دارالمصنفین اعظم گڑھ - مضمون از محمد اویس خاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-23

دارالمصنفین اعظم گڑھ - مضمون از محمد اویس خاں

علامہ شبلی نعمانی سب سے پہلے سر سید کی تحریک کے ایک رکن کی حیثیت سے علمی دنیا سے روشناس ہوئے۔ لیکن انہوں نے جلد ہی اپنی ایک مستقل علمی حیثیت کومنوالیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کئی اعتبار سے ان کی علمی و فکری تحریک علی گڑھ کی تعلیمی تحریک سے بہت آگے نکل گئی۔ سر سید کو ان کے شجر تعلیمی کے پھل نے بد مزہ کردیا تھا۔ لیکن اگر وہ شبلی کی تربیت یافتہ جماعت کے علمی ذوق، جذبہ خدمت ملی ، اور ایثار و خلوص کو دیکھتے تو خوش ہوتے۔ شبلی تو بہت بڑی شخصیت تھے اور وہ دست تعلیم و تربیت دوسرے تھے جنہوں نے شبلی کو جوہر قابل بنادیا تھا۔ سرسید کی تحریک نے کوئی سلیمان و عبدالسلام بلکہ ان کے شاگرد معین الدین اور صباح الدین جیسا مخلص ایثار پیشہ صاحب تصنیف و تالیف اور اہل قلم بھی پیدا نہیں کیا شبلی کی علمی، فکری، تصنیفی اور تالیفی تحریک کا یہ ایک ایسا امتیاز ہے جس میں 19 ویں اور20 صدی کا کوئی صاحب علم و فضل اور کوئی علمی و فکری تحریک شریک نہیں ہے۔


شبلی کو علی گڑھ کے زمانۂ قیام ہی میں اسلامی علوم و فنون، اسلامی تاریخ ،مسلمانوں کی بعض شخصیات اور وقت کے چند اہم موضوعات پر تصنیف و تالیف کی ضرورت کا احساس پیدا ہوگیا تھا۔ اور انہوں نے اس تصنیفی و علمی تحریک کی ابتدا بھی کردی تھی۔ لیکن انہیں اس امر کا بھی پورا پورا احساس تھا کہ صرف ایک شخس اپنی کوششوں سے تصنیف اور تحقیق کی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا خواہ وہ کتنا ہی جامع الحیثیات اور فارغ الاوقات کیوں نہ ہو۔ اس کام کے لئے اہل قلم اور اصحاب علم و فضل کی ایک پوری جماعت کی اور اس کی مسلسل کوششوں کی ضرور تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ مرحلہ سخت جاں ایک عظیم الشان کتب خانے کے قیام کے بغیر طے نہیں کیاجاسکتا۔ اس ضرورت کا احساس انہیں اس زمانے میں خاص طور پر ہوا جب وہ"الفاروق" کی تصنیف میں مصروف تھے اور مواد کی فراہمی کے لئے اور بعض ماخذ سے استفادے کے لئے انہیں ترکی، مصر، شام وغیرہ کا سفر کرنا پڑا۔
"الفاروق" ان کے علی گڑھ کے زمانہ قیام کا کارنامہ ہے۔ تصنیف و تالیف کے امور کے لئے شبلی جس قسم کی جماعت کی تلاش میں تھے اس کی جستجو علی گڑھ کے انگریزی خواں اور شوقین مزاج نوجوانوں میں تضیع اوقات کے برابر تھی۔ یہ ضرورت کسی جدید درس گاہ میں طلبہ کی ایک مخصوص جماعت کی تعلیم و تربیت علمی سے پوری ہوسکتی تھی۔ اس کے لئے شبلی کو تقریبا پندرہ برس انتظار کرنا پڑا۔ لیکن ان کا یہ خواب پورا ہوا اور اس کی حسن تعبیر سے ہندو پاکستان میں تصنیف و تالیف اور مطالعہ و تحقیق کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔


ہمارے نزدیک اس نئے دور علمی اور عہد تصنیف و تالیف کی تاریخ 1905ء میں اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب شبلی حیدرآباد دکن کی ملازمت سے سبک دوش ہوکر لکھنو آئے اور ندوۃ العلماء کی زمام اعتماد اپنے ہاتھ میں لی اور طلبہ کی ایک جماعت کو اپنی توجہ اور تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا۔ جلد ہی انہیں صبح سعادت علمی کے آثار صاف نظر آنے لگے تھے۔ اس وجہ اس کے فوراً بعد وہ بہت جلد تمام ہنگاموں سے بے نیاز ہوکر صرف علمی اور تصنیف و تالیف کے کاموں کے لئے وقف ہوجانا چاہتے تھے۔ لیکن ندوۃ کی رہنمائی کی ذمہ داریوں کے علاوہ ملک اور بیرون ملک اسلامی دنیا میں چند ایسی تبدیلیاں اور واقعات رونما ہوئے جن سے شبلی جیسے حساس اور درد مند بے نیاز ہوکر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اس کے باوجود وہ اس طرف سے غفلت نہیں برت رہے تھے۔
چنانچہ مارچ 1910ء میں دہلی میں ندوۃ العلماء کا جو سالانہ جلسہ ہوا اس میں مصنفین اور اہل قلم کے علمی استفادے اور تحقیق کے کاموں کے لئے ایک عظیم الشان کتب خانہ کے قیام کی تجویز نہایت زوروشور کے ساتھ پیش کی گئی۔ اور آپ نے اپنے شاگرد خاص سید سلیمان ندوی سے بھی ایک مقالہ "ندوہ میں ایک عظیم الشان کتب خانے کی ضرورت" کے عنوان سے پڑھوایا اور ہدایت فرمائی کہ اسی سلسلے میں ایک "دارالمصنفین" کے قیام کی تجویز بھی پیش کرو۔
چنانچہ سید صاحب لکھتے ہیں کہ:
"ندوۃ العلماء جس قسم کے علماء اپنے مدرسہ میں تیار کران چاہتا ہے وہ اس اسکیم سے ظاہر ہے کہ یہاں کے طلبہ درجہ عالمیت بدرجہ تکمیل کے بعد تالیف و تصنیف میں مشغول ہوں اور ایک بڑے پیمانے پر شعبہ تالیف و تصنیف قائم کیاجائے۔ جس سے علوم تاریخ اسلام کا احیاء ہو ، لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہر کام اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب ندوۃ العلماء کے احاطہ میں ایک عظیم الشان کتب خانہ ہو جس میں تمام نادر تصانیف موجود ہوں"۔


اپریل 1910ء کے الندوہ میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اجلاس دہلی کی تجاویز اور کارروائی پر تبصرہ کیا، تو کتب خانہ اور "دارالمصنفین" کی تجویز کی پرزور الفاظ میں تائید کی اور اسے قوم کی شاہرہ مقصود قرار دیا۔


لیکن اس کے بعد جلد ہی ندوہ کے اندرونی حالات نے ایسی صورت اختیار کرلی جس سے شبلی ذہنی طور پر بہت پریشان اور متفکر رہے۔ اس کے باوجود ایک دارالتصنیف یا دارالمصنفین کے قیام کے بارے میں ان کا ذہن برابر سوچتا رہا۔ بالآخر 1913ء میں انہوں نے اس کا پورا خاکہ مرتب کر لیا اور 11/فروری 1914ء کے الہلال کلکتہ میں اسے شائع کر دیا۔ علمی حلقوں میں نہایت گرمجوشی اور مسرت کے ساتھ کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ اس علمی تجویز کے چند اہم نکات یہ ہیں:


"خدا کا شکر ہے کہ ملک میں تصنیف و تالیف کا مذاق پھیلتا جارہا ہے اور قابل قدر ارباب قلم پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن بایں ہمہ اس گروہ میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کو مصنف کے بجائے مضمون نگار یا انشاء پرداز کہنا زیادہ موزوں ہوگا کیونکہ ان کی مستقل تصانیف نہیں بلکہ رسالے یا مضامین ہیں۔
اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان میں اعلی درجے کی تصنیفی و تالیفی قابلیت نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اعلی درجے کی تصنیف کے لئے جو سامان درکار ہے وہ مہیا نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر کے پاس کتابوں کا ذخیرہ نہیں ، جو انتخاب، استنباط و اقتباس کے کام میں آئے۔ اتفاق سے اگر کوئی مقامی کتب خانہ قائم ہے تو دل جمعی کے اسباب نہیں کہ اطمینان سے چند روز وہاں رہ کر کتابوں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ اور نقل و اقتباس کرسکیں۔ ان باتوں کے ساتھ کوئی علمی مجمع نہیں کہ ایک دوسرے سے مشورہ اور تبادلہ خیال ہوسکے۔ ان مشکلات کے حل اور تصنیف و تالیف کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ایک وسیع دارالتصنیف اصول ذیل کے موافق قائم کیا جائے۔


1۔ ایک عمدہ عمارت دارالتصنیف کے نام سے قائم کی جائے جس میں ایک وسیع ہال کتب خانے کے لئے ہو، اور جس کی حویلی میں ان لوگوں کے قیام کے لئے کمرے ہوں جو یہاں رہ کر کتب خانے سے فائدہ اٹھانے اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہنا چاہتے ہوں۔


2۔ یہ کمرہ خوبصورت اور خوش وضع ہوں اور ان مشہور مصنفین کے نام سے منسوب ہوں جو تصنیف کی کسی شاخ کے موجد اور بانی فن ہوں۔


3۔ ایک عمدہ کتب خانہ فراہم کیاجائے جس میں کثرت تعداد ہی پر نظر نہ ہو بلکہ ہر فن سے متعلق کتب ہوں خواہ وہ نادر اور کمیاب ہی کیوں نہ ہوں فراہم کی جائیں۔


4۔ تصنیفی وظائف قائم کئے جائیں۔ اور وظیفہ عطا کنندہ کے نام سے موسوم کیاجائے یہ وظائف ماہوار ہوں گے۔ یا کسی تصنیف و تالیف کے صلے کے طور پر دئے جائیں گے"۔


دارالمصنفین کے اس خاکے کی اشاعت کے بعد اسکے قیام کے لئے عملی کوششیں بھی کی گئیں تھیں، سب سے اہم سوال یہ تھا کہ دارالمصنفین کو کہاں قائم کیاجائے۔ شبلی نہایت سنجیدگی سے چاہتے تھے کہ اس کا مرکز ندوہ میں ہو۔ وہ اپنی اس خواہش کا اظہار متعدد مواقع پر اور کئی حضرات کے نام خطوط وغیرہ میں کرچکے تھے۔ لیکن ندوہ کی موجودہ فضا کو اس کے لئے مناسب خیال نہ کرتے تھے۔ بعض حضرات نے لکھنو اور کسی نے علی گڑھ کو اس کے لئے موزوں قرار دیا۔ نواب صدر یار جنگ حبیب الرحمن خاںشیروانی نے حبیب گنج میں اس کے قیام کا مشورہ دیا۔
لیکن دارالمصنفین کے مرکز کے مسئلہ کو بقول سید سلیمان ندوی قاضی تقدیر نے اس طرح طے کردیا کہ :
"اگست 1914ء میں مولانا شبلی کے عزیز بھائی مولوی محمد اسحاق مرحوم کی موت نے ان کو اعظم گڑھ آنے پر مجبور کردیا۔ یہاں سکون و اطمینان نظر آیا تو اس شہر کو اپنے مقاصد کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔"
اس کے لئے سب سے پہلے اپنے ذاتی باغ بنگلہ اور کتب خانے کو وقف کردیا۔ "دارالمصنفین" میں شرکت و داخلہ کے قواعد و ضوابط بنانے اور دو ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد تمام بنیادی اور اہم امور طے پاگئے۔ رام بابو سکسینہ نے نواب سید علی حسن خان سے ایک روایت نقل کی ہے۔ اس موقع پر اس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو، نواب صاحب فرماتے ہیں:


"قیام دارالمصنفین کے لئے میں نے مولانا کو نیم راضی کرلیا تھا کہ لکھنو میں کھولا جائے۔ مگر ان کی خواہش تھی کہ اس کا تعلق ندوہ سے نہ ہو ، اور یہ ایک بالکل علیحدہ چیز رہے اس کے واسطے بعض مواقع لکھنو میں دیکھے گئے۔ اور مولانا نے دو ایک جگہوں کو پسند بھی کیا، پھر مولانا بمبئی تشریف لے گئے ، میں بھی وہاں موجود تھا وہاں سے اپنے چھوٹے بھائی مولوی محمد اسحاق کی اچانک موت کی خبر سن کر دفعۃً الہ آباد ان کو آنا پڑا۔ یہاں سے وہ بضرورت اعظم گڑھ گئے۔ اور مجھ کو لکھا کہ دارالمصنفین یہاں قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ میں گیا تو معلوم ہوا کہ مولانا نے اپنا باغ وغیرہ اسکے واسطے وقف کردیا ہے۔ اور بعض اور لوگوں نے اپنی جائدادیں دی ہیں، میں نے کہا بہت بہتر ہوتا کہ دارالمصنفین لکھنو میں قائم ہوتا، ہنس کر فرمایا کہ مضائقہ ہے یہاں اس کو بالفعل رہنے دیجئے ، جب موقع آئے گا تو لکھنو میں منتقل ہوجائے گا"۔


مولانا ابھی اس کی رسم افتتاح کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ 18 نومبر کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ لیکن یہ ان کے اخلاص اور نیک نیتی کا نتیجہ تھا کہ ان کے صالح و سعید شاگردوں نے ان کے انتقال کے صرف تین دن بعد 21؍نومبر کو دارالمصنفین کے قیام کا اور اس کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردینے کا اعلان کردیا اور ملک کے دیگر اہل علم سے صلاح و مشورہ کے بعد 4؍جون 1915ء کو اس کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط کا رجسٹریشن بھی کرا لیا۔


دارالمصنفین پانچ شعبوں میں تقسیم ہے جن کی تفصیل یہ ہے :
(1) شعبہ تصنیف و تالیف (2) شعبہ طباعت (3) شعبہ اشاعت (4) شعبہ رسالہ معارف (5) کتب خانہ۔
دارالمصنفین کے مشہور محقق اور رفیق علمی سید صباح الدین الرحمن نے اس سلسلے میں جو معلومات فراہم کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ تمام شعبے دارالمصنفین کے سترہ بیگھے زمین پر الگ الگ عمارتوں میں قائم ہیں اور اسی احاطے میں دارالمصنفین کے ناظم، مہتمم اور رفقائے علمی کے لئے مکانات ہیں اور ایک آرام دہ مہمان خانہ اور ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔ دارالمصنفین کے علمی شعبے میں کام کرنے والے افراد چوبیس گھنٹے اسی احاطہ میں رہتے ہیں اور اپنے تمام اوقات صرف پڑھنے لکھنے میں صرف کرتے ہیں۔صباح الدین صاحب استثنا و خوف و تردید کے بغیر کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان و پاکستان میں کوئی ایسا علمی ادارہ نہیں ہے جس کی ہر چیز اپنی ہو، یعنی زمین اس کی اپنی اور ضرورت کے مطابق تمام عمارتیں اس کی اپنی ہوں ، اس کا اپنا کتب خانہ بھی ہو، اس کا اپنا مطبع اور اپنا دارالاشاعت بھی ہو اور سب سے بڑھ کر چوبیس گھنٹے کے اس کے اپنے مصنف بھی ہوں۔


اس وقت تک تقریباً سوا سو کتابیں دارالمصنفین نے شائع کی ہیں۔ کتابوں کی تعداد کے لحاظ سے پاک وہند کے شاید کئی دوسرے ادارے اس پر فوقیت لے جائیں گے لیکن اس امتیاز میں کوئی دوسرا ادارہ دارالمصنفین کا شریک نہیں ہوسکتا کہ اس کی تمام تصانیف و تالیفات اس کے اپنے رفقائے علمی کے قلم سے میں وہاں جو کچھ لکھا گیا اور جو کچھ شائع ہو اس کے ایک ایک حرف اور ایک ایک خیال کو کامل غوروفکر اور اتفاق و اعتماد کے بعد پیش کیاگیا ہے اور ملک و بیرون ملک کے تمام علمی حلقوں نے اسے نہایت مستند اور قابل اعتماد سمجھ کر تسلیم بھی کرلیا۔
دارالمصنفین نے سیرت النبی، سیرت عائشہ، سیرۃ الصحابہ، اور تاریخ اسلام وغیرہ موضوعات پر جو کتابیں شائع کی ہیں۔ ان کے تحقیقی معیار، تصنیفی جامعیت اور تالیف کے کمال کے مطابق عربی، فارسی اور انگریزی میں بھی کوئی کتاب موجود نہیں۔ دارالمصنفین کی بہت سی تصانیف کا ترجمہ برصغیر پاک و ہند کی متعدد علاقائی زبانوں کے علاوہ عربی ، انگریزی، فارسی، ترکی ، بنگالی اور دنیا کی تمام مشہور زبانوں میں بھی ہوچکا ہے۔ ملک کے علمی حلقوں کے علاوہ بیرون ملک کے علمی حلقوں نے دارالمصنفین کی علمی خدمات اور اس کی تصنیفات کے تحقیقی معیار کا اعتراف کیا ہے۔ صباح الدین صاحب نے 1964ء کے اواخر تک کی تصنیف کی تفصیل دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک مختلف علوم و فنون میں 117 کتابیں شائع ہوچکی ہیں ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔


سیرت النبی6 جلد، سوانح 23 جلد، تاریخ اسلام 14 جلد، تاریخ ہند 17 جلد، ادب15 جلد، اخلاقیات 2جلد، فلسفہ 16 جلد، علم الکلام1جلد، فقہ اسلامی 2جلد، تعلیمات1جلد، لغت1جلد،مقالات شبلی 9 جلد، کتب عربی 5 جلد، متفرقات11جلد۔


جیسا کہ عرض کیا یہ تعداد 1964ء کے اواخر تک کی ہے گزشتہ تقریباً دس سال میں اس نے اور بہت سی کتابیں تصنیف اور شائع کی ہوں گی۔ لیکن اس مدت میں ہمیں اس کی علمی فتوحات اور کارناموں کے بارے میں بہت کم معلومات ہو سکی ہیں۔


مختلف علوم و فنون میں اس کی معرکۃ الآرا تصانیف کے علاوہ جس خدمت نے اس کے علمی مقام و حیثیت کو مستحکم کیا اور جو بالآخر اس کے لئے شرف اور امتیاز بن گیا وہ اس کا علمی مجلہ "معارف" ہے۔
اس کا پہلا شمارہ جولائی 1916ء میں شائع ہوا تھا اور گزشتہ 58 برسوں سے مسلسل شائع ہورہا ہے۔ یہ مقام بہت کم جرائد کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک مجلہ کے بجائے علم و تحقیق اور فکر کی ایک علامت کے طور پر گردانے جانے لگے۔ معارف کا نام زبان پر آتے ہی علم و تحقیق کی ایک علامت کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ بعض رسائل کی تعریف میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں اصحاب علم و فضل ان کا مطالعہ فرماتے تھے۔ اور یہ گویا ان رسائل کے معیاری ہونے کی شہادت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن معارف کا مطالعہ علم و ذوق کی سند سمجھاجاتا ہے۔دارالمصنفین کی طرح ملک اور بیرون ملک کے اہل علم نے معارف کی متنوع علمی خدمات تحقیقی معیار اور مقالات کی فکر آفرینی کا اعتراف بھی کیا ہے۔


دارالمصنفین کی تجویز، قواعد و ضوابط وغیرہ سب چیزیں شبلی مرحوم طے گئے تھے اور غیر رسمی طور پر وہ اس کا آغاز بھی کرگئے تھے۔ اسے واقعی دارالمصنفین اور بر صغیر پاک و ہند کا ایک اعلی پایہ کا علمی ادارہ بنانے اور اس کے نام کو معیار علمی کی علامت بنادینے کا سہرا حضرت علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم اور ان کے ساتھیوں مولانا مسعود علی ندوی اور مولانا عبدالسلام ندوی کے سر ہے ان حضرات نے دارالمصنفین کے لئے جس عظیم الشان ایثار پیشگی کا ثبوت دیا ہے اس کی کوئی مثال کم از کم اردو کی علمی دنیا سے پیش نہیں کی جاسکتی۔


اردو کے مشہور محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:
"سید سلیمان ندوی جنہوں نے پونا کالج کی پروفیسری ترک کرکے 33 سال تک دارالمصنفین کی سربراہی کی آخر میں صرف ڈھائی سو روپے لیتے تھے عبدالسلام ندوی جو چالیس سال سے زائد عرصے تک دارالمصنفین میں مقیم رہے اور صرف موت انہیں ادارے سے جدا کرسکی۔ آخر میں ایک سو ستر روپیہ گزارہ الانس لیتے تھے۔ یہ مشاہرے بھی جنگ عالمگیر دوم کی پید ا کردہ گرانی کے باعث تھے، ورنہ پہلے یہ مشاہرہ بہت قلیل تھا۔"


مولانا مسعود علی ندوی بھی مولانا شبلی مرحوم کے خاص شاگرد تھے، دارالمصنفین کے انتظام و اہتمام کی ذمہ داری ان کے سپرد تھی یہ ان کے حسن انتظام کا نتیجہ تھا ،دارالمصنفین میں ایک پرسکون ماحول میسر آیا اور یہی وجہ تھی کہ ان کے علمی رفقاء دوسری تمام فکروں سے آزاد بے پروا ہوکر اتنی عظیم الشان علمی خدمت انجام دے سکے۔ اور بقول حسین ذوالفقار:
"دارالمصنفین کا قیام بر صغیر کے مسلمانوں کی دینی تہذیبی اور علمی تاریخ کا اہم ترین واقعہ بن گیا ہے۔"


آج کل (سنہ 1974ء) دارالمصنفین کے ناظم مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ہیں جو معارف کے ایڈیٹر بھی ہیں اور رفیق علمی (ریسرچ اسکالر) کی حیثیت سے جناب سید صباح الدین عبدالرحمن تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اور ادارے کے منصب صدارت پر بر صغیر کے مشہور ادیب، نقاد، انشا پرداز، صحیفہ نگار اور مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی فائز ہیں۔


نوٹ:
اس مضمون کی تیاری میں حیات شبلی (سید سلیمان ندوی)، دارالمصنفین (مقالہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار(مشمولہ)، مقالات یوم شبلی مرتبہ حافظ نذر( احمد)، دارالمصنفین اعظم گڑھ (کتابچہ سید صباح الدین عبدالرحمن) اور موج کوثر(شیخ محمد اکرام)سے خاص طور پر مدد لی گئی ہے۔


ماخوذ :
مجلہ علم و آگہی (خصوصی نمبر : علمی ادبی اور تعلیمی مسلم ادارے)، اشاعت:1973-74 (گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی)
مرتبہ: ابوسلمان شاہجہاں پوری

Darul Musannefin Shibli Academy Azamgarh. Article: Mohammad Owais Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں