شہرت آدمی کی شخصیت کے لیے امتحان ثابت ہوتی ہے - دلیپ کمار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-09-19

شہرت آدمی کی شخصیت کے لیے امتحان ثابت ہوتی ہے - دلیپ کمار

dilip-kumar-views-doordarshan

گزشتہ دنوں (مارچ-1994ء) ٹی وی پر دور درشن جے پور کا ریکارڈ کیا ہوا فلم اداکار دلیپ کمار کا 55 منٹ کا انٹرویو دکھایا گیا۔ دلیپ کمار کا شمار دنیا کے سدا بہار اور ممتاز ترین اداکاروں میں کیا جاتا ہے۔ انٹرویو کار نے بتایا کہ دلیپ صاحب کے 50 سالہ فلمی کیریئر میں ان کی 49 فلمیں ریلیز ہوئیں اور آج بھی وہ کامیاب ترین ہیرو کی امیج برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی قسمت پر دوسروں کو رشک آ تا ہے۔


اس عظیم اداکار کی شخصیت کا مطالعہ اگر اس کے تمام کیریئر کے پس منظر میں کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس نے اپنا مقام انتھک محنت ، انہاک ، خلوص، انسان شناس تجربات و مشاہدات نیز ادب و فلسفہ و تاریخ کے گہرے اور وسیع مطالعہ کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔


دلیپ کمار کا کامیابی کا تصور ٹکسالی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے، چیلنجوں کا سامنا کرتے چلے جایئے اور تدبیر سے تقذیر بناتے جایئے۔ دلیپ کمار نے انٹرویو میں عصر حاضر کے بعض سلگتے مسائل پر گمبھیر انداز میں روشنی ڈالی۔ ان کے خیال میں اس وقت فرد اور قوم کے سامنے انوکھی آزمائشیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ فلمی وسیلے سے ہو یا ثقافتی و سیاسی وسیلے سے ہو، ہندوستانی کردار پر بھرپور یلغار جاری ہے اور ہندوستانیت کو تاراج کیا جا رہا ہے۔ کوئی تعمیر ہو، عمارت ہو، جس کا مسلمہ ثبوت تاریخ فراہم کرتی ہو، وہ وطن کا ناز ہے، اس کی حفاظت کی جانی چاہئے نہ کہ اسے توڑ کر وحشت اور بربریت کے اسباب پیدا کر دئے جائیں۔


لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دینے والے اس مصاحبے میں دلیپ کمار نے بحث چھیڑی کہ ٹکنالوجی اور سائنس کی پیش رفت ترقی یافتہ معاشروں کو کہاں سے کہاں لے گئی۔ انسان چاند کو فتح کر کے زمین پر لوٹ آیا لیکن ہم کہاں ہیں؟
ہم کیسے ہیں کہ ہمیں دھکیل کر چار سو سال اور ہزاروں سال پیچھے کر دیا گیا۔ ہماری تہذیب ، ہمارے کلچر اور ہمارے معاشرے کی شناخت ہم سے چھین لی گئی۔ ہمارے معاشرے میں ہر طرف مجرمانہ اور اخلاق سوز رجحانات پنپ رہے ہیں۔
درندہ درندے کے لئے اتنا خطرناک نہیں جتنا آدمی آدمی کے لئے خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ پڑوسی کے ہاتھوں پڑوس کے گھر کو آگ لگوائی جا رہی ہے۔ ان منصوبوں کے لکھنے والے کون ہیں؟
کوئی عورت ، کوئی انسان ان بے رحموں کے ظلم و ستم سے مر جائے ان کے منہ سے کبھی افسوس کا ایک جملہ نہیں نکلے گا۔ وہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ہمیں افسوس ہے۔ کیونکہ واقعی انہیں اس کا افسوس نہیں ہوتا۔ انہیں خون کی ہولی کھیل کر اقتدار کی کرسی پر قبضہ جمانا ہے۔ وہ اس بات سے متاثر نہیں کہ سارے مذاہب اپنے مقصد میں ایک ہیں اور پیغام کے لحاظ سے ایک ہی بات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
کوئی بھی مذہب ہو اس کا مشن انسان کے اخلاق کی درستگی اور انسانی عظمت کے سوا کیا ہے۔ قرآن کی رو سے یہ ثابت ہے کہ امت مسلمہ سے پہلے دیگر امتوں میں پیغمبر اور ہادی بھیجے گئے اور ان سب پر ہمارا ایمان ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کی اصل اقدار کی پاسداری کرنے میں ناکام رہیں تو ہمارے لئے قرآن کریم میں خدا کی یہ تنبیہ موجود ہے کہ ہم تمہیں اناً فاناً صفحۂ ہستی سے نابود کر دیں گے۔ لہذا ہم اگر اب نہ سنبھلے تو ہماری یادگار کچھ کھنڈر رہ جائیں گے۔ اس زمین پر پہلے سے بہت سارے کھنڈر موجود ہیں جو زبان حال سے اپنا قصہ سنا رہے ہیں اور جنہیں دیکھ کر ہم عبرت حاصل کر سکتے ہیں کہ جن قوموں کی یہ نشانیاں ہیں وہ کبھی بام عروج پر تھیں لیکن ان کے اعمال نے انہیں ٹھکانے لگا دیا۔ دلیپ کمار نے اس افراتفری اور مایوس کن صورت حال کے لئے ملک کے موجودہ سیاسی نظام اور سیاسی روش کو ذمہ دار ٹھہرایا۔


کئی باتیں دلیپ صاحب نے عام انسانی فہم و فکر اور فلمسازی کے حوالے سے بھی کیں۔ ایک اہم نکتہ ان کی گفتگو کا یہ تھا کہ مشہور ہونا اچھی بات ہے لیکن شہرت آدمی کی شخصیت کے لئے امتحان بھی ثابت ہوتی ہے۔ بعض لوگ بے حساب شہرت پا کر ایک قسم کے غرورِ بےجا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صحیح ہے کہ کوئی مشہور آدمی یہ نہیں بھول سکتا کہ وہ مشہور ہے لیکن کوئی کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پہنچ جائے اسے اپنی شہرت سے مرعوب ہونے اور اپنی ہی شخصیت کا گہرا تاثر لینے کی غلطی سے بچنا چاہئے ورنہ اس سے ایک انوکھا خلل یا بحران پیدا ہو سکتا ہے جس سے نمٹ پانا سخت مشکل ہوتا ہے۔
اپنی ہی شخصیت سے ٹھیک ٹھیک ڈیل (DEAL) نہ کر پانے والوں کے ضمن میں دلیپ کمار نے گرودت اور دویا بھارتی (جس کا انہوں نے نام نہیں لیا) کی مثالیں پیش کیں۔ گرودت اپنی شہرت اور کردار کے بیچ اعتدال قائم نہیں رکھ پائے۔
دویا بھارتی (وفات: 5/اپریل 1993) کا واقعہ تو بالکل تازہ ہے۔ وہ ایک کمسن اداکارہ تھی۔ بس اچانک آسمانِ شہرت پر جا پہنچی جس سے اس کی شخصیت میں ایک خلا سا پیدا ہوا جسے سمجھنا اورعبور کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو سکا اور ایک دن وه چھت سے کود کر مر گئی۔
ہالی ووڈ کی ایکٹریس مارلن مینرو بھی اپنی ذات کی تفہیم میں ناکام رہی اور اپنی پرسنلیٹی سے ایڈجسٹ نہیں کر پائی۔آخر اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی۔


چنانچہ شہرت اور شخصیت میں ایک توازن اور عناصرِ فطرت میں ایک ترکیب بنائے رکھنا اور خدا کی بڑائی اور اس کے آگے اپنے عجز کو تسلیم کرتے رہنا ضروری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں دلیپ کمار نے کہا کہ اگر ہم اپنے آپ میں بہت زیادہ محو نہ ہو جائیں ، اس کے برعکس سماج کے محروم اور معذور افراد مثلاً نابیناؤں ،لنگڑوں ، مفلوجوں اور اس طرح کے دیگر لوگوں کے مستند اداروں یا سماج سدھار اور فروغ تعلیم کی انجمنوں میں دلچسپی لیں تو اس سے ہمارے اندر غرور کے بجائے انکسار پیدا ہوتا ہے اور اچھا انسان بننے کی توفیق کو جلا ملتی ہے۔ ایسے مشاغل سے معاشرے کا ایک نیک مقصد بھی پورا ہوتا رہتا ہے اور آدمی کی پرسنلٹی میں اعتدال بھی قائم رہتا ہے۔


فلمی کرداروں اور فلم نگاری سے متعلق بھی کئی کارآمد باتیں اس انٹرویو میں زیر بحث آئیں۔ دلیپ کمار نے اگرچہ اپنی بعض ناقص اور بے مقصد فلمی کہانیوں کا ذکر نہیں چھٹرا تاہم فلمی کہانی کے اصول و مبادیات پر اچھی خاصی بحث ضرور کی۔
انہوں نے نئے پروڈیوسروں پر تنقید کی کہ وہ اوریجنل اسکرپٹ کے بجائے مغربی فلموں کے ویڈیو کیسٹ اداکاروں کو تھما دیتے ہیں کہ وہ یہ کیسٹ دیکھ لیں اور ان کے ہندی چربے کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کر دیں۔
دلیپ صاحب اس عیب سے دور ہیں۔ وہ بہ اصرار اصل کہانی طلب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بے سر پیر کے واقعات کی بھرمار سے کہانی کے تانے بانے نہیں بنے جا سکتے۔ کہانی وہی ہے جس پر فلم بن سکتی ہو لیکن جسے کاغذ پر لکھا بھی جا سکتا ہو اور جسے لکھنے کے بعد پڑھا بھی جا سکتا ہو۔ جس میں کردار اور واقعات تقیم کو اجاگر کرتے ہوں۔ مثبت کے سامنے منفی اور خیر کے مقابل شر کے پہلو ابھارے بغیر ڈرامہ اور فلم کی کہانی کسی منطقی یا جذباتی نتیجے پر نہیں پہنچتی۔
'میلو ڈرامائی' یا 'سماجی - اقتصادی کشمکش' کے تاثرات کہانی کی تھیم اور کرداروں کی فطرت اور ماحول کے مطابق ابھارے جاتے ہیں۔ ان دنوں ہندی فلموں میں کہانی کا فقدان ہے۔ اب کوئی دوسری 'دیوداس' فلم نہیں بن سکتی۔ کوئی اس معیار کا اسکر پٹ تیار کرنے والا نہیں ہے۔
ان خیالات کے ساتھ دلیپ کمار نے اپنی طویل علمی اور فلمی گفتگو کے دوران
NOTHING SUCCEEDS LIKE SUCCESS
والے کلیہ پر اپنا عقیدہ بھی ظاہر کیا۔ ان کی رائے میں ہر کمال یا باکمال کا ظہور ایک بار ہوتا ہے۔ اب کیا کوئی دوسرا سرت چندر چٹرجی یا دوسرا رابندر ناتھ ٹیگور پیدا ہو سکتا ہے؟


یہاں اس انٹرویو کے سبھی نکات دہرانا مقصود نہیں ہے۔ ایک ماہر کے نظریۂ فن اور قومی قدروں کے تحفظ کے لئے اس کی فکر مندی ، سیکولرزم کا شیرازہ بکھرنے پر اس کا ماتم اور افسوس ، وطن کو سائنس اور ٹکنالوجی کے فیوض سے بہرہ ور ہوتے دیکھنے کی تمنا، ڈرامہ اور فلم میں نظریۂ اکتساب اور کام چوری کے تئیں اس کی ناپسندیدگی ، ہنر کو ہنر ثابت کر دکھانے کی لگن ، ہندوستانی فلمی ہیرو کو پھر سے ہندوستان کے آدرش مرد کے روپ میں دیکھنے کا بے تابانہ انتظار، اداکاری کے ذریعہ بشری صفات کو بےنقاب کرنے کی جستجو ، اخلاق سوز تشدد اور فحاشی سے فلموں کو پاک رکھنے کا عزم۔۔۔ یہ سب خاصے کی چیزیں ہیں۔
مختلف علوم سے آگاہی نے دلیپ کمار کو ایک فلمی شخص سے زیادہ اونچا اور محترم بنا دیا ہے۔ اس دانشور میں جو صحیح معنوں میں اکیسویں صدی کے انسان کو عالمگیر اور یونیورسل شہریت کا حامل دیکھنا چاہتا ہے، ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کو ایک نفسیاتی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔
ایک PERFECTIONIST کا بامقصد انٹرویو پیش کرنے پر ہم دوردرشن کیندر کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ نئے اداکار اس سے ضرور کچھ حاصل کر یں گے۔ کیا ہی اچھا ہو جو تعلیمی نکتۂ نگاہ سے اس انٹرویو کو دوبارہ ٹیلی کاسٹ کیا جائے۔


دلیپ کمار کے یادگار بالی ووڈ مقبول عام ہٹ نغمے

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"انشاء (کلکتہ)" شمارہ: ستمبر/اکتوبر 2021

Dilip Kumar different views, an archived Editorial of April-1994 issue of Insha Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں