ماہنامہ "کتاب نما" کے مدیر اور مکتبہ جامعہ دہلی کے جنرل منیجر شاہد علی خاں بھی پچھلے دنوں "انعام یافتہ " بن گئے۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو انعام حاصل کرنے کو ہی اہم کام سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کام کو ہی سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں۔ شاہد علی خاں کا شمار موخر الذکر لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ سنتے تو سب کی تھے لیکن کام اپنا ہی کئے جاتے تھے۔ لیکن ادھر جب سے ان کی سماعت کسی قدر متاثر ہوئی ہے تب سے وہ کام میں کچھ زیادہ ہی ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔ اب وہ یا تو کہنے والے کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں یا پھر بالکل ہی نہیں سنتے، ہر دم کام میں لگے رہتے ہیں۔ اگر آپ سلام کے بعد ان کی خیریت پوچھیں تو جواب ملے گا:
" جی ہاں! اس بار’کتاب نما‘ کی پوسٹنگ میں تین دنوں کی تاخیر ہوگئی۔"
آپ پوچھیں گے"اس بار رمضان میں کتنے روزے رکھے؟"
تو جواب ملے گا "ذرا مکتبہ جامعہ کی اسٹاک چیکنگ (Stock cheking) ہوجانے دیجئے پھر بتاؤں گا۔"
غرض ان سے تبادلہ خیال کے نتیجے میں دونوں فریقوں کی طرف سے ادا ہونے والے جملوں کو اگر آپ ہوبہو کاغذ پر منتقل کردیں تو بخدا کسی کامیاب نثری نظم کا لطف آجائے۔ برسوں کے تعلقات کی وجہ سے ہمیں تو خیر ان کی کمزوری کا اندازہ ہے اسی لئے جب بھی ان کے ہاں جاتے ہیں تو گلے میں خضاب لگا کے جاتے ہیں۔ چنانچہ پچھلے ہفتہ شاہد علی خاں کو "ہار مونی ایوارڈ" کے ملنے کی اطلاع دینے کی غرض سے جب ہم ان کے ہاں گئے تو اتفاق سے ہمارے ساتھ ہمارے حیدرآبادی دوست سید عبدالقدوس ایڈوکیٹ بھی تھے جو اسی دن حیدرآباد سے دہلی آئے تھے۔ (قدوس میاں کی عادت ہے کہ جب بھی دہلی آتے ہیں تو مکتبہ جامعہ سے خاصی اردو کتابیں خریدتے ہیں) جو لوگ عبدالقدوس سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ قدرت نے انہیں ایسی پاٹ دار آواز عطا کی ہے کہ اگر وہ دوسو گز کی دوری پر کسی کے کان میں راز کی کوئی بات کہہ دیں تو آپ کے کان بھی راز کی اس بات کو آسانی سے سن سکتے ہیں۔ ان کی آواز میں جو اٹھان اور بلند آہنگی ہے اس کے باعث مشہور ہے کہ وہ کسی کی حمایت میں بھی آواز بلند کرتے ہیں تو لگتا ہے اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایسی آواز وکالت کے پیشہ میں بڑی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا استدلال جہاں نہایت قانونی ہے وہیں ان کی آواز غیر قانونی سی لگتی ہے۔
بہرحال سید عبدالقدوس کے ہمراہ جب ہم نے شاہد علی خاں کو انعام ملنے کی اطلاع دی تو بے پناہ خوش ہوئے۔ جس والہانہ انداز سے انہوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اس سے ہمیں تو اندازہ ہوگی کہ انہوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ انعام انہیں نہیں بلکہ ہمیں ملا ہے۔ پھر انہوں نے انعام کی رقم ہم سے پوچھی اور اس رقم کو جاننے کے بعد مزید اظہار مسرت کرنا ہی چاہتے تھے کہ قدوس نے کہا:
"شاہد صاحب! آپ کی اردو خدمات کے مقابلے میں یہ رقم کچھ بھی نہیں ہے۔"
حیرت سے بولے: "میری اردو خدمات کا اس انعام سے کی تعلق ہے؟"
قدوس نے کہا۔" یہ انعام آپ ہی کو تو ملاہے۔"
چہرے پر تردد کے آثار نمایاں کرتے ہوئے اور اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولے: "مگر میں کس انعام کا حقدار ہو سکتا ہوں۔"
یہ کہہ کر وہ کسی بات پر اپنے دفتر کے کسی ملازم سے ناراض ہوئے تو ناراض ہوتے ہی چلے گئے اور اس وقت تک ناراض ہوتے رہے جب تک کہ ہم وہاں سے اٹھ کر نہیں آگئے۔ شاہد علی خاں ان لوگوں میں سے ہیں جن کی خدمات کا اعتراف چاہے زمانہ کرلے لیکن خود شاہد علی خاں اپنی خدمات کو یہ اعزاز نہیں بخشتے۔
گرمی ہو یا سردی ، آندھی ہو یا طوفان ، کام کادن ہو یا چھٹی کادن، ان کی خدمات ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہیں۔ میز پر مضامین کا انبار لگا ہو ا ہے، خطوط کے پلندے بندھے ہوئے ہیں ، کتابوں کے پروفس رکھے ہوئے ہیں، جا بجا کاغذات کا ڈھیر ہے۔ ان کے کام کرنے کی میز کو اگر کوئی دیکھ لے تو اسے اندازہ ہوگا کہ انتشار میں تنظیم ، بکھراؤ میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کا نام ہی اردو کی خدمت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایسے انتشار میں اردو کی خدمت کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔
شاہد علی خاں سے لگ بھگ تیس برس پہلے ممبئی میں پہلی ملاقات ہوئی تھی جب وہ مکتبہ جامعہ کی ممبئی برانچ میں منیجر تھے۔ وہاں بھی ان کا وہی حال تھا ، وہی بے ترتیبی میں ایک ترتیب اور وہی بکھراؤ میں ایک رچاؤ، وہ اسی کو اردو تہذیب بھی کہتے ہیں۔ اردو میں ایسی بے لوث خدمت کرنے والے اب کم ہی پائے جاتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ اردو کے سارے ادیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کا تعلق ادیبوں کے کسی گروہ سے نہیں ہے۔ "کتاب نما" اور "پیام تعلیم" کے مدیر کی حیثیت سے بھی ان کی کوششیں یہ ہوتی ہیں کہ اردو کے سارے گروہوں کی نمائندگی ان کے رسالوں میںتو ہو لیکن ان کے رسالے کسی گروہ کے ترجمان نہ بن جائیں۔ اس مقصد کے لئے ہر ماہ وہ ایک " مہمان مدیر" کو پکڑ کر لاتے ہیں۔ (اردو صحافت میں 'مہمان مدیر' کی ایجاد کا سہرا بھی شاہد علی خاں کے سر جاتا ہے )۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ مہمان مدیر کے ساتھ وہ وہی سلوک کرتے ہیں جو ہم عموماً اپنے گھر آنے والے مہمان کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ یعنی اس کی سر گرمیوں پر غیر محسوس ڈھنگ سے نظر بھی رکھتے ہیں۔ آپ نے اس مہمان کا قصہ تو سنا ہوگا جو کسی سے ملنے گیا تو میزبان نے گرم گرم سموسے اس کی خدمت میں پیش کرنے شروع کر دئے۔ مہمان جیسے ہی ایک سموسہ کھا لیتا، میزبان فوراً اس کی پلیٹ میں دوسرا سموسہ ڈال دیتا۔جب مہمان پانچ چھ سموسے کھا چکا اور ایک مرحلے پر میزبان نے اس کی پلیٹ میں ایک اور سموسہ ڈالنے کی کوشش کی تو مہمان نے کہا:" حضور! اب بس بھی کیجئے۔ کتنے سموسے کھاؤں گا۔ پانچ سموسے تو کھا چکا ہوں۔"
اس پر میزبان نے کہا: " حضور! ویسے تو آپ نے چھ سموسے کھائے ہیں لیکن ایک اورسموسہ لیجئے۔ تکلف نہ کیجئے۔"
مانا کہ شاہد علی خاں ایک اچھے میزبان کی طرح بھلے ہی سموسوں کا حساب نہ رکھتے ہوں لیکن جب " مہمان مدیروں" کے اداریوں پر کتاب نما میں بحث شروع ہوتی ہے تو یہ پتہ ضرور چل جاتا ہے کہ مہمان مدیر نے کتنے سموسے کھائے ہیں۔
شاہد علی خاں بچوں کے مقبول ماہنامہ "پیام تعلیم" کے مدیر بھی ہیں اور اردو میں بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے معاملے میں ہر دم سنجیدہ رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم جیسوں کی بچکانہ تحریروں کے لئے تو "کتاب نما" کے صفحے موجود ہیں لیکن "پیام تعلیم" میں ایسی تحریریں چھپنی چاہئیں ، جن سے واقعی بچوں کی تربیت ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ "کتاب نما" کے مقابلے میں "پیام تعلیم" کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
یادش بخیر! ہمارے ایک دوست بچوں کا ایک رسالہ نکالا کرتے تھے لیکن خود اپنے بچوں کو جس طرح ڈانٹتے، ڈپٹتے اور پیٹتے تھے اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بچوں کا رسالہ نکالنے کے بالکل اہل نہیں ہیں۔ جب کہ شاہد علی خاں کو بچوں سے واقعی محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بچے پیام تعلیم کو پڑھ کر نہ صرف اپنا مستقبل سنواریں بلکہ مہذب اور شائستہ بن جائیں، یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمیں کوئی مہذب اور شائستہ بچہ نظر آتا ہے تو ہم اس سے یہ ضرور پوچھ لیتے ہیں کہ کہیں وہ پیام تعلیم کا خریدار تو نہیں ہے۔
بچوں سے شاہد علی خاں کی محبت اندازہ ہمیں اس وقت ہو جب چھ سات مہینے پہلے مکتبہ جامعہ کے رکشاران نعمت کا چار سالہ بیٹا اپنے باپ کے پاس کچھ عرصہ رہنے کے لئے بہار کے کسی گاؤں سے دہلی آیا۔ وہ بہار کی کسی مقامی بولی میں بات چیت کرتا تھا لیکن شاہد علی خاں نے اسے اردو اور اردو تہذیب سے واقف کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین چار مہینوں میں وہ اردو تہذیب سے اتنا واقف ہوگیا کہ اس نے شاہد علی خاں کو اپنا دادا بنالیا اور ان کے ملنے والوں کو حسب عمر چچا ، تایا،انکل وغیرہ بنانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مکتبہ جامعہ کا ایک اہم کردار بن گی اور مکتبہ جامعہ میں اس کی اہمیت خود شاہد علی خاں سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئیں۔
وہ اکثر شاہد علی خاں کی گود میں بیٹھا رہتا اور نت نئی فرمائشیں کرنے کے علاوہ وہ دلچسپ باتیں بھی کرتا جاتا۔ رات کو بھی وہ ان ہی کے پاس سو جاتا تھا۔ ایک دن وہ ہمیں مکتبہ جامعہ کے گیٹ پر مل گیا تو اس نے حسب معمول بہ آواز بلند ہمیں سلام کیا۔ (شاہد علی خاں کی وجہ سے اسے ہر ایک سے بہ آواز بلند بات کرنے کی عادت ہوگئی تھی) پھر مخصوص انداز میں ہماری خیریت پوچھنے لگا۔ ہم نے پوچھا:
"شمشیر علی ! تمہارے دادا اس وقت کیا کر رہے ہیں؟"
بولا:"وہی ہاتھ میں قلم لے کر کاغذوں کے پلندوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔"
ہم نے اسے ٹوکاکہ میاں شمشیر کوئی تم سے ایسا سوال کرے تو تمہیں اس طرح جواب نہیں دینا چاہئے بلکہ یہ کہناچاہئے کہ:
" دادا اس وقت اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔"
اس کے بعد جب بھی وہ ہمیں ملتا اور ہم اس سے یہ سوال کرتے تو وہ فوراً جواب دیتا:" دادا! اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔"
ایک دن ہم مکتبہ گئے تو پھر وہ ہمیں صحن میں مل گیا۔ ہم نے پوچھا:" تمہارے داداکیا کررہے ہیں؟"
روتے ہوئے بولا: وہ اردو کی خدمت نہیں کررہے ہیں کیوں کہ انہیں کل سے بہت تیز بخار ہے ، آپ لوگ خود اردو کی خدمت کیوں نہیں کرتے ، میرے دادا سے کیوں خدمت کرواتے ہیں؟"
اس کی بات کو سن کر ہم ہنسنے لگے تو غصے سے بولا:" میرے داداکی طبیعت خراب ہے اور آپ ہنس رہے ہیں ، میں آئندہ سے دادا کو کبھی اردو کی خدمت نہیں کرنے دوں گا۔" پچھلے مہینے شمشیر علی اپنے دادا کے پاس چار مہینوں تک رہنے کے بعد اپنے گاؤں واپس جانے لگا تو زار و قطار رو رہا تھا۔ پچھلے ہفتے ہم نے شاہد علی خاں سے اس کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے:" وہ اب اپنے آبائی گاؤں میں رہنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہے۔ وہ بہت جلد واپس آ جائے گا کیوں کہ ہمارے بغیر وہ وہاں نہیں رہ سکتا۔"
ہم نے کہا:" مجھے تو لگتا ہے کہ آپ بھی اس کے بغیر یہاں نہیں رہ سکتے۔"
یہ سنتے ہی وہ اردو کی خدمت میں مصروف ہو گئے اور کسی بات پر مکتبہ کے ایک ملازم کو ڈانٹنے لگے۔ اپنی ناگواری کو چھپانے کا یہ ان کا پرانا اسٹائل ہے۔
اردو والوں کی یہ خوش بختی ہے کہ نفسا نفسی کے اس دور میں شاہد علی خاں جیسابے لوث اور بے نیاز انسان ہمارے درمیان موجود ہے۔
ماخوذ از کتاب: شاہد علی خاں (ایک فرد - ایک ادارہ)
مرتب و ناشر: ڈاکٹر نصیر الدین ازہر۔ زیر اہتمام: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی (سن اشاعت: 2017)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں