آگرے کی ادبی شخصیتیں - از میکش اکبرآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-06

آگرے کی ادبی شخصیتیں - از میکش اکبرآبادی

literary-personalities-of-agra

یہ ضرور ہے کہ آگرے کے اہل ہنر ضرورت سے زیادہ اپنے حال میں مست رہے۔ شاہ جہاں کے آگرے سے جانے کے بعد آگرہ ایک گوشہ ہوکر رہ گیا۔ اور آگرے والے گوشہ نشین۔ میاں نظیر کو نواب واجد علی شاہ نے بلایا تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ میں تو وہاں تک جاتا ہوں جہاں تک تاج محل کے مینارے نظرآتے رہتے ہیں۔ ساری عمر لڑکے پڑھا کر گزادی مگر آگرہ نہ چھوڑا۔ میر اور غالب اگر آگرے سے باہر نہ چلے گئے ہوتے تو شاید یہ مقام حاصل نہ کرتے جو آج انہیں حاصل ہے۔ میاں نظیر کے لڑکے خلیفہ گلزار علی اسیر کئی دیوانوں اور کتابوں کے مصنف تھے، مگر آج خود آگرے کے لوگوں کو ان کا کوئی شعر یاد نہیں۔ کاشی والے راجہ بلوان سنگھ کا خدا بھلا کرے کہ وہ شاعری میں اسیر کے شاگرد تھے اور زندگی بھر ساٹھ روپے ماہ وار انہیں دیتے تھے۔ ایک طرحی مشاعرہ میں مہر اور ماہ جیسے اردو کے نامی شاعر بھی موجود تھے۔ مگر اسیر کی غزل سب سے اچھی رہی اسیر غزل پڑھ چکے تو ایک رئیس نے محفل ہی میں ہتھیلی پر ایک اشرفی رکھ کر اسیر کو پیش کی۔ اسیر نے کہا، ابھی ایک شعر اور باقی ہے وہ اور سن لیجئے۔


سفلے نے زر ہتھیلی پر رکھ کر دیا تو کیا
چلتی ہے مٹھی اہل کرم کی بندھی ہوئی


میں نے ان اساتذہ کے دیکھنے کو بھی اچھی طرح نہیں دیکھا لیکن سنتا آیا ہوں کہ اسیر اور مہر ماہ کے بعد آگرے میں چار ستون سمجھے جاتے تھے۔ رئیس، واصف، نثار،اور عالی۔ اب ہمارے ہاتھ میں نہ لوگوں کا کلام ہے نہ ان کی مفصل تاریخ ، اعجاز صدیقی نے رسالہ شاعر اور رعناوہ صبا اکبر الہ آبادی نے "مشورے کا" آگرہ نمبر شائع کر کے یہ احسان کیا کہ آگرے کے اہل قلم کے مختصر حالات یکجا کردئے۔


آگرے کی ادبی شخصیتوں کا حال مولانا سیماب، خادم علی خاں اخضر یا دلگیر شاہ کو لکھنا چاہئے تھا، کیوںکہ ان لوگوں نے رئیس، واصف وغیرہ کو نہ صرف یہ کہ دیکھا ہے بلکہ ان کے سامنے مشاعرے بھی پڑھے ہیں ان کی صحبت میں بیٹھے ہیں۔ مگر اب تو ہ سب لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ خادم علی خاں اخضر کا انتقال تو ابھی 60؁ میں پاکستان جاکر ہوا ہے۔ خاں صاحب عجیب آدمی تھے وہ شاعری بھی کرتے تھے تجارت بھی اور لیڈری بھی۔ الیکشن بھی لڑتے تھے اور مشاعرے بھی۔ خود تو میونسپلٹی کی ممبری سے آگے نہ بڑھے مگر کونسل اور اسمبلی کے الیکشن انہوں نے خوب لڑائے۔ ہر طبقے اور ہر طرح کے لوگ ان سے مشورہ لینا ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی تجارتی سوجھ بوجھ کا کارنامہ آگرے کی شو مارکیٹ کی تعمیر اور اس کی انجمن کی تنظیم ہے جسے آگرے والے کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ ان کا ادبی کارنامہ تو صرف چند تصنیفوں تک محدود ہے۔
یہ تصنیفیں ان کے کام کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ، وہ ایک ایک نشست میں سیکڑوں شعر کہہ ڈالتے تھے۔ آپ جب ان کے مکان پر جائیں گے ، انہیں شعر لکھتا ہوا پائیں گے مگر خط وہ جناتی کہ خود بھی مشکل سے پڑھتے تھے۔ ہمیشہ ایک ایسے کاتب کی تلاش میں رہے جو ان کے سامنے بیٹھ کر ان کی غزلیں صاف کردے۔ دوسروں کو بنانے اور خچ اڑانے میں خاں صاحب کا جواب ہی نہ تھا اس کے لئے نہ وقت اور موقع کی قید تھی نہ خلوت و جلوت کی۔ ہنسنا ہنسانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ایک مرتبہ مرزا یا س یگانہ لکھنوی آگرے آئے اور مرزا نجم آفندی کے مہمان ہوئے۔ نجم صاحب نے ان کے اعزاز میں ایک مختصر صحبت منعقد کی۔ فانی، اخضر ، دلگیر، مانی، مخمور صاحبان سب ہی جمع تھے۔ باتیں ہورہی تھیں یگانہ صاحب لکھنو کے شعر ا کا ذکر خیر فرمارہے تھے۔ وہ ان سبھی سے خفا تھے ، فرمانے لگے کہ ایک مشاعرے میں عزیز لکھنوی نے شعر پڑھا:
دل سمجھتا تھا کہ خلوت میں وہ تنہا ہوں گے
میں نے پردے کو جو الٹا تو قیامت دیکھی


میں نے اس طرح داد دی کہ عزیز کہنے لگے آپ نے تو میرا شعر ضائع کردیا۔ باتیں ختم ہوئیں اور غزل خوانی شروع ہوئی۔ جب یگانہ صاحب کی باری آئی تو انہوں نے مطلع پڑھا۔
پیام زیر لب ایسا کہ کچھ سنانہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی رہا نہ گیا


دلگیر شاہ نے ایک چبھتے ہوئے فقرے سے اس شعر کا استقبال کیا۔ ان سے یگانہ صاحب سے پہلے سے تعارف بھی تھا اور بے تکلفی بھی۔ مگر اخضر صاحب سے آج ہی ملاقات ہوئی تھی۔ اخضر صاحب کہنے لگے: واہ مرزا صاحب۔ سبحان اللہ ، آپ نے پورا کوک شاستر ایک شعر میں جمع کردیا ہے۔ خدا کی شان کہ اب وہی اخضر صاحب ایسے ہوگئے تھے کہ غیر تو غیر ان کے بعض ناخلف شاگرد محفل میں ان پر فقرے کستے تھے۔ خاں صاحب کے دفتر نے گھورے کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ان کے کمرے میں جھاڑو کے نام پر پھونک مار کر بھی کوئی چیز صاف نہ کی جاتی۔ میز سے زیادہ کرسیوں پر ضروری اور غیر ضروری کاغذوں کے ڈھیر لگے رہتے۔ ان کے کوٹ اور شیروانیاں سال بھر ٹنگے رہتے۔ ان میں مکڑیاں جالے تن لیتیں اور چھپکلیاں انڈے دیتی رہتیں۔ اور ان کو جب ضرورت ہوتی وہ یوں ہی اتار کر زیب تن فرما لیتے۔
مخمور صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ اخضر آگرے کے مرزاسودا ہیں۔ ذرا کسی سے ناخوش ہوئے اور ایک نظم سے اس کی تواضع کر دی۔ وہ نظم ایسی لاجواب ہوتی کہ گھنٹوں میں عام لوگوں کی زبان پر چڑھ جاتی ایک سے ایک اس کی نقلیں مانگتا پھرتا۔ اور لوگ انہیں یاد کرلیتے۔ سنا ہے اب حیدرآباد ، سندھ میں اسی سازوسامان کے ساتھ تشریف فرما ہیں، لیکن سب سے زیادہ موزوں شخصیت جس پر لکھا جانا چاہئے وہ ل۔ احمد ہیں۔ وہ آگرے کے سب سے بڑے اور اہم نثر نگار ہیں۔ ہیں تو وہ ہندوستانی اکبر آبادی اور قریشی برادری کے ایک فرد۔ لیکن اپنے مزاج، دماغ اور دوسری خوبیوں کے اعتبار سے ان سب نسبتوں سے بلند اور برتر ہیں۔ جس کے اعتبار سے مختصر مگر دل اور دماغ کے اعتبار سے بہت وسیع۔ میں نے انہیں شدید سے شدید پریشانیوں میں اتنا مستقل متحمل مزاج پایا ہے کہ اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ ان کے چہرے سے ان کی گہرائی اور ان کے دل کی حالت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
ل۔ احمد صاحب نے افسانے لکھے ہیں، تجارت کی ہے، دوستوں کی تواضع کی ہے اور سیاست میں حصہ لیا ہے۔ افسانے میں ان کی حیثیت ملک میں اور تواضع میں دوستوں میں مسلم ہے۔ تجارت میں کبھی کامیاب رہے اور کبھی ناکامیاب۔ لیکن سیاست میں وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ سیاست میں میرا مطلب صرف الیکشن بازی سے ہے۔ اور یہی ان کے اچھے ہونے کی دلیل ہے ، کیوں کہ وہ سب کو اچھا سمجھ لیتے اور سب پر بھروسہ کرلیتے ہیں۔ آگرہ جن شخصیتوں پر ہمیشہ ناز کرے گا ان میں ل۔ احمد کی شخصیت بہت نمایاں رہے گی۔ بقول حضرت سیماب اکبر آباد : نازش ہے ارض تاج کو ذات لطیف پر۔ ان کی تصانیف اور ترجمے بہت ہیں اور ان کے پڑھے بغیر کوئی ان کی قابلیت اور شخصیت کا اندازہ نہیں کرسکتا ملک انہیں صف اول کے افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتا ہے۔ ل۔ احمد صاحب کے ذکر کے ساتھ ہی شاہ دلگیر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، کیوں کہ ل۔ احمد صاحب ، دلگیر شاہ، مخمور اور امام اکبر آبادی سب ہم نشین اور ہم مذاق اصحاب میں تھے۔


شاہ دلگیر ایڈیٹر 'نقاد' مرحوم میرے بہت قریب کے رشتہ دار اور ہمسایہ تھے۔ وہ مجھ سے عمر میں بہت بڑے تھے اس لئے مجھے ان کی عمر کا لحاظ کرنا پڑتا تھا۔ مگر وہ اتنے بے تکلف اور خوش باش تھے کہ ان باتوں کی طرف توجہ بھی نہ کرتے۔ تنہائی کی طرح محفلوں میں بھی فقرے کستے اور قہقہے لگاتے۔ ان کے پاس بیٹھ کر وقت بڑا اچھا کٹتا تھا۔ وہ خوش ہونا اور خوش کرنا جانتے تھے۔ شعر اتنا اچھا سمجھتے تھے کہ کوئی کم سمجھے گا۔ اچھے شعر انہیں بہت یاد تھے وہ کسی سے خوش ہوں یا ناخوش مگر اس کے اچھے شعروں کی داد بڑی فراخ دلی سے دیتے تھے، خفا بھی جلدی ہوجاتے اور معذرت بھی جلدی قبول کرلیتے۔ البتہ اس کے لئے معذرت چاہنے والے کو کبھی کبھی ان کی اور ان کے دوستوں کی دعوت بھی کرنی پڑتی تھی۔ پھر ان کا دل صاف ہوجاتا تھا ایک مرتبہ ہم لوگ متھرا سے ایک شادی میں شریک ہوکر واپس ہورہے تھے ، شہر کے ایک اور بزرگ بھی ساتھ تھے، جنہوں نے متھرا سے پیڑے خریدے تھے۔ شاہ دلگیر نے مجھ سے کہا کہ ان کے پیڑے کھانا چاہئیں ، تم ان سے مانگو۔ یہ تم سے انکار نہیں کریں گے۔ میرے لئے یہ جرات کس طرح ممکن نہ تھی میں چپ ہوگیا تو انہوں نے خود ہی بات شروع کی۔ متھرا کے پیڑوں کی تعریف کی پھر ان بزرگ کی تعریف کی۔ اور پھر ایک پیڑا چکھنے کو مانگا، پھر دوسرا اورتیسرا اس طرح کئی پیڑے کھاگئے۔ اس کے لئے انہوں نے خوشامد بھی کی، خدا رسول کا واسطہ بھی دیا۔ ہاتھ اور دامن پھیلا کر کھڑے بھی ہوئے اور زبردستی بھی کی۔ قہقہے لگاتے جاتے اور پیڑے کھاتے جاتے۔ ان کے واقعات اور لطیفے بہت ہیں، جو ان کے خاص دوستوں جیسے نیاز فتح پوری ، ل۔ احمد، مخمور اور مانی صاحبان کو یاد ہیں اور ان کے بیان کرنے کا حق بھی مجھ سے زیادہ انہیں کو ہے۔ دلگیر کہا کرتے تھے شاعر صرف حسن دیکھتا ہے۔ وہ اپنے ہم عصروں کی طرح شاعرانہ قواعد و ضوابط کے سختی سے پابند تھے۔ ایک دفعہ میں اپنی ایک غزل پڑھ رہا تھا، جب میں نے یہ شعر پڑھا:
میرے رونے پہ رو دیے وہ بھی
بد گمانی نکل گئی دل کی


تو انہوں نے مجھے ٹوکا، کہنے لگے معشوق کا رونا مسلمات شاعری کے خلاف ہے ، ایسا ہوتا نہیں ہے میں نے کہا۔ مگر میرے ساتھ ایسا ہوا اس لئے مجھے لکھنے کا حق ہے، ہنسنے لگے ، مگر انہوں نے تسلیم نہیں کیا۔ محض اس لئے کہ اب تک کسی شاعرنے نہیں لکھا تھا اردو کی تاریخ میں ان کا نام ایڈیٹر نقاد کی حیثیت سے زندہ رہے گا۔


مولانا سیماب اکبر آبادی ہمارے دور کے وہ تنہا اکبرآبادی شاعر تھے جنہیں آگرے کے باہر سب سے زیادہ لوگ ایک شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ آگرے والوں نے ان کی قدر نہ کی مگر انہوں نے آگرے کا نام زندہ بھی کیا اور روشن بھی۔ مولانا خواہ مخواہ کسی سے نہ الجھتے تھے وہ بہت مہذب اور رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے ، مگر جو ان سے الجھے یا ان کے کمال کے دعوے کو چیلنج کرے تو وہ اسے معاف بھی نہ کرتے تھے۔ وہ سب سے علیحدہ اپنا ایک مرکز بنائے ہوئے ادب کی خدمت میں اس طرح مصروف رہتے جیسے کوئی عبادت کرتا ہے۔ وہ بڑی پابندی سے مشاعروں میں شریک ہوتے اور ہمیشہ طرح پر غزل کہتے۔ وہ کہا کرتے تھے، میں کسی ایسے طرحی مشاعرے میں شریک نہیں ہوا جہاں میں نے طرح میں غزل نہ پڑھی ہو۔ اس بارے میں وہ ہمیشہ مجھ سے میری شکایت فرمایا کرتے تھے کیونکہ میں ہمیشہ سے مشاعروں میں مجبوری سے ہی شریک ہوتا ہوں۔


سیماب صاحب کے ہنسنے بولنے اور مزاج میں ایک توازن اور رکھ رکھاؤ تھا، وہ چھوٹوں سے مہربانی بڑے اور ربرابر والوں سے تہذیب سے پیش آتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنے سے چھوٹوں کو آگے بڑھانے اور ان کے کام کو سراہنے میں بخیلی اور تنگ دلی سے کام نہیں لیا۔ اور نہ ہم عصروں کے ساتھ ایسا کیا۔ مولانا عمر میں مجھ سے بہت متفاوت تھے مگر انہوں نے کبھی اپنی بزرگی مجھ پر عاید نہ فرمائی ایک روز مجھے انہوں نے کہا آپ اپنا کلام رسالوں میں کیوں نہیں شائع کراتے ، کیا یہ شاعری عاقبت میں کام آئے گی۔ مجھ پر ان کی اس نصیحت کا بہت اثر ہوا اور اس کے بعد سے جب بھی رسالوں کے ایڈیٹر مجھ سے کچھ مانگتے ہیں تو میں انکار نہیں کرتا۔


کسی زمانے میں آگرے میں عید ڈنر کے نام سے عید کی شام کو ایک اجتماع(سمیلن) ہوتا تھا۔ جس میں شہر کے ہندو مسلم شرفاء کو ایک جگہ جمع ہونے اور مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ ایک بار میں دیر سے پہنچا پنڈال بھر چکا تھا اور یہ ناممکن تھاکہ میں سب لوگوں سے مل سکوں اس لئے میں پاس پاس کے دس بیس لوگوں سے مل کر بیٹھ گیا۔ مولانا سیماب ذرا فاصلے پر تھے وہ خود میرے پاس آئے اور یہ شعر پڑھتے ہوئے گلے ملے۔
وہ نہ آئے تو تو ہی چل اے داغ
اس میں کیا تیری شان جاتی ہے


مولانا سیماب اس حیثیت سے بھی خوش قسمت تھے کہ انہوں نے بہت سی تصانیف، بے شمار شاگرد اور عجازصدیقی ایڈیٹر شاعر بمبئی اور منظر صدیقی ایڈیٹر پرچم کراچی جیسے لائق فرزند اور جاں نشین چھوڑے ، جن کی وجہ سے ان کا نام اور کام زندہ ہے۔


فانی بدایونی کا آگرے آنا میرے لئے بہت بابرکت ہوا اور وہ میرے پاس اکثر آیا کرتے تھے اور کبھی کبھی میں بھی ان کے یہاں حاضر ہوتا اور ان کی مخصوص ادبی صحبتوں میں شریک ہوتا تھا۔ فانی صاحب کے دوستوں کا حلقہ بہت مخصوص اور محدود تھا ، ان میں سے ایک مخمور صاحب اکبر آبادی بھی تھے وہ شاعر بھی ہیں ادیب بھی ، ناقد اور افسانہ نگار بھی اور فانی صاحب کے ہم پیشہ یعنی وکیل بھی چنانچہ ان صحبتوں میں شریک ہونے سے مجھے مخمور صاحب ل۔احمد صاحب، مانی صاحب کی مجالست بھی میسر آگئی۔ نیاز مندی تو پہلے سے بھی حاصل تھی۔ مخمور صاحب بڑے ذہین اور ذی علم انسان ہیں۔ ان کی بے تکلفی میں بھی ایک خوش نما شائستگی اور مزاح میں بھی متانت ہے۔ ایک روز جوش ملیح آبادی اور مخمور صاحب میرے یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ صحبت پر لطف بھی تھی اور بے تکلف بھی مخمور صاحب نے جوش صاحب سے کہا۔ آج اپنے دوستوں پر تبصرہ کیجئے، میں نے کہا، یہ کیا تبصرہ کریں گے، ان کا حال تو یہ ہے کہ ایک رشتہ دار سے خفا ہوگئے اور نظم لکھ ڈالی سب آگرے والوں پر۔
اے رفیقان اکبر آبادی
دل وفا کا ہے تم سے فریادی


مخمور صاحب نے پھر اصرار کیا اور جوش صاحب بلبل ہزار داستان کی طرح چہکنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے فانی صاحب کی شامت آئی۔ پھر مانی صاحب اور دوسرے دوستوں پر مہربانی ہوئی اور آخر میں ل۔ احمد پر تان ٹوٹی۔ مخمور صاحب کہنے لگے مجھے اور میکش صاحب کو کیوں چھوڑ دیا۔ جوش صاحب نے ہم دونوں پر بھی نواز ش شروع کردی، مگر بہت نرم اور پر لطف، ایسے لطیفے اکثر مخمور صاحب برپا رکھتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ ان کی تصنیفوں سے ایک چھوٹی الماری بھری ہوئی دیکھی تھی روح نظیر ان کا ایک نہ مٹنے والا کارنامہ ہے۔


ان حضرات کے دور سے پہلے بزرگوں کے میں نے تذکرے ہی سنے ہیں اور ان میں سے چند کو دیکھا بھی ہے تو بچپن ہی میں دیکھا ہے۔ ان میں مرزا خادم حسین رئیس یہاں کی بڑی اہم شخصیت تھی۔ میں نے ان کا جنازہ ہی دیکھا۔ جنازے پر شامیانہ تنا ہوا تھا اور اسے شہد ے اٹھاے ہوئے تھے۔ یہ طریقہ پرانے شیعہ رئیسوں کے یہاں رائج تھا، خوش وضع رنگین طبع اور نازک مزاج تھے۔ مرزا صاحب میں جذبہ اعتراف کم تھا اور وہ دوسرے شعراء کو شاعر بہت کم مانتے تھے، چنانچہ فرماتے ہیں۔
اغلاط ہیں کہیں کہیں اغلاق اے رئیس
دیکھے کلام داغ و امیر و جلال کے


جب مشاعرے میں پانو پر پانو رکھ کر اور تن کر بیٹھ جاتے تھے تو کسی کو آنکھ ملانے کی جرات نہ ہوتی تھی ، اپنا حقہ کسی کو نہیں پلاتے تھے۔ مشاعروں میں مٹی کا حقہ پیتے تھے۔ دراز قد سفید رنگ اور داڑھی صاف، مونچھے بڑی بڑی انگرکھا اور دو پلڑی ٹوپی پہننے کا شوق تھا۔ پاجامہ اکثر بڑے پائنچوں کا پہنتے تھے ظرافت مزاج میں حد سے زیادہ تھی بات بات پر منہ سے گالی نکل جاتی تھی۔ مگر غیر دل شکن۔ بے حد ملنسار، زندہ دل اور نیک طبیعت انسان تھے۔ عمر بھر شعر کہے اور چھپوانے کے لئے جب کسی نے کہا تو انکار کردیا۔ 25؍جنوری 1914ء بعارضہ سل انتقال کیا۔ (اقتباس از شاعر آگرہ نمبر جون 36ء)


سنا ہے کہ کسی زمانے میں آگرے میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا تھا اس میں داغ دہلوی بھی آئے تھے، داغ نے یہ شعر پڑھا۔
بڑا مزہ ہے جو محشر میں میں کروں شکوہ
وہ منتّوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لئے


مرزا رئیس نے محفل ہی میں انہیں ٹوکا کہ حضرت محشر میں شکوہ شکایت کا کیا موقع ہوگا ، یوں کہنا چاہئے:
بڑا مزہ ہو جو محشر میں میں کروں فریاد


کچھ روز اس سلسلے میں بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ آخر مرزا داغ نے رئیس صاحب کو لکھا: چپ رہو خدا کے لئے، اور یہ معرکہ ختم ہوا۔


اسی طرح ایک مرتبہ مشاعرہ ہوا، طرح ،تھی:
پھر رہے ہیں آئینے میں سانپ لہراتے ہوئے


دہلی کے آغا شاعر نے ایک شعر پڑھا جس کا دوسرا مصرعہ تھا۔
کاسۂ فغفور دیکھے ٹھوکریں کھاتے ہوئے


تو مرزا رئیس نے سر مشاعرہ ٹوکا، کاسہ فغفور کیا۔
یوں کہئے۔۔۔
کاسۂ سران کے دیکھے ٹھوکریں کھاتے ہوئے۔


یہ قصے میں نے پرانے لوگوں سے سنے ہیں اک واقعہ خود اپنا باپو پربھو دیال صاحب شام اکبر آبادی سناتے تھے کہ ایک مشاعرے میں میں نے یہ شعر پڑھا:
ہر بن موشکر کرنے کا بنا گویا زبان
تیری نعمت کا ادا پھر بھی نہ شکرانہ ہوا


مرزا صاحب نے فرمایا کہ کیا مولانا(نثار) کو غزل نہیں دکھائی تھی۔ مولانا نثار بھی موجود تھے ، انہوں نے کہا مجھ سے فروگزاشت ہوگئی ہوگی آپ درست فرمادیں، رئیس صاحب نے کہا اس طرح کہو:
ہر بن موشکر کرنے کو بناگویا دہاں


اور اگر زبان ہی کہنا چاہتے ہو تو پھر یوں کہو:
ہر سر مو شکر کرنے کو بنا گویا زباں


اسی زمانے میں ایک اور بزرگ تھے ماسٹر سید تصوف حسین، واصف، یہ بات مشہور ہے کہ وہ آگرے کے سب سے زیادہ نازک خیال شاعر تھے اور وہ خود بھی بہت نازک قسم کے آدمی تھے۔ دبلے پتلے، لمبا قد ، اودی مخمل کی ٹوپی خشخشی داڑھی، گورا رنگ، چشمہ لگائے رہتے ، زکام کے سدا مریض باتیں بہت جلدی جلدی کرتے ، آداب سلام کے بجائے سب سے بندگی کرتے تھے وہ مجھے اس لئے یاد ہیں وہ روزانہ شام کو ہمارے یہاں آتے تھے کوئی اور ہو یہ نہ ہو ہم تو بھائی بچے تھے۔ اکثر کوئی ان سے با ت کرنے والا بھی نہ ہوتا مگر انہیں اپنا معمول پورا کرتا تھا۔ ان کا آنا میرے والد کے زمانے سے تھا پھر والد صاحب کا انتقال ہوگیا تو چاچا صاحب کے پاس آتے رہے، ان کا بھی انتقال ہوگیا ، مگر وہ برابر اپنے وقت پر آتے رہے۔ ہمارے یہاں ان کے بیٹھنے کی بھی ایک جگہ مقرر تھی۔ اگر کوئی غلطی سے ان کی جگہ بیٹھ جاتا تو وہ واپس ہوجاتے ان کی وضع داری کا ایک قصہ ان کے دوستوں سے سنا ہے ، کہ ایک مرتبہ کچھ آزاد منش دھوکے سے انہیں ایک طوائف کے مکان پر لے گئے ، ماسٹر صاحب کو معلوم نہ تھا، کہ یہ مکان کس کا ہے۔ اس زمانے میں ڈیرہ دار طوائفیں شریفوں کی طرح اندر پردے کے مکانوں میں رہتی تھیں اور ہما شامان ان کے یہاں جا بھی نہیں سکتے تھے۔ ماسٹر صاحب پہنچنے کو تو پہنچ گئے مگر وہاں کسی قسم کی ناگواری ظاہر نہ کی۔ وہ وہاں بیٹھے اور پانوں کی تھالی میں دو ایک روپیہ ڈال آئے۔ اس واقعہ کے بعد سال میں ایک بار وہاں جاتے اور روپیہ اسی طرح دے کر چلے آتے۔ ان کا کلام بھی آگرے کے اور شعروں کی طرح ضائع ہوگیا۔ان کی ایک نظم المراج اور ایک تضمین"تربت شاہد نار" ان کے سامنے ہی شائع ہوئی تھی جواب نایاب ہیں، تضمین کا ایک ابتدائی بند مجھے اب بھی یاد ہے۔


اک دن جو سوئے گور غریباں ہوا گزر
کچھ ڈھیر ٹوٹی قبروں کے آگے مجھے نظر


چادر چڑھائی اشکوں کی میں نے بہ چشم تر
آئی ندا کسی کی کہ اے میرے نوحہ گر


آہستہ برگ گل بہ فشاں بر مزار ما
بس نازک است شیشہ دل در کنار ما


مولانا نثار علی صاحب نثار کو میں نے اچھی طرح دیکھا ہے ، چوگوشیا کڑھی ہوئی ٹوپی، چشمہ لگائے ہوئے نیچا کرتا اور اس پر صدری ، گندمی رنگ، شرعی داڑھی آنکھوں میں آشوب کی قسم کا کوئی مرض یہ ان کی وضع قطع تھی۔ میرے رشتے کے بھائیوں نے ایک انجمن بنائی تھی جس میں ماہانہ مشاعرہ ہوتا تھا۔ چار پانچ ہم چچا زاد ، پھوپھی زاد بھائی، چار پانچ ہمارے کلاس فیلو بیٹھ جاتے اور الٹی سیدھی غزلیں پڑھتے اور خوش ہولیتے۔ اس انجمن میں ایک لڑکا نثار صاحب کا شاگرد ہوگیا۔ وہ کبھی کبھی مولانا نثار صاحب کو بھی ان مشاعروں میں لے آتا، مولانا بڑے خلوص اور قاعدہ سے شریک ہوتے۔ اچھے شعروں کی داد دیتے اور آخر میں اپنی غزل سناتے۔ کبھی کسی کے شعر پر اعتراض نہ کرتے ، نہ اصلاح دیتے ، نہ شاگرد بنانے کی کوشش کرتے۔ بڑے درویش صفت آدمی تھے۔ یہ پہلے مرزا حاتم علی بیگ، مہر کے شاگرد تھے۔ پھر جب شاہ محمد اکبردانا پوری کے مرید ہوئے تو غزل بھی شاہ صاحب ہی کو دکھانے لگے۔ حالانکہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ مولانا نثار کا مرتبہ شاعری میں شاہ اکبر سے اونچا ہے۔ آگرے اور آگرے سے باہر مولانا کے شاگرد بہت تھے جن میں بے چم شاہ وارثی، مظہر اکبر آبادی اور بابو پربھودیال شام نے مولانا کا نام خوب روشن کیا۔ ان میں سے خدا کا شکر ہے کہ شام صاحب زندہ ہیں۔ ان کے دم سے مولانا کے نام کے ساتھ اگلی شرافت اور تہذیب بھی زندہ ہے۔ شعر بھی خوب کہتے ہیں اور تحت اللفظ پڑھنے میں دور دور اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ان کے والد ماسٹر شنکر دیال صاحب آگرے کے نامی وکیل تھے۔ عاشق تخلص کرتے تھے اور سنا ہے کہ مرزا غالب کے شاگرد تھے۔ شام صاحب کے چھوٹے بھائی بابو کشن دیال آگرے کے بڑے نامی وکیل تھے۔


میرے بچپن میں مشاعرے مولانا نثار صاحب کی سرپرستی میں ہوا کرتے تھے۔ مولانا سیماب، شاہ دلگیر، شام، مظہر اور فلک صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ دلگیر صاحب کے سوا ان سب شاعروں کے شاگردوں کے غول کے غول تھے۔ جو مشاعروں کو سر پر اٹھا لیتے تھے۔ خصوصاً فلک صاحب مرحوم کے شاگرد بہت تھے۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میرے سو شاگرد ہیں، فلک صاحب مشاعروں میں جاتے تو دولھا بنے ہوئے شادیوں کی برات ساتھ لیے جاتے۔ ان کی زبان سے مصرع نکلا اور جیسے کرام مچ گیا۔ فلک صاحب کا گشت روزانہ شام کو سیو کے بازار سے کشمیری بازار مال کے بازار تک لگتا تھا دن کو تو اپنے معمولی لباس میں رہتے لیکن شام کو ہاتھ کی پہاڑی لکڑی کے سوا سارا بانابدل جاتا۔ کبھی گلابی، کبھی نیلی، کبھی زرد ریشم کی شیروانی کلابتو کی زرین گول ٹوپی، گلے میں ہار منہ میں پان پانو میں دلی کی سلیم شاہی ایک ہاتھ میں پہاڑی موٹا ٹھنڈا اور دوسرے ہاتھ کو مومن خاں کی طرح جنبش دیتے ہوئے شعر گنگناتے ہوئے ، بازار کے اس سرے سے اس سرے تک بل لگایا کرتے۔ پیچھے پیچھے چار خاص شاگرد حکیم وصی حسن شباب ، حکیم بال کشن باغ، شمس اور کاشف وغیرہ باآدب چلتے تھے اور اپنی اپنی غزلوں پر اصلاح لیتے جاتے۔ فلک صاحب مرزا رئیس کے شاگرد تھے اور فلک صاحب کے خاص شاگرد میں باغ صاحب تھے۔ ان کا ابھی نومبر 56؁ میں انتقال ہوا ہے۔ باغ صاحب آگرے کی شاعرانہ روایت کو بڑی خوبی سے سنبھالے ہوئے تھے اور غزل بہت اچھی لکھتے تھے۔


نثار اور واصف کے دور شاعروں میں سب سے زیادہ عمر مرزا عاشق حسین بزم آفندی نے پائی۔ ابھی چند سال ہوئے جب حیدرآباد دکن میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ ان کا تعلق دربار رام پور سے تھا۔ مرزا صاحب منیر شکوہ آبادی کے شاگرد تھے۔ ان کی باتیں بے حد دل چسپ تھیں۔ وہ آگرے کے مشہور شاعروں میں سے تھے۔ ان کی زبان سند ہے ان کے صاحبزادے مرزا نجم آفندی ان کے سہی جانشین اور یادگار ہیں۔ شعرو ادب میں اپنے والد کی طرح ان کا مقام بھی بہت بلند ہے۔ ایک عرصے سے وہ پرنس معظم جاہ کے ساتھ ان کے استاد کی حیثیت سے رہتے ہیں۔


آگرے کے ادیبوں ، شاعروں اور مصفنوں کا جب بھی کوئی تذکرہ لکھاجائے گا اس میں حافظ امام الدین اکبر آبادی ، مفتی انتظام اللہ شہابی، رعنا اکبر آبادی کا ذکر ضرور ہوگا اور ان حضرات کے علاوہ مرزا عظیم بیگ چغتائی مرحوم کی ذات ایسی نہیں ہے جس کا ذکر نہ کیاجائے۔ مرزا چغتائی تحریر میں جتنے شگفتہ اور زندہ دل معلوم ہوتے ہیں بظاہر ایسے نہ تھے وہ کچھ خاموش اور مرجھائے ہوئے سے رہتے تھے ایک بات یہ بھی ہے کہ ان کے تایا مرزا ابراہیم بیگ صاحب چغتائی مجھ پر اتنے مہربان تھے کہ جب بھی میں ان لوگوں سے ملنے جاتا وہ اپنے سوا کسی سے بات ہی نہ کرتے۔ ان کی باتیں ختم نہ ہوتیں تھیں ، مرزا ابراہیم بیگ صاحب شاعر بھی تھے اور مختلف قسم کی کتابوں کے مصنف بھی ان کی جوانی کی خبر نہیں ہے مگر ان کا سا مقدس بڑھاپا کم دیکھا۔ بارہ گھنٹے کی نمازیں اور بارہ مہینے کے روزے رکھتے انہیں کو دیکھا۔ ان کے واقعات لطیفوں سے کم نہیں مگر سب سے بڑا مجسم لطیفہ ان کے خلف اکبر مرزا فہیم بیگ چغتائی تھے وہ اکثر باہر رہتے تھے۔ دو چار دس پندرہ دن کے لئے آگرے آجاتے تھے۔ جتنی دیر بیٹھتے لطیفے سناتے رہتے اور خود نہ ہنستے۔ یہ حضرت آگرے کے تھے مگر بعض حضرات یہاں ایسے بھی تھے جو تھے تو باہر کے مگر ساری عمر ان کی آگرے میں گزاری اور آگرے والوں کو انہوںنے بہت کچھ دیا۔ مفتی محمد سعادت اللہ صاحب ارائیلی ساری عمر مدرسہ عالیہ آگرہ میں مدرس رہے۔ عربی ادب اور حدیث میں ان کا جواب ملنا مشکل ہے۔ فارسی اردو میں سعدی تخلص فرماتے تھے اور ہم مخصوص طالب علموں کے سوا کسی کو شعر نہ سناتے نہ اشعار نقل کرنے دیتے، میں نے جو کچھ دینیات اور معقول پڑھا اس کا بیشتر حصہ مفتی صاحب سے ہی پڑھا۔ ل۔ احمد صاحب اکبر آبادی نواب فیاض صاحب امام اکبر آبادی ، پنڈت راج ناتھ صاحب کنز اور ان جیسے بہت سے اصحاب مفتی صاحب کے شاگرد رہے ہیں۔ مفتی صاحب کی خصوصیات لکھنے کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے اسی طرح مولانا حامد حسن صاحب قادری اور پروفیسر طاہر فاروقی صاحب کے دم سے آگرے کی علمی ادبی محفلیں روشن تھیں یہ دونوں حضرات بھی پاکستانی ہوگئے اور اب بھی آگرہ تو ہے مگر آگرہ معلوم نہیں ہوتا، مکین و مکان بدل گئے زمین و آسمان بدل گئے ، تہذیب و اخلاق بدل گئے۔ اور اب تو زبان بھی بدلتی معلوم ہورہی ہے۔ ان چیزوں کا غم کرنے والے بھی کچھ روز میں نہ ہوں گے اور داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی شمع خاموش کا بھی ذکر ہی رہ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
آگرے کے شاعر - از میکش اکبرآبادی

ماخوذ از کتاب: آگرہ اور آگرے والے (خودنوشت از: میکش اکبرآبادی)
مرتب: سید حیدر علی شاہ رند اکبرآبادی
ناشر: لطیف فاطمہ نفیسہ شاہ (زیر اہتمام: ارشد علی خاں۔ سن اشاعت: 2002ء)

The Literary personalities of Agra. by: Maikash Akbarabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں