آگرے کے شاعر - از میکش اکبرآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-06

آگرے کے شاعر - از میکش اکبرآبادی

agra-ke-shaair

دنیا میں آئے اتنی عمر گزر گئی مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کل ہی سے ہوش سنبھالا ہے۔ ہاں جب گزرے ہوئے واقعے یاد آتے ہیں اور ان کی تعداد کا خیال آتا ہے تو اس وقت ضرور اپنی عمر کا احساس ہوتا ہے اور واقعوں کا حال یہ ہے کہ یاد آتے ہیں تو آتے ہی جاتے ہیں ختم ہونے کا نام نہیں لی تے۔ مصیبتوں کا خیال آتا ہے تو دل کانپ جاتا ہے۔ پتھروں پہ یہ بپتا پڑتی تو پانی ہوجاتے۔ خوشی کے دنوں کی یاد کیجئے تو جو خوشیاں اب چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں اس وقت حاصل زندگی معلوم ہوتی تھیں۔ جدھر جاؤ اُدھر محبت اور عزت۔ حسن کی پوری ایک دنیا، محبت کرنے والوں کے قافلے کے قافلے اہل علم و فن کے کارواں در کارواں۔

یہ آگرہ جہاں میں نے آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا ، جہاں کے خاک کے ذرے ذرے میں مجھے اپنی جوانی اور بچپن مہکتے محسوس ہوتے ہیں۔اس آگرے کے لئے مشہور تھا کہ یہاں سات دن اور آٹھ میلے ہوتے ہیں۔ ہندو مسلم اتحاد اوربھائی چارہ ایسا تھا کہ شادی بیاہ میلے ٹھیلے جلسے جلوس سب ملے جلے ہوتے تھے۔ محرم، رام لیلا تاج محل اور کیلاش کے میلوں میں جتنے ہندو اور اتنے مسلمان۔ پھر ان میں کیسے کیسے بانکے ترچھے اور صاحبان کمال کیا کیا کہئے اور کسے کسے یاد کیجئے۔ آئیے اس وقت کچھ شاعروں کا حال آپ کو سناؤں۔

بچپن میں سب سے پہلے جس شاعر کو میں نے دیکھا وہ سید تصوف حسین واصف اکبر آبادی تھے۔ میرے والد کے زمانے سے وہ روزانہ شام کو ہمارے یہاں آتے تھے اور مغرب کی نماز پڑھ کر چلے جاتے تھے۔ آندھی آئے یا مینہ انکا معمول قضا نہ ہوتا۔ والد قبلہ کا وصال ہوگیا۔ کوئی ان کو خوش آمدید کہنے والا نہ رہا، میں بہت چھوٹا تھا۔ مگر واصف صاحب جب تک زندہ رہے برابر آتے رہے۔ واصف آگرے کے ان چارشاعروں میں تھے جو آگرے کی شاعری کے ستون سمجھے جاتے تھے۔
ان کے علاوہ مرزا خادم حسین رئیس تھے جو مجھے یاد نہیں۔ مرزا خادم حسین بڑے ذی علم، حاضر دماغ اور حاضر جواب تھے۔ بڑے بڑے شاعروں کو برسرِ محفل ٹوک دیتے تھے۔ سنا ہے انہوں نے ا پنا کلام اسی لئے نہیں چھپوایا کہ لوگ انتقام لیں گے اور ان کے کلام پر اعتراض کریں گے۔ ان دو کے علاوہ مولانا سید نثار علی اور شیخ بزرگ علی عالی یہ دو اور بزرگ تھے۔ افسوس یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا دیوان شائع نہ ہوا۔ ان کے شاگرد بہت تھے مگر اب وہ بھی سب ختم ہوچکے۔ ان کی صف کے ایک اور مشہور شعر مرزا بزم آفندی تھے جو ان شاعروں کے بہت دن بعد تک زندہ رہے اور ان کے کئی دیوان شائع ہوئے مگر وہ چوں کہ نواب صاحب رام پور کے مصاحبین میں تھے اور رام پور میں رہتے تھے اس لئے آگرے کی شاعرانہ محفلیں ان کے دم قدم سے محروم رہیں۔ بزم صاحب آخر عمر میں آگرے تشریف لے آئے تھے اور شاعرانہ ہنگاموں سے دور رہتے تھے۔
ان کے صاحبزادے نجم آفندی حیدرآباد میں مستقل مقیم تھے وہاں سے کراچی چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ انہوں نے بھی بڑا نام پیدا کیا۔ ان بزرگوں کے بعد آگرے کی شاعرانہ اور غیر شاعرانہ زندگی میں اہمیت رکھنے والے منشی خادم علی خاں اخضر تھے۔ انہوں نے ہزاروں غزلیں کہیں اور ساری عمر ایسے کاتب کی تلاش میں رہے جو ان کا کلام صاف کردے اور وہ اسے شائع کرا لیں۔ خاں صاحب خوب آدمی تھے وہ شاعری بھی کرتے تھے ، تجارت اور لیڈری بھی۔ الیکشن بھی لڑاتے تھے اور شاعروں کو بھی۔ خود میونسپلٹی کی ممبری سے آگے نہ بڑھے مگر دوسروں کے کونسل اور اسمبلی کے الیکشن انہوں نے خوب لڑائے ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگ ان سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی تجارتی سوجھ بوجھ کا کارنامہ آگرے کی شو مارکیٹ کی تعمیر اور اس کی انجمن کی تنظیم ہے جسے آگرے والے کبھی بھول نہیں سکتے۔ ان کے شاعرانہ کارنامے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں مگر وہ ایک نشست میں سیکڑوں شعر کہہ ڈالتے۔ آپ جب ان کے مکان پر جائیں گے انہیں شعر کہتا ہوا یا باتیں کرتا ہوا دیکھیں گے۔ دوسروں پر فقرے کسنے اور بیوقوف بنانے میں انہیں لطف آتا تھا۔ اس کے لئے نہ وقت اور موقع کی قید تھی نہ محفل اور تنہائی کی۔ ہنسنا ہنسانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
خدا کی شان وہی خاں صاحب اب ایسے ہوگئے تھے کہ غیر تو غیر ان کے بعض نالائق شاگرد ان پر ہنستے تھے۔ خاں صاحب کے دفتر نے گھورے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ان کے کمرے میں کوئی جھاڑو نہیں دے سکتا تھا کیوں کہ ان کی میز پر اور میز سے زیادہ کرسیوں پر ضروری اور غیر ضروری کاغذ جمع رہتے۔ ان کے کوٹ اور شیروانیاں سال بھر تک دفتر میں ٹنگی رہتیں۔ ان مین مکڑیاں جالے بُن لیتیں، چھپکلیاں انڈے دے دیتیں اور خاں صاحب کو جب ضرورت ہوتی بغیر جھاڑے انہیں پہن لیتے۔
مخمور صاحب کہا کرتے کہ اخضر آگرے کے مرزا سودا ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہجو کہنے میں ان کا جواب نہ تھا۔ ذرا کسی سے ناخوش ہوئے اور ایک نظم سے اس کی خاطر کردی اور وہ نظم ایسی کہ گھنٹوں میں لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتی۔ ایک سے ایک اس کی نقلیں مانگتا پھرتا اور دوسروں کو سناتا پھرتا۔ آخری عمر میں خاں صاحب پاکستان چلے گئے اور وہیں کی خاک کے پیوند ہوگئے۔ ان کی غزلیں ان کی نظمیں ان کے فقرے اور ان کی محفلیں سب خواب و خیال ہوگئے۔

اسی صف کے ایک بزرگ سید نظام الدین شاہ دلگیر ایڈیٹر نقّاد تھے۔ نقاد اپنے زمانے کا چوٹی کا ماہنامہ تھا۔ سچ پوچھئے تو نیاز فتح پوری ، ل۔ احمد۔ مانی جائسی، مخمور اکبرآبادی، ضیاء عباس ہاشمی اور بہت سے اہل قلم حضرات کو نقاد ہی نے روشناس کرایا۔ دلگیر ایک صوفی منش شاعر اور صوفی خاندان کے فرد تھے مگر وہ طبعاً بے تکلف سادہ مزاج اور خوش باش انسان تھے۔ تنہائی اور محفل ان کے لئے یکساں تھی۔ وہ اخضر، سیماب وغیرہ کی صف کے شاعر اور ان کے بے تکلف دوستوں میں تھے۔ شعر اس طرح پڑھتے کہ محفل پر چھا جاتے۔ جو شعر ان کو پسند آتا وہ موافق کا ہو یا مخالف کا بے ساختہ داد دیتے تھے۔ شعر اتنا اچھا سمجھتے تھے کہ کم کوئی سمجھے گا۔ اچھے شعر انہیں بے شمار یاد تھے۔ وہ خفا بھی جلدی ہوجاتے اور خوش بھی جلدی ہوجاتے لیکن معذرت کرنے والوں کو ان کی اور ان کے دوستوں کی دعوت کرنا پڑتی تھی۔

ان ہی حضرات کے ساتھیوں میں علامہ سیماب اکبرآبادی تھے۔ جنہوں نے آگرے کے شاعروں میں سب سے زیادہ نام پیدا کیا، سب سے سے زیادہ کام کیا اور اپنی بہترین یادگاریں اور وارث چھوڑے۔ میرا مطلب اعجاز صدیقی ایڈیٹر شاعر سے ہے جو علامہ کے صحیح جانشین ہیں۔ ان کے علاوہ ہندوستان پاکستان میں علامہ سیماب کے ہزاروں شاگرد ہیں جن میں بہت سے خود استاد کا درجہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ آگرے والوں نے ان کی قدر نہ کی مگر انہوں نے آگرے کا نام ایسا روشن کیا جو ہمیشہ روشن رہے گا۔ وہ سب سے علاحدہ اپنا ایک مرکز بنائے ہوئے رات دن ادب کی خدمت میں اس طرح مصروف رہتے جیسے کوئی عبادت کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ مشاعروں میں شرکت کرتے اور طرح پر غزل کہتے اور دوسروں کو بھی طرح پر غزل کہنے کی تاکید کرتے۔ سیماب صاحب کے ہنسنے بولنے اور ظرافت میں ایک بھاری بھرکم پن اور شائستگی تھی۔ وہ چھوٹے بڑے سب سے حسب مراتب سے پیش آتے تھے انہوں نے کبھی چھوٹوں کو آگے بڑھانے میں تنگ دلی سے کام نہیں لیا۔ آخر عمر میں وہ مجبوراً پاکستان چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔

ان شاعروں میں ایک فلک اکبر آبادی بھی تھے۔ یہ مرزا خادم حسین رئیس کے شاگرد تھے مگر خود ان کے سو کے قریب شاگرد ہوئے۔ جس مشاعرے میں جاتے ایک محفل جم جاتی اور جہاں سے اٹھتے محفل خالی ہو جاتی۔ ان کی زبان سے مصرعہ نکلا اور ایک شور مچ گیا۔ میرا مکان آگرے کے ایسے بازار میں ہے جہاں سے ہرہنگامہ گزرتا رہتا ہے۔ قومی لیڈروں کا جلوس ہو یا شادی بیاہ کے ہنگامے۔ پولیس کا لاٹھی چارج ہو یا آپسکا میدان کارزار سب کے لئے یہی بازار موزوں سمجھاجاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ شام ہوئی اور شوقین بن سنور کے گشت لگانے لگے۔ چنانچہ فلک صاحب کی آماجگاہ یہی بازار تھا۔ وہ میونسپلٹی کی کسی چوکی پر ملازم تھے، دن کو ان کی پوشاک ایک فیلٹ کیپ، ایک خاکی کوٹ، فل بوٹ، جوتا اور ایک پہاڑی ڈنڈا ہوتی تھی مگر شام کو وہ جب اس بازار میں آتے تو کلابتو کی ایک گول ٹوپی، ریشم کی گلابی یا زرد شیروانی ہاتھ میں کنٹھا پہنے ہوئے۔ سر سے پاؤں تک ساری پوشاک بدل جاتی تھی سوائے پہاڑی ڈنڈے کے۔ ڈنڈا بھی اگر بدل جاتا تو پھر ان کا پہچاننا مشکل ہو جاتا۔ چار پانچ شاگرد ان کے پیچھے پیچھے حضور سرکار کہتے ہوئے ساتھ ہوتے۔ فلک صاحب ان کے شعر سنتے جاتے اصلاح دیتے تھے اور چلتے جاتے ان کے ایک شاگرد حکیم بالکشن باغ تھے وہ فخریہ کہاکرتے تھے کہ کاشمیری پنڈتوں اور کایستھوں میں تو اردو شاعر ہوئے ہیں مگر نبیوں میں میرے سوا کوئی شاعر نہیں ہوا۔ جب کہیں مشاعرہ ہوتا تو ہفتوں پہلے ہرگروہ میں ہلچل مچ جاتی، غزلیں تیار ہو رہی ہیں، اصلاحیں ہو رہی ہیں، ہر جگہ یہی ذکر ہو رہا ہے اور مشاعرے کے دن ایسے بن سنور کے اور تیاری سے جاتے جیسے کوئی بڑا معرکہ سر کرنے جا رہے ہیں۔

ان سب میں ایک ناقابل فراموش شخصیت مخمور اکبرآبادی کی ہے۔ وہ عالم اور دانشور بھی ہیں۔ ناقد اور افسانہ نگار بھی اور شاعر بھی۔ مخمور صاحب ایک عالم اور ذہین انسان ہیں۔ آگرے کی نفاست، شرافت اور اعلیٰ تہذیب کا نمونہ ان کی ذات ہے۔ جب ہمارے ساتھ فانی مالی ل۔ احمد جوش اور مخمور صاحب بیٹھا کرتے تھے۔ اس وقت ان کی ذہانت اور علم کے جوہر کھلتے تھے۔ "روح نظیر" ان کا ایک غیر فانی کارنامہ ہے۔ ان کی تصانیف بہت ہیں اب وہ پاکستان میں ہیں اور وہاں ایک سے بہتر ایک ان کی کتاب منظر عام پر آ رہی ہیں۔ آگرے کی ان پرانی صحبتوں کی یادگار ایک آخری شمع ل۔ احمد صاحب رہ گئے ہیں جو مشہور اور صاحب طرز افسانہ نویس ہیں۔ وہ خود شاعر تو نہیں ہیں مگر شاعروں کی پوری ایک انجمن ان کے گرد رہا کرتی تھی جس میں جوش ملیح آبادی کی ایک نمایاں شخصیت ہے۔ نیاز فتح پوری اور ان کے رسالے "نگار" کو منظر عام پر لانے میں ل۔ احمد کا بہت ہاتھ رہا ہے۔ ان کی تصنیفیں بہت ہیں اور اپنی بیماری اور پیرانہ سری کے باوجود وہ اب تک لکھتے رہتے ہیں۔

آگرے کے دو نامی شاعر رعنا اور صبا ہیں، جو میرے ہم عمر بھی ہیں اور شاعری کے ساتھی بھی۔ یہ دونوں پاکستان میں آگرے کا نام روشن کئے ہوئے ہیں۔ وہاں شاعرانہ اعتبار سے ان کی بڑی عزت ہے۔ ان کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان دونوں کے جانے سے آگرے کی ادبی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ مولانا سیماب کے بعد ان ہی کے دم سے یہاں کی محفلوں میں رونق تھی شعر شاعری کا چرچا تھا۔ اب پاکستان میں مخمور صاحب ہیں صبا ہیں، رعنا ہیں محفلیں ہیں مشاعرے ہیں آگرے کا نام بھی ہے مگر وہاں آگرہ نہیں ہے۔

ماخوذ:
آگرہ اور آگرے والے (خودنوشت از: میکش اکبرآبادی)

The poets of Agra. by: Maikash Akbarabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں