ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-14

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 10

novel-thankyou-corona-episode-10

پچھلی قسط کا خلاصہ:
پھر فرہاد نے اپنی زندگی کے باقی واقعات بتائے کہ کس طرح ان کی ماں کی وفات ہوئی اور کس طرح زمین کے ایک تنازعہ سے بددل ہو کر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے اور پھر بعد از تعلیم وہیں ملازمت سے بھی وابستہ ہو گئے۔ شیوانی نے بالآخر نگار کو فرہاد سے ملا دیا۔ فرہاد کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ مگر انہوں نے پشیمانی کے تحت اپنی ایک فیس بک دوست الماس کی کہانی سے نگار کو آگاہ کیا۔۔ اب آپ دسویں اور آخری قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 10 (آخری) »

"پھر میں نے ان کو سمجھایا کہ دیکھئے میں ایک آوارہ بادل کی طرح ہوں جسے تقدیر۔۔۔ جگہ جگہ اڑائے پھر رہی ہے۔ کبھی یہاں تو کبھی وہاں۔ میں گھٹا کی طرح چھا تو سکتا ہوں مگر کسی زمین پہ برس نہیں سکتا۔ میری زندگی ایک عجیب معمہ ہے جو کبھی سلجھ نہیں سکتی۔ آپ میری زندگی کی کہانی سنیں گی تو۔۔۔ پیار تو دور، دوستی بھی نہیں کریں گی شاید۔ پھر میں نے الماس کو۔۔۔ ہمارے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ میں اب بھی نگار کے لئے جی رہا ہوں۔ زندگی کے کس موڑ پہ نہ جانے کہاں ان کو میری ضرورت پڑ جائے اور وہ آواز دیں تو میں ساتھ دے نہ سکوں۔ اس لئے میں نے اب تک شادی نہیں کی۔ تقریباً بیس سال ہونے والے ہیں نگار سے جدا ہوئے، اب بھی ہم ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے"۔


الماس نے ہماری کہانی سننے کے بعد کہا۔۔۔
"میں یہ نہیں کہتی کہ آپ نگار کو بھول جائیں کیونکہ اپنی پہلی محبت کو بھولنا ممکن نہیں مگر ایک بات بتائیں۔۔۔ وہ شادی کر چکی ہیں، کسی اور کی بیوی ہیں۔ کیا یہ اخلاقی گناہ نہیں ہے کہ آپ دوسرے کی بیوی سے محبت کر رہے ہیں اور اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ خدا نہ کرے ان کی طلاق ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائیں تو۔۔۔ آپ ان کو سہارا دیں؟؟؟"


"میرے پاس الماس کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ صحیح کہہ رہتی تھیں، مجھے پتہ چلا تھا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے پھر بھی میں تمہارے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ان کی بات دل کو لگی کہ شاید میں غلط کر رہا ہوں۔۔۔ یہ کیسی محبت ہے کہ میں تمہاری زندگی میں کسی انہونی کا انتظار کر رہا ہوں کہ تم مجھے مدد کے لئے پکاروگی تو میں۔۔۔ سہارا دینے آجاؤنگا"۔ فرہاد بولے اور نگار سے نظریں چرانے لگے۔


"رک کیوں گئے فرہاد۔۔۔ بولتے رہیں۔ بیچ میں رکیں نہیں۔ ہمارے پاس وقت کی کمی ہے۔ شیوانی کسی بھی وقت آ سکتی ہے اور لنچ کے بعد مجھے گھر بھی جانا ہے"۔۔۔ نگار بے چینی سے بولی۔


فرہاد آگے بتانے لگے۔۔۔
" اس کے بعد الماس نے پھر کبھی ہم سے اپنے پرپوزل کے بارے میں بات نہیں کی اور نہ ہم سے کوئی جواب مانگا۔ ہم دونوں روز گھنٹوں بات کرتے تھے۔ میں نے ان کا فوٹو ان کے پروفائل میں دیکھا تھا مگر انہوں نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ کبھی انہوں نے میرا فوٹو مانگا۔ بڑی عجیب بات تھی کہ ایک لڑکی مجھ سے بنا دیکھے ہی محبت کرنے لگی تھی اور دیکھنے کی ضد بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں اور اکثر کہتی تھیں کہ لندن کا موسم کافی ٹھنڈا ہے آپ زیادہ دیر باہر گھوما نہ کریں۔ یہ کھائیں وہ کھائیں، اپنی صحت کا خیال رکھیں، اپنے ابو کو روز نہ سہی دو تین دن میں ایک بار فون ضرور کرلیا کریں وہ بھی اکیلے ہیں ان کو اچھا لگے گا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ گویا کہ ان کی ہر بات سے ان کی محبت صاف صاف جھلکتی تھی مگر ہم جان کر بھی انجان بنے رہتے تھے۔ ہم دونوں بہت اچھے دوست تھے اور ہمیشہ رہنا چاہتے تھے۔ الماس نے بھی کہہ دیا تھا کہ۔۔۔ مجھے آپ کی ہاں اور ناں کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ بھی مجھ سے پیار کرتے ہیں مگر کسی وجہ سے اقرار نہیں کررہے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ آپ کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے مگر جب بھی آپ کو لگے کہ میری ضرورت ہے تو بے دھڑک مجھے آواز دے لیں، میں اس دن کا انتظار کرونگی"۔


"میں نے الماس کو بہت سمجھایا کہ کیوں اس راستے پر چل رہی ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ آپ کے پیر لہولہان ہو جائیں گے اور یہ محبت کا درد آپ کو جینے نہیں دے گا مگر انہوں نے مجھے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ۔۔۔ اگر آپ مجھ سے بات کرنا نہیں چاہتے تو مجھے ان فرینڈ کردیں۔۔۔ مسینجرمیں بلاک کر دیں مگر مجھے یہ نہ کہیں کہ میں آپ کو بھول جاؤں۔ یہ میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ جب آپ بیس سال سے نگار کو نہیں بھول سکے تو مجھ سے کیسے یہ امید رکھتے ہیں کہ میں آپ کو بھول جاؤنگی؟"


وہ مجھے اپنی باتوں سے ہمیشہ لاجواب کر دیتی تھیں۔ دن گزرتے گئے اور ہم دونوں۔۔۔ روز گھنٹوں باتیں کرتے گئے۔ میں ان سے بے جھجک اپنی پریشانی بتا دیتا تھا اور وہ واقعی بہت اچھا مشورہ دیتی تھیں جو میرے کام آتا تھا۔ دھیرے دھیرے مجھے بھی احساس ہونے لگا کہ میں روز ان سے باتیں کرنے کے لئے۔۔۔ ان کا انتظار کرتا ہوں۔ ایک بار دو دن تک وہ فیس بک سے غائب رہیں تو مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ جب وہ تیسرے دن آئیں تو میں بنا سوچے سمجھے ان پہ غصہ کرنے لگا کہ آپ بول کے نہیں جا سکتی تھیں کہ دو دن نہیں آئیں گی۔ پتہ ہے میں نے کتنا انتظار کیا؟ طرح طرح کے برے خیالات دل میں آ رہے تھے؟ کیوں نہیں آئیں آپ؟؟؟ تب الماس نے پوچھا۔۔۔
"آپ کیوں میرے لئے اتنے پریشان تھے؟ کیوں میرا انتظار کررہے تھے؟ آپ کے کئی اور دوست ہیں ان سے بات کرتے ، مجھ سے بات نہیں ہوئی تو کیا ہوا؟"
میں کیا جواب دیتا؟ مجھے لگا میری چوری پکڑی گئی ہے ، اس دن مجھے بھی احساس ہوا کہ میں بھی الماس سے پیار کرنے لگا ہوں۔ ان کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا ہوں۔ ان سے بات نہیں ہوتی تو پریشان رہنے لگا ہوں۔


"سچ کہتا ہوں نگار۔۔۔ وہ کب چپکے سے میرے دل میں آ کے بیٹھ گئیں مجھے احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ مجھ سے بارہ سال چھوٹی تھیں اور شاید ان کے گھر والے ہمارے رشتے کے لئے کبھی راضی نہیں ہوں گے یہ سب جانتے ہوئے بھی میں روز ان سے گھنٹوں باتیں کرتا تھا اور جب تک وہ خدا حافظ کہہ کر نہیں جاتی تھیں میں جاگتا رہتا تھا"


"آپ نے ان کو یہ بات نہیں بتایا کہ۔۔۔آپ کے خاندان میں باہر کا خون قبول نہیں۔ شادی آپس میں ہوتی ہے۔"۔۔۔ نگار نے فرہاد سے سوال کیا۔


"بالکل بتایا اور سب سے پہلے کہا۔ یہ بات میں کیسے ان سے چھپا سکتا تھا جس نے تم کو مجھ سے دور کر دیا تھا۔ جس رواج نے میری زندگی برباد کردی وہ میں الماس سے کیسے چھپاتا؟ میں نے جب ان سے کہا کہ آپ کو پتا ہے اس دقیانوسی رسم و رواج کے چلتے ہم نگار سے شادی نہیں کر پائے تو آپ کس امید پہ ہم سے محبت کرنے لگی ہیں؟ تب الماس نے ہمیں جواب دیا کہ۔۔۔
"میں نے آپ سے کسی امید پہ محبت نہیں کی ہے۔ سوچ سمجھ کر کرنے والی محبت۔۔۔ محبت نہیں ہوتی فرہاد۔ مجھے خود نہیں پتہ کہ میں کیوں سب کچھ جان کے بھی آپ سے محبت کرنے لگی ہوں۔ شاید آپ کی سچائی، ایمانداری اور اخلاق سے متاثر ہو کر میرا دل آپ سے محبت کرنے لگا ہے۔ چلنے دیجئے جب تک چلتا ہے۔میں آپ سے کبھی نہیں کہونگی کہ مجھ سے شادی کیجئے۔ میں انتظار کرونگی آپ کا۔۔۔زندگی کی آخری سانس تک۔ پلیز آپ مجھے زیادہ نہ سمجھائیں میں کوئی ناسمجھ بچی نہیں ہوں۔ اپنا بھلا برا میں خوب سمجھتی ہوں"۔


اب تم ہی بتاؤ نگار۔۔۔ ایسی لڑکی کو میں کیا سمجھاتا؟ وہ سارے حالات کو سمجھتے ہوئے بھی میرا انتظار کرنے کو کہہ رہی تھیں تو پھر میں نے اس دن کے بعد ان کو سمجھانا ہی چھوڑ دیا۔ جو ہو رہا ہے ہونے دو۔۔۔ جب تک چل رہا ہے چلنے دو۔ آگے اللہ کی مرضی!


" پھر کیا ہوا؟ آگے بولئے ، رک کیوں گئے؟"۔۔۔ نگار کی آواز اب بھیگنے لگی تھی۔


"پھر کیا ہوگا؟ کچھ نہیں ہوا ہے۔ میری اور الماس کی کہانی یہیں تک پہنچی ہے۔ پھر اچانک کہیں سے 'کرونا' آ گیا اور میں جنوری سے اب تک۔۔۔ ان سے رابطہ نہیں کر پایا ہوں۔ ہاسپیٹل میں کرونا کے مریضوں سے فرصت کہاں جو میں کسی سے چاٹنگ کروں ؟ چار مہینے ہوگئے۔۔۔ پتہ نہیں الماس کس حال میں ہونگی۔۔۔ میرے بارے میں کیا کیا سوچ رہی ہونگی؟؟؟"


"یعنی کہ الماس کے ساتھ بھی وہی میرے والا قصہ دہرایا ہے آپ نے یا پھر یوں کہیں قسمت نے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ میری زندگی سے بھی آپ۔۔۔اسی طرح اچانک غائب ہو گئے تھے۔ اس کے بعد میں کتنا تڑپی تھی۔۔۔ کتنا پریشان رہی تھی یہ میں جانتی ہوں۔۔۔یا میرا خدا جانتا ہے۔ میں الماس کا درد آپ سے بہتر سمجھ سکتی ہوں۔ وہ بیچاری ہر دن فیس بک کھولے آپ کا انتظار کرتی ہوگی۔ اور ہر دن مایوس ہوکر۔۔۔ پل پل مرتی ہوگی۔ ہر نئے دن کے ساتھ۔۔۔ ایک نئی امید سے وہ آن لائن آتی ہوگی کہ آج شاید آپ سے ملاقات ہوجائے مگر۔۔۔دن ختم ہو جاتا ہوگا اس کا انتظار نہیں"۔
نگار کی آواز میں ایک عجیب سا درد تھا جس نے فرہاد کو اندر تک ہلا دیا۔


فرہاد نے سوچا تھا کہ الماس کے بارے میں سن کر نگار شاید ناراض ہوجائے گی مگر۔۔۔نگار نے الماس کی محبت کو سمجھا اور اس کے درد کو محسوس کیا۔ اب اس سے ہمدردی بھی ظاہر کر رہی ہے کیونکہ وہ خود ایسے حالات سے گزر چکی ہے۔ سچ ہے کہ۔۔۔ آدمی پہ جب تک خود نہیں بیتی وہ تب تک دوسروں کے درد کو محسوس نہیں کرسکتا۔


اچانک نگار نے فرہاد سے کہا۔۔۔ "ذرا دکھائیں تو کیسی ہے آپ کی الماس؟ ضرور مجھ سے زیادہ خوبصورت ہوگی کیونکہ مجھ سے کم عمر ہے"۔ فرہاد نے بلا چوں و چرا۔۔۔ اپنا موبائل نگار کو دے دیا کہ گیلری میں الماس کے کئی فوٹوز ہیں دیکھ لو۔


واقعی الماس بے حد خوبصورت اور دلنشین تھی۔ نگار اس کی فوٹو دیکھ کر سوچ رہی تھی اتنی حسین لڑکی کا دل آیا بھی تو میرے فرہاد پہ وہ بھی بنا دیکھے۔ کیا کلکتہ جیسے شہر میں ہینڈسم اور اسمارٹ لڑکوں کی کمی ہے جو الماس کو کوئی اور پسند نہیں آیا۔ پھر یہ سوچ کر فخر محسوس کرنے لگی کہ اس کا فرہاد ہے ہی لاکھوں میں ایک تبھی تو بنا دیکھے بھی اتنی حسین لڑکی اس کی دیوانی ہوگئی ہے۔


فرہاد انتظار کررہے تھے کہ فوٹو دیکھ کر نگار کچھ بولے گی مگر وہ بس فوٹو کو دیکھے جارہی تھی تو مجبوراً فرہاد کو بولنا پڑا۔۔۔" کیاہوا بھئی! تم تو فوٹو دیکھ کر کہیں کھو گئی ہو۔ کچھ تو بولو۔۔۔ اچھی ہے ، بری ہے، موٹی ہے پتلی ہے۔۔۔کیسی ہے؟"


"سوچ رہی ہوں۔۔۔ آپ دونوں کی جوڑی بہت جمے گی۔ الماس سچ میں بہت خوبصورت ہے اورناک نقشہ بھی کسی ہیروئن سے کم نہیں ہے۔ میں خواہ مخواہ۔۔۔ آپ دونوں کی زندگی میں آگئی"۔ نگار بولی۔


"چپ کرو نگار۔۔۔ ہماری زندگی میں کچھ بھی کبھی خوامخواہ نہیں ہوتا ہے۔ ہماری قسمت میں لکھا تھا کہ ہم ایسے ہی ملیں گے تو ملے۔ اور رہی بات الماس کی تو۔۔۔وہ تعلیم یافتہ ہیں، لیکچرار ہیں اور بے انتہا خوبصورت بھی۔۔۔ ان کو مجھ سے بھی بہتر جیون ساتھی مل جائے گا۔ آئیندہ یہ بات کبھی نہیں کہنا کہ تم ہم دونوں کی بیچ آگئی ہو"۔ فرہاد ناراض ہوکر بولے۔


نگار ہنس پڑی اور بولی۔۔۔ ارے بابا، میں تو مذاق میں آپ کو چڑھا رہی تھی۔ ویسے آپ ہیں ہی ایسے کہ پتہ نہیں کتنی لڑکیوں کے سپنے میں آتے ہونگے۔ وہ تو الماس نے اظہارِ محبت کر دیا تو پتہ چلا ورنہ کئی ایسی ہونگی جو آپ کو دل ہی دل میں۔۔۔چپکے چپکے چاہتی ہونگی۔


"کون کس کو چپکے چپکے چاہتی ہے؟"۔۔۔ شیوانی اچانک آگئی تھی اور اس نے نگار کا آخری جملہ سن لیا تھا۔ نگار نے فرہاد کو اشارہ کر دیا کہ شیوانی کو الماس کے بارے میں نہیں بتانا ہے اور خود جواب میں بول پڑی کہ۔۔۔میں فرہاد سے کہہ رہی تھی کہ لندن میں پتہ نہیں کتنی لڑکیاں ان کو چپکے چپکے چاہتی ہونگی۔


شیوانی نے بھی نگار کی تائید کی اور بولی۔۔۔
"ہاں میرے فرہاد بھائی لاکھوں میں ایک ہیں، ایک دم سلمان کی طرح تو وہاں کی لڑکیاں تو لٹو ہوگئی ہونگی۔ مگر ان کا کاپی رائٹ تو تمہارے نام تھا اس لئے بچ بچاکے آگئے تمہارے پاس، اب سنبھالو کہیں پھر سے۔۔۔ غائب نہ ہوجائیں"۔


پھر سب لنچ کے لئے ڈائننگ ہال کی سمت بڑھ گئے۔ کھانے کے دوران۔۔۔ کرونا اور لاک ڈاؤن کی باتیں ہوتی رہیں اور شیوانی نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ جب تک فلائٹ یا ٹرین نہیں چلتی ہے، فرہاد بھائی ہمارے یہاں رہیں گے۔


فرہاد بھی مجبور تھے، کر بھی کیا سکتے تھے۔ پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ کچھ ریاستی حکومتیں کوشش کر رہی تھیں کہ ان کے جو لوگ الگ الگ ریاستوں میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو وہاں سے بذریعہ بس، ٹرین یا فلائٹ واپس اپنے اسٹیٹ بلا لیا جائے۔ بس لاک ڈاؤن میں ڈھیل کا انتظار تھا۔ سرکار لوگوں کو بھیڑ بھاڑ میں جانے سے روک رہی تھی کیونکہ۔۔۔ اگرکسی ایک کو کرونا ہوا تو وہ۔۔۔بھیڑ میں شامل ہزاروں کو وہ جراثیم لگا دیگا۔ پھر ان میں سے ایک ایک۔۔۔ پتہ نہیں اور کتنوں کو انفیکٹ کر دیں گے۔ اس طرح انفیکشن بڑھتا جائے گا اور اس وبا کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ سرکار اس وبا کو community spread ہونے سے بچانا چاہتی ہے اس لئے ہر جگہ لاک ڈاؤن اور کہیں کہیں شاٹ ڈاؤن (کرفیوکی طرح) لگا کر۔۔۔ لوگوں کواپنے اپنے گھروں تک محدود کر دیا تھا۔


لنچ کے گھنٹہ بھر بعد۔۔۔نگار نے کہا کہ اب مجھے گھر جانا چاہئے۔ شیوانی نے کہا۔۔۔ ہاں، چلو میں تم کو چھوڑ کر ہاسپیٹل چلی جاؤنگی۔ کل پھر ملاقات ہوگی۔ نگار نے کہا تم چلو میں پانچ منٹ میں فرہاد سے ایک ضروری بات کہہ کے آتی ہوں۔ شیوانی نے شرارت سے کہا۔۔۔ "ہاں ہاں، کیوں نہیں۔۔۔ پانچ کیوں دس منٹ لے لو۔ جی بھر کے کرکے آؤ۔ میں کار نکالتی ہوں تب تک"۔


فرہاد نے نگار سے کہا۔۔۔ "ایسی کون سی ضروری بات ہے جو شیوانی کو بھگانا پڑا؟ جلدی بولو ، کہیں کوئی اور نہ آجائے"۔ نگار نے کہا کہ۔۔۔ "فرہاد آپ مجھ پہ کتنا بھروسہ کرتے ہیں؟ اگر میں آپ سے کچھ مانگوں تو آپ بنا کچھ سوال کئے دیں گے؟"۔
ایسی کونسی بات ہے جو تم کو اتنا تمہید باندھنے کی ضرورت پڑگئی ہے نگار؟ میں اگر تم پہ پھروسہ نہیں کرتا تو اب تک کنوارا نہیں رہتا۔ مانگو کیا مانگنا ہے۔۔۔ وعدہ کرتا ہوں کہ مایوس نہیں کرونگا۔۔۔ اگر جان بھی مانگو تو حاضر ہے حضور"۔


"مجھے آپ سے یہی امید ہے۔ آپ کی جان تو میں ہوں، اپنے آپ کو کیسے مانگوں۔ میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ آپ اپنا فیس بک آئی،ڈی اور۔۔۔پاس ورڈ مجھے دیدیں۔ میں آپ کے آئی ڈی سے آج لگ اِن کروں گی اور۔۔۔" نگار نے بیچ میں بات روک دی۔ فرہاد پریشان ہوگئے اور کہا۔۔۔
"اور کیا؟ بولو بھی۔۔۔ اور کیا کروگی تم؟"


"اور اگر الماس آن لائن مل گئی تو اس سے بات کرونگی"۔ نگار نے کہا۔


"اس کامطلب یہ ہوا کہ تم میری جاسوسی کروگی۔ تم یہ دیکھنا چاہتی ہو کہ جو میں بولا ہوں اس میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا؟ یا پھر تم یہ شک کر رہی ہوکہ میں نے تم سے کوئی بات چھپائی ہے"۔
فرہاد ہلکی ناراضگی سے بولے۔


فرہاد کی ناراضگی سے نگار تڑپ اٹھی اور بولی۔۔۔
"آپ کی قسم ہے میں آپ پر کوئی شک نہیں کر رہی ہوں بلکہ میں آپ کو شرمندگی سے بچانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہوں۔ میں الماس سے اس لئے بات کرنا چاہتی ہوں کہ میں ایک لڑکی ہوں اور وہ بھی ایک لڑکی ہیں۔ جو بات آپ ان سے نہیں کرسکتے، وہ میں کر سکتی ہوں۔ آپ چار مہینے سے غائب ہیں اور الماس سے آپ کی کوئی بات چیت نہیں ہے تو میری سمجھ میں۔۔۔آپ کو غائب ہی رہنا چاہیئے۔ میں الماس سے بات کرونگی تو۔۔۔ وہ میرا بھی درد کو محسوس کرسکتی ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ آپ کی مجبوری کو بھی سمجھ سکتی ہیں یا پھر ایسا کہہ لیں کہ میں آپ کی مجبوری کو زیادہ اچھی طرح سمجھا سکتی ہوں۔ بولیئے۔۔۔ دیں سکتے ہیں آپ مجھے اپنا۔۔۔ فیس بک یوزر نیم اور پاس ورڈ؟؟؟"


" ہاں میں دے سکتاہوں۔ کیوں نہیں دونگا بھلا؟ مجھے امید ہے کہ تم اگر الماس سے بات کروگی تو ان کو اتنی ہی عزت اور تعظیم دوگی جتنا مجھے دیتی ہو۔ یہ سوچ کر بات کرنا کہ تم میری بیسٹ فرینڈ سے بات کر رہی ہو"۔
اور پھر فرہاد نے اپنی فیس بک تفصیلات نگار کو دے دیں۔ نگار نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس پر بھروسہ کیا۔ پھر وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی تو فرہاد نے۔۔۔ بڑے پیار سے الوداع کیا۔ نگار کا پورا وجود۔۔۔فرہاد کی لمس سے مہکنے لگا۔ وہ آج بہت خوش تھی اور۔۔۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔


شیوانی اس کو گھر ڈراپ کر کے اسپتال چلی گئی۔ نگار نے پھر سے ایک بار اس کو گلے لگا کر اس کے کان میں کہا۔۔۔ "آئی لو یو شیوانی، یو آر رئیلی گریٹ۔ مگر ابھی یہ بات کسی سے نہ کہنا پلیز"۔
شیوانی نے کہا۔۔۔ ڈونٹ وری مائی ڈئیر۔۔۔ تمہارا راز میرے سینے میں دفن رہے گا۔ مگر تم جلدی سے کسی بھی طرح اپنے گھر والوں کو راضی کرو۔ نگار نے ہاں میں سر ہلایا اور گھر کے اندر چلی گئی۔


ادھر فرہاد۔۔۔ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ پتہ نہیں کیا ہوگا؟ نگار کس طرح الماس کے ساتھ پیش آئے گی؟ پتہ نہیں الماس بھی نگار کے ساتھ کیسے بات کرے گی؟ خدا نہ کرے اگر دونوں میں کسی بات پہ بحث ہو گئی تو؟؟؟ پھر ان کا دل کہہ رہا تھا کہ دونوں کافی سلجھی ہوئی ہیں اور ان کو الماس سے یہ امید تھی کہ وہ۔۔۔ نگار کی بات کو سمجھیں گی اور یہ جانتے ہوئے کہ نگار میرا پہلا پیار ہے وہ اس کے ساتھ اچھے سے پیش آئیں گی۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ۔۔۔ ہوسکتا ہے نگار لاگ اِن ہونے کے بعد۔۔۔ انکے اور الماس کے چاٹنگ کو پڑھیں گی۔ کیا سوچیں گی؟ کیا میں ابھی لاگ اِن ہوکر۔۔۔ ہم دونوں کے پہلے کے سارے چاٹ کو ڈیلیٹ کردوں؟ پھر ان کے دل نے کہا۔۔۔ نہیں یہ غلط ہوگا۔ حالانکہ چاٹ میں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے مگر میرے ڈیلیٹ کردینے سے نگار کو شک ہوگا کہ میں نے چاٹ کیوں ڈیلیٹ کر دیا۔ ہونے دو جو ہو تا ہے لیکن مجھے بھی دیکھنا چاہئے کہ دونوں کیا بات چیت کرتی ہیں۔ میں بھی ادھر لاگ اِن ہو کر چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا (پڑھتا) رہونگا۔ اگر کہیں با ت بگڑنے لگے گی تو پھر میں ظاہر ہو کر اس کو سنبھال لونگا۔ یہ سوچ کر فرہاد رات ہونے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔ دو پاٹوں کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئی۔۔۔!!


رات کے کھانے میں شیوانی نہیں تھی۔ فرہاد نے اس کے بھائی اور بھابی کے ساتھ ڈنر کیا اور۔۔۔ کافی پینے اور کچھ دیر ان کے ساتھ بات کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آگیا۔ پھر دھڑکتے دل کے ساتھ۔۔۔ فیس بک لاگ اِن کیا۔ وہاں نگار اور الماس دونوں آن لائن تھیں اور آپس میں بات کررہی تھیں۔ فرہاد کو آنے میں بیس منٹ دیر ہوگئی تھی۔ اُس نے سوائپ کر کے پہلے سے دونوں کی باتیں پڑھنا شروع کیا۔ نگار فرہاد کے آئی ڈی سے لاگ ان ہوئی تھی جو۔۔۔ الماس کو پتہ نہیں تھا۔ اس کو لگا کہ اتنے دن بعد۔۔۔ فرہاد آن لائن آئے ہیں اور وہ جو چار مہینے سے ان کا ہر دن۔۔۔پل پل انتظار کر رہی تھی ان کو دیکھ کر شروع ہو گئی۔۔۔ ڈھیر ساری شکایتوں کے ساتھ۔۔۔


"السلام علیکم فرہاد۔ کہاں کھو گئے تھے آپ؟ سب خیریت تو ہے نا؟ چار مہینے سے کوئی خبر نہیں؟ آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ اس طرح اچانک غائب ہوجائیں گے تو میرے دل پہ کیا گزرے گی؟ کرونا کے اس پر خطر دور میں آپ کا اس طرح غائب ہوجانا مجھے پل پل مار رہا تھا۔ میں تو چلتی پھرتی لاش بن گئی تھی۔ کالج بھی بند تھا تو۔۔۔ دن بھر گھر میں پڑے پڑے۔۔۔ طرح طرح کے اندیشے گھیر رہے تھے۔ آپ کو پتہ ہے میں نے کتنی ہی منتیں کر ڈالی ہیں؟ آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کے تمام فیس بک فرینڈ سے آپ کے بارے میں پو چھا ہے مگر کسی کے پاس آپ کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھا۔ کہاں تھے آپ؟ کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا؟ آخر کیوں؟؟"


"وعلیکم السلام الماس۔۔۔اب رُک بھی جاؤ؟ کتنا سوال کروگی؟ مجھے بھی کچھ بولنے دوگی یا تم ہی بولتی رہوگی؟" نگار نے کہا۔


الماس جھینپ گئی اور بولی۔۔۔
" اللہ مجھے کیا ہوگیا ہے فرہاد، آپ کو دیکھ کر۔۔۔بولتی جارہی ہوں۔ ہاں، اب آپ بولئے۔۔۔ کیوں آپ مسٹرانڈیا بن گئے تھے۔ اچانک کیوں غائب ہو گئے تھے؟ آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ میرا کیا حال ہوگا؟"


"مجھے پتا ہے کہ یوں اس طرح غائب ہو جانے سے کیا حال ہوتا ہے مگر۔۔۔ میں فرہاد نہیں ہوں۔۔۔!!"۔
نگار نے جواب دیا۔


"ک۔۔ک۔۔کیا ؟؟؟ آپ فرہاد نہیں ہیں؟ کیوں مذاق کر رہے ہیں میرے ساتھ؟ کیوں ستا رہے ہیں مجھے پھر سے؟ اگر آپ میرے فرہاد نہیں ہیں تو پھر کون ہیں آپ؟؟؟ "۔۔۔ الماس پریشان ہوکر بولی۔


" تم مجھے بہت اچھی طرح جانتی ہو الماس مگر کبھی ہماری بات نہیں ہوئی ہے۔ میں نگار ہوں۔۔۔ فرہاد کی پہلی اور آخری محبت۔ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی تھیں اس لئے میں نے فرہاد سے ان کا یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ لیا ہے"۔۔۔ نگار نے جواب دیا۔


دوسری طرف موجود الماس کو گویا کاٹو تو خون نہیں۔ یہ فرہاد نہیں ہیں۔۔۔ ان کی پہلی محبوبہ نگار ہے۔ اللہ میں بیقراری میں کیا کیا بول گئی۔ نگار کو میرے بارے میں سب پتہ چل گیا ہے شاید۔ فرہاد کو کیسے مل گئی نگار؟ انہوں نے تو کہا تھا کہ نگار کی شادی ہوگئی پھر نگار لندن کیسے پہنچ گئی؟ ایسے بہت سارے سوالات اس کے دماغ میں آئے تو اس نے نگار سے پوچھ لیا۔


نگار نے بھی کھل کر سب بتا دیا کہ فرہاد نے اس کو الماس کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ اور جو کچھ نہیں بتائے تھے وہ نگار نے دونوں کے چاٹ پڑھ کر جان لیا ہے۔ اور وہ لندن نہیں گئی ہے بلکہ۔۔۔ فرہاد کچھ دن پہلے ۔۔۔کرونا کا شکار ہو کر انڈیا آئے اور ان کی حالت سیریس تھی تو ان کو ائیرپورٹ سے سیدھے دہلی کے صفدر جنگ ہاسپیٹل میں ایڈمٹ کیا گیا تھا۔۔۔ جہاں وہ (نگار) ڈاکٹر ہے۔


الماس یہ سن کر تڑپ اٹھی کہ فرہاد کو کرونا ہوگیا ہے۔ اس نے بیتابی سے پوچھا۔۔۔
" اللہ، فرہاد کو کرونا ہوگیا ہے۔ کیسے ہیں وہ اب؟ سب ٹھیک ہے نا نگار؟ "


"ہاں، سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ اب وہ مکمل صحت یاب ہوگئے ہیں اور میرے گھر میں رہ رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ حیدرآباد اپنے گھر جا نہیں پائے" (کسی مصلحت کی تحت نگار نے یہ نہیں کہا کہ فرہاد شیوانی کے یہاں رہ رہے ہیں)۔


الماس پھر سے حیرت میں پڑگئی کہ فرہاد ابھی نگار کے گھر میں ہیں۔۔۔ نگار کی تو شادی ہو گئی تھی پھر فرہاد کیسے اس کے گھر میں رہ رہے ہیں۔ نگار کے شوہر نے اعتراض نہیں کیا ہوگا کیا؟ نگار اپنے شوہر سے جھوٹ بولی ہوگی کیا؟ یہ سب سوچ کر اس نے نگار سے پوچھ ہی لیا کہ۔۔۔آپ کی تو شادی ہوگئی تھی نا؟ پھر فرہاد کو کیسے اپنے گھر لے گئیں آپ؟ آپ کے سسرال والے۔۔۔؟؟؟؟؟

نگار نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔۔۔
"ہاں، جب فرہاد اچانک میری زندگی سے غائب ہوگئے تھے تو میں نے بہت مشکل سے چار سال تک ان کے لوٹنے کا انتظار کیا پھر گھروالوں کے اصرار پہ میں نے مجبوراً شادی کرلی تھی جو صرف۔۔۔ سات دن تک چلی۔ پھر نگار نے سب کچھ۔۔۔ اپنی شادی سے لے کر طلاق تک کا قصہ الماس کو سنا دیا۔ پھر اس کے بعد وہ کیسے۔۔۔ فرہاد کی یادوں کے سہارے جی رہی تھی اور زندگی بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی وہ بھی اس نے بتایا۔ اور تقریباً۔۔۔بیس سال کے بعد یوں اچانک۔۔۔فرہاد اس کے سامنے آگئے، اس کی دعا قبول ہوگئی۔وہ بہت خوش تھی مگر فرہاد نے اس کو الماس کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تو۔۔۔ میں نے سوچا کہ میں تم سے بات کرونگی اور اپنی جھولی پھیلا کر تم سے اپنے فرہاد کو مانگ لونگی۔ اس لئے فرہاد سے۔۔۔ان کا فیس بک آئی ڈی اور پاس ورڈ مانگ کر۔۔۔ تم سے بات کر رہی ہوں۔



نگار بول رہی تھی اور۔۔۔الماس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے۔ ادھر فرہاد بھی۔۔۔ دونوں کی باتیں پڑھ کربے انتہااداس ہو رہے تھے کہ میری وجہ سے آج۔۔۔ دو زندگیاں کس کشمکش میں پڑ گئی ہیں۔ نگار اور الماس۔۔۔ دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح تھیں۔ دونوں نے ان کو ٹوٹ کر چاہا ہے اور دنوں کی خواہش ہے کہ وہ اس کے ہو جائیں مگرفرہاد۔۔۔ دونوں کا دل توڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ جس کے بھی ہوتے تو دوسری کے لئے بے وفا کہلاتے۔ حالانکہ وہ بے وفا نہیں ہیں۔ وقت، حالات اور قسمت نے عجیب مذاق کیا تھا ان کے ساتھ۔ کٹی پتنگ کی طرح ہوا میں اڑ کر کبھی نگار کی طرف گر رہے تھے تو کبھی۔۔۔الماس کی طرف۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، کس کو اپنائیں اور کس کو۔۔۔؟!!


جب نگار کی بات سن کر۔۔۔ الماس کی طرف سے کوئی مسیج نہیں آیا تو نگار نے دوبارہ مسیج کیا۔۔۔
" الماس، آر یو دئیر؟ تم ہو نا؟ کچھ بولتی کیوں نہیں ہو؟ میں جانتی ہوں کہ تم میرے فرہاد کی زندگی میں تب آئیں جب دور دور تک۔۔۔ میں کیا میری پرچھائیں بھی نہیں تھیں۔ فرہاد یہ سوچ رہے تھے کہ میں شادی کرکے اپنی زندگی میں خوش ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ تم نے فرہاد کو دیکھے بنا۔۔۔ بے غرض پیار کیا ہے۔ میں نے پڑھا ہے تم دونوں کا چاٹ۔۔۔ فرہاد نے تم کو بہت سمجھایا بھی ہے۔۔۔ اپنی عمر کے فرق کا حوالہ دیکر۔۔۔ اپنی خاندانی رسم و رواج کا حوالہ دیکر جس نے ہم دونوں کو ملنے نہیں دیا تھا۔ پھر بھی تم نے فرہاد کوبے انتہا چاہا ہے بنا کسی غرض کے۔ تم نے ان کا قدم قدم پہ ساتھ دیا ہے ایک مخلص دوست کی طرح۔۔۔ بنا کسی امید کے، بنا کسی وعدے کے۔ تم بہت گریٹ ہو الماس۔
آج کل کی اس دنیا میں جہاں پیار ہر ہفتے بدل جاتا ہے تمہارا پیار ایک مثال ہے لیکن۔۔۔ میں نے بھی فرہاد کو بے پناہ پیار کیا ہے۔ میں نے بھی ان کے لئے بیس سال تک انتظار کیا ہے، میں نے بھی ان کے لئے ایک ایک دن گن کے گزارے ہیں۔ ہم دونوں نے کئی سال ساتھ گزارے ہیں۔۔۔ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی ہیں مگر پھر۔۔۔ جدا ہوگئے تھے۔ آج تقدیر نے دوبارہ ہم کو ملایا ہے۔ اللہ نے میری دعاؤں کو قبول کر لیا ہے اور میرے فرہاد۔۔۔ میرے پاس لوٹ آئے ہیں۔ میں پھر سے جی اٹھی ہوں الماس۔ میری زندگی جو ایک بنجر زمین کی طرح تھی اب اس میں امید کے تازہ پھول کھل اٹھے ہیں۔
کیا تم نہیں چاہو گی کہ میں اور فرہاد ساتھ ساتھ زندگی گزاریں؟ کیا تم نہیں چاہوگی کہ فرہاد نے جس نگار کے لئے اپنے ماں باپ اور۔۔۔ خاندانی رسم و رواج سے بغاوت کرلیا تھا اور اتنے سالوں تک اس کی یاد میں جی رہے تھے وہ نگار ان کو مل جائے؟
بولو الماس کچھ تو بولو۔ تم میری چھوٹی بہن کی طرح ہو۔ تم خوبصورت ہو، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور کنواری بھی ہو۔ تم کو فرہاد سے بہتر رشتہ مل جائے گا مگر۔۔۔ میرا کیا ہوگا؟ میں تو عمر کے اس پڑاؤ پہ ہوں جہاں لڑکیاں شادی کے سپنے دیکھنا بند کر دیتی ہیں۔ کچھ تو بولو الماس پلیز"۔


ادھر الماس کا برا حال تھا۔ وہ گھر پہ تھی۔ نگار کی باتیں پڑھ کر اس کا دل پھوٹ پھوٹ کے رونا چاہتا تھا مگر۔۔۔ گھر والوں کے دیکھ لینے کے ڈر سے کھل کے رو بھی نہیں سکتی تھی۔ نگار کا مسیج پڑھتے ہی ایک درد سا دل میں اٹھا اوروہ بھاگ کر باتھ روم میں گھس گئی۔ پانی کا ٹیپ کھول کر اس نے جی بھر کے رویا اور سوچتی رہی کہ نگار کو کیا جواب دے۔
واقعی قسمت نے ایک ایسے موڑ پہ لاکر کھڑا کردیا ہے کہ فرہاد بیچارے پنڈولم کی طرح ڈول رہے ہیں۔ الماس بہت ہی جذباتی تھی مگر۔۔۔ حقیقت پسند اور پریکٹیکل لڑکی تھی۔ اس نے نگار سے حسد نہیں کیا بلکہ۔۔۔ نگار کی جگہ خود کو رکھ کر سوچا تو اس کو لگاکہ۔۔۔فرہاد پہ نگار کا حق اس سے زیادہ ہے۔ نگار۔۔۔فرہاد کی پہلی محبت ہے، جس کے لئے انہوں نے بہت کچھ برداشت کیا ہے اور برسوں اس کی یاد میں گزارے ہیں۔ وہ الماس سے کہتے تھے کہ ہم اس لئے کسی اور لڑکی کو اپنی زندگی میں آنے نہیں دیتے ہیں کہ۔۔۔ خدا نہ کرے کبھی نگار کو ہماری ضرورت پڑی تو کیا ہم ان کا ساتھ دے سکیں گے، ان کا ہاتھ پکڑ سکیں گے؟
اور آج۔۔۔ ان کی بات سچ ہوگئی ہے۔ نگار طلاق شدہ ہے ، عمر کے اس پڑاؤ میں ہے جہاں مہندی ہاتھوں میں نہیں بالوں میں لگائی جاتی ہے۔ آج۔۔۔نگار کو۔۔۔فرہاد کی محبت اور سہارے کی ضرورت ہے۔ مجھے ان دونوں کے بیچ سے ہٹ جانا ہوگا۔ میں تو فرہاد کی خوشی چاہتی ہوں، اگر وہ نگار کے ساتھ خوش رہیں گے تو مجھے بھی خوش ہونا چاہئے۔ یہ سب سوچ کر وہ باتھ روم سے منھ دھو کر باہر آئی تاکہ گھر میں کوئی اس کے آنسو نہ دیکھ سکے۔


الماس نے بہت سوچ سمجھ کر نگار کو جواب دیا۔۔۔
" نگار، میں آپ کی ایک ایک بات سمجھ رہی ہوں۔ میں آپ کی جگہ ہوتی تو میں بھی یہی کرتی۔ میں خوش ہوں کہ فرہاد کو ان کا پہلا پیار مل رہا ہے۔ ان کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔ میں تو ان کی زندگی میں آپ کی کمی پوری کرنے کے لئے آئی تھی۔۔۔آپ نہیں تھیں تو آپ کا رول ادا کرنے کے لئے خدا نے مجھے بھیج دیا تھا شاید۔ اب آپ آگئی ہیں تو میرا رول ختم ہوگیا ہے۔ اب مجھے آپ دونوں کی زندگی سے بہت دور چلے جانا ہے۔ تاکہ آپ کے دل میں کوئی خدشہ نہ رہ جائے۔ میں آج ہی اپنا یہ فیس بک آئی ڈی مکمل ڈیلیٹ کر دوں گی۔ پھر دوبارہ کبھی آن لائن نہیں آؤں گی۔ مگر میری آپ سے ایک گزارش ہے نگار ، کیا آپ مانیں گی؟"


نگار اس کے فیصلے سے بہت خوش تھی بولی۔۔۔" ہاں ہاں کیوں نہیں۔ بولو کیا خواہش ہے؟ تم میری چھوٹی بہن کی طرح ہو، جو چاہو مانگ لو۔۔۔ بس ایک فرہاد کو چھوڑ کر"۔


الماس نے کہا۔۔۔
" نگار، آپ کو میرے لئے ایک چھوٹا سا جھوٹ بولنا ہوگا۔ کل جب فرہاد آپ سے پوچھیں کہ میرے ساتھ آپ کی بات ہوئی تھی توآپ منع کردیں کہ نہیں ہوئی۔ الماس آن لائن ہی نہیں ہوئی تو کیسے بات کرتی؟"


نگار حیرت میں پڑگئی کہ الماس اس کو یہ جھوٹ بولنے کیوں کہہ رہی ہے؟ اس نے پوچھا تو الماس بولی۔۔۔
" میں نہیں چاہتی کہ۔۔۔ فرہاد عمر بھر اس شرمندگی میں گزاریں کہ تم نے اُن کو مجھ سے۔۔۔چھین لیا ہے۔ میں ان کو دیکھنا چاہتی تھی، تم سے ان کا فوٹو مانگنا چاہتی تھی مگراب میں نے سوچا ہے کہ۔۔۔ نہیں مانگوں گی۔ میں ان کو نہیں دیکھوں گی۔ زندگی بھر وہ میرے دل میں رہیں گے ، ان کو بھول نہیں پاؤں گی مگر۔۔۔ ان کی تصویر دل میں نہیں بساؤں گی۔ اب میں چلتی ہوں۔ زیادہ دیر رکی تو۔۔۔ خود کو روک نہیں پاؤں گی، شاید رو پڑوں گی۔ پیشگی شادی مبارک ہو نگار۔۔۔ اللہ آپ دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔ ہمیشہ کے لئے الوداع۔ اللہ حافظ۔


اتنا کہہ کر الماس آف لائن ہو گئی۔
اِدھر نگار اور اُدھر فرہاد۔۔۔ اپنے اپنے ہاتھ میں موبائل لئے گم صم بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں ایک ہی بات سوچ رہے تھے کہ۔۔۔ واقعی زندگی میں کبھی کبھی کچھ انسان ایسے بھی ملتے ہیں جو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے لئے بہت کچھ ہوتے ہیں۔۔۔ جیسے الماس۔۔۔!!
کچھ عرصے کا ساتھ رہا اس کا مگر۔۔۔ دل و دماغ میں ایک انمٹ نقش چھوڑ گئی وہ۔۔۔ اپنی چاہت سے۔۔۔ اپنی ایثار و قربانی سے۔ زندگی بھر کے لئے فرہاد اور نگار کو اپنی محبت کا مقروض کر گئی۔ نگار نے سوچا کتنی عظیم ہے الماس کہ جاتے جاتے یہ کہہ گئی کہ۔۔۔ فرہاد کو یہ مت بتانا کہ میرے ساتھ آپ کی بات ہوئی ہے۔ اس کا یہ کہنا ثبوت ہے اس کی سچی محبت کا۔ کیونکہ جو کسی سے سچی محبت کرتے ہیں وہ اپنی محبوب کی خوشی کے لئے اپنی خوشی بھی قربان کردیتے ہیں، جو آج الماس نے کیا۔ ایسا کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ الماس کے لئے نگار کے دل سے دعا نکلی۔ نگار نے اس کی بات مان کر فوراً۔۔۔ دونوں کے بیچ ہوئی ساری گفتگو کو حذف کر دیا تاکہ فرہاد جب لاگ ان ہوں تو۔۔۔ اُن کی نظر نہ پڑے۔ مگر فرہاد تو دوسری جانب دونوں کی ساری باتیں پڑھ کر دیدۂ نم آزردہ ہو رہے تھے۔


اُدھر الماس نے اپنا فیس بک پروفائل ہمیشہ کے لئے ڈیلیٹ کر دیا اور وضو کرکے اللہ کے حضور دو رکعت شکرانہ ادا کرنے کھڑی ہو گئی کیونکہ اس نے منت مانگی تھی کہ۔۔۔ جس دن فرہاد کے خیریت کی خبر ملے گی وہ نمازِ شکرانہ ادا کرے گی اور دوسرے دن۔۔۔نفل روزہ بھی رکھے گی۔ اِس کرونا کے جان لیوا دور میں اللہ نے اُس کے فرہاد کو سلامت رکھا۔
اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکریہ۔۔۔!!


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:10(Last)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں