جابر ابن حیان - علم کیمیا کو ترقی دلانے والا ممتاز کیمیاداں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-28

جابر ابن حیان - علم کیمیا کو ترقی دلانے والا ممتاز کیمیاداں

جابر ابن حیان - ایسا مسلمان کیمیا داں رہا ہے جس کی محنت اور کوشش سے علم کیمیا کو بڑی ترقی ملی اور یہ علم موجودہ حالت پر آیا۔
سچ تو یہ ہے کہ جابر ابن حیان سب سے پہلا کیمیاں داں تھا۔ اس کا تعلق عرب کے جنوبی حصے کے ایک قبیلے "ازد" سے تھا۔ اس خاندان کے لوگ کوفے میں آباد ہو گئے تھے، لیکن جابر 722ء میں خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ 'حیان' کوفے سے یہاں آ گیا تھا۔


جابر ابھی بچہ ہی تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس کی ماں اس کی ننھی سی جان کو ساتھ لے کر عرب چلی گئی اور وہاں اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگی۔ جابر نے یہاں ہی تعلیم پائی۔ دینی تعلیم کے علاوہ اس نے ریاضی اور دوسریے علوم کا مطالعہ بھی کیا۔ جب وہ جوان ہوا تو اپنے قبیلے کو چھوڑ کر مدینہ منورہ میں آ گیا۔ یہاں اس نے حضرت امام جعفر صادقؓ کے دست مبارک پر بیعت کی۔


امام جعفر صادقؓ نہایت عالم اور باکمال امام تھے۔ یہ ان ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ جابر اگرچہ بعد میں سائنس داں بنا، لیکن اس پر مذہب کا رنگ ہمیشہ غالب رہا۔ مدینہ منورہ سے جابر کوفے آیا، جہاں اس کے بزرگ رہتے تھے۔ یہاں اس نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی۔ اور کیمیا پر وہ تحقیقات کیں جن کی بناپر کا "پہلا کیمیا داں" کہلاتا ہے۔


جابر نے بچپن ہی سے بہت محنت کی اور برابر تجربات کرتا رہا۔ اس نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ وہ عربی کے علاوہ یونانی زبان بھی اچھی طرح جانتا تھا۔ اسی لئے اس نے یونانی علم کو عربی زبان میں پیش کیا اور پرانے علوم سے فائدہ اٹھایا۔


784ء میں جب جابر کی عمر 62 سال تھی تو مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید بغداد میں تخت سلطنت پر بیٹھا۔ وہ پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی قدر کرتا تھا۔ اس کے وزیر بھی بڑے لائق تھے اور علم کی قدر کرتے تھے۔ انہوں نے جابر کی شہرت سنی تو اسے بغداد بلا لیا، لیکن کچھ عرصہ بعد جابر پھر کوفہ لو واپس آ گیا۔


اب تو علم کیمیا بہت ترقی کر چکا ہے اور اس کی بہت سی شاخیں ہیں۔ لیکن جابر کے زمانے میں اس علم کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے۔ کسی کو اس میں کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن کوشش سب کرتے تھے۔ جابر نے اپنا وقت صرف اس خیال پر ضائع نہیں کیا، اس نے تجرباتی کیمیا پر زور دیا۔ وہ بہت سے تجربات سے واقف تھا جو آج کے طالب علم بھی اپنی تعلیم گاہوں کی تجربہ گاہ میں کرتے ہیں۔ مثلاً حل کرنا، کشید کرنا، فلٹر کرنا، اشیا کا جوہر اڑانا اور مختلف چیزوں کی قلمیں بنانا۔ سچ تو یہ ہے کہ جابر تجرباتی کیمیا کا بانی ہے، اپنی ایک کتاب میں وہ لکھتا ہے :
"کیمیا میں سب سے ضروری چیز تجربہ ہے، جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربے پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔ کسی کیمیا داں کی قابلیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ اس نے کیا کیا پڑھا ہے ، بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے تجربے کے ذریعے کیا کچھ ثابت کیا ہے۔"


جابر دھاتوں کو گرمی پہنچا کر ان سے کشتہ بنانا جانتا تھا۔ اس نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے، موم جامہ بنانے ، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے، اس پر وارنش کرنے، بالوں کا خضاب تیار کرنے اور اسی قسم کی درجنوں مفید چیزیں بنانے کے طریقے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ جابر نے اپنی کتابوں میں تیزابوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ تیزاب بنانا جانتا تھا اور بعض ان چیزوں سے اچھی طرح واقف تھا جو آج بھی اسی شکل میں محفوظ ہیں۔


کیمیائی آلات میں جابر کی سب سے اچھی ایجاد "قرع انبیق" (distilling apparatus) ہے جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر تیار کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس آلے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے، جن میں سے ایک "قرع" اور دوسرے کو "انبیق" کہتے تھے۔ قرع عموماً صراحی کی شکل کا ہوتا تھا ، جس کے ساتھ ایک لمبی نالی لگی ہوتی تھی۔ دوسرا حصہ پہلے پر اچھی طرح آ جاتا تھا اور اس میں پھنس جاتا تھا۔ قرع اور انبیق دونوں بڑی اچھی چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے اور انہیں خاص طریقوں سے پکایا جاتا تھا۔ عطار عرق کھینچنے کے لئے اب بھی یہ آلہ استعمال کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ مٹی کے بجائے لوہے یا ٹین سے بنایا جاتا ہے۔ (اس کا موجودہ نام ریٹارٹ Retort ہے۔)


جابر کی ایک اہم دریافت گندھک کا تیزاب ہے۔ اس نے اس قرع انبیق سے ہی تیزاب بنایا۔ آج بھی اس کی تیاری کا طریقہ بہت کچھ وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ذرا بہتر قسم کے آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ الغرض جابر نے اپنی تحقیقات سے علم کیمیا کو نیا روپ دیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب کے ایک بدوی قبیلے کا یہ بچہ جو کم عمر میں ہی یتیم ہو گیا تھا، کس طرح اس مرتبے تک پہنچا، کیمیا کی تاریخ اسے فراموش نہیں کرسکتی۔ مغرب نے اس سے بہت کچھ سیکھا ، آج بھی یورپ میں اسے JEBER کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بچے کو تعلیم دلانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس نے محض اپنے شوق اور محنت سے اتنی عزت حاصل کی۔
اسلامی عہد میں سنہری کارنامے انجام دینے والا یہ عظیم سائنس داں 817ء میں فوت ہوا جب کہ اس کی عمر پچانوے (95) سال تھی۔


***
ماخوذ از کتاب: چند مشہور طبیب اور سائنس داں
ناشر: مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی (سن اشاعت: مئی 2012ء)

Jabir ibn Hayyan, the master of alchemy and chemistry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں