سوشلزم کی مذہب دشمنی کا جائزہ - از عمر حیات خاں غوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-24

سوشلزم کی مذہب دشمنی کا جائزہ - از عمر حیات خاں غوری

anti-religious-sentiments-of-socialism

شادی بیاہ کے معاملات کو مذہب سے بے نیاز کر کے محض ملکی قوانین کے تحت لانا اور شادی کو ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان محض ایک سماجی معاہدہ قرار دینا اشتراکی نظام کی بنیادی صفت ہے جس کی اساس اشتراکیت کا وہ فلسفہ ہے جس کے مطابق وہ خدا اور مذہب کو سرمایہ داروں کی تخلیف ، اور اخلاق کو معاشرے کا زنگ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اشتراکیت کو جہاں بھی کسی معاشرہ پر اپنے اثرات ڈالنے کا موقع ملا ہے اس نے شادی بیاہ جیسے خالص نجی اور مذہبی معاملات کو بھی اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے ، اور اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ مرد کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور عورت کس سے ، انہوں نے شادی کی سلک میں منسلک کرنے کی کوشش کی ہے۔


چنانچہ اشتراکی پارٹی کی تیرہویں کانگریس نے گھر(FAMILY) کو سابق نظام سرمایہ داری کے ہتھکنڈوں کا مرکز اور فحاشی کا اڈہ قرار دیا اور اس کی اصلاح کے لئے دوسرے کئی طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی اپنایا گیا۔


(1)
17 اور 32/ سال کے درمیان کی تمام عورتیں ریاست کی ملک قرار دیدی گئیں اور ان پر سے ان کے شوہروں کے حقوق ساقط کردئے گئے تاکہ یہ عورتیں کسی ایک مرد کی پابند نہ رہیں بلکہ ہر کامریڈ جس جوان عورت سے لطف اندوز ہونا چاہے ، آزادی سے ایس اکرسکے اور کوئی شوہر اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ لیکن جب اس فیصلے کے تباہ کن نتائج سامنے آئے تو اس اصول میں ترمیم کی گئی اور اب شادی کے لئے یہ اصول وضع کیا گیا کہ شادی ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہوتا ہے اس کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں ہے۔اس لئے مذہب کو اس راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔


چنانچہ آج بھی اشتراکیت اپنی اس پالیسی پر عامل ہے ، یہ یاد رہے کہ اشتراکیت کو لینن نے سائنٹفک سوشلزم کا نام دیا ہے۔ اس لئے دنیا کے جن غیر اشتراکی ممالک نے سوشلزم کے قیام کو اپنا مقصد بنارکھا ہے وہ سب بھی لازمی طور پر سوشلسٹ سماج کی تشکیل کے لئے اس اصول پر کاربند رہنا ضروری سمجھتے ہیں۔


اتھوپیا پر جب کمیونسٹ حکومت کا سایہ پڑا اور وہاں کی حکومت نے سوشلسٹ سماج تشکیل دینے کے لئے دستور وضع کیا تو اس کے لئے ملکی دستور میں اس قسم کی ایک دفعہ کا شمول لازمی سمجھا گیا۔


"۔۔۔ اسی طرح کمیونسٹ کلچر کی اباحیت پسندی کے مظاہرے کے لئے بھی آئین میں یہ بیان تشکیل کیا گیا ہے کہ شادی ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان محض رضا مندی اور منظوری پر مبنی ہے ، تعدد ازدواج ممنوع ہے اور تمام بچوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے خواہ وہ شادی کے بعد پیدا ہوئے ہوں یا شادی کے بغیر۔"
(سہ روزہ دعوت 10/ دسمبر 1986ء)


چونکہ جائز اور ناجائز کا وہ تصور جو مذہب پر مبنی اخلاقی ضابطوں میں پایا جاتا ہے کمیونسٹ نظام میں پسندیدہ نہیں ہوتا اس لئے سوشلسٹ نظام بھی اسے پسند نہیں کرتا۔


اسی طرح جب کمیونسٹوں کو اریٹیریا میں اقتدار حاصل ہوا تو وہاں بھی مذہب پسند عوام کو اس قسم کے مصائب کا سامنا کرنا۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔


"اتھوپیا کی حکومت کی شیطنت کے علاوہ مسلمانان اریٹیریا کو بد دماغ کمیونسٹ مسیحی اقلیت کے ہاتھوں جو کچھ مصائب جھیلنے پڑے ہیں اور پڑ رہے ہیں وہ خود الگ داستان خوںچکاں کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ اس طرح کے متعدد اقدامات وقفہ وقفہ سے کئے جاتے رہے ہیں اور آج نوبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ مسلم دو شیزاؤں کو غیر مسلم مردوں کیس اتھ شادی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ، تاکہ مسلمانوں کی نسل، ان کا خاندانی نظام اور بالآخر ان کی اسلامی حیثیت تباہ و برباد ہو کر رہ جائے۔"
(سہ روزہ دعوت، 14/دسمبر 1986ء)


اس سے معلوم ہوا کہ مسلم پرسنل لا کے پیچھے صرف اشتراکی (سوشلسٹ) گروہ ہی پڑا ہوا نہیں ہے بلکہ اسی کے ساتھ مسیحی گروہ بھی اسکے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اس لئے کہ یہ گروہ ابھی تک صلیبی جنگوں کی شکستوں کو فراموش نہیں کرسکتا ہے اس لئے جہاں بھی اس گروہ کا بس چلتا ہے اپنا کام کرتا رہتا ہے۔
اگست 1945ء میں جب انڈونیشیا آزاد ہوا اور وہاں کی آزاد حکومت نے اپنے ملک کی مسلم اکثریت کو شریعت اسلامی پر عمل کرنے کی آزادی دینے کا اعلان کرنا چاہا اس وقت عیسائی اس کے سخت مزاحم ہوئے اور اس اعلامیہ سے اس جملہ کو نکلوادیا ، پھر جب وہاں کے مسلمانوں کے لئے مسلم پرسنل لا پر عمل کرنے کی آزادی کا اعلان کیا گیا اس وقت بھی مسیحیوں کے دونوں طبقات نے آسمان سر پر اٹھالیا تھا۔ اس سلسلہ میں انڈونیشیا یونیورسٹی کیا اسلامی مطالعات کے پروفیسر اور انڈونیشیا حکومت کے ایک سابق وزیر برائے امور مذہبی کی اطلاع ہے۔


" In August 1973, the Indonesian Govt۔ wanted to impose a secular marriage, law, disregarding religious considerations. That law was prepared by christian experts working in a special department of the Government. When the Mulims rejected the proposed law, both Pretestant and Catholic Coundils of churches supported the law... Our independence movement was inspired by our religion. When we attained independence in Aug 1945, it was agreed that the declaration would contain a statement to the effect that the Muslims would be enabled to follow the Shariah. But when the declaration was read by Dr. Hatta, the Vice President elect, this phrase was Omitted. In 1973, Dr. Hatta has made it known to the world that he had to omit it at the insistence of the Dutch Govt who declared that it would not be acceptable to Christians... the Christians have apposed every effort by the Muslims to make the Shariah the basis of Muslim Corporate life in Indonesia.
( "Islam, Christianity, Hinduism A Comparative Study" by F.M. Sandeela P:140-141)


جب 1947ء میں ہندوستان آزاد ہوا، تو یہاں بھی اس بات کی فکر ہوئی کہ اس ملک کو اپنا دستور دیاجائے۔ یہ وہ وقت تھا جب اس ملک میں کمیونسٹ پارٹی سر گرم عمل تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کا لینن نواز گروپ سوشلزم کا لبادہ اوڑھ چکا تھا۔ ملک کا وزیر اعظم اشتراکیت کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا تھا۔ ملک کاہندو احیاء پرست گروہ جس کے گہرے اثرات مرکزی قیادت پر بھی پڑ چکے تھے ملک میں ہندی ، ہندو ہندوستان کے خواب دیکھ رہا تھا اور بھارتی سنسکرتی کے نام سے قدیم ہندو تہذیب کے احیاء کی کوششوں میں سرگرم عمل تھا۔ اس لئے جب اس ملک میں دستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی تو اس میں بھی یہی گروہ چھایا رہا۔


چنانچہ دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں ایک سوشلسٹ ممبر مسٹر ایم۔ آر۔ مسانی نے تجویز پیش کی کہ ملک کی پوری آبادی کے لئے یکساں سول کوڈ کی بھی ایک شق رکھی جائے۔ جس کا اطلاق بلا تفریق مذہب و ملت کیا جائے اس طرح سوشلسٹ گروہ نے مذہب دشمنی نکالنے کے اپنے پرانے طریق کار کو استعمال کیا تجویز دستور ہند کی دفعہ 44 کے طور پر ریاست کے رہنما اصولوں میں شامل کر دی گئی۔


چنانچہ دستور ہند میں دفعہ 44 کی شمولیت کے بعد سوشلسٹ اور کمیونسٹ گروہ کو اپنی منزل قریب آتی نظر آنے لگی۔ اس جب حکومت نے اس ملک میں سوشلسٹ طرزکا معاشرہ پیدا کرنا اپنا مطمح نظر بنایاتوانہیں اور بھی امید بندھی اور اب ملک کی سیکولر جمہوریت کی تعبیر و تشریحات میں موشگافیاں شروع ہوگئیں ، چنانچہ سوشلسٹ عناصر نے سیکولرزم کے معنوں میں مذہب دشمنی کا مفہوم پیدا کردیا اور ہندو احیاء پرستوں کے نزدیک اس مفہوم اقلیتی مذاہب کی دشمنی ہوگئے ، انہوں نے جمہویت سے فائدہ اٹھا کر اکثریتی مذہب و تہذیب کے فروغ کے لئے حکومتی وسائل استعمال کرنا شروع کردیا اور سوشلسٹوں نے انہیں محض ووٹ کے لالچ میں برداشت کیا۔ ادھر ملک کی اقلیتیں سیکولرزم کا وہی مفہوم سمجھتی رہیں جس کا اظہار دستور ساز اسمبلی کے سامنے کیا گیا تھا۔ اس طرح اس ملک میں حکومتی پالیسیوں کے بارے میں شدید قسم کا فکری و عملی انتشار پیدا ہوتا چلا گیا۔


مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان شادی کے رشتہ کو قانونی جواز دینا، طلاق کے بعد بھی مطلقہ کو بیوی قرار دے کر بیوی کے حقوق تسلیم کرنا۔ حرامی اور حلالی اولاد کے امتیاز کو ختم کرکے انہیں یکساں مرتبہ دینا۔ بیوی اور رکھیل (داشتہ) کو یکساں مرتبہ عطا کرنا جائز شادیوں میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے پر پابندی عائد کرنا۔ ملک میں رائج مذہبی اکائیوں کے پرسنل لا کو ختم کرنا اور بالآخر ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کرنا دراصل اس ملک میں سوشلسٹ معاشرہ پیدا کرنے کی جانب تدریجی اقدامات ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ اپنے کچھ مصالح کے تحت یا نادانستگی کی بنا پر ہندو قوم کی قیادت ان اقدامات کو اپنی حمایت سمجھ کر انہیں اپنا تعاون دینے میں لگی ہوئی ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب مسلم دشمنی میں کیا جا رہا ہو۔


اس طرح اس ملک میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں وہ مذہب سے وابستہ افراد کی وجہ سے نہیں بلکہ سوشلسٹ سماج تشکیل دینے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے ہیں۔ اور یہ سوشلسٹ گروہ بڑی ہوشیاری سے ان مسائل کی پیداوار کو مذہب کے سر ڈال کر مذہب دشمن ماحول کو فروغ دینے کے لئے استعمال کرنے میں لگا ہوا ہے۔


ماخوذ :
یکساں سِول کوڈ (تاریخ کے تناظر میں)
مصنف: پروفیسر عمر حیات خاں غوری (صدر شعبۂ اردو، انجمن کالج بھٹکل، کرناٹک)
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی (دہلی)۔ سن اشاعت: 1987ء

An overview of the anti-religious sentiments of socialism. Article: Omer Hayat Khan Ghouri.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں