ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا - سعودی باشندہ کی لگن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-28

ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا - سعودی باشندہ کی لگن

saudi-arabia-10lakhs-olive-trees-project-by-nasir

سعودی عرب کے باشندگان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عیش پرست، کاہل اور کام چور لوگ ہوتے ہیں۔
لیکن یہ سعودی باشندہ "ناصر بن عبدالعزيز الحمد" تو اپنے بارے میں ایک مختلف ہی قصہ بتا رہا ہے۔ آئیے اس کا قصہ پڑھتے ہیں۔


مجھے کاشتکاری سے محبت وراثت میں ملی تھی۔ لیکن اب حالات مختلف تھے۔ ہم ریاض کے رہائشی ہیں۔ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد زرعی آلات بیچنے کیلیئے الجوف شہر منتقل ہو گیا۔ کام کچھ خاص نہیں چل رہا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے سرکاری نوکری مل گئی اور میں شرعی علوم پڑھانے کیلیئے پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہو گیا۔ میں نے 4 سال یہ نوکری کی۔


جبکہ فطرت سے پیار میری گھٹی میں پڑا تھا اور مجھے جوف کی زرعی آبادی بہت لبھاتی تھی۔ لہذا اسی دوران مجھے خیال آیا میں کیوں ناں زراعت کو پھر سے اپنا پیشہ بناؤں؟
میرا ہدف زیتون کے ایک ملین (10 لاکھ) درخت لگا کر اس کے پھل سے اعلیٰ قسم کا تیل نکالنا تھا۔ میں نے اپنے منصوبے پر کام کرنے کیلیے پہلے پہل 6 مہینے کی چھٹی لی، پھر اس کام کو یکسوئی کے ساتھ کرنے کیلیے بالآخر اپنی ملازمت سے استعفی دے دیا اور اپنے کام میں جُت گیا۔
دوسری طرف جس کسی کو میرے 10 لاکھ درخت لگانے کے منصوبے کا پتہ چلتا وہ مجھ پر دل کھول کر ہنستا۔


کام کو سائنسی بنیادوں پر اور سلیقے سے کرنے کیلیے میں نے زیتون پیدا کرنے والے ممالک اسپین، فرانس، اٹلی اور یونان میں بڑے بڑے باغات دیکھے، تیل نکالنے کے کارخانے دیکھے اور اس میدان میں کام آ سکنے والی ہر قسم کی مشینری دیکھی۔


چونکہ میں باغ کو جدید خطوط پر تعمیر کرنا چاہتا تھا اس لیے تنظیم میری پہلی ترجیح تھی اور میں نے آیت کریمہ "زيتونة لا شرقية ولا غربية" (سور النور: آية 35) سے سبق لیتے ہوئے درخت شمالاً و جنوباً لگوائے تاکہ سورج کی روشنی پودوں یا درختوں کو مکمل اور مساوی ملے۔
اللہ تبارک و تعلای نے میری لگن اور محنت کو قبول کیا اور میں اس وقت پورے 10 لاکھ درخت لگا کر 2 لاکھ لیٹر زیتون کا اعلی درجے کا تیل پیدا کر رہا ہوں جس میں تیزابیت (acidity) فقط 0.3 فیصد ہے جو کہ اسے دنیا کے بہترین تیلوں میں شمار کراتی ہے۔


میرے تیل کے عالمی معیار کی ضمانت مجھے دوبئی کا سب سے بڑا عالمی کوالٹی ایوارڈ ملنا ہے جبکہ جوف کی مقامی حکومت نے میری خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے شکر و تقدیر کی شیلڈ سے نوازا ہے۔


یاد رہے کہ زیتون کا درخت سارا سال سرسبز رہنے والا ہوتا ہے، اس کے پتے نہیں گرتے جس کی وجہ سے یہ ماحول دوست ہے۔ اس بڑے رقبے کو سیراب کرنے کیلیئے ہم نے آبپاشی کا نطام جدید ترین طریقوں کے ساتھ کم سے کم ایسے پانی کے ساتھ بنایا ہوا ہے جسے ہم شمسی توانائی کے ساتھ خود ہی بنا رہے ہیں۔


واضح رہے کہ ناصر کے اس منصوبے میں کام کرنے والے ناصر کے بھائی، بھتیجے اور بھانجے ہیں۔ گویا یہ صرف سعودی باشندوں کے ہاتھوں چلتا ہوا ایک پروجیکٹ ہے۔


ناصر بن عبدالعزيز کا کہنا ہے کہ اگر مجھے حکومت سے تعاون مل جائے تو میں مملکت سعودیہ میں دنیا کا سب سے پہلا ایسا کارخانہ قائم کرنا چاہوں گا جس میں زیتون کا پھل توڑنے سے لے کر تیل کے حصول اور پیکنگ تک میں انسانی ہاتھوں کا استعمال نہ ہو۔


یقیناً اس سعودی باشندہ کی عزم و ہمت کی یہ داستان ہم سب کیلیے انتہائی قیمتی سبق ہے۔


زیر نظر تصاویر ناصر کے اخباری فیچر سے لی گئی ہیں جبکہ دیگر معلومات کیلیئے ان کے ادارے کی درج ذیل ویبسائٹ ملاحظہ کی جا سکتی ہے:

https://milliontrees.sa


ماخوذ :
كتب استقالته وحقق الرقم الصعب.. "الحمد" قصة سعودية عالمية حلمها للمملكة
اردو ترجمانی: محمد سلیم (ایوو، صوبہ زیجیانگ، چین)

Million Trees project, a global story of a Saudi Man Al-Hamd. Column/Translation: Muhammad Saleem.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں