ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 09 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-13

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 09

novel-thankyou-corona-episode-09

پچھلی قسط کا خلاصہ:
شیوانی نے فرہاد کا اعتبار حاصل کیا تو فرہاد نے اسے اپنی زندگی کے واقعات سے آگاہی دی۔ پھر صحتیاب ہونے پر شیوانی نے انہیں اپنے گھر قیام کرنے کی پیشکش کی کہ چوبکہ حمل و نقل کے ذرائع بند ہونے کے سبب وہ حیدرآباد نہیں جا سکتے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام رہائشی ہوٹل بھی بند ہیں۔ یوں فرہاد صحتیاب ہو کر اسپتال سے شیوانی کے گھر منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے باقی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ماں کی وفات کی اطلاع بھی دی۔ نگار دوسرے کمرے سے یہ تمام کہانی سن رہی تھی۔۔ اب نویں قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 9 »

"پھر کیا ہو گیا فرہاد بھائی؟" شیوانی گھبرا کے بولی۔
امی کے گھر آجانے کے کچھ دن بعد پھر سے ہمارے خالو اور خالہ آ دھمکے اور ابو امی سے ہماری شادی (ان کی بیٹی سے) کی بات چھیڑ دی۔ ہمارے ابو بہت غصہ والے ہیں، وہ خالو کی بات سن کر بپھر گئے اور بولے۔۔۔ آپ کو صرف اپنی بیٹی کی شادی کی پڑی ہے، کیا آپ کو نظر نہیں آرہا ہے کہ پچھلے ایک مہینے سے ہم سب کتنا پریشان ہیں ؟ ابھی ابھی بیگم اتنے بڑے آپریشن سے گزر کر آئی ہیں، ان کو آرام کی ضرورت ہے اور آپ ہیں کے بس شادی کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔
ابو کی بات سن کر خالو بھی غصے میں آگئے اور پھر دونوں ہم زلف میں تو، تو ، میں، میں ہو گئی۔ ہم نے خالو سے کہہ دیا کہ۔۔۔ آپ ابھی چپ چاپ یہاں سے چلے جائیں۔ اگر ہماری امی کو کچھ بھی ہوا تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ خالو ہماری بات سن کر طیش میں آگئے اور بولے۔۔۔" تم سے برا تو کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ تم لوگ دھوکے باز ہو۔۔۔ زبان دیکر زبان سے پھر جانا ہمارے خاندان کی شان نہیں ہے۔ تمہاری ماں نے خود ہم سے ہماری بیٹی کا ہاتھ مانگا تھا، ہم نہیں آئے تھے تمہارے گھر رشتہ لے کر"۔
خالو کے منھ سے۔۔۔ "دھوکے باز"۔۔۔ لفظ سن کر ابو ہتھے سے اکھڑ گئے اور غصے میں آکر خالو کا گریبان پکڑ لئے۔ بات بہت بگڑ گئی تھی، ہنگامہ برپا ہو رہا تھا۔ ہم لوگ بیچ بچاؤ کر رہے تھے۔ امی سب سن رہی تھیں مگر کوئی ان کی طرف دھیان نہیں دے سکا اور وہ بیڈ سے اٹھنے کی کوشش میں۔۔۔ بیڈ سے نیچے گر گئیں۔ پھوپی کی چیخ سن کر سب امی کے کمرے کی طرف بھاگے تو دیکھا وہ۔۔۔ بیڈ سے نیچے بے حس و حرکت پڑی ہیں۔


ہم امی کو لیکر فوراً ہاسپیٹل پہنچے مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ امی پر فالج کا حملہ ہو چکا تھا۔ ان کے داہنے طرف کا حصہ بے حس ہو چکا تھا۔ ڈاکٹروں کی سب کوشش بیکار گئی۔ امی ایک ہاتھ اور پیر سے ناکارہ ہو گئیں۔ بول بھی نہیں سکتی تھیں بس ٹکر ٹکر ہمیں دیکھ رہی تھیں اور آنکھ سے آنسو جاری تھے۔ کیا بتائیں شیوانی ہم کتنے بدقسمت ہیں، کسی کو خوشی نہیں دے سکے۔۔۔ نہ اپنے ماں باپ کو اور نہ اس بیچاری نگار کو۔ کہتے کہتے فرہاد رو پڑے۔
شیوانی جلدی سے ان کے پاس گئی اور ان کے آنسوکو پونچھنے لگی۔ ادھر کھڑکی کے پیچھے نگار کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ وہ سب سن رہی تھی اور فرہاد کے دکھ کو ایسے محسوس کر رہی تھی جیسے یہ سب اس کے اوپر بیت رہا ہو۔ آہ!


شیوانی نے جلدی سے ایک گلاس پانی پینے کے لئے فرہاد کو دیا اور بولی۔۔۔ سوری بھائی صاحب،میری وجہ سے آپ کو یہ سب پھر سے دہرانا پڑ رہا ہے۔ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ رہنے دیجئے باقی کا پھر کبھی سن لونگی۔
فرہاد بولے۔۔۔ " میں ٹھیک ہوں، کوئی بات نہیں۔ آج ہی یہ قصہ شروع ہوا ہے تو پورا سن لو۔۔۔ہم بار بار اس کو دہرا نہیں سکتے"۔
شیوانی نے کہا۔۔۔بس دومنٹ میں آئی ، پھر آپ کی دکھ بھری کہانی ضرور سنونگی۔میرے بھائی نے کتنا دکھ سنبھال رکھا ہے اپنے سینے میں ضرور دیکھونگی۔ وہاں سے شیوانی گھوم کر کھڑکی کے پاس آئی کہ نگار کو دیکھوں اس کا کیا حال ہے اپنے فرہاد کی کہانی سن کر۔ اس کو پتہ تھا کہ وہ جذباتی لڑکی یہ سب سن کر خود کو آنسوؤں میں ڈبو چکی ہوگی۔ سچ میں نگار کا رو رو کے برا حال تھا۔ بنا آواز کے رونا بھی انسان کو اندر سے توڑ دیتا ہے۔ شیوانی نے اشاروں میں نگار سے پوچھا۔۔۔ سب ٹھیک ہے نا؟ اور نگار نے بھی سر ہلا کر جواب دیدیا کہ سب ٹھیک ہے تم جاؤ اور آگے کیا ہوا پوچھو۔


جب شیوانی آگئی تو فرہاد نے آگے کہنا شروع کیا۔ کس طرح وہ اپنی امی کی وجہ سے۔۔۔ نگار کو یکدم بھول گئے تھے۔ گھر میں افراتفری تھی اور وہ ڈائری ہی نہیں مل رہی تھی جس میں کالج کے دوستوں کے فون نمبر انہوں نے لکھ رکھا تھا۔ نگار کا فون نمبر تو انہوں نے کبھی اس سے مانگا ہی نہیں تھا کہ وہ دونوں روز ملتے تھے۔ اسی طرح تقریباً سات مہینے گزر گئے۔ تب فرہاد کو خیال آیا کہ انہوں نے امی کی وجہ سے نگار کو بالکل اگنور کر دیا ہے۔ وہ بیچاری نہ جانے کس حال میں ہوگی، کیا کیا سوچ رہی ہوگی؟ مگر نگار سے رابطہ کیسے کریں؟؟؟


شیوانی نے پوچھا۔۔۔" آپ نے کبھی دہلی آکر نگار سے ملنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ آپ چاہتے تو ایک ہی دن میں فلائٹ سے آکر نگار کو سب بتا کر پھر واپس حیدرآباد جا سکتے تھے"۔


" ہاں میں اگر کوشش کرتا تو یہ سب کرسکتا تھا مگر۔۔۔ایک تو شرمندگی کی وجہ سے کہ اتنے مہینوں تک نگار کو نظرانداز کر دیا اور دوسرے گھر والوں کی ناراضگی کے ڈر سے۔۔۔ میں دہلی نہیں آیا نگار سے ملنے۔ ادھر خالو خالہ سے دشمنی ہوگئی تھی اور وہ زمین جائیداد میں حصہ داری کو لے کر ہمارے اوپر مقدمہ دائر کر دئیے تھے۔ ایسے میں ابو بیچارے اکیلے کدھر کدھر سنبھالتے۔ اگر میں دہلی جانے کی بات بھی کرتا تو گھر میں پھر سے کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہوجاتا اور اس کا اثر امی پہ پڑتا۔ امی کی ایسی حالت کا ذمہ دار میں خود کو سمجھ رہا تھا لیکن میں ان کی موت کا ذمہ دار بننا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ لے لیا"۔


"کونسا فیصلہ لے لیا بھائی صاحب؟ کیا آپ اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کرنے کو تیار ہوگئے"۔۔۔ شیوانی نے پوچھا۔


"ارے نہیں بھئی! میں نے سوچا کہ ویسے بھی سات آٹھ مہینے ہوگئے ہیں نگار سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اگر کچھ دن اور اسی طرح چلے تو وہ مجھے بھول جائیں گی۔ آخر کتنے دن ایک ایسے انسان کا انتظار کریں گی جو غائب ہے۔ پھر وہ کسی اچھے لڑکے سے شادی کرلیں گی۔ میری زندگی تو برباد ہوئی سو ہوئی۔۔۔ اگر نگار سے شادی کی بات کرونگا تو پھر سے خاندان میں ہنگامہ ہوجائے گا اور پتہ نہیں اس وقت کسی کی جان بھی جاسکتی ہے۔ اور میں نہیں چاہتا تھا کہ ہماری محبت بدنام ہو۔ ہم اپنی زندگی میں کسی کی بددعا لے کر چین و سکون سے جی نہیں سکیں گے۔ یہی سب سوچ کر میں نے دہلی آکر نگار سے ملنے کی کوشش نہیں کی"۔ فرہاد بولے۔


"پھر آپ لندن کب گئے؟ کیا آپ کے امی ابو نے آپ سے شادی کرنے کے لئے نہیں کہا؟ آپ کی اس خالہ کی بیٹی کا کیا ہوا؟" شیوانی نے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔


"ہاں، میرے ابو نے ایک بار مجھ سے کہا کہ فرہاد بیٹا اب تم شادی کرلو۔ تمہاری امی تو معذور ہوکر بستر پکڑ چکی ہیں اب اس گھر کو سنبھالنے کے لئے کسی عورت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تم شادی کرلوگے تو تمہاری امی کو بھی تھوڑی خوشی مل جائے گی"۔ مگر میں نے منع کردیا کہ جب تک امی بولنے یا چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوجاتیں میں شادی نہیں کرونگا۔ اور گھر کو سنبھالنے کے لئے اگر ایک عورت کی ضرورت ہے تو ویسے بھی پھوپی جان ہیں، وہ مستقل ہمارے یہاں رہ سکتی ہیں"۔ ابو نے پھر کبھی مجھ سے شادی کی بات نہیں کی۔ ہم بھی خوش تھے کہ چلو بلا ٹلی۔


اس طرح تین سال سے زیادہ گزر گئے۔ ایک دن اچانک امی کی حرکت قلب بند ہو گئی۔ امی رات کو جو سوئیں پھر صبح نہیں اٹھیں۔ ہم سب سکتے میں تھے کہ یوں اچانک کیا ہوگیا۔ ابو تو بالکل گنگ ہوگئے تھے۔ پورے گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا اور ہم یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ امی ہمیں چھوڑ کر جاچکی ہیں، کل رات میں ان کو کھانا کھلانے کے بعد۔۔۔ دوائی کھلایاتھا، پیر میں مالش بھی کیا تھا پھر ان سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں سونے آیا تھا۔ انہوں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا تھا اور میرے سر پہ اپنا ہاتھ پھیر کر مجھے دعائیں بھی دی تھیں۔ موت ایسے بھی آتی ہے کیا؟؟؟


امی کے جانے کے بعد پورا گھر جیسے مجھے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ ابو اپنے کمرے میں بند پڑے رہتے تھے۔ کبھی قرآن کی تلاوت تو کبھی اخبار و رسائل پڑھتے رہتے تھے۔ باہر نکلنا بہت کم کر دئے تھے۔ میں وہاں کس سے بات کرتا۔۔۔ لے دے کر ایک پھوپی جان تھیں جن سے جب بھی بات کرو تو وہ امی کا ہی ذکر چھیڑ دیتی تھیں۔ خود بھی روتی تھیں اور مجھے بھی رلاتی تھیں۔


اسی دوران مجھے خیال آیا کہ۔۔۔ چار سال ہونے کو آئے۔ کوشش کرتا ہوں۔ سر گنگا رام ہسپتال کا فون نمبر شاید انٹرنیٹ سے مل جائے۔ نیا نیا انٹر نیٹ انڈیا میں آیا تھا۔ میں نے سرچ کیا تو انکوائیری کا نمبر مل گیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے فون کردیا اور اس لیڈی سے پوچھا کہ۔۔۔کیا میں ڈاکٹر نگار سے بات کرسکتا ہوں؟ اس لیڈی نے جواب دیا کہ۔۔۔ ڈاکٹر نگار نوکری چھوڑ چکی ہیں۔ میں حیرت میں پڑگیا کہ نگار نے نوکری کیوں چھوڑ دی؟ جب اس لیڈی سے پوچھا تو اس نے کہا۔۔۔ " ان کی شادی ہوگئی ہے تو انہوں نے نوکری چھوڑ دی ہے۔ آپ کون ہیں اور یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟"۔
میں نے جلدی سے فون کاٹ دیا۔


شیوانی تڑپ کر بولی۔۔۔"کاش بھیا، آپ کچھ دن پہلے وہاں فون کرتے تو شاید نگار سے بات ہوجاتی اور یہ سب نہیں ہوتا"۔ فرہاد نے کہا تم ٹھیک کہتی ہو مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے بہن۔ میری قسمت میں ان کا ساتھ نہیں تھا اس لئے شاید میں نے فون تب کیا جب وہ میری زندگی سے جا چکی تھیں۔ شیوانی کا دل چاہا کہ ان سے کہہ دے۔۔۔ وہ کہیں نہیں گئی ہے، ابھی بھی آپ سے کچھ میٹر دور کھڑکی کے دوسری طرف بیٹھی ہے، جائیے اور اپنی نگار کو اپنے گلے کا ہار بنا لیجئے مگر وہ کہہ نہیں پائی۔ اس نے سوچا تھوڑا اور صبر کرلیتی ہوں۔ آگے کیا ہوا سن لیتی ہوں۔
شیوانی نے پوچھا۔۔۔ پھر آپ لندن کیوں چلے گئے؟ یہاں حیدرآباد یا پھر دہلی میں بھی کسی ہاسپیٹل میں جاب کرسکتے تھے؟


امی کے جانے کے بعد۔۔۔ گھر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ گھر آنے کو دل نہیں کرتا تھا مگرجاتے بھی کہاں؟ پھر جب پتہ چلا کہ نگار کی بھی شادی ہوگئی ہے اور وہ نوکری چھوڑ چکی ہیں تو ہمارا دل اچاٹ ہوگیا۔ پہلے ہم یہ سوچ کر نگار سے اتنے سال دور رہے کہ وہ بددل ہوکر۔۔۔ ہمیں بے وفا سمجھ کر اپنا گھر بسالیں گی، کسی اچھے لڑکے سے شادی کرکے آباد ہوجائیں گی ،مگر جب ہاسپیٹل کے انکوائری سے پتہ چلا کہ ان کی شادی ہوگئی ہے اور وہ نوکری چھوڑ چکی ہیں تو پتہ نہیں کیوں دل میں ایک درد سا اٹھا اور ہم۔۔۔آہ بھی نہیں کر سکے۔


ایک دن ابو نے ہم کو اپنے کمرے میں بلایا اور ہم سے بولے۔۔۔"فرہاد بیٹا، جب سے تمہاری امی گئی ہیں ہم بھی زندگی سے بیزار ہوگئے ہیں ، گھر کے در و دیوار سے تمہاری امی کی یادیں جڑی ہوئی ہیں تو ہم کیا کریں کیسے بھلائیں ان یادوں کو؟ ہم تمہاری طرح یہاں سے بھاگ تو نہیں سکتے؟ بہت سوچنے کے بعد ہم نے یہ سوچا ہے کہ تمہاری امی کے نام سے ایک ہاسپیٹل بنائیں گے، جہاں غریبوں کے لئے مفت میں علاج کیا جائے گا۔ تم تو ماشاء اللہ ڈاکٹر ہو، کہیں اور نوکری کرنے کے بجائے اس ہاسپیٹل کو چلاؤ گے۔ تمہاری امی کے لئے اس سے بہتر خراج عقیدت اور کیا ہوگی؟ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے، شہر سے ہٹ کے ہماری زمینیں ہیں، تم دیکھ لو اور کوئی زمین پسند کرو تو وہاں ہم ہاسپیٹل بنانے کا کام شروع کردیں"۔


دوسرے دن ہم ابو کے ساتھ گئے اور دوچار جگہ زمین دیکھے۔ ہمیں ایک جگہ پسند آئی جو حیدرآباد اور سکندرآباد کے درمیان۔۔۔ اسٹیٹ ہائی وے سے لگ کے تھی۔ پانچ چھ یکڑ کی زمین تھی۔ ہم دونوں کو وہ جگہ پسند آئی اور ہم نے فیصلہ کرلیا کہ کسی انجینئر کو بلا کر بات کریں گے اور پھر اس کے پلان سے ہاسپٹیل کا کام ہوگا۔ ہمارے ابو نے تو ہاسپیٹل کا نام بھی سوچ لیا تھا۔۔۔ زینت چیریٹبل ہاسپیٹل۔۔۔!!


مہینے بھر میں انجینئر کا پلان۔۔۔اربان ڈیپارٹمنٹ سے پاس ہو گیا۔ ابو کی پہنچ سیاست میں بھی تھی۔ ہمارے یہاں کے ایم ایل اے جو اس وقت سرکار میں منسٹر تھے۔۔۔ ان سے ابو نے ہاسپیٹل کا سنگ بنیاد بھی ڈلوا لیا۔ ہاسپیٹل کا کام شروع ہوگیا۔ بس اسی وقت خالو نے ہمارے اوپر اسی زمین کو لے کر ایک کیس دائر کردیا۔ وہ زمین نانا کی تھی اور انہوں نے امی کو دیدی تھی مگر۔۔۔خالو اس میں بھی خالہ کا حصہ چاہتے تھے کیونکہ وہ نانا کی دوسری بیٹی تھیں۔ کورٹ میں ہئیرنگ شروع ہوئی تو خالو کے وکیل نے اسٹیئے آرڈر لے لیا۔ مطلب جب تک اس زمین کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔۔۔اس زمین پہ کسی بھی طرح کا کوئی تعمیری کام نہیں ہو سکتا تھا۔ ابو ایک دم بد دل ہوگئے۔


انڈیا میں زمین جائیداد کے کیس برسوں برسوں چلتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ مدعی اور مدعی علیہ مر بھی جاتے ہیں مگر کیس کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ ابو اس کیس کی وجہ سے بہت بددل ہوگئے تھے۔ ہم بھی بری طرح جھنجلائے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ کیس کا فیصلہ آنے تک ہم۔۔۔ ہاسپیٹل ایڈمنسٹریشن کا کوئی کورس کرلیتے ہیں جو کہ آگے چل کر ہمیں ہاسپیٹل چلانے میں مدد کریگی۔ جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق ہم کو دوسرے دن نیٹ میں ایک ایسے کورس کے بارے میں جانکاری ملی جو برمینگھم، لندن کے ایک یونیورسٹی میں دی جا رہی تھی۔ ہم نے اپنی درخواست دیدی۔ ہفتہ بھر بعد ہم کو جواب بھی مل گیا اور وہاں ایڈمیشن کا انٹی میشن بھی آگیا۔ ہم نے ابو کو بتایا اور ان کو راضی بھی کر لیا کہ صرف چھ ماہ کا کورس ہے، جب تک زمین کا کیس حل نہیں ہوتا ہے ہم یہ کورس کرکے واپس آجائیں گے۔


پھر ہم لندن چلے گئے کورس کرنے۔ وہاں ہمیں کئی ہندوستانی اور پاکستانی دوست مل گئے۔ ہمارا دل لگ گیا اور ہم نے وہاں خود کو پڑھائی اور انٹرنیٹ میں ضم کر دیا۔ موبائل فون بھی آگیا تھا اور ہم روز ابو سے بات کرلیتے تھے، گھر کے حالات اور زمین کے کیس کے بارے میں بھی باتیں ہوجاتی تھیں۔ زندگی۔۔۔ یونیورسٹی، دوست، فیس بک، واٹس آپ میں کھو کر گزر رہی تھی۔ فیس بک میں ہزاروں دوست بن گئے۔ انڈیا کے ہر بڑے شہر میں ہمارے دوست تھے جن سے روز چاٹنگ ہوتی تھی۔ فیس بک میں ہمیں ہمارے کالج کے کچھ کھوئے ہوئے دوست بھی مل گئے جن میں ظفر اور رخسانہ قابل ذکر ہیں۔ کچھ نئے دوست بھی ملے جو رفتہ رفتہ ہمارے گہرے دوست بن گئے۔


وقت پر لگا کر اڑتا گیا اور چھ ماہ یوں پورے ہوگئے جیسے چھ ہفتے ہوں۔ ہم نے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کے ایک دوست ندیم بھائی کے کہنے پر ہم دونوں نے وہاں ایک ویکینسی کے لئے اپلائے بھی کردیا۔ انٹرویو ہوئے تو ہم دونوں بھی منتخب ہو گئے۔ تنخواہ اچھی تھی اور رہنے کے لئے ہاسپیٹل کیمپس میں گھر بھی مل رہا تھا تو ہم نے ہامی بھر دی۔ ابو کو بتائے تو وہ ہماری ترقی سے بہت خوش ہوئے مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ اندر سے اداس بھی ہونگے کہ ہم چھ ماہ بعد حیدرآباد واپس نہیں آئے۔ مگر ہم نے ابو کو سمجھادیا کہ جب تک زمین کا فیصلہ نہیں ہوجاتا ہمارا وہاں جانا بھی بیکار ہے۔ تب تک ہم یہاں نوکری کرکے تجربہ حاصل کرلیتے ہیں جو بعد میں اپنا ہاسپیٹل چلانے کے کام آئے گا۔ ابو راضی ہوگئے۔


"لندن میں آپ کو کوئی لڑکی نہیں ملی بھائی جان جس سے شادی کرکے گھر بسانے کی سوچتے؟ کسی پردیسی پری کو ہی پکڑ لیتے"۔۔۔شیوانی مذاق کے موڈ میں بولی۔ اور فرہاد بھی اس کی بات پہ ہنس پڑے اور بولے۔۔۔
"دنیا میں اچھی لڑکیوں کی کمی نہیں ہے شیوانی۔ لندن میں بھی کئی ایک لڑکیوں نے کوشش کی ہمارے قریب آنے کی مگر ہم نے فاصلہ رکھا، صرف دوستی کی حد تک رہے۔ ندیم بھائی تو چاہتے تھے کہ ہم ان کی سالی سے شادی کرلیں، ہم نے ان کو نرمی کے ساتھ سمجھا دیا کہ ہم پچاس کے ہونے والے ہیں اور اس عمر میں شادی وادی کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ہم ان کو اصل بات بتانا نہیں چاہتے تھے۔ اور وہ بھی شاید سمجھ گئے کہ ہم کسی وجہ سے بہانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے بھی دوبارہ کبھی اس بارے میں بات نہیں کی"۔


" اچھا بھیا، یہ بتائیں کہ آپ لندن سے کیوں آئے ابھی اس کرونا پانڈیمک (Corona Pandemic)کے وقت جب کہ لوگ گھروں میں خود کو بند کرکے رکھے ہوئے ہیں"۔۔۔ شیوانی نے پوچھا۔ کھڑکی کے اس طرف نگار کی صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا۔ وہ فرہاد کی دکھ بھری کہانی سن کروہ بنا آواز رو رہی تھی اور اسے اپنی محبت پہ غرور ہو رہا تھا کہ۔۔۔ اس کا محبوب اس کا انتظار اب بھی کررہا ہے۔


فرہاد بولے۔۔۔ " کیا بتاؤں شیوانی۔۔۔ جب سے کرونا کی وبا پھیلی ہے تب سے ہی ابو نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے کہ جلدی گھر واپس آؤ۔ ہم ڈاکٹر ہیں اور ہمارے ہاسپیٹل میں بھی کرونا کے مریض آرہے تھے اور سب ڈاکٹروں کی چھٹی رد کردی گئی تھی۔ کوئی بھی ہاسپیٹل چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ ہم بھی ڈیوٹی کررہے تھے اور روز ابو سے بات کر رہے تھے، مگر ابو کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں تھے۔ بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ تم جلدی گھر واپس آجاؤ۔۔۔ ہم مرنے سے پہلے تم کو دیکھنا چاہتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تم ہمارے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکو بیٹا۔ کوشش کر کے جلدی گھر آجاؤ۔ تب ہم نے ان سے کہا کہ آپ کوشش کرکے کسی ہاسپیٹل سے اپنا سریس کنڈیشن کا میڈیکل رپورٹ مجھے ای میل کریں تو میں اس کو دکھا کر چھٹی کی درخواست دوں۔ شاید مجھے ایمرجینسی کیس کی وجہ انڈیا جانے کی اجازت مل جائے ورنہ مجھے کسی بھی حال میں چھٹی نہیں ملے گی۔ ابو نے دو دن میں ایسا ایک میڈیکل رپورٹ بھیجا اور۔۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم کو انڈیا آنے کی اجازت مل گئی اور پہلی فلائٹ سے ہم آگئے مگر۔۔۔ ہم کو پتہ نہیں تھا کہ کرونا کے مریضوں کی سیوا کرتے کرتے کب وائرس ہمارے اندر گھس چکا ہے۔ جب ہم فلائٹ میں سوار ہوئے تب ہم کو تھوڑا تھوڑا محسوس ہورہا تھا جیسے ہمیں بخار ہونے والا ہے، ایک دو چھینک بھی آئیں فلائٹ کے اندر۔ پھرانڈیا پہنچنے تک ہماری حالت بگڑنے لگی۔ فلائٹ میں بھی کئی کرونا کے مریض تھے۔ ہم سب کو ائیرپورٹ سے سیدھا ہاسپٹل پہنچا دیا گیا جہاں تم سے ملاقات ہوگئی۔ کرونا کا شکریہ۔۔۔ اگر وہ نہیں ہوتا تو ہم کو تمہاری جیسی پیاری بہن کہاں ملتی؟"۔
" جی بھیّا۔۔۔ کرونا کا تو بہت بہت شکریہ اد اکرنا پڑیگا۔ یہ نہیں ہوتا تو آپ کیسے ملتے؟"۔۔۔ شیوانی بھی بولی۔
ادھر کھڑکی کے دوسری طرف نگار بھی دل ہی دل میں کہہ رہی تھی۔۔۔ تھینک یو، کرونا۔۔۔!!


فرہاد نے کہا۔۔۔" اب تمہاری باری ہے شیوانی۔ لاؤ ، کہاں ہے میرا وہ زندگی بھر نہ بھولنے والا تحفہ جو تم مجھے دینے والی تھیں؟ جلدی دو، میں بہت بے چینی سے اس تحفے کا انتظار کررہا ہوں"۔


شیوانی تو اسی وقت کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے کہا کہ۔۔۔ میں آپ کا تحفہ لے کر آتی ہوں لیکن آپ کو ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ جب تک میں نے کہوں آپ اپنی آنکھ نہیں کھولیں گے، پرومیز؟"


فرہادنے وعدہ کیا تو وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی اور فرہاد سوچنے لگے کہ آج بھی انسانیت زندہ ہے۔ میں مسلم ہوں اور شیوانی ہندو مگر پھر بھی وہ میرے لئے اتنا سب کچھ کر رہی ہے۔ آج کل ملک کے جو حالات ہیں ایسے میں کسی انجان کو اپنے گھر میں پناہ دینا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ انہوں نے سوچ لیا کہ۔۔۔ اگر تقدیر نے ساتھ دیا اور حیدرآباد میں ان کی امی کے نام کا ہاسپیٹل بنا تو وہ شیوانی کو ہاسپیٹل میں اتنا بڑا پوسٹ دیں گے کہ وہ حیران رہ جائے گی، انکار نہیں کرسکے گی۔شاید اس طرح اسکے احسان کا بوجھ کچھ کم ہوجائے۔


شیوانی باہر جاکے نگار کے پاس دوڑ ی اور اس سے لپٹ گئی۔ "چلو چلو۔۔۔ جلدی کرو۔ آئی ملن کے بیلا۔ تمہارے فرہاد تمہارا انتظار کررہے ہیں نگار۔ نگار کی آنکھوں سے۔۔۔ ساون بھادو جاری تھے۔ وہ اپنے آنسوؤں کو روکنا چاہتی تھی مگروہ۔۔۔ رکتے نہیں تھے۔ آنسوؤں کا بھی عجیب حال ہے۔۔۔ خوشی ہو یا غم۔۔۔ نکل ہی پڑتے ہیں۔ پھر شیوانی اس کو واس روم لے کر گئی کہ جلدی سے اپنے منھ دھو لو۔ ایسی رونی صورت بنا کے جاؤگی کیا اپنے فرہاد کے سامنے"۔


نگار تیار ہوگئی تو شیوانی نے اسے برقعہ پہنا دیا اور لے کر فرہاد کے کمرے کے دروازے تک آئی اور وہاں رک کر بولی۔۔۔"فرہاد بھائی، اپنی آنکھیں بند کیجئے۔۔۔ نو چیٹینگ پلیز"۔ فرہاد نے کہا۔۔۔ " او کے بابا، اب آ بھی جاؤ، کتنا ستا رہی ہو۔ شیوانی نگار کو پکڑ کے کمرے کے اندر لے آئی۔ ٹھیک فرہاد کے روبرو۔۔۔ کچھ دور کھڑا کردیا۔ نگار کے پاؤں کانپ رہے تھے۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ پتہ نہیں کیا ہوگا؟ شیوانی نے کہا۔۔۔ فرہاد بھائی ، اب اپنی آنکھیں کھولئے۔ فرہاد نے جھٹ سے آنکھ کھول دیا اور سامنے ایک برقع والی کو دیکھ کر چونک گئے۔
شیوانی کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ یہ کیا ہے؟ کون ہے؟؟


شیوانی نے جوش میں تھرتھراتے ہوئے کہا۔۔۔" فرہاد بھائی، یہ ہے آپ کی زندگی کا سب سے بڑا تحفہ میری طرف سے، قبول کیجئے۔ اس سے پہلے کہ فرہاد کچھ کہتے، شیوانی نے نگار کے چہرے سے برقع ہٹا دیا۔ جیسے کالی کالی گھٹاؤں کی اوٹ سے عید کا چاند نظر آجائے تو انسان خوشی سے جھوم اٹھتا ہے ویسے ہی فرہاد مارے خوشی کے۔۔۔ اپنی جگہ سے ہڑبڑا کے کھڑے ہو گئے۔
نگارؔ کو اپنے سامنے دیکھ کر ان کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ کچھ بولنے کے قابل نہیں رہے۔ فرہاد نگار کو اور۔۔۔ نگار فرہاد کو دیکھے جا رہے تھی۔ نگار کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور۔۔۔ فرہاد کا تو حال ہی بےحال تھا۔ وہ چند لمحے۔۔۔دونوں کی زندگی کے انمول لمحے تھے جب خاموشی بول رہی تھی اور وہ دونوں چپ تھے۔ پھر فرہاد کے منھ سے چیخ کی آواز آئی۔۔۔"نگار" اور وہ دوڑ کر بےخودی میں اس سے لپٹ گئے۔ نگار بھی اپنے آپ کو روک نہیں پائی اور ان کی بانہوں میں ٹوٹ کر بکھر گئی۔ وہ روتے جارہی تھی اور کہتی جارہی تھی۔۔۔
کہاں چلے گئے فرہاد؟ کہاں چلے گئے تھے مجھے چھوڑ کر؟ میرا کیا قصور تھا فرہاد جو بیس سال کا بن باس دیکر چلے گئے؟ کبھی یہ نہیں سوچا کہ دیکھوں نگار زندہ بھی ہے یا نہیں؟ روتے جارہی تھی اور بولتی جارہی تھی اور فرہاد بس آنکھیں بند کئے ہوئے اس کو اپنے اندر جذب کررہے تھے۔ شیوانی دور کھڑی مسکراتی ہوئی۔۔۔ دو پیار کرنے والوں کو۔۔۔ برسوں بعد ایک دوسرے پہ نثار ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ وہ چپکے سے کمرے سے باہر چلی گئی۔


کچھ دیر بعد۔۔۔ نگار اور فرہاد کو ہوش آیا کہ یہاں ان کے علاوہ شیوانی بھی ہے تو دونوں جھٹ سے ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور شیوانی کی طرف دیکھا تو وہ کمرے میں موجود نہیں تھی۔ وہ دونوں سمجھ گئے کہ وہ دونوں کو ملا کر باہر چلی گئی ہے۔ دونوں کا دل اس لڑکی کے لئے اظہارِ تشکر سے بھر گیا۔ فرہاد نے گلاس میں پانی لاکر نگار کو پینے کے لئے دیا تاکہ وہ۔۔۔ نارمل ہو سکے۔


" بھیا بھابی۔۔۔ کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟"۔۔۔ باہر سے شیوانی کی آواز آئی۔ دونوں شرما کے ہنس پڑے اور شیوانی ہاتھوں میں ناشتے کا پلیٹ پکڑے اندر آئی۔ اس کے ساتھ اس کی بھابی بھی مسکراتی ہوئی اندر آئیں۔ فرہاد نے انھیں نمستے کہا اور جلدی سے نگار کے پاس سے اٹھ کر دوسرے چیئر کو چلے گئے تاکہ بھابی اور شیوانی۔۔۔ نگار کے ساتھ بیٹھ سکیں۔


" نو فرمالیٹیز پلیز۔۔۔ فرہاد بھائی۔ یہ آپ کا ہی گھر ہے، اور یہ آپ کی ہی نگار ہے شرمانے کی کوئی ضرورت نہیں" شیوانی کی بھابی نے مزاقاً کہا تو سب کھلکھلا کے ہنس پڑے اور نگار۔۔۔ شرما کے رہ گئی۔ اللہ نے اچانک بے انتہا خوشی بخش دی تھی ، وہ جتنا بھی شکر ادا کرتی وہ کم تھا۔ اس نے شیوانی کی طرف بڑے پیار سے دیکھا تو اس نے آنکھ مارتے ہوئے معنی خیز اشارہ کیا۔


سب نے مل کر ناشتہ کیا، چائے بھی آگئی۔ چائے پینے کے بعد شیوانی یہ کہہ کر اپنی بھابی کے ساتھ چلی گئی کہ آپ دونوں بیس سال بعد ملے ہو۔۔۔ ڈھیر ساری باتیں کرو۔ تب تک میں ذرا پاس کے دکان سے کچھ گروسری اور سبزی لے آؤں، پھر دھمال مچائیں گے۔ وہ دونوں کو۔۔۔ زیادہ سے زیادہ ٹائم دے رہی تھی تاکہ تمام شکوے گلے دور ہو سکیں اور دونوں ایک دوسرے سے اپنے من کی بات کر سکیں۔


"دیکھو نگار۔۔۔ میں تم سے معافی مانگنے کے قابل تو نہیں مگر۔۔۔ میری پوری بات سنو گی تو شاید تم مجھے معاف کردوگی کہ میں کیوں اور کہاں غائب ہو گیا تھا۔۔۔ کیوں تمہاری خبر نہیں لی؟"
۔۔۔ فرہاد نے خاموشی کو توڑا۔


" کچھ نہ کہیں۔۔۔میں نے سب سن لیا ہے جو کچھ آپ شیوانی کو بتا رہے تھے۔ آپ کی جگہ میں بھی ہوتی تو شاید میں بھی وہی کرتی۔ جب سے آپ ہاسپیٹل آئے ہیں، تب سے میں ہی آپ کو اٹینڈ کررہی تھی، کبھی سوچی بھی نہیں تھی کہ کسی دن آپ میرے سامنے یوں مریض بن کر بیڈ پر پڑے ہونگے۔ آپ نہیں جانتے آپ کو اس حال میں دیکھ کر میرا کیا حال ہوا تھا۔ اگر شیوانی نہیں ہوتی تو پتہ نہیں میرا کیا ہوتا؟ میں خود کو سنبھال نہیں پاتی۔ شیوانی کو بھی ہمارے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ آپ کے لئے بہتے ہوئے میرے آنسوؤں نے سارے بھید کھول دئے اور مجھے اس کو ہمارے بارے میں سب کچھ بتانا پڑا۔ پھر اس نے ہمارا کیس اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بہت پیاری سہیلی ہے میری، اگر بہن کہوں تو بیجا نہ ہوگا"۔ نگار نے کہا۔


فرہاد نے کہا۔۔۔" بیشک، آج کے اس دور میں شیوانی جیسی مخلص اور بے غرض دوست ملنا محال ہے۔ ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے شیوانی کو ذریعہ بنا کر ہم دونوں کو ملایا۔ میں یہاں شیوانی کو جو بتا رہا تھا وہ تم نے سب سن لیا ہے تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن۔۔۔ کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو میں نے شیوانی کو نہیں بتایا ہے۔ لیکن تم کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بعد میں تم کو پتہ چلے تو ہمارے بیچ کوئی بدگمانی نہ ہو"۔


"میں بھی آپ سے کچھ بہت ضروری باتیں کرنا چاہتی ہوں جو کہ شیوانی نے آپ کو نہیں بتایا ہے، جو میری زندگی کا ایک انمٹ سچائی ہے جس کو چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔ اگرآپ کو نہیں بتاؤنگی تو میرا ضمیر مجھے ہمیشہ ملامت کرتا رہے گا"۔۔۔ نگار بولی۔


"ایسی کیا بات ہے جو نہیں بتائیں گی تو آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کریگا؟ ذرا میں بھی تو سنوں"۔


"میں اب شادی شدہ نہیں ہوں فرہاد۔۔۔میری طلاق ہو چکی ہے"۔۔۔ جیسے ہی نگار کے منھ سے یہ جملہ نکلا فرہاد۔۔۔
"کیا" کہہ کے کرسی سے کھڑے ہو گئے۔کب، کیوں، کیسے ہو گئی طلاق؟ فرہاد جذبات کی رو میں کانپ رہے تھے۔


"خدا کے لئے آپ ذرا میری بات کو دھیان سے سنیں۔ میری شادی ہوئی تھی والدین کے پسند سے۔ میری طلاق بھی ہوئی ہے والدین کی مرضی سے۔ میں صرف سات دن کی سہاگن بنی تھی فرہاد۔۔۔ اب سنگل ہوں"۔ نگار نے فرہاد کے ہاتھ کو پکڑ کر کہا اور ان کو اپنے پاس کرسی میں بٹھایا۔ فرہاد کے جان میں جان آئی۔ وہ نگارکو بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ وہ سوچ رہے تھے یہ مجھے کیا ہوگیا ہے، پوری بات ٹھیک سے نہیں سنا اورغصے میں بول پڑا۔ مجھے تسلی سے نگار کی ساری باتیں سننی چاہئے پھر اپنا خیال ظاہر کرنا چاہیے۔


پھر نگار نے فرہاد کو۔۔۔ اپنی کہانی پوری تفصیل سے سنائی کہ کیسے ان کے جانے کے بعد وہ ان کا انتظار کرتی ہی رہ گئی۔ چار سال بہت ہوتے ہیں اپنے گھروالوں کو ٹالنے کے لئے۔ پھر کیسے مجبوری میں اس کو سرفراز سے شادی کرنی پڑی اور کیسے سرفراز نے اس کے ساتھ سلوک کیا اور کیوں اس کی طلاق ہوئی۔ پھر کیسے وہ اپنے ماموں کے یہاں کیرالہ چلی گئی اور وہاں تقریباً چھ سال تک جاب کرتی رہی اور پھر ابا کے انتقال کے بعد واپس دہلی آئی تاکہ امی کو سنبھال سکے۔ اور پھر اس نے صفدرجنگ ہاسپیٹل جوائن کر لیا۔


فرہاد اس کے زندگی کی یہ درد ناک کہانی سن کر بہت اداس ہو گئے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ نگار جیسی نفیس اور مخلص لڑکی کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ اللہ کی کیا مصلحت تھی کہ نگار کی شادی سرفراز جیسے انسان سے ہی ہوئی؟ دنیا میں اچھے لڑکوں کی کمی تھی کیا؟ یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا ہے، اگر میں نگار کی خبرگیری کرتا رہتا تو یہ سب نہیں ہوتا۔
" کیا ہوگیا؟ آپ یکدم چپ کیوں ہوگئے؟ " نگار نے پوچھا تو فرہاد ہوش میں آئے۔


"جب میں نیٹ سے تمہارے ہاسپیٹل کا نمبر ڈھونڈ کر فون کیا اور تمہارے بارے میں پوچھا توتب مجھے پتا چلا تھا کہ تمہاری شادی ہوگئی ہے اور تم نوکری چھوڑ چکی ہو۔ تب میں بالکل تنہا ہوگیا تھا۔ میں خوش بھی تھا اور۔۔۔ اداس بھی۔ دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کبھی شادی کے بارے میں سوچنا ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد جو جو ہوا تم نے کھڑکی کے اس پار سے سن لیا ہے اور کیا بتاؤں مگر۔۔۔ میری زندگی میں بھی ایک عجیب موڑ آگیا ہے اور میں عجیب کشمکش میں ہوں کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہے کیا؟"


نگار ان کی بات سن کر پریشان ہوگئی اور جلدی سے بولی۔۔۔ ایسی کیا بات ہے جو آپ شیوانی کو نہیں بتائے اور کشمکش میں ہیں؟ اس سے پہلے کہ شیوانی آجائے آپ جلدی سے مجھے بتا دیں۔ اگر کوئی پریشانی ہے تو ہم دونوں مل کر اس کا حل ڈھونڈ لیں گے۔ انشاء اللہ۔


فرہاد اپنی کرسی سے اٹھ کر نگار کے پاس آئے اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولے۔۔۔
"وعدہ کرو کہ میری بات سننے کے بعد غصہ نہیں کروگی۔۔۔ مجھ سے ناراض نہیں ہوگی بلکہ مجھے سمجھنے کی کوشش کروگی"۔
نگار ان کی بات سے اندر ہی اندر ڈر گئی مگر اوپر سے مسکراکے بولی۔۔۔
" آپ جان بوجھ کر سسپنس پیدا کر رہے ہیں، بتانا ہے تو بتائیں ورنہ میں چلی بھابی کے پاس کچن میں"۔
وہ اٹھنے لگی تو فرہاد نے اس کی بانہیں پکڑ کر دوبارہ کرسی پہ بیٹھا دیا اور بولے۔۔۔
" میں جب برمینگھم میں کورس کر رہا تھا توکلاس کے بعد وقت گزارنے کے لئے فیس بک اور واٹس آپ پہ اکثر مصروف رہتا تھا۔فیس بک میں میرے بہت سارے دوست بنے اور ہاں۔۔۔ ہمارے کلاس فیلو ظفر اور رخسانہ بھی مجھے فیس بک میں مل گئے۔ ان سے بھی چاٹنگ ہوجاتی تھی۔ ان کو بھی تمہارے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ میرے دوستوں میں انڈیا کے ہر جگہ کے دوست تھے۔ جن میں سے دس بارہ لوگ بہت خاص دوست بن گئے تھے اور ان سے میری روز باتیں ہوتی تھیں جیسے منور پیرزادہ ، بھوپال سے، ارشاد علی قادری، بھدرک ، شاکر خان، ممبئی ، بشریٰ ناز، بردھاوان، نگینہ آرا، بھدرک، روما آفرین، بنگلور، بھٹو قادری، بھدرک، شیخ ریحان قادری، بھدرک، وسیم خان، حیدرآباد، فرحان قادری، کلٹی، الماس پٹھان، کلکتہ، شیخ معراج قادری، کلکتہ، اور صوفیہ خان، بھدرک سے۔ ان دوستوں سے میری چاٹ ہوتی تھی۔ تم سے جدائی کا غم۔۔۔ اور اپنی تنہائی کو میرے ان دوستوں نے۔۔۔ بہت حد تک دور کر دیا تھا۔ میرے سکھ میں خوش اور دکھ میں غمگین ہوجاتے تھے اور مجھے ڈھارس بندھاتے تھے، نیک مشورہ دیتے تھے۔ میری زندگی۔۔۔ دوستوں کے سہارے گزر رہی تھی کہ ایک دن ایک حادثہ ہوگیا۔


نگار تڑپ اٹھی۔۔۔"آپ کے ساتھ حادثہ ہوگیا تھا؟ کیا ہوا تھا؟ کہیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی تھی؟"


"ارے نہیں یار۔۔۔ وہ حادثہ نہیں۔ ایک عجیب حادثہ ہوا جو مجھے کشمکش میں ڈال گیا۔ ایک دن ہم چاٹنگ کررہے تھے کہ اچانک الماس نے مجھے پرپوز کر دیا۔ میں ہڑبڑا گیا کہ یہ کیا کہہ رہی ہیں الماس۔ صرف چھ ماہ کی فیس بک کی دوستی میں کیسے انہوں نے مجھے بنا دیکھے ہی پیار کرلیا میری سمجھ سے باہر تھا۔ وہ کوئی کم سن لڑکی نہیں تھیں کہ عمر کی نادانی سمجھا جائے۔ وہ ایک کالج میں لیکچرار تھیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ بہت ہی اچھی سوچ کی مالک تھیں اور ہمیشہ مجھے عمدہ مشورہ دیتی تھیں۔ ان کے پرپوزل کو میں ہنس کے ٹال گیا"۔


"پھر کیا ہوا؟ جلدی بتائیں؟"۔۔۔ نگار بہت بے چین ہو گئی تھی۔


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:9

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں