محل فلک نما - دورِ آصفیہ کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-19

محل فلک نما - دورِ آصفیہ کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت

falaknuma-palace-hyderabad

دورِ آصفیہ کی یہ عمارت تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔
سلطان محمد قلی قطب شاہ نے محل "کوہِ طور" کے نام سے ایک تین منزلہ عمارت اس مقام پر تعمیر کی تھی جہاں اب "فلک نما" ہے۔ محل کوہ طور کی وسعت بہت بڑی تھی کہ وہ "جہاں نما" تک پھیلا ہوا تھا۔ جہاں نما کے مقام پر قطب شاہی فوج کے کوارٹر تھے۔ 'محل کوہِ طور' کا تذکرہ تاریخ "حدیقۃ السلاطین" اور "تاریخ ظفر" میں موجود ہے۔ ان دونوں کی صراحت کا خلاصہ درج ذیل ہے۔


کوہِ طور بڑی پرفضا جگہ تھی، دور تک سبزہ ہی سبزہ تھا۔ اس مقام کی سرسبزی اور شادابی کو پسند کر کے سلطان محمد قلی نے تین منزلہ ایوان تیار کیا۔ اس کے وسیع کمرے اور شہ نشین تھے۔ ایوان کے سامنے اونچی اونچی کمانیں بنا کر سامنے کے صحن کو پتھر اور چونے سے بنایا گیا تھا۔ اس کے نیچے ڈیڑھ سو فیٹ لانبا اور نوے فیٹ چوڑا ایک حوض تعمیر ہوا تھا۔ اس محل کے اطراف تمام ایوانوں اور شہ نشینوں میں ہر جگہ حوض اور فوارے تھے۔ نیچے سے پانی اس طرح پہنچایا گیا تھا کہ تمام فوارے ابر کی طرح فضا میں پانی برساتے تھے۔ پہاڑ کے دامن میں دور تک برجوں کی طرح عمارتیں بنائی گئیں تاکہ دوسری شاہی ضرورتوں کے کام آئیں۔ محل کوہِ طور کے شہ نشین کی لمبائی تیس گز اور چوڑائی بیس گز تھی۔
سلطان محمد قلی کی کلیات میں ایک نظم بھی اس محل کے متعلق موجود ہے۔ نظم کا خلاصہ محبی ڈاکٹر زور صاحب کے الفاظ میں یہاں پیش ہے:


"چونکہ کوہِ طور پر ہمیشہ خدائے تعالیٰ کی تجلی نظر آتی ہے اس لیے خلق خدا اس کو دیکھنے آتی ہے اور اس کی روشنی سرمہ بن کر لوگوں کی آنکھوں کو روشن کرتی ہے۔ اس طور کا منظر ہشت بہشت کے مانند ہے۔ آسمان کی روشنی اس کے نور تلے چھپ جاتی ہے۔
اس محل کو دیکھ کر سب لوگ اپنی بھوک پیاس بھول جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر شاہِ مرداں کی تجلی جھلک رہی ہے۔ اس کے بارہ برجوں پر بارہ اماموں کی نظرِ عنایت ہے، اسی وجہ سے اس محل پر ایمان کی روشنی چمکتی رہتی ہے۔ اس محل کا ہر ایک کنگورا اتنا بلند ہے کہ اس پر چڑھنے سے اسی طرح تمام عالم نظر آتا ہے جس طرح جامِ جہاں نما سے نظر آتا تھا۔ اس کے ہر منارے پر شاہ کنعاں کا حسن جھلکتا رہتا ہے۔ اس محل کے ہر شہ نشین اور ہر برج پر بادشاہ کے حکم سے ہر روز مہ جبینوں کی مجلس آرائیوں کی وجہ سے روشنی چمکتی رہتی ہے۔
اے قطب شاہ، نبیؐ کے صدقے میں تو اس محل میں آرام و اطمینان سے زندگی بسر کر کیونکہ اس میں شیرِ یزداں کی تجلی بھی جھلکتی رہتی ہے۔"


قطب شاہی سلطنت کے خاتمہ پر دوسری عمارتوں کی طرح محل کوہِ طور بھی منہدم ہو گیا تھا۔ کچھ کھنڈر باقی تھے۔ نواب اقبال الدولہ نے جو پائیگاہی امیر تھے اور فنون لطیفہ کا خاص ذوق رکھتے تھے، محل کوہِ طور کی پہاڑی کو پسند کر کے ایک عالی شان عمارت کی تعمیر کا ارادہ کیا اور 1301ھ (1884ء) میں سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ آٹھ سال کے عرصے میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی یعنی 1892ء میں محل پوری طرح تیار ہو کر آراستہ ہو گیا۔ چالیس لاکھ روپیہ تعمیر وغیرہ میں صرف ہوئے۔


نواب اقبال الدولہ اپنے مدار المہامی (چیف منسٹری) کے زمانہ میں اکثر یہاں قیام کرتے تھے۔ موصوف کے زمانہ میں اس محل کی زیب و زینت مشہور تھی۔ یوروپین مہمان خصوصیت سے اس کی تفریح کرتے تھے۔ مولف کتاب "گلمپسس آف دی نظام ڈومینین" (Glimpses of the Nizam's Dominions: Claude Campbell) نے تفصیل کے ساتھ فلک نما کی صراحت کی ہے۔ اس کا ایک مختصر اقتباس قابلِ ملاحظہ ہے۔


محل فلک نما

محل فلک نما کے سامنے ایک خوشنما اور پرفضا باغ انگریزی وضع کا ہے۔ ایک خوبصورت سنگ مر مر کا حوض ہے جس کے اطراف سنگ مر مر کی کرسیاں ہیں اور بیچ میں ایک پایہ ستون ہے جس پر فرشتوں کے مجسمے ہیں۔ یہ مجسمے اس حوض کو تھامے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس میں تین درجے ہیں۔ اور آخری درجے میں دوسرے تین مجسمے ہیں جن کی پیٹھ سے پیٹھ ملی ہوئی ہے۔ اور ان کے ہاتھوں میں ایک مثلث کٹورا بطور حوض بنا ہوا ہے۔ اس محل کی ہر ایک چیز تفریحِ طبع کا عمدہ ذریعہ ہے اور صناعی کا ایک بےبہا نمونہ ہے۔ فلک نما پر سے بائیں طرف کو ایک ٹیلے کے دامن میں میر عالم کا خوبصورت تالاب نظر آتا ہے اور یہاں سے پورا شہر حیدرآباد دکھائی دیتا ہے۔


گولکنڈہ سے بلارم تک کوئی جگہ نظروں سے چھپی نہیں رہتی۔ 1313ھ (1896ء) تک یہ محل اقبال الدولہ کی ملک رہا۔ سنہ مذکور میں حضور نظام نے اس کو خرید فرما لیا اور صرفخاص کی ملکیت میں شامل ہو گیا۔ اور نواب سر افسر الملک کی نگرانی میں یہ محل سپرد ہوا۔ موصوف کے زمانہ میں اس محل کو دیکھنے کے لیے اجازت نامہ ملا کرتا تھا اور دور دراز سے لوگ اس محل کی سیر کو آتے تھے۔
1911ء میں نواب میر محبوب علی خاں کا انتقال فلک نما میں ہوا تھا۔ 1323ھ کے بعد عام اجازت بند کر دی گئی اور بلند مرتبت مہمانوں کے قیام کے لیے یہ محل مخصوص کر دیا گیا۔ چنانچہ 1323ھ (1906ء) میں جب کنگ جارج پنجم بحیثیت پرنس آف ویلز حیدرآباد آئے تو ان کا قیام اسی محل میں تھا۔ اس کے بعد قیصر جرمنی کے ولی عہد بھی یہیں مقیم رہے اور پھر کنگ جارج کے زمانہ میں ان کے فرزند ایڈورڈ ہشتم بحیثیت پرنس آف ویلز حیدرآباد آئے تو یہیں قیام کیا۔


گورنر جنرلوں میں لارڈ منٹو پہلے گورنر جنرل و وائسرائے ہند تھے جنہوں نے 1325ھ (1908ء) میں رفاقت کی تھی۔ لارڈ منٹو کے بعد جس قدر وائسرائے ہند حیدرآباد آتے رہے ان تمام کو اسی جگہ مہمان رکھا جاتا رہا۔ انگریزوں کے گورنر جنرلوں میں صرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن حیدرآباد نہیں آئے اور قیام نہیں کیا۔ ان کے بجائے جب حکومت ہند قائم ہوئی تو پہلے گورنر جنرل شری راج گوپال چاری جب حیدرآباد آئے تو یہیں قیام فرمایا اور موصوف کے بعد جب صدر جمہوریہ پہلی مرتبہ حیدرآباد تشریف لائے تو فلک نما میں ہی قیام کیا تھا۔


فلک نما کی عمارت مختلف وجوہ سے خصوصیت رکھتی ہے۔ اول تو اس محل کا محلِ وقوع ہے جیسا کہ پہلے بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ یہاں سے شہر حیدرآباد کا نظارہ گولکنڈہ سے بلارم تک کیا جا سکتا ہے۔ حیدرآباد کے چاروں طرف میلوں تک کا منظر پیش نظر رہتا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس باغ کی چمن بندی نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ فن باغبانی کے بہترین اصول کو پیش نظر رکھ کر خیابان اور کیاریاں بنائی گئی ہیں۔ تیسری خصوصیت محل کی شاندار، بلند خوبصورت عمارت ہے جو حیدرآباد کی دوسری تمام عمارتوں سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے شاندار اور وسیع کمرے، طویل و عریض شہ نشین، خوبصورت برج، غرض تعمیر کے لحاظ سے بھی فلک نما کو خصوصیت حاصل ہے۔
چوتھی خصوصیت اس کی خوشنما آرستگی ہے۔ آرستگی میں فرنیچر، شیشہ کے آلات، فوٹو، مصوری اور آرٹ کے نمونے، دیگر نوادر وغیرہ ہیں یعنی بہ الفاظ دیگر میوزیم کہا جا سکتا ہے۔
فلک نما میں قیمتی عمدہ قالین، زرنگار پردے، بیش قیمت فرنیچر، نادر روزگار آرٹ اور مصوری کے اعلیٰ نمونے وغیرہ کا جو ذخیرہ ہے اس کی صراحت کے لیے طویل صفحات کی ضرورت ہے۔ کسی مختصر مضمون میں اس کو سمایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے صرف یہ لکھا جا سکتا ہے کہ یہاں کا بیش قیمت اور گراں بہا سامان ایک بہت بڑے میوزیم یا عجائب خانہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی نظیر آپ ہے۔

(روزنامہ "سیاست" کے شمارہ: 11/نومبر 1957ء میں یہ مضمون شائع ہوا تھا)۔


ماخوذ از کتاب:
شہرِ حیدرآباد۔ (عہدِ قطب شاہی، آصفیہ اور دورِ حاضر کے تمدن آثار و ثقافت پر روزنامہ 'سیاست' کی مطبوعہ تحریروں کا انتخاب)
ناشر: ادبی ٹرسٹ (روزنامہ سیاست) حیدرآباد (سن اشاعت: مئی 1978ء)۔

The Falaknuma Palace, the historic building of Hyderabad's Asif jahi dynasty. Article: Naseeruddin Hashmi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں