مجروح سلطان پوری کی کچھ یادیں - از رفعت سروش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-01

مجروح سلطان پوری کی کچھ یادیں - از رفعت سروش

majrooh-sultanpuri

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا، وہ جاوداں بنتا گیا


ستون دار پر رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تک یہ ستم کی سیاہ رات چلے


مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
تراہاتھ ہاتھ میں آ گیا تو چراغ راہ میں جل گئے


اردو غزل کے سینکڑوں سال کے انمول سرمائے میں ایسے بلیغ اشعار کا اضافہ کرنے والا شاعر شعوری طور پر غزل کو ترقی پسندتحریک سے ہم آہنگ کرنے والا شاعر، اور زندگی کے گرم و سرد کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والا شاعر مجروح سلطان پوری بھی دنیا سے اٹھ گیا اور سوگوار کر گیا اپنے ہزاروں لاکھوں شائقین کو اور سونی کر گیا غزل کی فضا کو۔


24 اور 25 /مئی کی درمیانی شب میں اس شاعر نے آخری سانس لی،کبھی جس کانفس نفس نغمہ تھا اور جس کی آواز میں لحن داؤدی سرایت کرگئی تھی۔


زہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔اوائل 1945ء کی کوئی شام - اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سینکڑوں علماء شعراء، دانشور فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناںاردو بازار سے نکلا اور حسب معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیز یہپہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہرشخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بینچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا - یہ ہیں مجروح سلطان پوری - میں نے مجروح کا نام مشاعروں کے حوالوں سے سنا تھا۔ میں نے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔ مولانا نے میرا تعارف بھی بحیثیت شاعر کرایا ۔ میں نے اپنی نظم"مداوا"سنائی اور مجروح نے وہ غزل جس کامشہورمصرعہ ہے"رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ" اور وہ خوبصورت گیت جس کاٹیپ کا مصرعہ ہے۔
کیا کہے مجھے کیایا دآیا


اس گیت میں گاؤں کی زندگی اور قصباتی رومان اور ماحول کا ذکر ہے۔


مجروح کا ترنم بے مثال تھا۔ ایک خستگی دل کو چھوتی ہوئی۔۔۔ – ان دنوں مجاز اور جذبی کے علاوہ نخشب جارچوی اور شکیل بدایونی مقبول نو جوان شعرا تھے۔ مجروح کا ترنم بہت پرسوز اور پر سکون تھا - پرسکون میں نے اس لیے کہا کہ ساغر نظامی اور مجاز کا ترنم نہایت رواں دواں تھا، جیسے تیز رو در یا ہوشعرونغمہ کا۔ اس وقت تک مجروح کا کلام صف اول کے ادبی رسائل میں نظر نہیں آتا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ رسائل میں چھپنے کے لیے ایسی نظمیں ہونی چاہئیں جیسی آپ کی ہیں۔(ان دنوں میری نظمیں ہمایوں، ادبی دنیا، نیرنگ خیال اور شاہکار وغیر ہ لاہور کے ادبی رسالوں میں چھپتی تھیں)


تویہ تھی مجروح سلطان پوری سے میری پہلی ملاقات۔ ایک خوبصورت شام مجروح کی غزل اور گیت کے ساتھ گزری۔


اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعراکوجگر مراد آبادی سر پرستی حاصل تھی۔چاہے شکیل ہوں ، رازمراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری ۔۔یا بعد میں شمیم جے پوری۔۔۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعرا کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ بمبئی میں پنجاب مسلم ایسوی ایشن کے سالانہ مشاعرے ‘اقبال ڈے ‘کے موقع پر ہوتے تھے۔ ایسے ہی ایک مشاعرے میں ایک سال جگر صاحب ساتھ خمار بارہ بنکوی بھی پہنچے اور کاردار فلم پروڈکشنز میں بحیثیت شاعر ملازم ہو گئے ۔ اگلے سال مجروح سلطان پوری پہنچے اور وہ بھی کاردار صاحب کی فلم کمپنی میں ملازم ہو گئے - کاردار کی مشہور فلم " شاہجہاں "میں ان دونوں شعرا کا کلام شامل ہے۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجادظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خودنوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے ۔


مجروح کی عملی وابستگی انجمن ترقی پسند مصنفین سے شروع شروع میں بالکل نہیں تھی۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی دو کانفرنسوں ۔۔حیدر آباد اور رائے پور میں دور دور تک نہیں تھے ، حالانکہ ان دنوں وہ بمبئی میں موجود تھے۔ پھربنے بھائی کے گھر پر انجمن کی ہفتہ واری نشستوں میں آنے لگے۔ جب وہ پہلی بارنشست میں آئے تھے تو انھوں نے وہ غزل پڑھی تھی جس کی زمین ہے ۔۔شمع سرخ کا پروانہ برسوں سے۔۔ میں اس امر کا عینی شاہد ہوں کہ میٹنگ کے بعد سردار جعفری کو الگ لے جا کر مجروح نے ان سے کہا کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس غزل کو اپنے رسالے "نیا ادب" میں شائع کر دیں ۔ سردار نے بخوشی شائع کرنے کی حامی بھر لی اور پھر مجروح کا کلام"نیا ادب" میں چھنے لگا ۔ اور وہ آہستہ آہستہ انجمن کے سرگرم رکن بن گئے ۔ وہ غزل کے کٹر حامی تھے۔ چنانچہ ایک با رسید ذوالفقارعلی بخاری کی تجویز پر انجمن کی ایک نشست میں "غزل بہ مقابلہ نظم" پر مناظرہ ہوا۔ اس مناظرے میں جس صدق دلی سے مجروح نے غزل کی موافقت کی تھی اسی شدومد سے اختر الایمان نے غزل کی مخالفت کی۔


ان دنوں مدن پورے (بمبئی) کے ایک علاقے" منگلی کدوری" میں انقلابی مشاعرے ہوتے تھے۔ ان مشاعروں کا ذکر بنے بھائی کی کتاب "روشنائی’ میں موجود ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان مشاعروں میں سردار جعفری، کیفی اعظمی ، رفعت سروش اور نیاز حیدر پابندی سے شرکت کرتے تھے۔ بعد میں مجروح سلطان پوری بھی حصہ لینے لگے تھے۔


غرض مجروح کی وابستگی انجمن ترقی پسند مصنفین سے بڑھتی گئی اور انھوں نے اپنے خوبصورت روایتی انداز کو چھوڑ کر غزل میں ایسے اشعار نکالے جو اگر چہ فنی طور پر غزل کا منہ چڑاتے تھے مگران دنوں ان کی شہرت انھیں اشعار کے حوالے سے ہوگئی:


آ نکل کے باہر اب دوزخی کے خانے سے
کام چل نہیں سکتا اب کسی بہانے سے
اہل دل اگائیں گے کھیت میں مہ و انجم
اب گہر سبک ہوگا ایک جو کے دانے سے


امن کا جھنڈا اس دھرتی پرکس نے کہا لہرانے نہ پائے
ہے یہ کوئی بٹلر کاچیلا ،مار لے ساتھی جانے نہ پائے


اتفاق سے یہی وہ غزل ہے جو انھوں نے بلاسس روڈ کے چوراہے پر پروفیسر سامری کے مشاعرے میں پڑھی اور مائک کے استعمال کی مدت (رات گیارہ بجے) ختم ہو جانے کی وجہ سے امتناعی حکم کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں مجروح سلطان پوری اور نیاز حیدر کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہو گیا ۔ نیاز حیدر نے اپنی نظم"ر قص بغاوت" پڑھی تھی اور وہیں پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تھے اور کئی ماہ جیل میں رہے مجروح بہت دن تک انڈرگراؤنڈ رہے۔ آخرتقریبا گیارہ مہینے بعد ناگپاڑے (بمبئی) کے ایک مشاعرے میں انھوں نے شرکت کی اور مشاعرے کے فورا بعدی آئی ڈی انسپکٹر مسٹر شیخ نے ان کوگرفتارکر تے ہوئے کہا:


تراہاتھ ہاتھ میں آ گیا تو چراغ راہ میں جل گئے


مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں ۔ یہاں تک ہواکہ انھوں نے اپنی نئی شادی شدہ بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ بیدی صاحب کوفلموں میں خاصا کام ملنے لگا تھا۔ •


دوربمبئی کے ترقی پسند مصنفین کے لیے سخت آزمائش کا دور تھا۔ مجروح کی گرفتاری کے کچھ دن بعد ایک دن پولیس سردار جعفری کو ان کے گھر سے گرفتار کر کے لے گئی ۔ ظ۔ انصاری اور بلراج ساہنی بھی گرفتار ہوگئے ۔ یہ دونوں کچھ دن بعد مشروط طور پر رہا کر دیئے گئے تھے مگر رہائی کے بعد ان کا"تزکیہ نفس" ہو چکا تھا۔ بلراج ساہنی اپٹا کی سرگرمیوں سے الگ ہوکرفلمی دنیا میں جاپہنچے اور ظ۔ انصاری کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار" نیاز مانہ" سے بے ضرر اخبار" انقلاب" کی طرف مراجعت کر گئے۔ تقریباً یہی وہ زمانہ ہے جب مجھے ہوش آیا کہ انقلابی مشاعروں سے باز آ جاؤں ۔ پر بنے بھائی کی بات یاد آتی ہے، انھوں نے"روشنائی" میں لکھا ہے کہ رفعت سروش اپنی ریڈیو کی نوکری کو خطرے میں ڈال کر انجمنوں کے جلسوں میں آتے تھے ۔۔وہ زمانہ تھا آزادی سے پہلے کا، اور آزادی کے بعد توبائیں بازو پر سخت حملہ تھا۔۔ مجھے میرے ایک ہمدرد نے بتایا کہ تمھارافائل بھی تیار ہے تمھاری نظمیں۔۔۔" انقلاب روس کی بتیسویں سالگرہ پر" اور" ہڑتال" بالکل اوپرلگی ہوئی ہیں۔۔۔ – یہ دونوں" گرم اور سرخ نظمیں" کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان ہفتہ وار "محاذ" میں شائع ہوئی تھیں ۔"چراغ"حیدر آباد اور "شاہراہ" دہلی میں میری دومطبوعہ نظموں پر نزلہ گر چکا تھا۔ اور میں نے ان دنوں بہت سی ایسی نظمیں کہی تھیں اور جلسوں میں پڑھی تھیں جو "خوف فساد خلق"سے غیر مطبوعہ رہ گئی تھیں۔۔ اب اس کو مصلحت پسندی کہئے یا دور اندیشی ، کہ جب میں نے دیکھا کی گرفتاریوں کے ساتھ "ہم نفسوں" کو کوئی خاص ہمدردی نہیں ہوتی ہے تو میں نے دھیرے دھیرے اپنی روش بدلی۔ ڈائریکٹ نظمیں کہنا بند کیں اور جلسوں میں شرکت کرنے میں بھی احتیاط برتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں بھوپال بھیمڑی اور کلکتہ کی کانفرنسوں میں شریک نہیں ہوا۔ ورنہ ایک زمانے میں میری شامیں کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں گزرتی تھیں اور اسی جھکاؤ کو دیکھتے ہوئے ایک بار مجھ سے سلطانہ بیگم نے کہا تھا کہ پارٹی کے ممبر کیوں نہیں بن جاتے اور میں نے کہا تھا کہ میں اتنا ڈسپلن برداشت نہیں کرسکتا۔


اس پس منظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو مجروح سلطان پوری کا یہ عمل دانش مندانہ تھا کہ وہ رہائی کے بعد فکر معاش میں گرفتار ہو گئے ۔ اب انھیں فلموں میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے شدید جد و جہد سے دوچار ہونا پڑا ،فلمی شاعری کا منظر نامہ یہ تھا کہ نوشاد تو صرف شکیل بدایونی سے گانے لکھواتے تھے، اور ایس ڈی برمن صرف ساحر لدھیانوی سے۔ نخشب جارچوی کا اپنا مارکیٹ تھا۔ وہ تو شاعر سے فلم ساز بن گئے تھے۔ مجروح کو زیادہ کام ملا او پی نیر سے ۔ اور ان کی کامیابی کی ضمانت ہیں ایسے گانے کی۔۔۔سی اے پی کیٹ ، کینٹ معنی بلی" اور "کبھی آر،کبھی پار، لگا تیر نظر"۔۔۔۔ بہرحال مجروح نے فلموں میں اپنا مقام بنا لیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے، اور اس داستان کا آخری سرا یہ ہے کہ انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا، جو ہندوستانی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔


ادب سے ان کی غیر حاضری تاریخ میں درج ہے۔ سجادظہیر نے پاکستان سے واپس آنے کے بعد شب افسانہ ومشاعرہ کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس میں بمبئی کے بہت سے اہم ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی ۔ ان جلسوں میں مجروح نہیں نظر نہیں آئے۔ پہلاشب افسانہ ومشاعرہ پروگرام 1960ء کے آس پاس دہلی کے ٹاؤن ہال میں منعقد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں ساحر لدھیانوی ،جاں نثار اختر ، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، پرکاش پنڈت، انوعظیم، فراق گورکھپوری ، راقم الحروف ، رضیہ سجادظہیر اور واجدہ تبسم وغیرہ شامل تھیں ۔ اس پروگرام میں مجروح سلطان پوری نہیں آئے تھے۔ یہی وہ تاریخی جلسہ تھا جس میں واجدہ تبسم نے اپنے افسانے کے بجائے فلم "مغل اعظم "کی نعت ترنم سے پڑھنی شروع کر دی تھی اور سجادظہیر حیرت سے جاں نثار اختر کو دیکھ رہےتھے کہ کسی کا نام تجویز کیا تم نے! اور یہی وہ ہنگامہ خیز جلسہ تھا جس کی مذمت کرتے ہوئے فراق گورکھپوری نے کہا تھا کہ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوا کہ افسانے یوں سرجلسہ پڑھے گئے ہوں ۔ اور بھی مخالفین نے ان کی تقریر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلسے میں" کرسیوں کا کھیل شروع" کردیا تھا۔


اس طرح کا ایک اور بڑا جلسہ آگرہ میں منعقد کیا گیا تھا جس میں خواجہ احمد عباس اور ساحر لدھیانوی تو آگئے تھے مگر مجروح نے یہ کہہ کر ( بقول سجادظہیر ) معذرت کر لی تھی کہ بمبئی سے ذراہٹنے پر میرے مارکیٹ پراثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ شب افسانہ ومشاعرہ پروگرام دراصل پارٹی کے غیر سرکاری اخبار کی مالی امداد کے لیے منعقد کیے جاتے تھے، اور ان کے انعقاد میں "ہمدردان پارٹی" ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان لوگوں سے بنے بھائی امدادی رقم ایڈوانس لے لیتے تھے اور وہ اپنے اثر و رسوخ کی بناپر ادیبوں اور شاعروں کو اس شرط پر مدعو کرتے تھے کہ وہ شرکت کا معاوضہ نہیں لیںگے۔


غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پند مصنفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے ۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی - نام کو اب بھی ہے مگر اس طرح جیسے ایک ماہرغوطہ خورکبھی کبھی تہہ دریا سے سطح آب پر آجائے اور پھر غوطہزن ہو جائے۔


مجروح سلطان پوری ان خوش نصیب شعرامیں سے ہیں جنھوں نے کم سے کم کہا، اور زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کی۔۔جب فلمی دنیا کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگےتو اس چیختی چنگھاڑتی دنیا میں" طوطئ مجروح" کی ضرورت کم ہونے لگی اور انھوں نے پھر ادبی دنیا کی طرف سبقت کی ۔ وہ واپس آئےاپنی ایک نظم" قلم گوید کے" ساتھ مگراب زمانہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ انھوں نے کچھ دن فیض ا حمد فیض کی غزل اور اپنی غزل گوئی کے مابین مکالمہ چھیڑا،مگر ادب کی دنیا میں ایسے مکالمے اور مناظرے بے سود ثابت ہوتے ہیں ۔ آسمان ادب پر ہر ستارے کی اپنی جگہ ہوتی ہے،فیض،فیض ہی رہے اور مجروح، مجروح - مجروح نے اپنے پرانے سرمایہ غزل میں بہت کم اضافہ کیا اور ان کی شہرت کا ضامن دراصل ان کا نوجوانی کا کلام ہی ہے۔ بہرحال چند سال پیشتر انھیں غالب ایوارڈ اور پھر اردو کا سب سے بڑاانعام" اقبال سمان" بھی پیش کیا گیا اور وہ آخر دم تک شہرت کی بلند ترین چوٹیوں پرمتمکن رہے۔ ان کی اس شہرت میں سیاسی جوڑ توڑ اور کتر بیونت کا کوئی دخل نہیں۔ وہ ایک کھرے انسان اور کھرے شاعر تھے۔ کینہ پروری بغض وحسد، غیبت اور اس طرح کی دوسری خباثتوں سے ان کا ذہن پاک تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور آخر وقت تک کام کرتے رہے۔


ترقی پسندی کا جوہر ان کی فکر میں پوست تھا جو بہترین اشعار کی صورت میں جلوہ گر ہوتا رہا اور عزم و استقلال اور رجائیت ان کی شاعری کی پہچان بن گئی۔
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو، چاک گریباں تم سے زیادہ


سرپرہوائے ظلم چلے سوجتن کے ساتھ
اپنی کلا ہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ


میں محسوس کرتا ہوں کہ تاریخ اپنے آپ کوکسی نہ کسی شکل میں دہراتی ہے۔ انیسویں صدی میں غزل کاالبیلا شاعرحکیم مومن خاں مومن پیدا ہوا تھا جس کا اس کے رنگ میں کوئی ثانی نہیں، اور جو رکھ رکھاؤ اور خوداعتمادی مومن کے یہاں تھی غالب کو بھی نصیب نہ تھی۔۔ بیسویں صدی میں حکیم اسراراحمد خاں مجروح پیدا ہوئے۔ جس طرح مومن کی شاعری ان کی حکمت پر غالب آگئی تھی وہی صورت مجروح کے ساتھ ہوئی ۔ اور مزاج کی سادگی، فراخ دلی اور انسانیت کی اعلی اقدار سےمتصف مجروح اپنی جولانی طبع دکھا کر اٹھ گئے مگر ان کا جواب پیدا ہونا مشکل ہے۔ مجروح کے اشعار بیسویں صدی کی غزل کی آبرو ہیں ۔ وہ غزل کا زبردست حامی تھا اور ایک زمانے میں وہ اکیلا تھا غزل گو ،ترقی پسندی کے منظر نامے میں۔۔ کیا کیا شعردے گیا ہے وہ اردوکو:


ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہیں ہر نگاہ خریدار کی طرح


بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح


مجروح نے بے شک غزل سے وفا کاحق ادا کر دیا۔ وہ مردانہ دار زندگی کا مقابلہ کرتا تھا:


فسانہ جبر کایاروں کی طرح کیوں مجروح
مزا تو جب ہے کہ جو کہئے برملا کہئے


مجروح اپنے ناقدوں کے لیے ایک سوال چھوڑ گئے ہیں اور یہ سوال ان کی انفرادیت پر دلالت کرتاہے۔


صحرا میں بگولہ بھی ہے مجروح صبا بھی
ہم سا کوئی آوارہ عالم تو نہیں ہے


مجروح کی خود اعتمادی اور انفرادیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی:


دہر میں مجروح کوئی جادواں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا


ماخوذ :
علم و ادب کے روشن چراغ (مضامین)
مصنف و ناشر : رفعت سروش۔ (سن اشاعت: 2006ء)

Some memoirs of the Majrooh Sultanpuri. Article: Rifat Sarosh.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں