جاوید اختر اور نصیرالدین شاہ ، یہ دو ایسی فلمی ہستیاں ہیں جن کی باتیں لوگ بہت سنجیدگی سے سُنتے ہیں۔ اور اگر باتیں پسند آئیں تو ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اِدھر حال کے دنوں میں اِن دونوں کے دو بیانات طالبان کے تعلق سے آئے ہیں۔
جاوید اختر کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس اور طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے ، دونوں ہی سفاک ہیں نیز ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ہی تعداد ہے جو طالبان کی حمایت کرتی ہے۔
نصیر الدین شاہ نے اپنے بیان میں طالبان کا کسی سے موازنہ تو نہیں کیا مگر وہ بھی طالبان کو وحشی قرار دیتے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ طالبان کی حمایت نہ کریں۔ اپنے بیان میں وہ "ہندوستانی اسلام" کی بات بھی کرتے ہیں۔۔۔
مجھے اِن دونوں ہی شخصیات کے بیانات پر حیرت ہے۔ حیرت اس لیے کہ آخر انہیں ایسے بیانات دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
کیا واقعی ہندوستانی مسلمان طالبان کی راہ میں پھول بچھا رہے ہیں ؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ طالبان کی فتح کے تعلق سے ہندوستانی مسلمانوں کا ردّعمل عین ویسا ہی ہے جیسا کہ ساری دنیا کے لوگوں کا ہے۔ ویٹ اینڈ واچ والا!
اب جہاں تک جاوید اختر کی بات ہے تو وہ طالبان اور آر ایس ایس کو ایک ہی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں ، لیکن اس ملک کے مسلمان اگر ایسا کریں گے تو انہیں جیل کی ہوا کھانا پڑ سکتی ہے۔ طالبان کے بہانے ہی آسام میں 14/ مسلمانوں کو ظالمانہ قانون 'یو اے پی اے' کے تحت گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا اور سماج وادی پارٹی کے سنبھل کے بزرگ قائد شفیق الرحمٰن برق پر غداری کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آر ایس ایس اور طالبان کو ایک ہی پلڑے میں رکھنے کے باوجود جاوید اختر پر کوئی مقدمہ نہیں بنے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ جاوید اختر کے اس بیان سے فائدہ آر ایس ایس کو ہی پہنچنے والا ہے ، وی ایچ پی اور بی جے پی ہی فائدہ اٹھانے والی ہے۔
نصیرالدین شاہ کا بیان بھی سنگھیوں کے فائدے کا ہی ہے۔ اس طرح کے بیانات کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ:
"دیکھ لو یہ مسلمان اداکار بھی سمجھا رہے ہیں کہ بھارتی مسلمان طالبان کی حمایت نہ کریں مگر یہ مسلمان ہیں کہ مانتے ہی نہیں اور ساتھ میں ہمیں بھی طالبان کی صف میں کھڑا کر رہے ہیں۔"
جاوید اختر اور نصیرالدین شاہ کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے مسلمانوں کے اپنے اتنے مسائل ہیں کہ طالبان کا بوجھ وہ اپنے سر نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ دنیاکے ہر اس انسان کی طرح جو خون خرابے کی بجائے امن کا خواہاں ہے، بھارتی مسلمان بھی یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن وامان قائم ہو ، بھلے ہی امن و امان کا یہ قیام طالبان کے ہاتھوں ہو۔۔۔۔
اس دنیا میں سفاک اور وحشی صرف طالبان ہی نہیں ہیں وہ حکمران اور وہ ممالک بھی ہیں جو 'انسان دوستی' کی رٹ لگائے رہتے ہیں لیکن اپنی حکمرانی اور اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لیے انسانوں پر بموں کی برسات کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
افغانستان کو کھنڈر بنانے والے امریکہ ، برطانیہ ، فرانس وغیرہ بھی وحشی اور سفاک ہی ہیں۔ اور عراق کو برباد کرنے والے ممالک بھی۔ اور فلسطین میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے صہیونی بھی۔
وحشیوں کی اور سفاک حکمرانوں کی اس دنیا میں کمی نہیں ہے۔۔۔ لیکن ہم اپنے نظریات کے اس قدر غلام ہو چکے ہیں کہ ہمیں وہی سفاک اور وحشی نظر آتے ہیں ، جو ہمارے نظریے کے خلاف ہوں یا ہیں۔۔۔
جاوید اختر اور نصیرالدین شاہ بھلے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں ، فرقہ پرستی کے مخالف بھی ہیں ، لیکن ہر اس نظریےکے ، جو ان کے نظریے پر درست نہ اترتا ہو ، مخالف ہیں۔۔۔۔ نصیرالدین شاہ کا "ہندوستانی اسلام" کہنے کا سیدھا یہی مطلب ہے کہ وہ صرف طالبان ہی کی نہیں، دنیا بھر میں اسلام کی جو شکل ہے ، اسے پسند نہیں کرتے۔ انہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ دنیا بھر میں ایک ہی اسلام ہے۔ اسلام کو طالبان سے جوڑنا درست نہیں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں