موسیقی کا تعلق روح سے ہے - بالی ووڈ گلوکار محمد عزیز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-04

موسیقی کا تعلق روح سے ہے - بالی ووڈ گلوکار محمد عزیز

محمد عزیز (پیدائش: 2/جولائی 1958ء - وفات: 27/نومبر 2018ء)
بالی ووڈ کے ایسے ممتاز گلوکار رہے جن کی آواز لیجنڈ گلوکار محمد رفیع سے مشابہت رکھتی تھی۔ میوزک ڈائریکٹر انو ملک نے انہیں اداکار امیتابھ بچن کی فلم "مرد" میں ایک نغمہ 'مرد تانگے والا' گانے کا موقع دیا اور اسی نغمے نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا جس کے بعد وہ بالی ووڈ کے مقبول گلوکاروں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں محمد عزیز کی آواز میں گائے فلمی گیت سپر اسٹار امیتابھ بچن، متھن چکرورتی اور پھر گووندا پر فلمائے گئے۔ مشہور فلمی ماہنامہ "شمع" کے شمارہ جون:1988 میں ان کا ایک دلچسپ انٹرویو شائع ہوا تھا، جو یہاں پیش خدمت ہے۔

سوال:
فلمی موسیقی کی دنیا میں بطور پلے بیک سنگر جس طرح آپ ابھر کر بلندیوں کی طرف بڑھے ہیں، اس سفر کا آغاز کیسے ہوا؟
جواب:
گانے کا یہ سفر 1968ء میں شروع ہوا تھا جب میں نے پہلی بار چودہ (14) برس کی عمر میں اسٹیج پر رفیع صاحب کا ایک گیت "ساز ہو تم آواز ہوں میں" گایا تھا۔ یہ کلکتہ کی بات ہے۔ عید ملن کی تقریب تھی۔ کافی لوگوں کا مجمع تھا۔ جب مجھے اسٹیج پر بلایا گیا تو پہلے سرگوشیاں ابھریں پھر دھیما دھیما شور۔ مگر جب میں نے یہ گیت گایا تو سناٹا چھا گیا۔ گیت ختم ہوتے ہی اتنی تالیاں بجیں کہ میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔


سوال:
آپ فطرتاً خاموش، نرم خو اور ہنس مکھ ہیں مگر آپ پر محمد رفیع کا گہرا اثر ہے۔ کیا آپ بچپن ہی سے محمد رفیع کی آواز سے متاثر رہے ہیں؟
جواب:
جی ہاں، یہ سچ ہے کہ رفیع صاحب میرے آئیڈیل ہیں۔ میں نے ان کو ہی اپنا گرو مانا ہے۔ میں اسٹیج پر بچپن سے ہی صرف رفیع صاحب کے گیت گاتا رہا ہوں۔ آج تک کسی دوسرے سنگر کے گیتوں کو چھوا تک نہیں۔ اس لیے میرے گانوں میں ان کی چھاپ نظر آئے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ جیسے جیسے میں اپنے گانے گاتا جاؤں گا، میرا اپنا الگ انداز خود بخود ڈھلتا جائے گا۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ رفیع صاحب کی نقل کرتا ہوں، مگر میں اس بات کا برا نہیں مانتا کیونکہ میرے جیسے سنگر کے لیے تو یہ ایک تعریف کی انتہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ رفیع صاحب جیسے آرٹسٹ کی نقل نہیں کی جا سکتی۔ وہ تو ایک انجمن ہیں۔ موسیقی کا ایک پورا دور ہیں اور دور کو دہرایا نہیں جا سکتا۔


سوال:
محمد رفیع سے کیا کبھی آپ کی ملاقات ہوئی؟
جواب:
جی ہاں۔ رفیع صاحب سے میں پہلی بار 1976 میں کلکتہ کے کلا مندر میں ملا تھا۔ وہ ایک اسٹیج پروگرام کے لیے وہاں آئے تھے۔ پروگرام کے ایک آرگنائزر مجھے رفیع صاحب سے ملوانے کے لیے لے گئے تھے۔ میں نے دور سے ہی انہیں گرین روم میں بیٹھے دیکھا تو بس دیکھتا رہ گیا۔ بہت سے لوگ انہیں گھیرے ہوئے تھے۔ اور میں زور زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ چپ چاپ انہیں دیکھے جا رہا تھا۔ ایک دو بار ان کی مجھ پر نظر بھی پڑی لیکن انہوں نے مجھے کوئی اہمیت نہ دی۔ ان کا یہ رویہ فطری تھا، مگر پھر بھی مجھے دکھ ہوا۔ کچھ غصہ بھی آیا کہ صاحب فالتو لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں اور میں جو زندگی بھر ان ہی کے گیت گاتا رہا، اس سے بات نہیں کر رہے ہیں۔ دراصل میں ہتا نہیں کیوں رفیع صاحب پر اپنا حق محسوس کرنے لگا تھا۔ شاید اس کی وجہ لڑکپن کا ناپختہ شعور ہو، مگر میں اس حد تک اداس ہو گیا کہ رونے لگا۔ مجھے روتے دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا: "تم کیوں رو رہے ہو؟"
میں نے جواب دیا: "پہلی بار آپ کو اتنے قریب سے دیکھا تو رونا آ گیا۔ یہ خوشی کے آنسو ہیں"۔
اس وقت تک پروگرام کا وہ آرگنائزر بھی آ گیا اور اس نے رفیع صاحب کو بتایا کہ میں ان کا زبردست عقیدت مند ہوں۔ کشور کمار کے زمانے میں بھی رفیع صاحب ہی کے گانے گاتا ہوں۔ بعد میں اسٹیج پر میں نے رفیع صاحب کا کلاسیکی گیت "من تڑپت ہری درشن کو آج" گایا تو رفیع صاحب نے خوش ہو کر مجھے سینے سے لگا لیا۔
رفیع صاحب کی موت میری زندگی کا سب سے المناک واقعہ ہے۔ ایک صبح کو میں اٹھا تو میری چھوٹی بہن نے بتایا کہ رفیع صاحب نہیں رہے۔ مجھے یقین نہیں آیا تو اخبار دیکھا اور ان کے انتقال کی خبر پڑھ کر میری آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کلکتہ کے ایلیٹ روڈ پر ایک ریستوراں میں گایا کرتا تھا۔ رفیع صاحب کی موت کے بعد میں کئی دن تک گانا نہیں گا سکا۔ ریستوراں میں جا کر گاتا تو گاتے گاتے رو پڑتا۔ ادھورے گانے گا کر ہی چلا آتا۔ گانے کو میرا جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ مگر مجبوری تھی۔ روزی روٹی کا سوال تھا۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی گاتا رہا۔ رفیع صاحب کو بھول جانا میرے بس سے باہر کی بات ہے۔ آج بھی کبھی کبھی ریکارڈنگ پر گاتے ہوئے مجھے بری طرح ان کی یاد آ جاتی ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ میرا یہی گیت رفیع صاحب گاتے تو کتنا پراثر گیت ہوتا۔


سوال:
لتا منگیشکر کے ساتھ گانے کی خواہش ہر نئے سنگر کے دل میں ہوتی ہے۔ آپ نے پہلی بار لتا کے ساتھ گایا تو کیا محسوس کیا؟
جواب:
جی ہاں، لتا جی کے ساتھ گانے کی تمنا میرے دل میں بھی تھی۔ لتا جی کے ساتھ سب سے پہلا گیت میں نے فلم "پریم گرنتھ" کے لیے گایا تھا۔ یہ فلم راج کپور کا بیٹا چمپو بنا رہا تھا۔ مگر بعد میں "پریم گرنتھ" بند ہو گئی۔ اس فلم کے موسیقار انو ملک تھے۔ جب انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے لتا جی کے ساتھ گانا ہے تو مجھے یقین نہ آیا۔ اس وقت تک میں قریب سو سے زیادہ گانے گا چکا تھا۔ جب میں ریکارڈنگ پر پہنچا تو خوشی کے مارے میرا دل اچھلا پڑ رہا تھا۔ اس خوشی کے ساتھ تھوڑا ڈر بھی تھا کہ اگر میں ٹھیک طرح گا نہ سکا تو کہیں ہمیشہ کے لیے میری چھٹی نہ ہو جائے۔ لیکن لتا جی نے میری ہمت بندھائی، خود اعتمادی بڑھائی اور چھ سات ری ٹیک کے بعد گانا ریکارڈ ہو گیا۔ بعد میں "سیندور" کا ہٹ دوگانا "پت جھڑ ساون بسنت بہار" بھی ان کے ساتھ گایا۔ پھر "کب تک چپ رہوں گی" اور "آوارگی" میں بھی ان کے ساتھ گانے گائے ہیں۔ میں لتا جی کو دیدی کہتا ہوں۔ اسٹیج پر لتا جی کے ساتھ پہلی بار میں نے جےپور میں "لتا نائٹ" میں گایا۔ یہ پروگرام ایچ۔ ایم۔ وی نے ترتیب دیا تھا۔ اسی پروگرام میں، میں نے لتا جی کے ساتھ نو (9) گیت گائے۔ حال ہی میں لتا جی کے ساتھ مجھے امریکہ جانے کا آفر بھی ملا تھا، مگر میں لکشمی کانت پیارے لال شو کے لیے پہلے ہی بک ہو گیا تھا، اس لیے لتا جی کے ساتھ نہ جا سکا۔ یہ بیس دن کا ٹور ہے، جس کے لیے میں کل روانہ ہو جاؤں گا۔ ہم لندن، امریکہ، کناڈا وغیرہ میں کل نو (9) شو کریں گے۔


سوال:
کیا آپ کو کشور کمار کے ساتھ گانے کا موقع ملا؟
جواب:
جی ہاں، میں کشور کمار جی کو کشور دا کہتا تھا۔ ان کے ساتھ میں نے "زمانہ"، "گرفتار"، "مقدر کا فیصلہ" اور "انصاف کی پکار" وغیرہ میں گیت گائے۔ کشور دا کے ساتھ میری پہلی ملاقات "زمانہ" کی ریکارڈنگ پر ہوئی تھی۔ وہ مجھے بہت دلچسپ اور ملنسار انسان لگے۔ پہلی ہی ملاقات میں ہم گہرے دوست بن گئے۔ ایک بار ایک گانے کی ریکارڈنگ پر مجھے بھوک لگ رہی تھی تو میں نے کشور دا سے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے میں کچھ کھا کر آتا ہوں۔ جب میں لوٹا تو کشور دا نے پوچھا: "کیا کھا کر آیا؟"
میں نے جواب دیا: "بریانی"۔
دادا بہت خوش ہوئے اور بولے: "واہ! بریانی تو مجھے بھی بہت پسند ہے"۔
اس کے کچھ دن بعد کلکتہ میں جب "ہوپ 86" پروگرام کیا گیا تو کشور دا بھی اس میں شامل ہوئے۔ ہم سب ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ ایک دن میں اپنے گھر سے کشور دا کے لیے بریانی بنوا کر لایا تو اس قدر خوش ہوئے کہ بریانی کھاتے اور میری تعریفیں کرتے جاتے۔ بمبئی لوٹ کر تو انہوں نے اتنی تعریفیں کیں کہ میں سن سن کر شرمندہ ہونے لگا۔ انہوں نے میرا نام ہی "بریانی والا منا" رکھ دیا۔ وہ آخر تک پیار سے مجھے اسی نام سے بلاتے رہے۔ ان کے ساتھ گاتے ہوئے مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ میں کسی بڑے سنگر کے ساتھ گا رہا ہوں۔


سوال:
آشا بھونسلے کے ساتھ بھی کیا آپ نے گیت گائے ہیں؟
جواب:
آشا بھونسلے کے ساتھ میں نے سب سے زیادہ گیت گائے ہیں۔ ان گیتوں کی تعداد اب تک (جون-1988) 70 سے 80 تک ہے۔ پہلی بار آشا جی کے ساتھ میں نے فلم "گرفتار" (ریلیز: 1985) کے لیے دوگانا گایا تھا۔
اس فلم کی موسیقی بھپی لہری دے رہے تھے۔ انہوں نے ہی مجھے آشا جی سے متعارف کرایا تھا۔ گانے کی ریکارڈنگ پوری ہونے پر آشا جی نے کہا: "جب تم گا رہے تھے تو مجھے رفیع صاحب کی یاد آ رہی تھی"۔
آشا جی کے منہ سے یہ بات سن کر میرے آنسو نکل پڑے۔ یہ سچ مچ مجھ جیسے سنگر کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔


سوال:
اب تک کتنی زبانوں میں کتنے گیت گا چکے ہیں؟
جواب:
میں پندرہ سو سے زیادہ گیت گا چکا ہوں۔ ان میں ہندی کے علاوہ گجراتی، بنگلہ، اڑیا، پنجابی، ہریانوی اور بھوجپوری فلموں کے گیت بھی شامل ہیں۔


سوال:
کن کن موسیقاروں کے ساتھ آپ گا چکے ہیں؟
جواب:
نوشاد، روی اور او۔پی۔نیر کو چھوڑ کر میں سب ہی میوزک ڈائرکٹروں کے ساتھ گا چکا ہوں۔ سب سے زیادہ ریکارڈنگ لکشمی کانت پیارے لال کے ساتھ کی ہے۔ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہوگا کہ سب سے اچھا مجھ سے ایل۔پی نے ہی گوایا ہے۔


سوال:
کیا کبھی ایسا ہوا کہ گانے کی ریکارڈنگ پر آپ گاتے وقت جذباتی ہو گئے ہوں؟
جواب:
جی ہاں، اکثر ایسا ہوتا ہے۔ مثلاً فلم 'آخر کیوں' کے لیے گانا 'ایک اندھیرا لاکھ ستارے' گاتے وقت میں بہت جذباتی ہو گیا تھا۔ فلم "امرت" کے ایک دوگانے 'دنیا میں کتنا غم ہے' گاتے ہوئے میں لتا جی کے ساتھ اس قدر جذباتی ہو گیا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔


سوال:
غیرممالک میں اب تک کہاں کہاں گا چکے ہیں؟
جواب:
ہالینڈ، لندن، امریکہ، کناڈا، مڈل ایسٹ اور گلف میں اب تک بیس سے زیادہ شوز میں گا چکا ہوں۔


سوال:
فلموں میں اب تک آپ کی سب سے لمبی ریکارڈنگ کون سی رہی ہے؟
جواب:
یوں تو ہر بڑی فلم کے گیت کی ریکارڈنگ میں وقت لگتا ہے۔ لیکن فلم "رام لکھن" (ریلیز: جون 1989) کے ایک گیت کی ریکارڈنگ دو دن تک چلتی رہی۔ یہ میرے لیے اب تک کی سب سے طویل ریکارڈنگ ہے۔


سوال:
اپنی شہرت اور کامیابی سے آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
جواب:
کبھی کبھی بہت تکلیف ہوتی ہے اس شہرت سے۔ آپ آرام کرنا چاہتے ہیں یا کسی سے کوئی خاص بات کر رہے ہیں کہ کوئی بھی عقیدت مند آ جاتا ہے۔ اب اسے وقت بھی دے دوں تو پھر وہ گھنٹوں نہیں ہٹتا۔ کچھ عقیدت مند تو سارے دن کا پروگرام بنا کر آتے ہیں۔ ٹالنے کی کوشش کروں تو اخلاق آڑے آ جاتا ہے۔ ایک بار اپنے گھر کلکتہ گیا تو آس پڑوس کے لوگوں نے اس طرح گھیر لیا کہ میں کوئی پانچ منٹ بھی اپنے گھر والوں کو نہ دے سکا۔ حالانکہ اس بھیڑ میں اپنے لوگ زیادہ تھے، جنہوں نے بمبئی جاتے وقت یہ کہہ کر مذاق اڑایا تھا کہ رفیع بننے چلا ہے! مگر میں کبھی کسی کی بات کا برا نہیں مانتا، کیونکہ یہ سب کچھ شہرت اور کامیابی کے بدلے میں ہر آرٹسٹ کو جھیلنا ہی پڑتا ہے۔


سوال:
کیا آپ نے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم لی ہے؟
جواب:
جی ہاں، گانے والوں کے لیے یہ تو بہت ہی اہم ہے۔ میں نے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم اے۔ڈی مائیکل اور استاد امیر احمد خان سے لی ہے۔ میں پچھلے دس برس سے لگاتار کلاسیکل موسیقی سیکھ رہا ہوں۔
دراصل موسیقی کا رشتہ روح سے ہے اور اس سے پوری طرح اس صورت میں جڑا جا سکتا ہے جب کلاسیکل موسیقی کا برابر ریاض کیا جائے۔
آج کل تو ریکارڈنگ کے باعث مجھے ریاض کے لیے بہت ہی کم وقت ملتا ہے۔ سمجھ لیجیے کہ آج کل میرا زیادہ تر ریاض، اسٹوڈیو کی ریکارڈنگ پر ہی ہوتا ہے۔


سوال:
مستقبل کے امکانات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:
کامیابی کا آسمان بہت وسیع ہے اور اسے پانے کی کوشش میں کئی زندگیاں بھی ناکافی ہوں گی۔ میں تو اپنے مالک سے بس یہی چاہتا ہوں کہ جو عزت اور شہرت اس نے مجھے بخشی ہے، اسی کو قائم رکھے!!


محمد عزیز کے چند یادگار فلمی نغمے:
لال دوپٹہ ململ کا (فلم: لال دوپٹہ ململ کا - 1989)
دل بہلتا ہے میرا آپ کے آ جانے سے (فلم: خودغرض - 1987)
چھوٹی سی ہے بات کوئی نہیں جانے (فلم: کاش - 1987)
تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں گا (فلم: نام - 1986)
پت جھڑ ساون بسنت بہار (فلم: سندور - 1987)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: جون 1988

Mohammed Aziz, an interview from June-1988 issue of Shama Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں