کامریڈ - محمد علی جوہر کا ہفت روزہ اخبار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-20

کامریڈ - محمد علی جوہر کا ہفت روزہ اخبار

the-comrade-weekly-by-mohammad-ali-jouhar
(پیش نظر مضمون نومبر 1975ء کے ماہنامہ "جامعہ" میں شائع ہو چکا ہے۔ جامعہ کے موجودہ 'مولانا محمد علی نمبر' کی مناسبت سے اس خصوصی شمارے میں دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ تقریباً ڈھائی سال ہوئے فاضل مضمون نگار کا 30/ستمبر 1976ء کو تقریباً 78 سال کی عمر میں حیدرآباد میں انتقال ہو گیا، مرحوم کے بارے میں اکتوبر 1977ء کے جامعہ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔)

ساٹھ سال سے اوپر ہوئے ، مسٹر محمد علی (اس وقت وہ مسٹر ہی کہلاتے تھے) کلکتہ سے دہلی آئے اور اپنے ساتھ اپنے کامریڈ کو بھی لائے۔ 'کامریڈ' ایک انگریزی ہفتہ وار اخبار تھا ، بڑھیا کاغذ پر چھپتا تھا۔ اس کا معیار اتنا بلند تھا کہ انگلستان کے اخباروں کی ہمسری کرتا تھا۔ ملک میں اس کا مطالعہ ایک فیشن ہو گیا تھا۔ کالج کے طالب علم اپنی استعداد بڑھانے کے لئے اس کو پڑھتے تھے۔
کامریڈ کی "گپ" مشہور تھی۔ اس میں حالات حاضرہ پر طنز و مزاح کے پیرایہ میں تبصرہ ہوتا تھا۔ اس کے لکھنے والے ولایت علی بمبوق (وکیل بارہ بنکی) تھے۔ سروجنی دیوی اور سر نظامت جنگ کی نظمیں بھی اس اخبار میں چھپتی تھیں انگلستان میں اس کے خریدار دو تین سو تھے۔ آٹھ روپے سالانہ اس کا چندہ تھا، خریداروں کی تعداد آٹھ ہزار تھی، میں اس اخبار سے وابستہ تھا۔


ان دنوں جنگ بلقان زوروں پر تھی، بلقانی ریاستوں نے ترکوں کو نرغے میں لے لیا تھا۔ ملک کے مسلمانوں کو ترکوں سے ہمدردی تھی اس جنگ نے اور جوش پیدا کر دیا۔ مولانا محمد علی نے اخبار "ہمدرد" جاری کیا۔ اس کو انہوں نے 22/فروری 1912ء کے پہلے شمارہ کے افتتاحی مقالہ میں یوں بیان کیا ہے:


"ہمدرد جاری کرنے کا خیال کوئی فی البدیہہ نتیجہ فکر نہیں کہ وزن اور قافیہ کے قالب میں ڈھل کر ذرا دیر میں احباب کی مجلس میں ہل چل ڈال دے۔ کسی گھبرائے ہوئے دل کا عارضی جذبہ نہیں جسے قوت واہمہ پلک مارتے صورت کا لباس پہنا کر موجود کر دے، بلکہ یہ نتیجہ ہے اخباری دنیا میں عرصے تک رہ نوردی کرنے، سینکڑوں ٹھوکریں کھانے اور بہت سے نشیب و فراز دیکھنے کا، قوم کی زندگی کا خلوت کدوں سے لے کر بازاروں تک مطالعہ کرنے کا۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ قوم کے لئے ایک ایسا رفیق سفر تیار کریں جو منزل مقصود کو دورسے نہ دکھائے بلکہ گم گشتگان راہ کے ساتھ برہنہ پا ہو کر ایسے قصے کو پیدا کریں جو اصل داستان کو الف لیلہ کی طرح روز سنایا کرے اور جب تک قوم کی فلاکت اور نکبت ختم نہ ہو یہ داستان بھی ختم نہ ہو۔۔"


اب جاننے والے جانتے ہیں کہ جس غرض سے یہ اخبار جاری کیا گیا تھا ، وہ کہاں تک پوری ہوئی یہ اخبار اس تیزی سے بڑھا کہ دیکھتے دیکھتے اس کی اشاعت پچیس ہزار پہنچ گئی جو اس زمانہ میں کسی اردو اخبار کے لئے ایک معراج تھی۔ اس کا سالانہ چندہ پندرہ روپے تھا اس نے مسلمانوں میں اخبار بینی کا شوق اور سیاسی شعور پیدا کیا۔ کامریڈ کی "گپ" کی طرح ہمدرد کا "تجاہل عامیانہ" مشہور تھا اس کو میر محفوظ علی بدایونی لکھتے تھے۔ مصر، فلسطین، شام اور ایران کے اخبارات دفتر میں آتے تھے ان کے اہم مضامین کے ترجمے ہمدرد میں چھپتے تھے۔


ہمدرد اور کامریڈ کے چیف ایڈیٹر مولانا محمد علی تھے۔ ان کے مددگاروں میں راجہ غلام حسین، سید جالب دہلوی، میر محفوظ علی بدایونی، قاضی عبدالعزیز، قاضی عبدالغفار، عارف ہسوی ، غلام محمد طور، ضیاء الدین برنی، قاری عباس حسین شامل تھے۔ سید ہاشمی فرید آبادی غیر ملکی اخباروں کے ترجمے کر کے دیتے تھے۔ مولوی عبدالحق صاحب کو بھی بلایاگیا تھا مگر وہ نہیں آئے۔ عملہ کے ارکان میں برادرانہ تعلقات تھے ایک دوسرے کو آدھے نام سے پکارتے تھے۔ عملہ ایک خاندان تھا جس میں محمد علی صاحب کی حیثیت صدر خاندان کی تھی۔ کبھی بیت بازی ہوتی تھی، چاندنی رات میں فالیز پر جاتے تھے، خربوزے اور تربوز کھائے جا رہے ہیں، اور مولانا شوکت علی سب کو ہنسا رہے ہیں۔


مولانا محمد علی جامع مسجد دہلی میں نماز کے بعد تقریر کیا کرتے تھے۔ دلی کے کمشنر نے ان کو منع کیا انہوں نے صاف کہہ دیا کہ اللہ کے گھر میں تقریر کرنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کی تقریریں بہت جوشیلی ہوتی تھیں، لوگ شوق سے سنتے تھے ، شہر میں وہ بہت مقبول ہو گئے اور یہیں سے ان کی لیڈری شروع ہو گئی۔


کامریڈ میں ٹرکش ریلیف فنڈ کھولا گیا ، لوگوں میں اس قدر جوش تھا کہ روپے کی بارش ہونے لگی۔ انہی دنوں ترکی حکومت نے جنگ میں مالی امداد کے لئے پچاس لاکھ پونڈ کے قرض حسنہ کا اعلان کیا۔ ہمارے دفتر سے ترکی تمسکات بھی جاری ہوئے تھے۔ میں اس زمانہ میں ہمدرد اور کامریڈ کا خازن تھا۔


مولانا محمد علی نے ڈاکٹر انصاری کی قیادت میں ترکی کو طبی وفد روانہ کیا۔ اس وفد کی روانگی کا منظر دیکھنے کے قابل تھا۔ جامع مسجد دلی کے صحن میں جو مکبر ہے، اس کی سیڑھیوں پر وفد کے ارکان کھڑے ہوئے ،سب فوجی وردی پہنے ہوئے تھے ، ان کی ٹوپیوں پر ہلال احمر چمک رہا تھا۔ دلی والوں نے اللہ اکبر کے نعروںمیں ان کو وداع کیا۔ اس وفد کے اخراجات کوئی چار لاکھ کے قریب ہوئے، جب یہ وفد واپس آیا تو اس کے حسابات کی جانچ مجھ سے ہی کرائی گئی تھی۔


کامریڈکا دفتر کوچہ چیلان میں تھا، یہ ایک بہت بڑی دو منزلہ عمارت تھی ، ایک حصے میں دفتر اور پریس تھا دوسرے حصہ میں مولانا محمد علی رہتے تھے۔


ایک دن ان کے ہاں کی ماما آئی اور مجھ سے کہا، بیگم صاحبہ (بیگم محمد علی) نے پچیس روپے منگائے ہیں صاحب کے سگار کے لئے۔ میں نے اس سے کہا بیگم صاحبہ کی چھٹی لاؤ، وہ چلی گئی، تھوڑی دیر میں پھر آ کے کہنے لگی، بیگم صاحبہ خفا ہو رہی ہیں، کہتی ہیں فوراً روپے لاؤ، میں نے پھر انکار کر دیا۔


انکار تو میں نے کر دیا مگر سوچنے لگا میاں بیوی کا معاملہ ہے، کہیں مولانا خفا نہ ہو جائیں۔ ان کا غصہ مشہور تھا۔ دوسرے دن دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیے اور زور سے دبایا، میں نے مڑ کر دیکھا تو مولانا محمد علی کھڑے مسکرا رہے تھے کہنے لگے:
"ربانی میں تم سے بہت خوش ہوا۔"


مجھے خوب یاد ہے ، ایک دن شام کا وقت تھا مولانا نے اپنے کمرہ سے باہر آکر پکارا محفوظ!
وہ اپنے کیبن سے نکل کر آئے، مولانا نے کہا بھئی، اب میں جلد گرفتار کر لیا جاؤں گا۔ بات یہ تھی کہ اس دن انہوں نے وہ معرکۃ الآراء مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان "The Choice of the Turks" تھا اس میں ترکوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اتحادیوں کے خلاف جرمنی سے مل جائیں (یہ پہلی جنگ عظیم کی بات ہے)۔ کوئی دو ہفتے بعد ترکوں نے اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور وہ جرمنی سے مل گئے۔ اب کیا تھا مولانا کو مہرولی میں نظر بند کر دیا گیا وہاں سے چھندواڑہ جیل پہنچا دئے گئے۔
اس طرح ہمدرد اور کامریڈ دونوں دم توڑ کر رہ گئے۔ مولانا نے صحافت کی جو بساط بچھائی تھی وہ الٹ گئی اور تمام مہرے تتر بتر ہو گئے۔ بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا محمد علی کا دفتر صحافت کا ایک تربیتی ادارہ تھا چنانچہ ان کے مددگار اس فن میں پختہ ہو گئے تھے۔ بعضوں نے اپنے اپنے اخبار نکالے۔
سید جالب صاحب لکھنو پہنچے اور وہاں سے روزنامہ 'ہمدم' جاری کیا جو بہت مقبول ہوا۔ قاری عباس حسین ہمدرد میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے لکھنو سے "تمدن" جاری کیا ، قاضی عبدالغفار صاحب نے کلکتہ سے "صداقت" نکالا۔ پھر"جمہور" جاری کیا۔ آخر میں حیدرآباد سے "پیام" جاری کیا۔


راجہ غلام حسین کامریڈ کے سب ایڈیٹر تھے ، ان کی عمر مشکل سے تیس سال ہوگی مگر صحافت میں ایک پیر طریقت تھے۔ مولانا محمد علی آخر میں بہت بڑے لیڈر بن گئے، ان کا زیادہ وقت قومی اور سیاسی کاموں میں صرف ہوتا تھا۔ کامریڈ کی ادارت کا زیادہ بوجھ راجہ صاحب کے کندھوں پر تھا۔ انہوں نے لکھنو سے "نیو ایرا [New Era]" نکالا، اس کے لئے روپیہ لکھنو کے سربر آوردہ حضرات نے دیا جس میں بڑی رقمیں وہاں کے ہندو وکیلوں اور بیرسٹروں نے دی تھیں، یہ اخبار کامریڈ کا جانشین تھا، وہی پالیسی ، وہی ایڈیٹر اور وہی پڑھنے والے تھے۔ چنانچہ چند ہی مہینوں میں اس کی اشاعت ہزاروں تک پہنچ گئی۔ میں اس اخبار کا منیجر تھا ، اس کی اٹھان غیر معمولی تھی، مقبولیت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ اس کی اشاعت میں کچھ دیر ہو گئی تو مسز اینی بسنت نے راجہ صاحب کو خط لکھا:
"میرے پیارے بچے، تمہارا اخبار اب تک نہیں آیا ، تم اچھے تو ہو؟"


سر اکبر حیدری نے ان کو حیدرآباد بلایا تھا مگر وہ 'نیو ایرا' چھوڑ کر نہیں جا سکے۔ ایک دن شام کے وقت راجہ صاحب "ہندوستانی" کے ایڈیٹر کے ساتھ باتیں کرتے رفاہ عام کلب سے آ رہے تھے، پیچھے سے ایک گھوڑا ٹم ٹم تڑا کر بھاگا آ رہا تھا، اس نے راجہ صاحب کو اس زور کی ٹکر دی کہ وہ گر پڑے اور ایسے گرے کے پھر اٹھ نہ سکے۔ بے ہوشی کی حالت میں ان کو بلرام پور ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ دوسرے دن الہ آباد اور کانپور کے کئی سرجن آئے۔ دلی سے ڈاکٹر انصاری بھی پہنچ گئے۔ سب نے کوشش کی مگر تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے۔


آٹھ دن وہ ہسپتال میں بے ہوش رہے ، لکھنو میں وہ بے حد مقبول تھے، دن بھر ہسپتال کا احاطہ لوگوں سے بھرا رہتا تھا، تین آدمی دن رات ان کے پاس رہتے تھے۔ ایک چودھری خلیق الزماں، دوسرے اسحاق علی علوی (ایڈیٹر الناظر) اور تیسرا راقم الحروف۔ آٹھویں دن وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔


اب سوال یہ تھا کہ 'نیو ایرا' کی ادارت کون سنبھالے؟ مولانا محمد علی اس وقت بیتول جیل میں تھے، انہوں نے کہلوایا کہ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کو بلا لیاجائے مگر بیگم صاحبہ بھوپال ان کو بہت عزیز رکھتی تھیں، وہ نہیں آ سکے۔ آخر کار شعیب قریشی نے اخبار کو سنبھالا۔ شعیب قریشی صاحب "ینگ انڈیا" کے چوتھے ایڈیٹر تھے جب گاندھی جی جیل میں تھے، انہوں نے بڑے سلیقہ سے کام شروع کیا۔ اس زمانے میں چودھری خلیق الزماں اور عبدالرحمن سندھی نے بڑی مدد کی، بلا معاوضہ کئی مہینے کام کرتے رہے۔


'نیو ایرا' کی اشاعت میں خوب اضافہ ہو رہا تھا مگر حکومت کی نظر میں یہ اخبار کھٹک رہا تھا، چنانچہ اس کی ضمانت ضبط ہو گئی اور اس طرح نیو ایرا کا گلا گھونٹ دیا گیا، یہ کامریڈ کی دوسری موت تھی۔


کچھ اہم تاریخی واقعات:

1۔ 14/جنوری 1911ء کو بروز سنیچر کلکتہ سے کامریڈ کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔


2۔ 14/ستمبر 1912ء کو کامریڈ کا آخری شمارہ (جلد 4 شمارہ 11) شائع ہوا۔


3۔ ؍اکتوبر 1912ء کو دہلی سے پہلا شمارہ (جلد 4 شمارہ 12) شائع ہوا۔


4۔ ستمبر 1914ء میں ضبطی ضمانت کی وجہ سے کامریڈ بند ہو گیا۔


5۔ 31/اکتوبر 1924ء کو دہلی سے کامریڈ دوبارہ جاری ہوا۔


6۔ 22/جنوری 1926ء کو ناقابل برداشت خسارے کی وجہ سے کامریڈ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔

***
ماخوذ: ماہنامہ جامعہ (مولانا محمد علی جوہر نمبر)
شمارہ : اپریل-1979۔ (جلد:76 - شمارہ:3)

The Comrade, a weekly established in 1911 by Maulana Mohammad Ali Jouhar. Article: G.D. Chandan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں