بلوچستان کی سب سے بڑی مسجد - مکّی مسجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-05

بلوچستان کی سب سے بڑی مسجد - مکّی مسجد

makki-masjid-zahedan-iran-balochistan

کراچی کے بعد آبادی کے لحاظ سے بلوچوں کا سب سے بڑا شہر "دزآپ" (زاھدان) ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے یہ شاید کوئٹہ سے بھی بڑا ہے تاہم کوئٹہ کی آبادی یقینی طور پر اس سے زیادہ ہے۔
دزآپ کے لغوی معنی "چور پانی" کے ہیں۔ اصطلاحی لحاظ سے یہ اس زمین دوز پانی کو کہا جاتا ہے جو اچانک زمین سے نکل کر بہنے لگتا ہے اور کچھ دیر بعد وہاں سے غائب ہو کر دوسری جگہ سے ابل پڑتا ہے۔ موجودہ شہر کے مقام پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر "دز آپ" کہلاتا تھا۔


برطانوی نوآبادکاروں نے اپنے نوآبادیاتی مفادات کے تحفظ کے لئے پہلی جنگ عظیم کے بعد کوئٹہ سے یہاں تک ریلوے لائن بچھانے کا آغاز کیا اور اسے ترکی سے منسلک کرنا چاہا۔ بلوچ نے انگریزی منصوبے کو اپنے خطے میں بیرونی مداخلت گردانا اور انگریز کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ برطانیہ نے جلیانوالہ باغ سانحے کے خونخوار ذمہ دار، جنرل ڈائر کو بلوچوں کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ بلوچ جنگجوؤں کی رہنمائی 'گُل بی بی' نامی خاتون کر رہی تھی۔ طویل چھاپہ مار جنگ نے برطانیہ کو تھکا دیا بالآخر جنرل ڈائر نے گل بی بی سے مذاکرات کرکے محفوظ انخلا کو یقینی بنایا۔ اس منصوبے کی بدولت دزآپ میں ہندوستانی ہنرمندوں سمیت بلوچ مزدوروں کی بھی بڑی آبادی نے دزآپ کا رخ کیا۔ جس کی وجہ سے گاؤں رفتہ رفتہ قصبے کی شکل اختیار کرگیا۔


اس دور میں ایران پر قاجار حکومت تھی۔ قاجار حکومت بعد ازاں پہلوی خاندان نے ختم کر دی۔ پہلوی بادشاہوں کے دوسرے دور میں دزآپ کا نام بدل کر زاھدان رکھ دیا گیا اور اسے صوبہ بلوچستان کا دارلخلافہ بنا دیا۔ نام بدلنے کی روایت بھی دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں شہنشاہ ایران رضا شاہ بلوچ مزاحمت کو شکست دے کر دزآپ آئے۔ انہوں نے شہر میں ایک بڑی سکھ آبادی دیکھی۔ یہ سکھ انگریزی ریلوے لائن کے ساتھ آئے تھے اور بعد میں یہاں بس گئے۔ انہوں نے سکھوں کی پگڑی اور لمبی داڑھی دیکھ کر انہیں زاہد سمجھا۔ انہوں نے کہا زاہدوں کے شہر کا نام دزآپ عجیب لگتا ہے لہذا اسے ان کی مناسبت سے زاھدان کہا جائے۔
یہ سکھ آج بھی دزآپ کے بلوچ سماج کا حصہ ہیں اور قدیم شہر کے ایک خطے میں رہتے ہیں۔ یہ پنجابی کے ساتھ ساتھ بڑی روانی کے ساتھ بلوچی و فارسی بھی بولتے ہیں۔ بھارت کا قونصل خانہ بھی شہر کے سکھ خطے میں قائم ہے۔


دزآپ بنیادی طور پر رخشان خطے کا حصہ ہے اس لئے یہاں کی اکثریتی زبان بلوچی کا رخشانی لہجہ ہے جبکہ دوسری سب سے بڑی مقامی زبان براھوئی ہے۔ دزآپ کے مشرق میں پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر مشرقی بلوچستان (پاکستان) کی سرحد پر واقع شہر میرجاوہ براھوئی زبان کا اہم ترین مرکز ہے۔ دزآپ پاکستان اور افغانستان کے بلوچ خطوں کے سنگم پر واقع ہے اس لئے اپنی جغرفیائی پوزیشن کے باعث اس نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی اور آج یہ ایران کے دس بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔


مولوی عبدالعزیز ملازادہ بلوچستان کے ایک بڑے مذہبی عالم گزرے ہیں۔ ان کا آبائی خطہ یوں تو خطہ مکران کا تاریخی مقام "سرباز" ہے تاہم وہ دزآپ میں رہے اور وہاں کے امام جمعہ کے منصب پر فائز رہے (دزآپ میں جمعہ کی نماز صرف جامع مسجد میں پڑھی جاتی ہے اور اس کے امام کو مذہبی پیشوا کا درجہ دیا جاتا ہے)۔ شہر کی قدیم جامع مسجد سکھ محلے کے برابر میں واقع ہے۔ گویا گوردوارہ اور جامع مسجد پڑوسی ہیں۔ عملی سیکولرازم۔


بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے اوائل میں شہر کی بڑھتی آبادی کے باعث جامع مسجد نمازیوں کے لئے تنگ پڑ گئی۔ نمازی سڑک اور اردگرد کی گلیوں میں نماز پڑھنے پر مجبور ہو گئے۔ قدیم گنجان آباد محلہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی توسیع بھی ممکن نہ تھی۔ مولوی عبدالعزیز نے قدیم شہر کے مضافات میں ایک نئی مسجد بنانے کا اعلان کیا۔
سنہ 1974 میں مسجد بنانے کا آغاز ہوا۔ مسجد کا نام مسلمانوں کے مقدس ترین شہر "مکہ" کی مناسبت سے "مکّی مسجد" رکھا گیا۔ مسجد کی تعمیر کے لئے بلوچستان بھر سے بلوچ آئے جنہوں نے مفت مزدوری کی۔ یہ مسجد چھ سو (600) مربع میٹر پر محیط تھی جس میں دینی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ بھی قائم کیا گیا۔ عوامی چندوں اور عوامی مزدوری کے باعث 1986 کے دوران مسجد مکمل ہوئی۔ پانچ گنبدوں پر مشتمل یہ مسجد جدید جامع مسجد کہلائی۔ افسوس مولوی عبدالعزیز ملازادہ مسجد کی تعمیر کے بعد زیادہ دن جی نہ پائے اور اگلے سال فوت ہو گئے۔


مولوی عبدالعزیز کی وفات کے بعد مذہبی عالموں کے صلاح مشورے سے ان کے ہونہار ترین شاگرد مولوی عبدالحمید اسمعیل زھی ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ مولوی عبدالحمید کا تعلق رخشان کے قبیلے "شہ بخش" سے ہے۔ وہ آج مغربی بلوچستان کے سب سے بڑے سیاسی و مذہبی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔
چند برسوں بعد یہ جدید مسجد بھی تنگ پڑ گئی۔ طلبا کی مسلسل آمد کے باعث مدرسہ بھی تعلیمی ضرورت پورا کرنے سے قاصر نظر آیا۔ نئی جگہ مسجد بنانے کی جگہ اسی کی توسیع کا فیصلہ ہوا۔ سنہ 1990 کے دوران مسجد کے اردگرد کی زمین لی گئی اور توسیع کا کام تندہی سے شروع ہوا۔ یکایک مسجد کی زمین 600 سے بڑھ کر 32,000 مربع میٹر پر پھیل گئی۔ مدرسہ بھی پھیل گیا۔ خواتین کے لئے الگ جگہ مختص کی گئی۔ اساتذہ کے لئے علیحدہ گھر بنائے گئے۔ مسجد کے گنبد پانچ سے بڑھ کر 53 تک پہنچ گئے۔ میناروں کی لمبائی بھی بڑھا دی گئی۔

makki-masjid-zahedan-iran-balochistan-2

یہ مسجد قدیم بلوچی اور ایرانی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اس کے سفید گنبد خوب صورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ مسجد کو گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کے لئے طاقت ور موٹروں پر مشتمل کولنگ سسٹم لگائے گئے ہیں جبکہ سردی کے موسم میں یہی نظام مسجد کو گرم رکھتا ہے۔ طویل وضو خانہ کے ساتھ ساتھ فارغ وقت میں طلبا کو خوش گپیوں کے مواقع فراہم کرنے لئے نماز خانہ اور مدرسہ کے درمیان وسیع صحن ہے جس کے اطراف سایہ دار درخت لگائے گئے ہیں ۔ مسجد کے چاروں طرف دوکانوں کی قطاریں ہیں جن کے کرایوں سے مسجد کا انتظام چلتا ہے۔ مسجد سے متصل مدرسے میں پاکستان، افغانستان، مشرق وسطی اور کردستان سمیت دنیا بھر سے طلبا حصول علم کے لئے آتے ہیں۔ مسجد کے مینار دور سے نظر آتے ہیں جو شہر کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔


شیعہ اثنا عشری مسلمانوں کے آٹھویں امام، امام رضا کے مزار (مشہد) اور مسجد جمکران (قم) کے بعد یہ ایران کی تیسری سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ بعض افراد تہران کی مسجد امام خمینی کو تیسری بڑی مسجد قرار دیتے ہیں لیکن رقبہ اور بلندی دونوں کے لحاظ سے مسجد مکی اس سے دو گنا بڑی ہے۔ مسجد مکی کو دنیا کی پندرھویں سب سے بڑی مسجد ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے جبکہ یہ تاحال بلوچستان (پاکستان و ایران دونوں) کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

makki-masjid-zahedan-iran-balochistan-1

مسجد مکی صرف ایک مسجد ہی نہیں ہے بلکہ یہ پیغمبر اسلام کے زمانے کی مسجد نبوی (مدینہ) کی مانند مغربی بلوچستان کا سیاسی و مذہبی مرکز بھی ہے۔ ایران کے صدارتی الیکشن ہوں یا پارلیمانی انتخابات، شہر کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا قبائلی جھگڑے ، علاقائی سیاسی مسائل ہوں یا عالمی۔۔۔ عوام کی نگاہیں مسجد مکی پر مرکوز رہتی ہیں۔ مسجد مکی کی رائے اور موقف حتمی مانی جاتی ہے۔
گزشتہ سال ایرانی حکومت نے بلوچستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مسجد مکی نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جس کی وجہ سے حکومت اپنے فیصلے سے دستبردار ہو گئی۔ اسی طرح گزشتہ سال تربت میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں حیات بلوچ کے قتل اور بانک کریمہ بلوچ کی تدفین میں رکاوٹ ڈالنے پر بھی مسجد مکی نے سخت موقف اپنایا۔ چند مہینے قبل مسجد مکی نے مدرسے میں بلوچی پڑھانے کا بھی اعلان کیا۔ بلوچی پڑھائی جاری ہو چکی یا ابھی اس پر کام جاری ہے، اس کا ابھی کوئی علم نہیں ہے۔


مسجد مکی کی پراثر سیاسی و سماجی حیثیت کی وجہ سے مولوی عبدالحمید اسمعیل زھی نہ صرف بلوچ بلکہ ایران کے تمام سنی مسلمانوں کے متفقہ رہنما مانے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ایرانی حکومت بھی ان کی رائے کو اہمیت دیتی ہے۔


مسجد مکی دزآپ بلوچ وطن کی ایک اہم علامت ہے۔ جیسے بھارت کا تاج محل یا فرانس کا نوٹرے ڈیم چرچ۔


The Ottoman style Grand Makki Masjid at Zahedan Balochistan. Article: Zulfiqar Ali Zulfi, Karachi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں