ہم اپنا قبلہ درست کریں تو ہر مسئلہ کا حل ممکن ہے - ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد سے انٹرویو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-18

ہم اپنا قبلہ درست کریں تو ہر مسئلہ کا حل ممکن ہے - ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد سے انٹرویو

ایم ودود ساجد نے مشہور مسلم مفکر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد سے بطور انٹرویو نگار چند سوالات کیے ہیں۔۔۔ انٹرویو سے قبل ڈاکٹر صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔۔۔

آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے تعلق سے گزشتہ 4 جولائی کو جو عدیم المثال بیانات دئے، کہا جارہا ہے کہ ان کا سبب مشہور مسلم مفکر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی وہ تقریر تھی جو انہوں نے موہن بھاگوت کے ہاتھوں اپنی نئی کتاب کے اجراء سے پہلے کی تھی۔۔


خواجہ صاحب سے میرا تعلق تین دہائیوں پرانا ہے۔ میں نے بہت قریب رہ کر بھی انہیں پرکھا اور دور جاکر بھی۔ ان کے جو بھی سیاسی نظریات ہوں ضروری نہیں کہ مجھے ان سے اتفاق ہو لیکن ان کی ایک خوبی نے مجھے متاثر کیا۔ وہ 1992 کے بعد ہر وزیر اعظم کے انتہائی قریب رہے لیکن میں نے کبھی انہیں "ہاتھ پھیلاتے" ہوئے نہیں دیکھا۔ انہوں نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو پیش آنے والے مسائل کی سنگینی کو بھانپ کر ایک طرف جہاں اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ کے سامنے برابری کی بنیاد پر پوری قوت کے ساتھ نہ صرف مسلمانوں کے مسائل رکھے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا تو دوسری طرف بی جے پی کی حکومت کے دوران وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی کے سامنے بھی ان کا یہی رویہ قائم رہا۔


انہوں نے مسلمانوں کے جذباتی مسائل کے تناظر میں حکومت سے نہ تو ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی ذاتی مفادات کیلئے حکومت کے سامنے خود سپردگی کی۔انہوں نے زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلایا۔انہوں نے جو کچھ بھی کیا اسے دستاویز کی شکل دیدی۔ ان کے اسی فقیدالمثال رویہ نے انہیں دونوں قائدین کے سامنے سرخرو اور بے داغ رکھا۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی پوری زندگی نچوڑ کر قوم کے مسائل کے اندھے کنویں میں ڈال دی ۔۔۔
4/جولائی/2021 کو اپنی نئی کتاب کے اجراء کے موقع پر آر ایس ایس سربراہ کے سامنے انہوں نے ایک گھنٹے کی جو تقریر کی اس میں مسلمانوں کے حوالہ سے ایسی ایسی باتیں بھی پوری جرات کے ساتھ کہہ ڈالیں کہ اگر موہن بھاگوت مسلمانوں کے پلیٹ فارم پر آجائیں تو میں اپنے 35 سالہ مشاہدات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بڑے سے بڑا قائد بھی وہ بات کہنے کی ہمت نہ کرسکے۔ بہر حال اس نئی صورتحال پر میں نے ان سے کچھ سخت سوالات پر مبنی انٹرویو کیا ہے۔۔


انٹرویو

سوال:
خواجہ صاحب! گزشتہ 4 جولائی 2021 کو غازی آباد میں جس اسٹیج سے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے تعلق سے عدیم المثال بیانات دئے اس اسٹیج پر آپ بھی موجود تھے۔یہ کہا جارہا ہے کہ بھاگوت سے پہلے ہونے والی آپ کی تقریر ہی بھاگوت کے اس بیان کا سبب بنی۔کیا آپ بھی اسی خیال کے حامی ہیں؟
جواب:
آر ایس ایس ایک تنظیم سے کہیں زیادہ ایک نہایت منظم نظریاتی جماعت ہے جو اجمالی طور پر ثقافتی مگر عملاً قومی وبین الاقوامی امور میں فیصلہ سازی کے عمل کو قطعیت کے ساتھ متاثر کرنے کے حوالے سے ایک تھنک ٹینک کی شکل میں زیادہ دیکھی جانی چاہئے۔ یہ کہنا کہ محض میری تقریر کے جواب میں سرسنگھ چالک کی تقریر تھی درست نہ ہوگا۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ جن موضوعات اور نکات کو ایمانداری سے میں نے اٹھایا انہوں نے اسی جذبہ کے ساتھ اپنے خیالات اور آر ایس ایس کے نظریات کی روشنی میں ان کے جوابات دئے۔


سوال:
کیا آپ کو یقین ہے کہ جس طرح آر ایس ایس کی قیادت مسلمانوں کے ساتھ بظاہر خوشگوار مراسم قائم کرنا چاہتی ہے اسی طرح بی جے پی بھی مسلمانوں کے تعلق سے متنازعہ اشوز چھوڑنے کو تیار ہوجائے گی؟
جواب:
پورا سنگھ، مع بی جے پی، اچھے اور خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔شرائط پر گفتگو ہوسکتی ہے رشتے قائم نہیں ہوسکتے۔چھوڑنے کا عمل بھی دو طرفہ ہے یکطرفہ نہیں۔من حیث القوم ہم ردعمل کو حکمت عملی سمجھتے آئے ہیں۔جبکہ مثبت و تعمیری جوابات، خوشگوار پہلیں،بیانات اور اقدامات کہیں زیادہ بہتر رویہ و رجحان ہیں۔ ہمیں Reaction نہیں بلکہ Response کی طرف بڑھنا چاہئے۔


سوال:
کیا آپ کو سنگھ پریوار کے قول وعمل میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا؟
جواب:
قول وعمل میں تضاد ایک فطری وفکری عمل ہے۔مکمل مماثلت شاید عملاً ممکن ہی نہیں۔البتہ نیت میں اظہار اور پیغام کے حوالہ سے متعلقہ فریقین کو اپنی بات کو جس اسلوب اور جس بیانیہ کے ساتھ کہنا چاہئے اگر ایسا ہو تو اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔جہاں تک سنگھ پریوار کا تعلق ہے، جہاں ہم کو ان سے شکایتیں ہیں وہیں ادھر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔سنگھ پریوار اپنے واضح ایجنڈے کے مطابق کام کر رہا ہے۔وہاں ابہام نہیں ہے۔آپ کا یہ سوال سیکولر طبقات پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔


سوال:
آپ نے اپنی کتاب میں ہندوستانی مسلمانوں کے بہت سے ہمہ جہت معاملات اور ان کی سیاسی تاریخ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب کے اجراء کیلئے آر ایس ایس کا اسٹیج کیوں چنا اور کیوں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے اس کا اجراء کرایا؟
جواب:
اس کتاب کے ذریعہ آج کی نسل کو صحیح تاریخ سے آگاہ کرنے، سیکولر سیاست کے عروج وزوال اور اس کی بحالی کے راستے پر سیر حاصل بحث اورمسلم قیادت سے سیدھی اور دو ٹوک بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے علاوہ سنگھ کے سامنے اپنے موقف کے اظہار میں کسی بے جا مصلحت سے کام نہیں لیا گیا ہے۔سنگھ اور مسلمانان ہند کے مابین جو اختلافات ہیں ان کے حل کیلئے ان کی قیادت کے ساتھ بیٹھنا،مکالمہ کرنا اور افہام وتفہیم کو فروغ دینا ضروری ہے۔لہذا اس حوالہ سے ضروری تھا کہ سنگھ کی قیادت کو ہی اس کتاب کے اجراء کیلئے مدعو کیا جائے۔بنیادی بات آر ایس ایس سربراہ کا اس کتاب کے اجراء کی درخواست کو قبول کرنا ہے اور 95 سال میں ایسا پہلی بار ہونا اور ان کا اس بے باکی کے ساتھ اپنی بات کو رکھنامیرے اس فیصلہ کی حقانیت کو تسلیم کرنے کیلئے کافی ہے کہ یہ فیصلہ درست بھی تھا اور بروقت بھی۔۔


سوال:
ملک میں ہندو مسلم رشتوں کے تناظر میں جو حالات 2014 کے بعد سے بنے ہیں کیا آپ کویقین ہے کہ آر ایس ایس سے مذاکرات کرکے ان حالات میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے؟
جواب:
مکالمہ ہی مہذب معاشروں کے مابین مفاہمت کے حصول کا واحد راستہ ہے۔مخاصمت سے مسائل حل نہیں ہوتے مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔یہ عمل سنجیدہ ہونا چاہئے۔ماضی،حال اور مستقبل کے تقاضوں اور تبدیل ہوتی زمین کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکمت عملی اور خیال سازی کے عمل کو آگے بڑھاناچاہئے۔


سوال:
ملک کے طول وعرض میں مسلمانوں کے خلاف جو فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں ان میں بظاہرجن عناصر کا ہاتھ رہا ہے کیا آر ایس ایس کی قیادت ان پر براہ راست کوئی اثرونفوذ رکھتی ہے؟
جواب:
کانگریس اور سیکولر سیاسی جماعتوں کے سات دہائیوں کے اقتدار میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ قائم رہا، تفتیش کے لئے جو کمیشن بنائے گئے،ان کی سفارشات اور متن کو عام نہیں کیا گیا، یہ سمجھا جاتا رہا کہ فسادیوں کا تعلق سنگھ سے ہے۔لیکن یہ محض بیانیہ ہی رہا۔اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔جہاں تک اثر ورسوخ کا تعلق ہے تو ہر سال 6 دسمبرکو سنگھ شوریہ دوس مناتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس سال نہ منانے کا جب فیصلہ ہوا تو پورے ملک میں کہیں اس کو لے کر کوئی جشن اور تقریب نہیں ہوئی۔اس سے اس کے اثر و رسوخ کو سمجھا جاسکتا ہے۔


سوال:
اگر آر ایس ایس کا ان عناصر سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر آر ایس ایس سے مذاکرات کرکے کس طرح ان شرپسند عناصر کورام کیا جاسکتا ہے؟
جواب:
ہر تنظیم،ادارے، جماعت، معاشرے اورقوم میں ہر طرح کے عناصر ہوتے ہیں۔ میرا نظریہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس اکثریت کو اخلاقی ومادی حمایت دے کرجو اعتدال اور مفاہمت کے راستے کو ترجیح دیتی ہے، اس کے ساتھ اشتراک عمل کو بڑھاکراس طرح کے چیلنج کا بہتر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔۔


سوال:
آر ایس ایس کی قیادت واضح طور پر کہتی رہی ہے کہ وہ کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہے اور یہ کہ بی جے پی یا حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر آر ایس ایس کس طرح مسلمانوں کے تعلق سے حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے؟
جواب:
میں نے اس نکتہ کو اپنی کتاب میں موقف کے حوالہ سے واضح کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے سنگھ، آر ایس ایس -بی جے پی اشتراک کی اصطلاح استعمال کی ہے۔سنگھ کے معنی اور مفہوم میں اجماع واجتماعیت کے ساتھ باہمی اشتراک بھی شامل ہے۔تکنیکی طورپر ایسا کہاجا سکتا ہے۔شاید مانا بھی جائے مگر زمینی حقیقت پریوار کی ہے اور ایک وحدت کی ہے۔۔


سوال:
آپ نے پچھلی تین دہائیوں میں کم سے کم دو مختلف پارٹیوں کے وزراء اعظم سے دانشورانہ سطح پر اعلی سطحی رابطہ رکھا اوران کے سامنے مسلمانوں کے مسائل رکھے۔کیا آپ کو محسوس ہوا کہ کانگریسی وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے یا بھاجپائی وزیر اعظم باجپائی نے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی دکھائی؟
جواب:
نرسمہاراؤ کے دور اقتدار میں بابری مسجد کی شہادت نے ان کے تاریخی کارناموں پر خاک ڈال دی۔اقلیتی کمیشن کو قانونی درجہ، قومی مالیاتی کمیشن کا قیام، عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون، پرسنل لاء میں عدم مداخلت کو لے کران کا واضح موقف، ان کی کابینہ میں سب سے بڑی تعداد میں مسلم وزراء کی موجودگی اور دیگر اقدامات جن کا ذکر میں نے اپنی کتاب میں کیا ہے مسلمانوں کے مسائل کے حل سے ان کی دلچسپی کا مظہر ہیں۔۔
جہاں تک باجپائی کی بات ہے تو وہ مفاہمت کے قائل تھے۔ان کے یہاں بڑی گنجائش تھی۔انہوں نے نہ صرف سابقہ روایات واقدامات کو آگے بڑھایا بلکہ مسلمانان ہند کے جذبات واحساسات کے حوالہ سے واضح موقف رکھا۔جب میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کے ہاتھوں باب سرسید کے افتتاح کی تجویز ان کے سامنے رکھی تو انہوں نے فوراً قبول کرلی اور پوچھا کہ مجھے کیا کرنا ہوگا۔میں نے کہا کہ یونیورسٹی کیمپس سے اتر پردیش سنچائی وبھاگ کالونی کی منتقلی، میڈیکل وڈینٹل کالج کے متعلقہ مسائل کا حل اور سیٹوں میں اضافہ اور ڈھائی سو کروڑ کی خصوصی گرانٹ کا اعلان کرنا ہوگا۔وہ ان سب پر راضی ہوگئے۔لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا وہ دور اندیشی نہ تھی۔


سوال:
متنازعہ اشوز کے پر امن حل کیلئے مسلمانوں اور ان کے قائدین کو آپ کیا حل تجویز کرتے ہیں؟
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں قائدین کا ایک جم غفیر ہے۔ میں ان کو ذمہ داران ملت تصور کرتا ہوں۔بیشتر ان میں وہ افراد ہیں جن کا کم یا زیادہ حلقہ اثر ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں بھی ہیں جن کا ریاستی سطح پر اثر و رسوخ ہے۔باہمی اشتراک عمل کو شعار بناکر، خالص پہل کو مسلم نہ رکھ کر، معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لیتے ہوئے اورمخالفین کو بھی ساتھ رکھ کر، قومی وملی معاملات میں توازن اور امتزاج قائم کرکے حکمت عملی تشکیل دی جاسکتی ہے اورخاطر خواہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔کسی کو قطعی دوست اور کسی کو دشمن سمجھ کر مسائل کا حل نہیں نکلتا۔۔


سوال:
کیا عام ہندوستانی مسلمانوں کے لئے آپ اپنی کتاب کے مشمولات کا نچوڑ پیش کرسکتے ہیں؟
جواب:
میری کتاب کے تین حصے ہیں۔اس میں 1920سے 2020 تک کے درمیان تمام تر سیاسی وسماجی واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں 1920 سے1947، تقسیم ہند،آزاد ہندوستان، سیکولر سیاست کے عروج وزوال پر سیر حاصل مواد ہے۔دوسرے حصہ میں مسلم قیادت،ان کی کامیابیوں، ناکامیوں، سیاسی لغزشوں اور بالغ نظری کے فقدان کا احاطہ کیا گیاہے۔ تیسرے حصہ میں سنگھ پریوار پر مکمل بحث کی گئی ہے۔ مسلمانان ہند اور سنگھ کے مابین ہر حساس مسئلہ کو، جو ہمارے نزدیک ہے اور جو ان کے نزدیک ہے، زیر بحث وتجزیہ لایا گیا ہے۔اس کتاب کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ تمام متنازعہ مسائل کا باوقار حل پیش کرتی ہے۔۔


سوال:
آپ نے تین دہائیوں میں مختلف وزرائے اعظم کے طریقہ کار کا باریکی سے تجزیہ کیا، موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے طریقہ کار کے تعلق سے آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
جواب:
مسلمانان ہند موجودہ وزیر اعظم کو آج تک نہیں سمجھ پائے۔ان کی ہر پہل کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ان کے بیانات کا مذاق بنانا،ان کو سنجیدگی سے نہ لینا،بے جا الزام تراشی اور ہر وقت گجرات فسادات کا رونا رونا، اس سے آگے نہیں نکل پائے۔ میں اس طرز عمل کو درست نہیں مانتا۔ نریندر مودی ایک ایسے وزیر اعظم ہیں جن سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جوشاید اس سے قبل کسی سے نہیں لیا جاسکا۔ سنجیدگی کی ضرورت ہے! ان پر مکمل اعتماد کرکے، ان کے خیالات سے ہم آہنگ ہوکر ان کی پہل کا خیر مقدم کرکے، ان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرکے، اپنے رشتوں میں ایک نئے باب کو رقم کیا جاسکتا ہے۔ہمارا Track غلط ہے! ہم اپنے قبلہ کو درست کریں! ہر مسئلہ کا حل ممکن ہے! دلوں میں گنجائش دو طرفہ ہونا چاہئے! یہ عمل یکطرفہ نہیں ہوسکتا!


سوال:
موہن بھاگوت کے اس بیان پر اگر مسلمانان ہند نے بقول آپ کے ری ایکشن کی بجائے ریسپونس نہ دیا تو کیا یہ کوئی بڑی تاریخی غلطی ہوگی اوراس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
جواب:
یہ وہ غلطی ہوگی جس کے تدارک کیلئے شاید پھر صدیاں درکار ہوں۔اس مرتبہ 95 برس لگے۔آگے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ موصوف نے جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے وہ کوئی انتہائی درجہ کا مدبر، مفکر اور عاقل قائد ہی کرسکتا ہے۔ اتنا واضح موقف جو ہر قسم کے ابہام و پہلوتہی سے پاک و صاف ہو، اس کے بعد مسلمانان ہند اور ان کے ذمہ داران کی جانب سے پس وپیش میری نظر میں ایک طرف توسیاسی،اخلاقی اور نفسیاتی کوتاہ نظری ہوگی اور دوسری طرف متعلقہ شخصیات کی قائدانہ صلاحیت پر بھی سوال اٹھیں گے۔اِس ایک فردِ واحد کی تنہا کوشش وکاوش کا اتنا نتیجہ ہے تو پوری قوم اور اس کے ذمہ داران کا اگرساتھ ہو تو پھر!



***
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Interviewer: M. Wadood Sajid.
RSS chief Mohan Bhagwat launches Muslim scholar Dr Khwaja Iftikhar Ahmed's book
An interview with Dr Khwaja Iftikhar Ahmed.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں