دکن کی اردو صحافت - اردو اخبارات از ابتدا تا آزادئ ہند - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-02

دکن کی اردو صحافت - اردو اخبارات از ابتدا تا آزادئ ہند

hyderabad-deccan-urdu-newspapers

دکن کی اردو صحافت کا آغاز ایک تحقیق کے مطابق اخبار "آفتابِ ہند" سے ہوتا ہے جو غدر (1857ء) کے تین سال بعد جاری ہوا تھا۔ اس کے بعد دکن میں اردو اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔
نظام الاخبار دکن، آصف الاخبار، معلم شفیق، مشیر دکن، علم و عمل، صحیفہ، معارف، رہبر دکن، نظام گزٹ، رعیت، صبح دکن، وقت، منشور، پیام، تنظیم، سلطنت، مملکت، میزان، مستقبل، انقلاب، پرچم، مبصر، اتحاد، آزاد، جناح، معین اور امن ۔۔۔
جیسے بیشتر اخبارات نے قوم کی سیاسی بیداری، قومی یکجہتی، اتفاق و اتحاد، رائے عامہ کو ہموار کرنے، اخلاق عامہ کی درستگی، علم کو پھیلانے عمل کی سمت ابھارنے، سماجی شعور کو بیدار کرنے اور دینی بصیرت کو عام کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔


خاص طور پر پولیس ایکشن سے لگ بھگ تیرہ (13) سال قبل جاری ہونے والے اخبار "پیام" نے، جس کے ایڈیٹر جدوجہد آزادئ ہند کے صف اول کے رہنما اور نامور صحافی قاضی عبدالغفار تھے، دکن کی اردو صحافت میں ایک انقلابِ عظیم بپا کر دیا۔ چونکہ قاضی صاحب کا ساتھ مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے رہنمایان ملت کے دم بدم رہا تھا اس لیے بھی قاضی عبدالغفار تمام تر سیاسی نکتوں سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہندوستانیوں کے دل کی آواز تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کے اخبار "کامریڈ" کے اسٹاف کے ساتھ جب وہ لندن کی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تو وہاں سے صحافت کے بارے میں معلومات کا خزانہ لے آئے تھے۔
چنانچہ انہوں نے اپنے اخبار "پیام" کے ذریعہ نہ صرف ہندوستانیوں کی روح کو بیداری کا پیام دیا بلکہ مظلوم عوام کا پیام انہوں نے حکومت کے ایوانوں تک پہنچایا۔ روزنامہ "پیام" کے اداریے بڑے معرکۃ الآرا ہوتے تھے۔ آپ کے بعد جناب اختر حسن صاحب، سابق سکریٹری و ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی نے اس اخبار کو خرید لیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا۔ کچھ دنوں تک "پیام" کانگریس کی حمایت کرتا رہا مگر بعد میں وہ عوام کی آواز بن گیا اور اس نے حق گوئی اور بےباکی کی انوکھی مثال قائم کی۔ بحیثیت مجموعی دکن کی اردو صحافت اخبار "پیام" کے بعد جدید دور میں داخل ہو گئی اور اس طرح سے آج کی صحافت کے لیے مشعل راہ بن گئی۔


اعلیٰ حضرت حضور پرنور ہز اکزالٹیڈ میر عثمان علی خان بہادر بندگان عالی اخبارات و رسائل سے ذاتی و خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ بیسیوں اخبارات کی آپ نے سرکاری خزانے کے ذریعہ اپنے دستِ خاص سے مالی مدد کی۔
اور دوسری طرف اخبارات و رسائل کی اشاعت کے سلسلے میں سرکار کی جانب سے دئے جانے والے اجازت نامے کے جملہ طریقوں کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں مروج کیا تاکہ ایک معمولی سی حیثیت رکھنے والا عام آدمی بھی اخبار شائع کر کے اپنے شوق کو پورا کر سکے۔ حضور نظام کو اشاعت علم کا خاص شوق و شغف تھا، جامعہ عثمانیہ کے قیام اور دارالترجمہ کی تشکیل کے ذریعہ اردو ذریعۂ تعلیم کا تجربہ کر کے اعلی حضرت نے اپنی علم دوستی کا بھرپور مطاہرہ فرمایا تھا۔


اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے اعلی حضرت خود اپنے دستِ مبارک سے لکھا ہوا اپنا تازہ کلام اور دیگر علمی و تنقیدی تبصرے روانہ فرماتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ شہزادگان والا شان بھی آپ ہی کی ایما پر آپ ہی کی تقلید میں اپنا کلام وغیرہ اشاعت کے لیے مختلف اخبارات کو روانہ کرتے تھے۔ علاوہ ازیں اخبارات کے خاص نمبر و سالنامے بھی اعلیٰ حضرت کے کلام سے لیس ہوتے تھے۔ رسالہ "ہمجولی" کی نسبت اعلیٰ حضرت نے اپنا ذاتی تبصرہ خود تحریر کر کے روانہ فرمایا تھا، چنانچہ آپ کے اس تبصرے کی بعد کے رسالے میں اشاعتِ خاص کر کے مدیر نے عزت حاصل کی۔
جو اخبارات اعلیٰ حضرت کے کلام سے منور ہوتے تھے ان کے نام اس طرح ہیں: نظام گزٹ، یادگار سلور جوبلی آصف سابع، صبحِ دکن، رہبرِ دکن وغیرہ۔
اعلیٰ حضرت کی تخت نشینی (اگست-1911ء) کے وقت جو اخبارات موجود تھے، ان میں مشیر دکن، دکن لاء رپورٹ، آصفیہ گزٹ، علم و عمل، صحیفہ وغیرہ شامل ہیں۔


حیدرآباد دکن کے اخبارات نے یہاں کی سماجی، علمی و تہذیبی اور صحافتی زندگی پر بہت گہرا اثر مرتب کیا۔ دکن کے عوام کی سماجی زندگی کا عکس ان اخبارات میں پورے طور پر واضح ہے۔ حیدرآباد کا تمدن، یہاں کی محفلیں اور معاشرت، لباس اور رہن سہن کے بارے میں یہ اخبارات مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہاں کی علمی و تہذیبی سرگرمیاں بھی ان اخبارات میں شائع شدہ خبروں اور اداریوں میں پوری طرح جلوہ گر نظر آتی ہیں۔


وہ خصوصیات جو آزادی سے قبل شائع شدہ ہندوستان کے دیگر اخبارات کے مقابلے میں حیدرآباد کے اخبارات میں نظر آتی ہیں: وہ ان اخبارات کی زبان، اسلوب، طرز ادا، خبروں کی بےساختگی، اداریوں کی حق گوئی و بےباکی اور اخبارات کے مدیروں کا نڈر و بےخوف ہونا ہے۔
حالانکہ حیدرآباد دکن پر بادشاہِ وقت اعلیٰ حضرت حضور نظام کی حکومت قائم تھی مگر باوجود اس کے، حیدرآباد کے اکثر اخبار انتہائی بےلاگ تھے اور حکومتِ وقت پر بھی (اگر کوئی خامی ان میں نظر آئے) تنقید سے گریز نہیں کرتے تھے۔


دکن کے ان متذکرہ اخبارات کے مختصر جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کی اردو صحافت کا قیام و استحکام صرف اور صرف دولت عثمانیہ اور اعلیٰ حضرت حضور نظام کی خصوصی عنایت اور ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ ریاست حیدرآباد اگرچیکہ ایک خودمختار ریاست تھی مگر اس ریاست کے اربابِ اقتدار صحافت کی آزادی، آزادئ رائے اور حق گوئی و بےباکی کو دل سے پسند کرتے تھے اور معاملے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔
اگرچیکہ بعض اخبارات پر مملکتِ آصفیہ کا عتاب بھی نازل ہوا تھا مگر اس کی وجہ ذاتی اغراض نہیں بلکہ قومی اور ملی مفادات کی صیانت و پاسبانی کرنا تھا۔
اس دور کے اخبارات جہاں ایک طرف اس زمانے کی تہذیب و شائستگی پر مشتمل ایک مبسوط دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں وہ عوام اور حکومتِ وقت کے درمیان باہمی تال میل اور ربط و ضبط برقرار رکھنے میں پوری طرح کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ ان اخبارات کا مطالعہ دراصل ہمیں اس دور کی پوری سیاسی و سماجی اور تہذیبی و تمدنی زندگی سے روشناس کراتا ہے۔


حیدرآباد دکن کے (از ابتداء تا 1947ء) اردو اخبارات کی ایک مکمل فہرست ذیل میں پیش ہے:


فہرست - حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات
نمبر شماراخبارسن اشاعتمدیر
1آفتاب ہند1860قاضی محمد قطب
2دارالطبع1869-
3متین کرتان1870کرتان محی الدین
4رحمانی1873-
5مفید عام1878نارائن سوامی
6نظام الاخبار دکن1878-
7آصف الاخبار1878نارائن سوامی
8جریدہ اعلامیہ1880-
9معلم شفیق1880محب حسن
10شاہ دکن1882اظہر الدین
11اسلامیہ1882محمد حسین
12شوکت الاسلام1882حاجی محمد قاسم کرتان
13ارم دکن1883سید احمد زید بلگرامی
14احمدی1883حمید الدین نعمانی
15ہزار داستان1883مولوی محمد سلطان عاقل
16محبوب شاہی1883منشی غوث الدین
17پیک آصفی1884مولوی سید احمد زید بلگرامی
18آصفی1885سید محمد سلطان اثنا عشری
19جوہر سخن1885عبداللہ خان ضیغم
20گلزار دکن1885قادر علی خان
21مسرت القلوب1886-
22دکن پنچ1887حکیم جگناتھ پرشاد، وکیل ہائیکورٹ
23مشیر دکن1892پنڈت کشن راؤ / پنڈت واسدیو راؤ
24افسر الاخبار1887مشتاق احمد
25نظام پریس1887عبدالسلام عرشی
26خیال محبوب1887عبدالسلام عرشی
27سفیر دکن1888منشی نثار علی شہرت
28محبوب القلوب1890عماد السلطنۃ بہادر
29نظارہ عالم1896منشی قدرت اللہ مضطر
30مظلوم دکن1898عظیم الدین
31جام جمشید1901ابراہیم خان
32عزیز الاخبار1902نواب عزیز جنگ بہادر ولا
33دکہنی1903مولوی محمد عبدالرحیم، وکیل ہائیکورٹ
34علم و عمل1904صادق حسین
35نظامی1904امیر حمزہ
36محبوب گزٹ1905منشی پیارے لال
37آصفیہ گزٹ1911مولوی سید محمد علی عرش ملیح آبادی
38صحیفہ1912مولوی اکبر علی
39معارف1913مولوی امیر حسن
40عثمان گزٹ1913سید رضا شاہ ترمذی انجم
41بلیٹن-میجر کیمرن
42پولیس گزٹ1914-
43واعظ1917مولوی عبدالوہاب عندلیب
44وقایع دفتر معتمدی مال1918مولوی محمد رحمت اللہ
45بیدر گزٹ1920-
46رہبر دکن1921سید احمد محی الدین
47نظام گزٹ1927سید وقار احمد ایم۔اے
48رعیت1927ایم۔ نرسنگ راؤ
49صبح دکن1928احمد عارف / اشرف علی
50وقت1928مولوی محمد عبدالرحمن صاحب رئیس
51اخبار سرسری1928مولوی محمد مظفر الدین خان
52الحمایت1929محمد منیر الدین خان
53دکن گزٹ1929ڈاکٹر مرزا غلام جیلانی
54منشور / وقت1930مولوی محمد عبدالرحمن صاحب رئیس
55ناندیڑ گزٹ / الاعظم1931حکیم غفران احمد
56پیام1935قاضی عبدالغفار / اختر حسن
57تنظیم1936علی اشرف
58سلطنت1938سید سعد اللہ قادری
59مملکت1941میر حسن الدین (بی۔اے، ایل ایل بی)
60تاج1944سید حسن
61میزان1944غلام محمد
62مستقبل1945-
63شیراز1945سید صمصام شیرازی
64سید الاخبار1946سید صمصام شیرازی
65البلاغ1946عبدالقدوس ہاشمی
66انقلاب1946مرتضی مجتہدی
67پرچم1946فصیح الدین
68تاجر1946بہاؤ الدین محمود سلیم صدیقی
69مبصر1947محمد صفدر اقبال
70دی اسٹیٹس نیوز1947محمد اختر حسین
71عظیم تر حیدرآباد1947عزیز احمد
72اتحاد1947سلطان بن عمر
73آزادی1947سید مختار محمد کرمانی
74آزاد1947ٹھاکر امراؤ سنگھ
75جناح1947سید اظہر حسین رضوی
76امروز1947شعیب اللہ خان
77معین1947سید جعفر اللہ جعفری
78امن1947سوامی واسدیو شاستری

***
ماخوذ از کتاب: حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات (از ابتدا تا 1947ء، ایک جائزہ)۔
تصنیف: محمد اعجاز الدین حامد، حیدرآباد۔ (مقالہ برائے ایم۔فل، یونیورسٹی آف حیدرآباد، سن اشاعت: ستمبر 1993ء)۔

Urdu Newspapers of erstwhile state Hyderabad Deccan, from beginning till 1947. Article: Mohammed Aijazuddin Hamed.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں