دکن کی اردو صحافت کا آغاز ایک تحقیق کے مطابق اخبار "آفتابِ ہند" سے ہوتا ہے جو غدر (1857ء) کے تین سال بعد جاری ہوا تھا۔ اس کے بعد دکن میں اردو اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔
نظام الاخبار دکن، آصف الاخبار، معلم شفیق، مشیر دکن، علم و عمل، صحیفہ، معارف، رہبر دکن، نظام گزٹ، رعیت، صبح دکن، وقت، منشور، پیام، تنظیم، سلطنت، مملکت، میزان، مستقبل، انقلاب، پرچم، مبصر، اتحاد، آزاد، جناح، معین اور امن ۔۔۔
جیسے بیشتر اخبارات نے قوم کی سیاسی بیداری، قومی یکجہتی، اتفاق و اتحاد، رائے عامہ کو ہموار کرنے، اخلاق عامہ کی درستگی، علم کو پھیلانے عمل کی سمت ابھارنے، سماجی شعور کو بیدار کرنے اور دینی بصیرت کو عام کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔
خاص طور پر پولیس ایکشن سے لگ بھگ تیرہ (13) سال قبل جاری ہونے والے اخبار "پیام" نے، جس کے ایڈیٹر جدوجہد آزادئ ہند کے صف اول کے رہنما اور نامور صحافی قاضی عبدالغفار تھے، دکن کی اردو صحافت میں ایک انقلابِ عظیم بپا کر دیا۔ چونکہ قاضی صاحب کا ساتھ مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے رہنمایان ملت کے دم بدم رہا تھا اس لیے بھی قاضی عبدالغفار تمام تر سیاسی نکتوں سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہندوستانیوں کے دل کی آواز تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کے اخبار "کامریڈ" کے اسٹاف کے ساتھ جب وہ لندن کی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تو وہاں سے صحافت کے بارے میں معلومات کا خزانہ لے آئے تھے۔
چنانچہ انہوں نے اپنے اخبار "پیام" کے ذریعہ نہ صرف ہندوستانیوں کی روح کو بیداری کا پیام دیا بلکہ مظلوم عوام کا پیام انہوں نے حکومت کے ایوانوں تک پہنچایا۔ روزنامہ "پیام" کے اداریے بڑے معرکۃ الآرا ہوتے تھے۔ آپ کے بعد جناب اختر حسن صاحب، سابق سکریٹری و ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی نے اس اخبار کو خرید لیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا۔ کچھ دنوں تک "پیام" کانگریس کی حمایت کرتا رہا مگر بعد میں وہ عوام کی آواز بن گیا اور اس نے حق گوئی اور بےباکی کی انوکھی مثال قائم کی۔ بحیثیت مجموعی دکن کی اردو صحافت اخبار "پیام" کے بعد جدید دور میں داخل ہو گئی اور اس طرح سے آج کی صحافت کے لیے مشعل راہ بن گئی۔
اعلیٰ حضرت حضور پرنور ہز اکزالٹیڈ میر عثمان علی خان بہادر بندگان عالی اخبارات و رسائل سے ذاتی و خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ بیسیوں اخبارات کی آپ نے سرکاری خزانے کے ذریعہ اپنے دستِ خاص سے مالی مدد کی۔
اور دوسری طرف اخبارات و رسائل کی اشاعت کے سلسلے میں سرکار کی جانب سے دئے جانے والے اجازت نامے کے جملہ طریقوں کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں مروج کیا تاکہ ایک معمولی سی حیثیت رکھنے والا عام آدمی بھی اخبار شائع کر کے اپنے شوق کو پورا کر سکے۔ حضور نظام کو اشاعت علم کا خاص شوق و شغف تھا، جامعہ عثمانیہ کے قیام اور دارالترجمہ کی تشکیل کے ذریعہ اردو ذریعۂ تعلیم کا تجربہ کر کے اعلی حضرت نے اپنی علم دوستی کا بھرپور مطاہرہ فرمایا تھا۔
اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے اعلی حضرت خود اپنے دستِ مبارک سے لکھا ہوا اپنا تازہ کلام اور دیگر علمی و تنقیدی تبصرے روانہ فرماتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ شہزادگان والا شان بھی آپ ہی کی ایما پر آپ ہی کی تقلید میں اپنا کلام وغیرہ اشاعت کے لیے مختلف اخبارات کو روانہ کرتے تھے۔ علاوہ ازیں اخبارات کے خاص نمبر و سالنامے بھی اعلیٰ حضرت کے کلام سے لیس ہوتے تھے۔ رسالہ "ہمجولی" کی نسبت اعلیٰ حضرت نے اپنا ذاتی تبصرہ خود تحریر کر کے روانہ فرمایا تھا، چنانچہ آپ کے اس تبصرے کی بعد کے رسالے میں اشاعتِ خاص کر کے مدیر نے عزت حاصل کی۔
جو اخبارات اعلیٰ حضرت کے کلام سے منور ہوتے تھے ان کے نام اس طرح ہیں: نظام گزٹ، یادگار سلور جوبلی آصف سابع، صبحِ دکن، رہبرِ دکن وغیرہ۔
اعلیٰ حضرت کی تخت نشینی (اگست-1911ء) کے وقت جو اخبارات موجود تھے، ان میں مشیر دکن، دکن لاء رپورٹ، آصفیہ گزٹ، علم و عمل، صحیفہ وغیرہ شامل ہیں۔
حیدرآباد دکن کے اخبارات نے یہاں کی سماجی، علمی و تہذیبی اور صحافتی زندگی پر بہت گہرا اثر مرتب کیا۔ دکن کے عوام کی سماجی زندگی کا عکس ان اخبارات میں پورے طور پر واضح ہے۔ حیدرآباد کا تمدن، یہاں کی محفلیں اور معاشرت، لباس اور رہن سہن کے بارے میں یہ اخبارات مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہاں کی علمی و تہذیبی سرگرمیاں بھی ان اخبارات میں شائع شدہ خبروں اور اداریوں میں پوری طرح جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
وہ خصوصیات جو آزادی سے قبل شائع شدہ ہندوستان کے دیگر اخبارات کے مقابلے میں حیدرآباد کے اخبارات میں نظر آتی ہیں: وہ ان اخبارات کی زبان، اسلوب، طرز ادا، خبروں کی بےساختگی، اداریوں کی حق گوئی و بےباکی اور اخبارات کے مدیروں کا نڈر و بےخوف ہونا ہے۔
حالانکہ حیدرآباد دکن پر بادشاہِ وقت اعلیٰ حضرت حضور نظام کی حکومت قائم تھی مگر باوجود اس کے، حیدرآباد کے اکثر اخبار انتہائی بےلاگ تھے اور حکومتِ وقت پر بھی (اگر کوئی خامی ان میں نظر آئے) تنقید سے گریز نہیں کرتے تھے۔
دکن کے ان متذکرہ اخبارات کے مختصر جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کی اردو صحافت کا قیام و استحکام صرف اور صرف دولت عثمانیہ اور اعلیٰ حضرت حضور نظام کی خصوصی عنایت اور ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ ریاست حیدرآباد اگرچیکہ ایک خودمختار ریاست تھی مگر اس ریاست کے اربابِ اقتدار صحافت کی آزادی، آزادئ رائے اور حق گوئی و بےباکی کو دل سے پسند کرتے تھے اور معاملے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔
اگرچیکہ بعض اخبارات پر مملکتِ آصفیہ کا عتاب بھی نازل ہوا تھا مگر اس کی وجہ ذاتی اغراض نہیں بلکہ قومی اور ملی مفادات کی صیانت و پاسبانی کرنا تھا۔
اس دور کے اخبارات جہاں ایک طرف اس زمانے کی تہذیب و شائستگی پر مشتمل ایک مبسوط دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں وہ عوام اور حکومتِ وقت کے درمیان باہمی تال میل اور ربط و ضبط برقرار رکھنے میں پوری طرح کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ ان اخبارات کا مطالعہ دراصل ہمیں اس دور کی پوری سیاسی و سماجی اور تہذیبی و تمدنی زندگی سے روشناس کراتا ہے۔
حیدرآباد دکن کے (از ابتداء تا 1947ء) اردو اخبارات کی ایک مکمل فہرست ذیل میں پیش ہے:
فہرست - حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | اخبار | سن اشاعت | مدیر |
1 | آفتاب ہند | 1860 | قاضی محمد قطب |
2 | دارالطبع | 1869 | - |
3 | متین کرتان | 1870 | کرتان محی الدین |
4 | رحمانی | 1873 | - |
5 | مفید عام | 1878 | نارائن سوامی |
6 | نظام الاخبار دکن | 1878 | - |
7 | آصف الاخبار | 1878 | نارائن سوامی |
8 | جریدہ اعلامیہ | 1880 | - |
9 | معلم شفیق | 1880 | محب حسن |
10 | شاہ دکن | 1882 | اظہر الدین |
11 | اسلامیہ | 1882 | محمد حسین |
12 | شوکت الاسلام | 1882 | حاجی محمد قاسم کرتان |
13 | ارم دکن | 1883 | سید احمد زید بلگرامی |
14 | احمدی | 1883 | حمید الدین نعمانی |
15 | ہزار داستان | 1883 | مولوی محمد سلطان عاقل |
16 | محبوب شاہی | 1883 | منشی غوث الدین |
17 | پیک آصفی | 1884 | مولوی سید احمد زید بلگرامی |
18 | آصفی | 1885 | سید محمد سلطان اثنا عشری |
19 | جوہر سخن | 1885 | عبداللہ خان ضیغم |
20 | گلزار دکن | 1885 | قادر علی خان |
21 | مسرت القلوب | 1886 | - |
22 | دکن پنچ | 1887 | حکیم جگناتھ پرشاد، وکیل ہائیکورٹ |
23 | مشیر دکن | 1892 | پنڈت کشن راؤ / پنڈت واسدیو راؤ |
24 | افسر الاخبار | 1887 | مشتاق احمد |
25 | نظام پریس | 1887 | عبدالسلام عرشی |
26 | خیال محبوب | 1887 | عبدالسلام عرشی |
27 | سفیر دکن | 1888 | منشی نثار علی شہرت |
28 | محبوب القلوب | 1890 | عماد السلطنۃ بہادر |
29 | نظارہ عالم | 1896 | منشی قدرت اللہ مضطر |
30 | مظلوم دکن | 1898 | عظیم الدین |
31 | جام جمشید | 1901 | ابراہیم خان |
32 | عزیز الاخبار | 1902 | نواب عزیز جنگ بہادر ولا |
33 | دکہنی | 1903 | مولوی محمد عبدالرحیم، وکیل ہائیکورٹ |
34 | علم و عمل | 1904 | صادق حسین |
35 | نظامی | 1904 | امیر حمزہ |
36 | محبوب گزٹ | 1905 | منشی پیارے لال |
37 | آصفیہ گزٹ | 1911 | مولوی سید محمد علی عرش ملیح آبادی |
38 | صحیفہ | 1912 | مولوی اکبر علی |
39 | معارف | 1913 | مولوی امیر حسن |
40 | عثمان گزٹ | 1913 | سید رضا شاہ ترمذی انجم |
41 | بلیٹن | - | میجر کیمرن |
42 | پولیس گزٹ | 1914 | - |
43 | واعظ | 1917 | مولوی عبدالوہاب عندلیب |
44 | وقایع دفتر معتمدی مال | 1918 | مولوی محمد رحمت اللہ |
45 | بیدر گزٹ | 1920 | - |
46 | رہبر دکن | 1921 | سید احمد محی الدین |
47 | نظام گزٹ | 1927 | سید وقار احمد ایم۔اے |
48 | رعیت | 1927 | ایم۔ نرسنگ راؤ |
49 | صبح دکن | 1928 | احمد عارف / اشرف علی |
50 | وقت | 1928 | مولوی محمد عبدالرحمن صاحب رئیس |
51 | اخبار سرسری | 1928 | مولوی محمد مظفر الدین خان |
52 | الحمایت | 1929 | محمد منیر الدین خان |
53 | دکن گزٹ | 1929 | ڈاکٹر مرزا غلام جیلانی |
54 | منشور / وقت | 1930 | مولوی محمد عبدالرحمن صاحب رئیس |
55 | ناندیڑ گزٹ / الاعظم | 1931 | حکیم غفران احمد |
56 | پیام | 1935 | قاضی عبدالغفار / اختر حسن |
57 | تنظیم | 1936 | علی اشرف |
58 | سلطنت | 1938 | سید سعد اللہ قادری |
59 | مملکت | 1941 | میر حسن الدین (بی۔اے، ایل ایل بی) |
60 | تاج | 1944 | سید حسن |
61 | میزان | 1944 | غلام محمد |
62 | مستقبل | 1945 | - |
63 | شیراز | 1945 | سید صمصام شیرازی |
64 | سید الاخبار | 1946 | سید صمصام شیرازی |
65 | البلاغ | 1946 | عبدالقدوس ہاشمی |
66 | انقلاب | 1946 | مرتضی مجتہدی |
67 | پرچم | 1946 | فصیح الدین |
68 | تاجر | 1946 | بہاؤ الدین محمود سلیم صدیقی |
69 | مبصر | 1947 | محمد صفدر اقبال |
70 | دی اسٹیٹس نیوز | 1947 | محمد اختر حسین |
71 | عظیم تر حیدرآباد | 1947 | عزیز احمد |
72 | اتحاد | 1947 | سلطان بن عمر |
73 | آزادی | 1947 | سید مختار محمد کرمانی |
74 | آزاد | 1947 | ٹھاکر امراؤ سنگھ |
75 | جناح | 1947 | سید اظہر حسین رضوی |
76 | امروز | 1947 | شعیب اللہ خان |
77 | معین | 1947 | سید جعفر اللہ جعفری |
78 | امن | 1947 | سوامی واسدیو شاستری |
ماخوذ از کتاب: حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات (از ابتدا تا 1947ء، ایک جائزہ)۔
تصنیف: محمد اعجاز الدین حامد، حیدرآباد۔ (مقالہ برائے ایم۔فل، یونیورسٹی آف حیدرآباد، سن اشاعت: ستمبر 1993ء)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں