عشرت رحمانی (پیدائش: 16/اپریل 1910ء، رامپور - وفات: 20/مارچ 1992ء، کراچی)
اردو کے ممتاز ادیب، محقق، نقاد، شاعر، ناول و ڈراما نگار اور براڈکاسٹر رہے ہیں جن کا اصل نام امتیاز علی خاں تھا۔ انہوں نے اردو ڈرامے کی تاریخ اور تنقید پر بڑا وقیع کام کیا۔ سینکڑوں کتابیں تصنیف کیں جن میں "اردو ڈرامہ کا ارتقا"، "اردو ڈراما: تاریخ و تنقید"، خودنوشت سوانح عمری "عشرت فانی"، آغا حشر کے ڈرامے (5 جلدیں)، ہماری آزادی کی کہانی (5 جلدیں) جیسی نادر و نایاب کتب بھی شامل ہیں۔ "لال قلعہ کی شام" ان کا ایک یادگار تمثیلی ڈراما ہے جس میں 1857ء کی جنگِ آزادی کی داستان، مسلمانانِ ہند کی صد سالہ سیاسی جدوجہد کا خاکہ اور سلطنتِ مغلیہ کے زوال اور ہندوستان کی غلامی و بیداری کے آغاز کی کہانی تمثیلی انداز میں بیان کی گئی ہے۔
یہی کتاب ادبِ عالیہ میں دلچسپی رکھنے والے باذوق قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش ہے۔ تقریباً سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 4 میگابائٹس ہے۔
اس کتاب کے تعارف میں "آغاز" کے عنوان سے صاحبِ کتاب عشرت رحمانی لکھتے ہیں ۔۔۔
میرا بچپن روہیل کھنڈ کے ضلع مرادآباد، بریلی اور رامپور میں گزرا اور ابتدائی تعلیم کا زمانہ دہلی، کلکتہ اور لکھنؤ میں بسر ہوا۔
یہ وہ تاریخی مقامات ہیں جو جنگِ آزادی و انقلاب 1857ء کے خاص مرکز اور حریت پسند جمعیتوں کی سرگرمیوں کے اہم مقامات تھے۔ کلکتہ میں کسی قسم کا جھگڑا فساد نہیں ہوا لیکن وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام اور انگریزوں کی تمام ریشتہ دوانیوں، جنگلی سازش، مخبری، جاسوسی، فوجی اسباب اور لشکر کا کیمپ تھا۔
یہ بھی پڑھیے: 1965ء کی ہند پاک جنگ - شہزادہ سلیم - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
لارڈ ڈلہوزی نے یہیں بیٹھ کر ملک گیری کی چالیں چلیں۔ لارڈ کیننگ یہیں اپنے دستِ راست جنرل اوٹرم اور کیمبل وغیرہ کے ساتھ جوڑ توڑ میں منہمک رہتے اور جنگِ آزادی کے دوران خفیہ سازشوں اور غداریوں کے تیر چلاتے اور جابرانہ حکام صادر کرتے رہے۔
میں نے ان تمام مرکزوں کے وہ تاریخی مقامات ایک طالب علم کی حیثیت سے دیکھے خصوصاً دہلی اور لکھنؤ کے چپہ چپہ کو جہاں حریت پسندوں اور شہیدوں کے قدم گئے اور جس جس جگہ ان کے قیام اور جانبازی کی خبر تاریخ کے صفحات سے پائی ان کو عقیدت و عبرت کی نگاہ سے بوسہ دیا۔ اور گوشہ گوشہ کی آستاں بوسی کر کے انقلابِ نجات کی اس اہم جدوجہد کے سلسلہ میں چھان بین کی۔
میرے دادا احمد یار خاں مرحوم و مغفور رئیس منکولہ و بلاری (مرادآباد) جنگِ آزادی کے آخری دور میں لکھنؤ اور اس کے مضافات میں موجود تھے۔ میں نے آنکھ کھول کر خاندان کے بزرگوں کی زبانی دادا صاحب مرحوم کے چشم دید واقعات کی کہانیاں سنیں اور بارہا سنتا رہا۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے یہ سب باتیں میں نے سنی نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ ان کی یادیں بچپن سے اس طرح میرے ساتھ ہیں جیسے میں خود اس انقلابی عہد کے ہر گوشہ سے وابستہ ہوں۔ اپنے سرفروش آزادگانِ وطن کے عزائم اور دلیری و شجاعت کی داستانیں "دیکھنے والی آنکھوں کی زبان سے سنیں"۔ اور "اپنے ہوش کے کانوں سے سنیں"۔ گویا ہندوستان کی تباہی اور اس کی تہذیب کے بلند نشانات کی بربادی اور قتل و غارت گری کے دلدوز حالات ان کے نوحہ گروں کے دل سے میرے کانوں میں بڑے اور عبرت و بصیرت کی آنکھوں تک پہنچے۔ اور انہی آنکھوں کی زبانی میں یہ کہانی پیش کرنے کی آرزو میں مدت سے بےچین رہا۔
الحمدللہ کہ اس آرزو کی تکمیل کا وقت آیا اور اس عظیم داستان کو حقیقت کی زبان سے سنانے کا موقع ملا جس کو انگریز کے فریب نے ہندوستانی فوج کی بغاوت اور مسلمانوں کا غدر مشہور کر رکھا ہے۔ بصیرت کی روشنی میں پردہ اٹھتا ہے تو صداقت اس طرح نمودار ہوتی ہے۔
یہ تمثیل اس انقلاب کی ایک مختصر سرگذشت اور جہادِ آزادی کی دھندلی تصویر ہے جس میں اس جنگِ عظیم کی مختصر کیفیت، جمعیت احرار کی اولوالعزمئ شجاعت اور ایثار و قربانی کی سرسری داستان، عیاروں کی غداری کا خاکہ، ناکامی کے اسباب اور تباہی و بربادی کے نقشے پیش کیے گئے ہیں۔
تمثیل میں ڈرامائی تدبیر کاری کے لیے تاریخی پلاٹ تمثیلی انداز میں اختیار کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس تمثیل میں فنی لوازمات کے ماتحت بعض حالات میں چند ترمیمیں ضروری سمجھی گئی ہیں۔ تاہم جہاں تک ممکن ہو سکا اصل واقعات کو تاریخ و تحقیق کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔
***
نام کتاب: لال قلعہ کی شام (ایک تمثیل)
مصنف: عشرت رحمانی
ناشر: گوشہ ادب، انارکلی، لاہور (سن اشاعت: مئی 1957ء)
تعداد صفحات: 105
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Lal Qila Ki Shaam by Ishrat Rahmani.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | پہلا ایکٹ - پہلا سین (لال قلعہ، دیوانِ خاص) | 19 |
2 | پہلا ایکٹ - دوسرا سین (لال قلعہ) | 28 |
3 | پہلا ایکٹ - تیسرا سین (راستہ) | 32 |
4 | پہلا ایکٹ - چوتھا سین (دلی کا لال قلعہ) | 36 |
5 | پہلا ایکٹ - پانچواں سین (غریبا مٹو مکان) | 54 |
6 | دوسرا ایکٹ - پہلا سین (قلع معلی میں دیوانِ خاص) | 59 |
7 | دوسرا ایکٹ - دوسرا سین (دلی کا مٹکاف ہاؤس) | 75 |
8 | دوسرا ایکٹ - تیسرا سین (راستہ) | 82 |
9 | تیسرا ایکٹ - پہلا سین (مقبرۂ ہمایوں) | 84 |
10 | تیسرا ایکٹ - دوسرا سین (بستی نظام الدین اولیا) | 93 |
11 | تیسرا ایکٹ - تیسرا سین (لال قلعہ) | 98 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں