھ کیوں بنوں ( تعلیم بالغان2004ء) ، شاذ تمکنت ( مونو گراف2010ء)، دکنی فرہنگ (بہ اشتراک ، ڈاکٹر ایم۔کے۔کول 2012 ) اور دخمہ (افسانوی مجموعہ2015ء) شائع ہوئیں۔
ان کے افسانوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ وہ کچھ عرصہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ رہبر فلم، سیاست ، منصف وغیرہ اردو اخبارات کے فلمی صفحوں کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ انہوں نے خاکہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی۔ حیدرآباد کی ادبی شخصیات پر انہوں نے خاکے لکھے۔ ان کا مقبول خاکہ "مجتبیٰ حسین" کے نام سے مشہور ہوا۔
ساہتیہ اکیڈیمی دہلی کے اردو مشاورتی بورڈ کے رکن رہے۔حال ہی میں ساہتیہ اکیڈیمی نے انہیں ان کے تازہ افسانوی مجموعہ"دخمہ" کی اشاعت پر ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ سے نامزد کیا، انہیں آندھرا پردیش اردو اکیڈیمی کی جانب سے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ اور ان کی کتابوں پر اردو پانچ ایوارڈ ملے۔اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کی جانب سے انہیں سال 2016 ءکا باوقار مخدوم ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس طرح وہ ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ کے بعد باوقار مخدوم ایوارڈ کے حامل حیدرآبادی افسانہ نگار بن گئے۔


بیگ احساس پروفیسر مغنی تبسم کے انتقال کے بعد عالمی شہرت یافتہ رسالہ سب رس کے مدیر رہے۔ اور ملک کی کئی ادبی و لسانی تنطیموں سے وابستہ رہے۔ مختلف ادبی اجلاسوں اور سمیناروں میں شرکت کے لئے ملک و بیرون ملک کی جامعات اوراداروں کا دورہ کیا۔ انہیں دو سال قبل حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل رہی۔ جدہ میں ادبی انجمنوں نے ان کا خیر مقدم کیا تھا۔


بیگ احساس نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور گذشتہ تین دہائیوں میں انہوں نے جدید ڈکشن میں ایسی کہانیاں لکھیں ہیں کہ جدیداردو افسانہ کے موضوع پر گفتگو بیگ احساس کے حوالے کے بغیر ادھوری رہ جائے گی۔
"حنظل" (افسانوں کا مجموعہ) ان کے فن کا روشن نمائندہ ہے۔ تدریسی صلاحیت میں یہ اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ ایم اے ایم فل کے علاوہ پی ایچ ڈی کی سطح پر ان کے شاگردوں میں چند ایک نامور شاعر و ادیب بھی ہیں۔ ان کے مقالہ " کرشن چندر شخصیت اور فن " کے حوالے سے بیگ احساس کے تحقیقی معیار کو دنیائے ادب نے تسلیم کیا ہے۔
جامعہ عثمانیہ کی فاصلاتی تعلیم کے نصاب کی ترتیب اور دیگر اداروں کی نصابی کتب کی ترتیب کے حوالے سے بیگ احساس کو ماہرین تعلیم کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ فن افسانہ نگاری کے میدان میں اپنے آپ کو منوانے کے بعد بیگ احساس نے تنقید کے میدان میں قدم رکھتے ہی اپنی سنجیدہ متوازن ، متنی تنقیدکے پیمانوں سے معمور مدلل اور بصیرت افروز نکات کے حوالے سے ہندوستان کے شمال اور جنوب دونوں سمتوں میں اعتبار واحترام کے حامل ہو گئے۔


بیگ احساس نے ، اپنے ادبی سفر کے چالیس برسوں میں چارافسانوی مجموعوں کا گرانقدر سرمایہ دیا ہے جن میں "خوشئہ گندم "، " حنظل"، " درد کے خیمے" اور" دخمہ "شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے ادبی مضامین کا مجموعہ " شور جہاں " بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ انہوں نے تخلیقی اظہار کے لیے افسانہ کی صنف کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے سماجی تنقید کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش مسائل کا نہایت فنکارانہ اور تخلیقی پیرائے میں جائزہ لیا ہے۔ ان کی بعض تحریروں کا انگریزی کے علاوہ کنڑ زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔
ان کی ایوارڈ یافتہ تصنیف " دخمہ "دراصل سکندرآباد کے قدیم پارسی قبرستان کے قریب رہنے والوں کی زندگیوں کے گرد گھومتی ہے۔


Renown Urdu Author and short story writer Professor Baig Ehsas passes away.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں