اسرائیلی کمپنی این ایس او کے اسپائی ویئر 'پیگاسس' نے جہاں دنیا کی بیشتر حکومتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے وہیں ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔
لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ایوانوں کی کارروائی اس معاملے پر مسلسل التواء کا شکار ہے وہیں حکومت اس پر گفت و شنید سے بچنے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ دونوں ایوانوں میں حکومت سے اسپائی ویئر پر سوال کرنا ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنا قرار دیا جا رہا ہے۔
اس معاملے پر حکومت کی روش یہ باور کراتی ہے کہ ملک میں 300 افراد کی جاسوسی کے الزامات میں کچھ صداقت ضرور ہے ورنہ حکومت اس پر بحث کا در کھولتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان بھی کر دیتی کہ اپنی بے گناہی کی صورت میں اپوزیشن کو ذلیل و خوار کرنے کا یہ ایک بہترین موقع ہوتا۔
لیکن معاملہ یہ ہے حکومت اس پر بحث کرنے یا تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل تو دور، اس بات کا جواب تک دینے پر آمادہ نہیں ہے کہ حکومت نے پیگاسس سافٹ ویئر خریدا تھا بھی یا نہیں۔ یہ صورتحال مشرق وسطیٰ یا افریقہ کی کسی آمریت کی نہیں بلکہ 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت' کی ہے۔ اس موقع پر جمہوریت پسند طبقہ کی جانب سے فرانس کی مثال دی جا رہی ہے جس نے پیگاسس کی سیاسی استعمال کی تردید کے درمیان اپنے ملک میں اسپائی ویئر اسکینڈل کی تحقیقات کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
ہندوستان اور فرانس کے معاملات مختلف ہیں۔
پیگاسس اسپائی ویئر سے فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کی جاسوسی کی اطلاعات سامنے آئی تھی اور اس کی جانچ کا حکم خود ایمانویل میکخواں کے دفتر سے جاری کیا گیا ہے۔ فرانس میں حکومت کی جانب سے معاملے کی تحقیقات دفاعی نوعیت کی حامل ہیں جبکہ ہندوستان میں تحقیقات سے فرار دفاع کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہندوستان میں وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کی جاسوسی کے دعویٰ نہیں کیے گئے ہیں بلکہ ان لوگوں کی جاسوسی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو ملک کے اہم عہدوں پر براجمان افراد کیلئے مستقبل میں ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔
ان میں دو مرکزی وزراء کے ساتھ اپوزیشن کے لیڈران، سپریم کورٹ کے منصفین اور صحافتی برادری سے کم و بیش 300 افراد شامل ہیں۔ یہاں تحقیقات ایوان اقتدار میں موجود افراد کے استحکام کا نہیں مسائل کا سبب بنے گی۔
اسرائیلی کمپنی این ایس او کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنا سافٹ ویئر افراد کو نہیں بلکہ حکومت کو فروخت کرتے ہیں۔ فرانس میں تحقیقات حکومت میں موجود کالی بھیڑوں کا پتہ لگائیں گی جبکہ ہندوستان میں تحقیقات حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا سبب بنے گی۔
ملک کی سیاسی صورتحال سے معمولی سے واقفیت رکھنے والا شخص بھی بخوبی جانتا ہے کہ مرکز کے ایوانوں میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق این ایس او کمپنی پیگاسس سافٹ ویئر کے لائسنس کیلئے سالانہ 60 کروڑ روپئے وصول کرتی ہے۔ ایک لائسنس کے ذریعے 50 موبائیل فونز کو ہیک کیا جاسکتا ہے۔ 300 موبائیل فونز کو ہیک کرنے کیلئے حکومت کو 6 سے 7 لائسنس درکار ہوں گے۔ یہ لائسنس حکومت کے کس شعبے سے حاصل کیے گئے یہ ابھی پردہ راز میں ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ ایک طرف مرکزی حکومت جاسوسی کے الزامات کو مسترد کر رہی ہے وہیں حال ہی میں کابینہ سے باہر ہوئے سابق وزیر اطلاعات و نشریات منی شنکر پرساد کہتے ہیں کہ دنیا کے 45 ممالک پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کر رہے لیکن صرف ہندوستان میں اس کے استعمال پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
اگر منی شنکر پرساد یہ اعلان کردیں کہ ہندوستان میں اب جمہوریت نامی کسی چڑیا کا وجود نہیں رہا تو دیگر ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اس پر سوال نہیں اٹھیں گے۔ یہ اعلان کر دینے میں کوئی برائی بھی نہیں ہے، جب حال اور ماضی قریب میں ملک کی جمہوری بنیادوں میں مرکزی حکومت کے فیصلوں سے جو شگاف ڈالے گئے ہیں اس کے بعد بس اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے ورنہ ہندوستان میں جمہوریت کا کوئی وجود باقی نہیں رہ گیا ہے۔
ملک کے عوام بس چنندہ افراد کے شوق کی تکمیل میں اپنے شب و روز کا بوجھ ڈھو رہے ہیں:
- کسی کو ایشیاء اور اس کے بعد دنیا کا سب سے دولت مند انسان بننا ہے۔
- کسی کو اپنے بچپن کی محرومیوں اور نا آسودگیوں کا مداوا کرنا ہے۔
- کسی کو ملک کے افق پر چھا جانے کی خواہش ہے۔
- کوئی لکھنئو سے دہلی کی گزرگاہ پر کھڑا فیصلہ کن نظروں سے دہلی کی جانب دیکھ رہا ہے۔
- کسی کو آنکھوں پر سیاہ چشمہ چڑھائے ہالی ووڈ فلموں کی طرح راتوں رات چونکا دینے والے فیصلوں سے ملک کے عوام کو سرپرائز دینے کا شوق ہے
- ۔۔۔ تو حالیہ پیگاسس تنازع نے یہ بھی بتا دیا کہ کوئی جیمز بانڈ بننے کا بھی شوق رکھتا ہے۔
ان سب کے شوق کی تکمیل سسکتی جمہوریت، لرزتی معیشت اور خون تھوکتی رواداری سے ہو رہی ہے۔ باقی رہے عوام، تو ان کا وجود ہی کسی جہاں پناہ کے شوق کی تکمیل میں مارے جانے کا منتظر ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں