ہندوستانی فلم انڈسٹری کی فراموش کردہ اداکارائیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-03

ہندوستانی فلم انڈسٹری کی فراموش کردہ اداکارائیں

indian-film-industry-forgotten-actresses
مِس زبیدہ
zubeida

پہلی متکلم فلم "عالم آرا" کی ہیروئین ہونے کا اعزاز انہیں حاصل تھا۔ ان کی والدہ فاطمہ بھی فلموں میں تھیں اور چھوٹی بہنیں سلطانہ اور شہزادی بھی فلموں میں کام کرتی تھیں۔ دیکھنے میں بہت بھولی اور دل جیتنے والی تھیں۔ جس نے ایک بار دیکھا وہ بھلا نہیں سکا۔ پچاس سے زائد خاموش اور متکلم فلموں میں انہوں نے کام کیا۔


جہاں آرا کجّن
jahan-ara-kajjan

آج تک ان سے زیادہ مقبول کوئی اداکارہ نہیں ہوئی۔ بمبئی کیا پورا ملک ان کا دیوانہ تھا۔ راجے، مہاراجے، نواب بھی دل ہاتھ میں لیے پھرتے تھے۔ کجن نے 1930ء میں فلموں میں قدم رکھا۔ شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، شکنتلا، بلوا منگال، دل کی پیاس، آنکھ کا نشہ، جہاں آرا، رشیدہ، انوکھا پیار اور پرتھوی ولبھ ان کی مشہور فلمیں تھیں۔ ہندوستانی فلموں کی ریڑھ کی ہڈی تھیں جن کا دور خاموش فلموں سے شروع ہوا تھا اور بولتی فلموں سے عروج پر پہنچا۔ اپنی فلم "منورما" کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہوئیں، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کجن کی موت پر لاکھوں دل ٹوٹے، کئی ایک نے خودکشی کی۔ جہاں آرا کجن کو کتوں سے نفرت تھی، وہ شیر پالتی تھیں۔ ساری عمر شادی نہیں کی مگر میڈن تھیٹر کلکتہ کے عمررسیدہ مالک سیٹھ کرنانی کی منظور نظر رہیں۔ سیٹھ کرنانی نے ایک بڑآ مکان کجن کو دیا ہوا تھا جہاں ان کا تعینات کردہ چوکیدار کجن کے ہر ملنے والے پر نظر رکھتا تھا اور رات کو پوری رپورٹ کرنانی کو دی جاتی تھی مگر کرنانی کو کبھی کجن سے اس سلسلے میں بات چیت کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کجن نے ایک ماہوار رسالہ بھی جاری کرایا تھا۔


مس سندربالا
sundar-bala

جس زمانہ (1914ء) میں ہیروئین کو پانچ روپے روزانہ ملتے تھے اسی زمانہ میں مدراس میں بنائی جانے والی ایک خاموش فلم کے لیے سندر بالا کو ایک لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا کیونکہ قریب آدھی فلم میں سندر بالا کو نیم برہنہ دکھایا گیا تھا۔ اس فلم میں کام کرنے پر سندر بالا کا سماجی بائیکاٹ ہوا اور انہوں نے فلموں سے کنارہ کشی کر لی۔


ممتاز شانتی
mumtaz-shanti

سنہ 1926ء میں ڈنگا (گجرات، پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔ گیارہ سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں داخل ہوئیں۔ "سوہنی کمہارن" ان کی پہلی فلم تھی جو پنجابی زبان میں بنی تھی۔ شوری پکچرز کی پنجابی فلم "منگتی" نے ان کو بےپناہ شہرت سے ہمکنار کیا۔ بمبئی ٹاکیز کی فلمیں بسنت اور قسمت نے ان کو صفِ اول کی ایکٹریس بنا دیا۔ ان کے شوہر ولی بھی پروڈیوسر تھے۔


حسن بانو
husn-banu

اصلی نام روشن آرا تھا۔ 1922ء میں سنگاپور میں پیدا ہوئیں۔ حافظ جی کی فلم "ڈاکو منصور" ان کی پہلی فلم تھی، جس کے ڈائرکٹر 'گنگا جمنا' والے نتن بوس تھے۔ جئے بھارت، ہند کیسری، نوجوان، فلائنگ رانی، متوالی مِیرا، پریم نگر، آسرا، بہن، نئی روشنی وغیرہ میں حسن بانو نے اہم رول ادا کیے۔ آخری فلم "رضیہ سلطان" تھی جس میں کل کی ملکۂ حسن نے ملکۂ ہند رضیہ سلطان کی ایک کنیز کا رول ادا کیا۔ اداکارہ ناظمہ کی والدہ تھیں۔


سادھنا بوس
sadhna-bose

سنہ 1916ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے شوہر مدھو بوس جو اس زمانے میں فلم ڈائرکٹر تھے ان کی وساطت سے فلموں میں آئیں۔ فلم "راج نرتکی" میں ان کے رقصوں کی تعریف پورے ملک میں سنی گئی تھی۔ اس فلم کو "کورٹ ڈانسر" کے نام سے انگریزی میں بھی بنایا گیا تھا۔ ابتدا میں صرف اپنے شوہر کی فلموں میں کام کرتی تھیں۔ بعد میں دوسرے ہدایت کاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔ سادھنا بوس نے فلموں میں اداکاری کے علاوہ ان میں اپنی آواز میں گانے بھی گائے۔ شراب میں ہر دم دھت رہتی تھیں۔ آخری دنوں میں پاگل ہو گئی تھیں۔


رتن بائی
ratan-bai

اصلی نام امام باندی تھا۔ 1912ء میں پٹنہ (بہار) میں پیدا ہوئیں۔ نیو تھیٹرز کی فلم "صبح کا ستارہ" ان کی پہلی فلم تھی جو 1932ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ رتن بائی کو شہرت فلم "یہودی کی لڑکی" سے ملی۔ ان فلموں کے علاوہ راج رانی میرا، کاروانِ حیات، بھارت کی بیٹی، سرلا ، دلہن، غازی صلاح الدین، رائے صاحب، مالن، رتن بائی کی کامیاب فلمیں تھیں۔ دلکش آواز کی مالکہ رتن بائی نے پروڈیوسر کی حیثیت سے فلمیں بھی بنائیں۔ ان کی اپنی پہلی فلم "سہیلی" تھی۔ رتن بائی کے جتنے لمبے بال آج تک کسی اداکارہ کے نہیں ہوئے جو اتنے لمبے تھے کہ پیروں سے بھی نیچے تک آتے تھے۔


***
ماخوذ: ماہنامہ "شمع" دہلی۔ (جنوری-1988) ، فلم اور ٹی۔وی نمبر۔

Forgotten Actresses of Indian Film Industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں