ابن صفی مرحوم کے فن پربہت کچھ لکھا جا چکا ہے، مگر آج ایک ذرا مختلف زاویہ۔ اور اپنی بات شروع کرنے سے پہلے ایک وضاحت۔
بیس سال قبل ہم لوگ Eunuch لفظ لکھتے تھے، پھر Trans اور دیگر اصطلاحات ، یا جیسے handicapped کے لئے disabled یا پھر differently abled لفظ آیا۔ یہی شعور کہ آپ سوسائٹی میں اشتراک کرتے ہیں، کسی طبقے سے منسلک ہونے کی بنیاد پر اس کو نیچا نہیں دکھاتے۔ کیسے الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے، اس کا احساس بہت ضروری ہے۔ ہمیں اقلیتوں کے لئے کیسے الفاظ لکھنا چاہئے، مظلوم کے لئے وہ لفظ جو وہ خود اپنی شناخت کے حساب سے استعمال کرے، چاہے پرانا ہو مگر ہمارا تھوپا ہوا نہ ہو۔ Negro سے 'people of colour' یا اب بلیک۔ یا کسی کی جسمانی کمزوری کے لئے وہ لٖفظ جو پہلے زبان میں تھا، تو اسے ترک کیا جاتا ہے، اور بہتر و غیرمحسوس طور پر منفرد لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ چیزیں کسی بھی ترقی یافتہ زبان اور پڑھے لکھے ادیب کے لئے جاننا اور سمجھنا بہت اہم ہیں۔
ابن صفی کی عظمت ہے کہ وہ یہ سب اُس وقت سوچتے تھے اور برتتے تھے۔ ایسی شہرت اور قارئین کی ایسی محبت بھلا اور کسے نصیب ہوئی۔ ناول 'بھیانک آدمی' میں روشی کے کردار کو جس طرح پیش کیا گیا ہے، ابھی کل ہی اس پر ایک جگہ ہم بات کر رہے تھے کہ جس انسان کے وقار (dignity) کا تصور آج بھی معاشرے میں موجود نہیں، وہ اس وقت، ناول میں اینگلو برمیز لڑکی پہلے بار آتی ہے، اس کے بیک گراؤنڈ کا تذکرہ ہوتا ہے مگر کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس انسان کو اس کے ماضی کی وجہ سے نیچا دکھایا جا رہا ہے۔
عمران کے ساتھ اس کا مکالمہ دیکھئے اور عش عش کیجئے۔ حالات کے شکار کسی شخص کو زمانہ ٹارگٹ نہ کرے، اس کو فوراً ایک گناہ گار نہ کہہ دے بلکہ مظلوم کی طرح دیکھے، ایک موقعہ اسے ملے سوسائٹی میں دوبارہ عزت سے جینے کا۔ ورنہ سوسائٹی کے افراد جو خود بہت اعلیٰ کردار نہ رکھتے ہوں، دوسرں کے لئے ضرور 'لنچ ماب' بننے میں دیر نہیں لگاتے۔ اور ایک سے ایک لکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ کون سا لفظ انسان، کمیونٹی، ذات یا کسی طبقے کے لیے دل شکن (offensive) ہوتا ہے۔
آج سے دس سال پہلے کی اپنی تحریریں اگر آج کے کافی حساس قلمکار بھی دیکھ لیں، تو کئی بار افسوس ہو، کیوں کہ ہر جگہ اکثریت بھی اکثر اقلیت کے لئے ایسے الفاظ استعمال کر لیتی ہے جو بدنامی (stigma) پیدا کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں جاننے کی ہوتی ہیں، آپ لگاتار سیکھتے ہیں۔
مگر ابن صفی کا ذہن اس درجہ کا تھا کہ پینسٹھ سال پہلے کے ان کے ناولوں میں بھی ایسے stigma یا جنرلائز کرنا یا حاشیہ پر رہنے والے طبقوں کی بات کرتے وقت کس طرح لکھنا چاہئے، یہ کوشش نظر آتی ہے، اور اکا دکا جگہ ہی آپ ٹھٹھکیں گے، جب کہ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ کئی ادیب، کچھ سال پہلے بھی جو لکھ رہے تھے، وہ اس پر اتنا غور نہیں کر رہے تھے۔
یہ ابن صفی کا کارنامہ ہے اور اس کے علاوہ بھی بشمول بہت کچھ۔ یہ صرف جوزف، جولیا، ڈینی یا ریکھا، جگدیش، نیلم کی بات نہیں ہے، ہر ناول میں جو نئے کیریکٹر آتے ہیں، کوئ بھی اچھا یا برا کیریکٹر، اس کے ساتھ گفتگو دیکھئے، کوئی درجن ہو ،رمیش یا سویتا دیوی۔۔۔ اس کی شخصیت میں اس کے ایک منفی پہلو کے علاوہ جو تمام رنگ نمایاں ہوتے ہیں اور جس کے ذریعہ ایک ملٹی کلچرل سماج جس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ان سب کو تحمل سے برداشت کرنے، قبول کرنے اور پیش کرنے کا انداز واضح ہوتا ہے۔
جو چیز ماڈرن نیوز روم میں پچھلے کچھ برسوں میں سکھائی جانی شروع ہوئی، وہ ابن صفی نے کرداروں کے آپسی رشتوں اور بات چیت کے ذریعہ سکھائی اور اس دور میں پیش کی تھی۔ مسلمان کیریکٹر شراب نہیں پیتے مگر وہ اپنے کردار سے ہی اچھائی کی تبلیغ کر دیتے ہیں، غیر مسلم کو ان کی عادات کی وجہ سے مجروح یا ٹارگیٹ نہیں کرتے، خود پر بھی بلا وجہ کچھ ثابت کرنے کا دباؤ نہیں۔ نماز پڑھتے نہیں نظر آتے اور یہ دکھاوا ضروری نہیں ہے کیوں کہ وہ اخلاقی طور پر بلند کیریکٹر ہیں۔ ان کا خواتین کے ساتھ رویہ یا کسی بھی مظلوم کے ساتھ، یہ سب قاری جانتا ہے۔
یہ ایسی مثالی مسلم سوسائٹی کا خواب بھی ہے، جہاں انسان اپنے مذہب پر بالکل پراعتماد ہے۔ یعنی ٹٹ پونجئے جیسی حرکتیں نہ کرے، لوگوں کے سر پر سوار ہو کر ایسی باتیں نہ پوچھے یا منوائے جس سے مذہب کی امیج بھی خراب ہوتی ہے۔ بلکہ ایسی مسلم سوسائٹی جہاں لوگ واقعی عمل سے ایسے ہوں کہ زمانے پر اثر ہو، یہ جستجو کہ اب ہم آزاد ہیں تو واقعی موقع ملا ہے، مثالی سوسائٹی کی طرح رہیں، ترقی کریں۔
یہ سب بھلا کون کر سکتا تھا؟ اور اتنے فطری انداز میں ہر طبقہ کے قاری کو سکھانا، وہ بھی جاسوسی فکشن کے ذریعے، بغیر تقاریر یا بوجھل مذاکروں کے، اس طرح کہ لاشعوری طور پر انسان اس تصور (concept) کو سمجھے اور سیکھے۔ ایسی تربیت ناولوں کے ذریعے کرنا ابن صفی کا ہی خاصا رہا!
اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں اکثر بڑے بڑے لکھنے والے انجانے میں مسلمانوں کے لئے جو 'اسٹیریو ٹائپ' باتیں لکھ دیتے ہیں، اس سے اقلیتی طبقے کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ کشادہ ذہن مدیران اپنے اخبارات کے نوجوان اسٹاف کو یہ تنبیہہ کر تے تھے کہ اگر صوبے کے کسی مسئلہ پر لکھ رہے ہو اور اگر وہ ایک بڑی رپورٹ ہے اور اس میں آٹھ یا دس مختلف لوگوں سے بات کرنا ہے، تو دھیان رکھنا کہ سب ہندو نہ ہوں، ایک دو مسلمان، سکھ اور عیسائی بھی ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں، ابن صفی برصغیر یا صرف ایشیا ہی نہیں عالم گیر ادیب تھے۔ ایک ایسا ذہن کہ جس کی مثال مشکل ہے۔ الفاظ کا غلط استعمال کس طرح 'اسٹگما' پیدا کرتا ہے، اور کیسے کسی گروپ کو تکلیف پہنچاتا ہے، یہ کنسیپٹ اب لوگ کچھ حد تک سمجھ پا رہے ہیں، جبکہ ابن صفی اُس دور میں ان باتوں کی اہمیت جانتے تھے۔ عش عش کیجئے، کیسا روشن خیال آدمی جو بہت آگے تک دیکھ سکتا تھا، اس دور میں بھی یہ سوچتا تھا۔
ان چیزوں سے بڑا فرق پڑتا ہے کہ ہر طبقے کو اپنی نمائندگی کا احساس ہو۔ وہ غائب نہ ہو جائے، یا صرف اسی کو مجرمانہ شکل میں نہ دکھایا جائے، جیسا کہ اکثر بالی وڈ فلموں میں ہوتا ہے۔ یہ باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں، کسی بھی سماج کی اور وہاں کے افراد کی ذہنی تربیت اور ان کے موزوں ارتقا کے لئے۔ اور اس سوسائٹی یا ملک کی مضبوطی کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے کہ احساسِ تعلق داری (sense of belonging) سب میں در آئے۔ اکثریت کو اقلیت کے بارے میں جاننے کا موقع ملے اور وہ ان کے لئے روادارانہ مزاج کی حامل رہے اور اقلیت بھی اپنے آپ کو الگ تھلگ، پسماندہ (marginalised) یا نظرانداز (ignored) کیے جانا محسوس نہ کرے۔
جو ادیب، اس دور میں اتنی دور اندیشی رکھتا ہو، وہ ابن صفی کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟
یہ تحریر ممبئی اردو نیوز (شمارہ: 22/اگست 2021ء) اتوار ایڈیشن کے صفحہ:5 پر یہاں شائع ہوئی ہے۔
انگریزی میں یہی تحریر شمس الرحمن علوی کے بلاگ پر یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
shams.alavi[@]gmail.com
شمس الرحمن علوی |
بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے جناب شمس الرحمٰن علوی صاحب نے امید ہے کہ درسگاہوں میں اس موضوع کو مقالات کے لیے ضرور چنا جائے گا۔ بہت مبارک باد ایک اہم موضوع کو چھیڑنے کے لیے۔ بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریں