طلعت محمود - ابتدائی دور میں جہاں آرا کجن کے ساتھ صداکاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-17

طلعت محمود - ابتدائی دور میں جہاں آرا کجن کے ساتھ صداکاری

talat-mahmood
عشرت رحمانی (پیدائش: 16/اپریل 1910ء، رامپور - وفات: 20/مارچ 1992ء، کراچی) - اردو کے ممتاز ادیب، مورخ، نقاد اور براڈکاسٹر رہے ہیں جن کا اصل نام امتیاز علی خاں تھا۔ انہوں نے اردو ڈرامے کی تاریخ اور تنقید پر بڑا وقیع کام کیا۔ "اردو ڈرامہ کا ارتقا" اور "اردو ڈراما: تاریخ و تنقید" جیسی یادگار کتب تصنیف کیں۔ ان کی خودنوشت سوانح عمری "عشرت فانی" کے عنوان سے اشاعت پذیر ہو چکی ہے۔
طلعت محمود (پیدائش: 24/فروری 1924ء، لکھنؤ - وفات: 9/مئی 1998ء، ممبئی) کی گلوکاری کے ابتدائی دور کے چند واقعات کا ذکر انہوں نے رسالہ 'شمع' کو ارسال کیے گئے اپنے ایک خط میں کیا تھا۔ ماہنامہ "شمع" (شمارہ: اکتوبر-1981ء) کے کالم "بازگشت" میں شائع شدہ وہی خط یہاں پیش ہے۔

شمع کے شمارہ جولائی-1981ء میں عزیزی طلعت محمود کی تحریر "چند یادیں، چند باتیں" پڑھ کر مجھے اس سلسلے کی کئی باتیں یاد آ گئیں جو شاید طلعت کو یاد نہیں رہیں۔


طلعت محمود کے والد ماجد کپتان منظور محمود ایک زمانے میں ریاست رامپور (اترپردیش) میں اے۔ڈی۔سی کے عہدے پر فائز تھے۔ منظور صاحب عمر میں مجھے سے بہت بڑے تھے لیکن ان کے اہل خاندان اور میرے بزرگوں کے دیرینہ مراسم تھے۔ اسی سلسلے سے میرا ان سے تعارف ہوا اور مخلصانہ روابط قائم ہو گئے۔ پھر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے علیگڑھ چلا گیا اور وہ کچھ عرصہ بعد ملازمت چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے۔ ان سے دوبارہ ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں اسسٹنٹ پروگرام ڈائرکٹر بن کر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر متعین ہوا۔


منظور صاحب اس زمانے میں لکھنؤ میں بجلی کے سامان کی تجارت کرتے تھے اور نظیرآباد بازار میں ان کا شوروم تھا۔ اکثر شام کو ان کے شوروم میں میری ان کے ساتھ نشستیں ہونے لگیں۔ منظور صاحب بہت خوش گلو تھے اور ان کو موسیقی سے خاص شغف تھا۔ میں نے اکثر منظور صاحب کی نظم خوانی اور خصوصاً اقبال کی 'شکوہ' اور 'جواب شکوہ' ان کی آواز میں لکھنؤ ریڈیو سے نشر کرائیں۔


عزیزی طلعت اس زمانے میں اسکول میں زیرتعلیم تھے۔ منظور صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے ذکر کیا کہ:
"طلعت کو موسیقی کا بہت شوق ہے۔ میں نے سنا ہے کہ دوستوں میں گایا کرتا ہے۔"
میں نے کہا کہ:
"یہ تو اس کا موروثی شوق ہے۔ مناسب ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ میٹرک سے فراغت پالے تو اسے میریس میوزک کالج میں داخل کرا دیں۔"


آخرکار طلعت نے میٹرک پاس کر لیا اور میریس میوزک کالج میں داخلہ لے کر فنِ موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ اس کالج کے پرنسپل پنڈت ٹھاکر اور وائس پرنسپل بڑے آغا (جو آج کل کراچی میں مقیم ہیں) تھے۔ یہ دونوں صاحبان لکھنؤ ریڈیو سے کلاسیکی میوزک کے پروگرام باقاعدگی سے نشر کیا کرتے تھے۔ مجھ سے اچھے مراسم تھے۔ میں نے دونوں صاحبان سے کہہ دیا کہ طلعت محمود کا خاص خیال رکھیں۔


کچھ عرصہ بعد میں نے منظور صاحب سے کہا کہ طلعت کو اب ریڈیو سے پروگرام نشر کرنا چاہیے، کیونکہ میں نے اس کے اساتذہ سے سے اس کی خوش آوازی اور رسیلے پن کی تعریف سنی ہے۔ میری بات سن کر منظور صاحب کو اطمینان ہو گیا۔


اس زمانے میں میرے ایک ساتھی پروگرام اسسٹنٹ نرمل کمار بھٹاچاریہ موسیقی کے پروگراموں کے انچارج تھے۔ میں نے ان سے طلعت محمود کا آڈیشن لینے کو کہا۔ آڈیشن کامیاب ہوا اور طلعت کے باقاعدہ پروگرام کا آغاز ہو گیا۔ ایک دو پروگراموں کے بعد ہی طلعت کی پرسوز اور طلسمی آواز نے سامعین کو مسحور کر لیا۔


کچھ عرصہ بعد میں ڈائرکٹر آف پروگرام کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ شوکت تھانوی (مرحوم) شروع سے لکھنؤ ریڈیو پر بہ حیثیت مصنف مستقلاً موجود تھے۔ ان کے دم سے بڑی رونق رہتی تھی۔ ان دنوں ہم اردو کی قدیم مشہور مثنویوں پر مبنی ریڈیو اوپیرا نشر کیا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں میں نے مشہور مثنوی "زہر عشق" پر مبنی ریڈیو اوپیرا ترتیب دیا۔ اس میں ہیرو (قمر) کا کردار طلعت محمود نے اور ہیروئین (مہ جبیں) کا کردار جہاں آرا کجن نے ادا کیا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب ابتدائی ریہرسل ہونے لگی تو کجن جیسی معروف اسٹار اور گلوکار کے بالمقابل اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عزیزی طلعت محمود کی پیشانی پر، موسم سرما ہونے کے باوجود پسینہ آ گیا تھا۔ دراصل یہ ان کی طبعی شرافت اور شرم و حیا کے باعث تھا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اس پر قابو پایا۔


"زہرِ عشق" کی ملک گیر مقبولیت میں کجن اور طلعت دونوں کا مرتبہ برابر تھا۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی جیسے متخیر عالم اور مستند ادیب نے خاص طور پر تعریفی خط لکھ کر داد دی تھی۔
چند ماہ بعد ہم نے حضرت جگر مرادآبادی سے ایک نئی مثنوی "دردانہ" لکھوائی۔ اس کا پلاٹ خود ہم نے تجویز کیا تھا۔ اور اس مثنوی پر مبنی ریڈیو اوپیرا شوکت تھانوی اور میں نے ترتیب دیا۔ یہ اوپیرا میرے ایک ساتھی سید انصار ناصری دہلوی کی زیر ہدایت نشر ہوا، جس کے ہیرو اور ہیروئین بھی طلعت محمود اور جہاں آرا کجن تھے۔


اس دوران میں نے منظور محمود صاحب کو رائے دی کہ عزیزی طلعت کو بمبئی جانے کی اجازت دے دیجیے۔ اس کی فطری صلاحیتوں کے لیے ریڈیو کا میدان تنگ ہے۔ منظور صاحب کو پھر اندیشہ ہوا کہ فلمی دنیا کا ماحول اس کے چال چلن پر اثرانداز نہ ہو۔ میں نے نہایت وثوق سے منظور صاحب کو طلعت محمود کی فطری نیک سیرتی کا یقین دلا کر مطمئن کر دیا۔
بالآخر طلعت محمود بمبئی جا کر فلمی دنیا کے آسمان پر چمکے اور خوب چمکے۔


***
ماخوذ: ماہنامہ "شمع" دہلی۔ (اکتوبر-1981) ، کالم 'بازگشت'۔

When Talat Mahmood had to share his voice with Jahan Ara Kajjan at a Radio Drama.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں