ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 03 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-07

ناول - تھینک یو ۔۔۔ کورونا - منیر ارمان نسیمی - قسط: 03

novel-thankyou-corona-episode-03

پچھلی قسط کا خلاصہ:
کالج کی طرف سے پکنک کے لئے نینی تال جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پکنک کے دوران ایک موقع پر ظفر نے تنہائی میں نگار سے اپنی پسندیدگی اظہار کر دیا جس کے جواب میں نگار نے کہا کہ ہم اچھے دوست ہیں، کچھ سال ساتھ پڑھیں گے پھر اپنی اپنی راہ لیں گے۔ میں نے آج تک کسی لڑکے کے بارے میں اس نظریے سے سوچا ہی نہیں۔ اور جب پہاڑ پر نگار اپنی چند ساتھیوں کے ساتھ چڑھ رہی تھی تو اچانک ایک ناگہانی حادثہ سے اس کے پیر پھسلے اور وہ پہاڑ سے نیچے لڑھکتی ہوئی چالیس پچاس میٹر تک چلی گئی۔ فرہاد نے اسے دیکھا اور سہارا دے کر اٹھایا پھر پاؤں میں موچ آنے کے سبب اسے اپنی گود میں اٹھا کر ڈاکٹر کے مطب کی طرف چل پڑا۔ اب تیسری قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

« قسط : 3 »

فرہاد نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔" آپ کی وجہ سے میرے کپڑے گندے ہوئے ہیں، اب اس کو صاف کر کے دینا پڑیگا"۔
رخسانہ نے کہا۔۔۔ ہاں، ہاں آپ کپڑے اتار دیجئے، میں ابھی صاف کردیتی ہوں۔ فرہاد نے کہا آپ کیوں صاف کریں گی؟ جنہوں نے گندے کئے ہیں ان کو ہی صاف کرنا ہوگا۔ نگار بھی مسکرا کے بولی۔۔۔" جی میں کر دیتی ہوں، آپ کپرے چینج کرلیجئے اور ہاں دوائی کے کتنے پیسے ہوئے یہ تو آپ نے لیا ہی نہیں، بولیئے۔ " ایک کروڑ دس لاکھ روپئے ہوئے دوائی کے"۔۔۔ فرہاد بولے۔ پھر سب ان کا مذاق سمجھ کر ہنسنے لگے۔ نگار نے کہا کہ۔۔۔ آپ کا تہہ دل سے شکریہ مگر دوائی کا پیسہ تو آپ کو لینا ہوگا ورنہ مجھے بہت بر الگے گا۔ فرہاد بولے۔۔۔
" میں نے آپ کا ایک کام کیا، اس کے بدلے آپ میرا ایک کام کردیں۔۔۔ حساب برابر ہوجائے گا ، پیسے میں نہیں لونگا"۔ نگار بولی تو پھر حکم کیجئے؟ فرہاد نے کہا۔۔۔
"آپ مجھے چائے پلا دیجئے گا، ہوجائیگا حساب برابر"۔ نگار نے کہا۔۔۔ جی مجھے منظور ہے!!


فرہاد اسی آٹو سے واپس ٹریکنگ پائینٹ پہنچ گئے۔ ادھر نگار نے رخسانہ کی مدد سے کپڑے چینج کئے اور پھر بیڈ پہ لیٹ کر اپنی حالت پہ غور کرنے لگی۔ رخسانہ بولی کہ وہ لنچ کے لئے کچھ لے آتی ہے پھر دونوں کھائینگے۔ نگار اکیلی بیڈ پر پڑی تھی مگر ایسا لگتا تھا فرہاد کمرے میں موجود ہیں۔ وہ جدھر دیکھتی تھی ان کا سراپا نظر آتا تھا، گھبرا کے آنکھ بند کرلیتی تھی تواسکے اندر آجاتے تھے اور ان کے وجود کی خوشبو و ہ محسوس کرکے گھبرا کے آنکھ کھول دیتی تھی۔ کس طرح انہوں نے اس کو ننھی سی بچی کی طرح اپنی بانہوں میں اٹھا لیا تھا اور کیسے وہ اپنے بے ترتیب دل کے دھڑکن کو سنبھال نہیں پارہی تھی۔ سب لڑکیوں کی آنکھوں میں شرارت بھی تھی اور۔۔۔ جلن بھی کہ جو فرہاد کسی لڑکی سے سیدھے منھ بات نہیں کرتے ہیں۔۔۔ وہ اس کو بانہوں میں اٹھائے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔ نگار بیڈ پہ آنکھیں بند کئے ان حسین پلوں کو دوبارہ جی رہی تھی، پہلی بار کسی مردانہ جسم کی خوشبواورکشش کو محسوس کرکے کھل اٹھی تھی اور مند مند مسکرا رہی تھی۔ اس کو پتہ نہیں تھا کہ رخسانہ لنچ لے کر آگئی تھی اور اس کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ نگار کو سوتے ہوئے کبھی ہنستے اور کبھی سنجیدہ ہوتے دیکھ کر رخسانہ سمجھ گئی کہ۔۔۔ لڑکی ان لمحوں میں کھوئی ہوئی ہے جس کی تلاش ہر لڑکی اپنی زندگی میں کرتی ہے کہ کوئی تو ہو جو۔۔۔ دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کردے اور میٹھی میٹھی کسک دے جائے۔


رخسانہ نے چپکے سے اس کے قریب گئی اور نگار کے گال کا کِس لے لی۔ نگار ہڑبڑا کے اٹھ پڑی کہ اس وقت وہ فرہاد کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی اور اچانک رخسانہ نے کس دیدیا۔ رخسانہ پیٹ پکڑ کے ہنسنے لگی، نگار پہلے اپنی حالت کاسوچ کر جھینپ گئی اور پھر وہ بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگی۔ رخسانہ نے آنکھ مارتے ہوئے کہا کیا بات ہے جانو، اپنے ہیرو کے بارے میں سوچ سوچ کر کبھی ہنس رہی ہو کبھی شرما رہی ہو، میں کب سے کھڑی سب دیکھ رہی ہوں۔ نگار پھر سے شرماگئی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو مگر جھوٹ موٹ کا ناراضگی ظاہر کرنے لگی کہ۔۔۔ تم بہت بدمعاش ہو، خواہ مخواہ ادھر ادھر کی ہانک رہی ہو، میں تو ایک جوک یاد کرکے ہنس رہی تھی۔ رخسانہ نے کہا۔۔۔ اچھا یہ بات ہے، تو کھاؤ میری قسم کہ تم فرہاد کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھیں۔ نگار نے کہا کہ تم ہی بتاؤ رخسانہ ، کیا مجھے نہیں سوچنا چاہئے ان کے بارے میں جنھوں نے مجھے گرتے ہوئے سنبھالا ورنہ پتا نہیں میں کہاں تک لڑھکتی ہوئی جاتی اور مجھے کہاں کہاں زخم لگتے، کتنے چوٹ لگتے اور پھر۔۔۔ مجھ جیسی 60 کیلوگرام کی لڑکی کو اٹھائے ہوئے ڈاکٹر کے کلینک تک لائے۔ کیا یہ سب یاد نہیں کروں؟ وہ میرے لئے مسیحا بن کر آئے اور۔۔۔میرا سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔


رخسانہ نے کہا۔۔۔ ہائے ہائے۔۔۔ کیا بات ہے، لڑکی کا سب کچھ لوٹ کر لے گیا اس کا مسیحا۔ اب کیا ہوگا ربّا؟ پھر دونوں ہنسنے لگیں۔ نگار نے رخسانہ سے کہا کہ وہ یہ سب باتیں کسی کو بھی نہ بتائے۔ پتا نہیں کالج میں کیسی کیسی افواہ اڑیں گی اور شاید فرہاد کو یہ سب پسند نہ آئے۔ انہوں نے میر ی مدد کی مگر ایسا نہیں لگتا ہے کہ ان کو کچھ فرق پڑا ہو، جیسے یہ ایک عام سی بات ہو ان کے لئے۔ کیا وہ بھی میری طرح سوچ رہے ہونگے؟؟


"بالکل سوچ رہے ہونگے میری جان، تم کوئی معمولی چیز نہیں ہو۔ تم لاکھوں میں ایک ہو اور تم کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر لانے والا مرد۔۔۔ تمہارے جسم کی لمس سے انجان رہے یہ ہو نہیں سکتا۔ وہ تو تمہارے دل کی دھڑکن کو بھی پل پل محسوس کئے ہونگے۔ تمہارے پھول جیسے بدن کی خوشبو ان کو بھی ضرور بے چین کررہی ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ظاہر نہیں کئے اور چلے گئے"۔۔۔ رخسانہ بولی۔
نگار کے اندر رخسانہ کی باتوں سے ایک عجیب سی بیخودی دوڑ گئی۔ ہاں، ضرور وہ میرے بارے میں بھی سوچ رہے ہونگے۔ میں تو انکے اتنے قریب تر تھی کہ مجھے خود ان کے سانسوں کی گرم آنچ اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی تو وہ کیسے میرے دل کی دھڑکن سے انجان رہے ہونگے جب کہ میں امربیل کی طرح ان سے لپٹی ہوئی تھی۔ یا اللہ، یہ سب کیا ہوگیا؟


ظفر بھی یہی سوچ رہا تھا کہ۔۔۔ "یا اللہ یہ سب کیا ہوگیا؟ کاش فرہاد کی جگہ میں ہوتا اور نگار کی اس طرح مدد کر پاتا، اس کو اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتا تو شاید اس کے دل میں میرے لئے تھوڑی سی جگہ بن جاتی"۔
فرہاد بھی سوچ رہے تھے کہ۔۔۔"یا اللہ یہ سب کیا ہوگیا؟ سب کچھ پلک جھپکتے ہوگیا اور مجھے احساس ہی نہیں ہو سکا کہ وہ ایک لڑکی ہیں اور میں نے ان کو گود میں اٹھا لیا۔ کیا سوچ رہی ہونگی وہ میرے بارے میں؟ کہیں وہ میرے بارے میں کچھ غلط تو نہیں سوچ رہی ہونگی کہ میں نے موقعے کا فائدہ اٹھایا؟ نہیں۔۔۔ نہیں وہ اگر غلط سوچتیں تو آتے وقت مجھ سے مسکراکے بات نہیں کرتیں اور چائے کی شرط نہیں مانتیں"۔


پھر وہ سر جھٹک کے اپنے فوٹوگرافی میں کھو گئے۔ اب ظفر ان کے ساتھ ساتھ گھوم رہا تھا۔ اس نے پوچھ لیا۔۔۔ فرہاد، بیچاری نگار اور رخسانہ دھرم شالہ میں اکیلی رہ گئیں، ان کے کھانے پینے کا کیا ہوگا؟ فرہاد نے سوچا کہ صحیح بات ہے، اس کو کم سے کم لنچ کا بندوبست کرکے آنا چاہئیے تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ پھر سے ایک بار دھرم شالہ جائے اور بازار سے لنچ پیک کروا کے لے جائے۔ تب ظفر نے کہا کہ۔۔۔ چلو ہم دونوں چلتے ہیں، لنچ دیکر اور حال چال پوچھ کر وہاں سے۔۔۔ میوزیم دیکھنے چلے جائیں گے۔ فرہاد نے کہا کہ چلو پھر چلتے ہیں۔ وہ دونوں ہوٹل سے لنچ پیک کروا کے جب دھرم شالہ پہنچے تو اس وقت۔۔۔ نگار اور رخسانہ کھانا کھا رہی تھیں۔ یہ دونوں انہیں کھاتے ہوئے دیکھ کر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ نگار۔۔۔ فرہاد کو دیکھ کر کھل اٹھی اور رخسانہ نے پوچھا۔۔۔ کیا بات ہے ، آپ دونوں ہمیں دیکھ کر ہنس کیوں رہے ہیں؟ ظفر بولا۔۔۔ ہم لوگ تم دونوں کے لئے کھانا پیک کروا کے لائے تھے مگر تم لوگ تو پہلے ہی کھانا منگوا چکی ہو اور کھا رہی ہو، اس لئے ہم ہنس رہے تھے کہ ہماری محنت بیکار گئی۔ نگار نے کہا۔۔۔ "کیوں بیکار جائے گی بھلا؟ ایسا کریں، ہمارے ساتھ آپ دونوں بھی کھالیں۔ ہم آپ کا لایا ہوا کھانا چکھ لیں گے اور آپ لوگ ہمارا کھانا کھا لیں گے"۔ فرہاد بولے۔۔۔
"گڈ آئیڈیا۔۔۔ ایک سے دو بھلے۔۔۔ دو سے بھلے چار۔ ظفر بھائی بولئیے کیا ہے آپ کا وچار؟
ظفر بھی خوش ہوگیا اور بولا۔۔۔ جو حکم میرے سرکار۔۔۔!!


لنچ کے بعد فرہاد نے نگار سے پوچھا۔۔۔ ابھی پیر کا درد کیسا ہے؟ نگار نے کہا۔۔۔ الحمداللہ! انجکشن کی وجہ سے درد بہت کم ہے۔ ظفر بولا کہ۔۔۔ اگر تم چل سکو تو پھر ہم لوگ پاس کے میوزیم میں چلتے ہیں۔ باقی کے لوگ ٹریکنگ اور کھانا کھانے کے بعد میوزیم آئینگے۔ رخسانہ بڑی شریر تھی بولی۔۔۔ "اگر فرہاد صاحب۔۔۔ گو د میں اٹھا کر لے چلیں تو بچی جا سکتی ہے"۔اس کے کہنے کے انداز سے سب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور نگار بیچاری جھینپ گئی اور رخسانہ کو ایک چپت لگا دی۔ ظفر دل ہی دل میں رخسانہ کولعن طعن کررہا تھاکہ وہ جان بوجھ کر فرہاد اور نگار کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کررہی تھی۔فرہاد نے کہا کہ مذاق نہیں، اگر نگار کے پاؤں میں درد زیادہ ہے تو وہ پھر نہ جائیں کہ چلنے پھرنے سے درد اور بڑھ جائے گا۔ نگار نے کہا کہ۔۔۔" نہیں نہیں، میری وجہ سے پروگرام کینسل مت کیجئے۔ درد بہت کم ہے اور ابھی میں دوائی بھی کھا لونگی۔ رخسانہ تو ہے ہی میری بیساکھی۔ اس کے سہارے دھیرے دھیرے میوزیم گھوم لونگی۔ بار بار کون آتا ہے نینی تال، جب آئے ہیں تو گھوم پھر لیتے ہیں"۔ سب میوزیم جانے کی تیاری کرنے لگے۔


فرہاد میوزیم میں راجا مہاراجاؤں کے پوشاک، زیور، ہتھیار وغیرہ کو بڑی باریکی سے دیکھ رہے تھے اور فوٹو لے رہے تھے اور نگار ان کو۔۔۔ باریکی سے دیکھ رہی تھی۔ جتنا دیکھتی تھی وہ اتنا ہی دل میں گھر کر رہے تھے۔ وہ ہزار کوشش کر رہی تھی کہ ان کی طرف نہ دیکھے مگر دل تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔وہ رخسانہ کے سہارے چل رہی تھی مگر اس کا دل۔۔۔ فرہاد کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ آج اس کا دل۔۔۔ اسکی کوئی بات نہیں مان رہا تھا۔۔۔!!


چوبیس گھنٹے کے اندر اندر۔۔۔نگار کی دنیاہی بدل گئی تھی۔ آج سے پہلے اس نے کبھی کسی لڑکے کے بارے میں اس زاوئیے سے سوچا ہی نہیں تھا۔ پیار، محبت، عشق وغیرہ اس کے لئے شجر ممنوعہ کی طرح تھا۔ وہ صرف پڑھائی پہ مکمل دھیان دے رہی تھی۔ پتہ نہیں کل کیسے ظفر نے اس کو پرپوز کردیااور اس نے۔۔۔ سلیقے سے اس کو منع بھی کردیا۔ مگر آج۔۔۔ صرف بارہ گھنٹے کے اندر وہ خود۔۔۔ فرہاد کے بارے میں سوچ رہی تھی،وہ چاہتی تھی کہ کچھ نہ سوچے۔۔۔ وہ بس انسانی ہمدردی کے ناطے اس کو بانہوں میں اٹھائے ڈاکٹر کے پاس لے آئے تھے لیکن اس کا روم روم کہہ رہا تھا کہ وہ اجنبی جوان تیرے نس نس میں بس گیا ہے۔ جتنا خیال کو ادھر ادھر بھٹکانے کی کوشش کرتی تھی اتنا ہی نظر بھٹک بھٹک کے فرہاد کی طرف چلی جاتی تھی۔ وہ ہر بار پہلے سے زیادہ اچھے لگتے تھے۔ ان کی شخصیت، ان کا پروقار انداز گفتگو، ان کا مردانہ وجاہت اس کو اندر سے بے چین کررہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی۔۔۔ کیا یہی پیار ہے؟!!


وہ لوگ پکنک سے واپس دہلی لوٹ آئے۔ دو دن تک نگار کالج نہیں آئی۔ فرہاد۔۔۔ دل ہی دل میں اس کو ڈھونڈ رہے تھے۔ شرم اور لحاظ کی وجہ سے وہ رخسانہ یا شاہین سے پوچھ بھی نہیں پارہے تھے کہ نگار کیوں کالج نہیں آرہی ہیں؟ اندر ہی اندر پریشان ہورہے تھے کہ پتا نہیں کیا بات ہے؟ کیا ان کے پیر کا چوٹ زیادہ بڑھ گیا ہے؟ کیا درد کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتی ہیں؟ کیا ان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے؟ ایسے پتہ نہیں کتنے برے برے خیالات ان کے دل میں آتے تھے اور وہ پھر اس کو جھٹک دیتے تھے۔ پو چھیں تو کس سے پوچھیں؟ ویسے بھی پکنک سے واپس آنے کے بعد سے کچھ لڑکیاں اور لڑکے ان کو دیکھ کر مند مند مسکراکے آپس میں کھسر پسر بھی کرنے لگے تھے۔ فرہاد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ لوگ اچانک ایسا کیوں برتاؤ کررہے ہیں؟ فرہاد کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے پیٹھ پیچھے۔۔۔ پورے کالج میں افواہ پھیل رہی ہے۔۔۔ فرہاد اور نگار کے پیار کی کہانی۔۔۔ اس کان سے ، اُس کان تک ہوتے ہوئے پورے کالج میں بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ کچھ لڑکیاں تو فرہاد کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھی بھرلیتی تھیں کہ۔۔۔ ہائے نگار نے بڑا لمبا ہاتھ مارا ہے، نواب صاحب کو اپنی زلف کا اسیر بناکے۔ کچھ ایک تو حسد و جلن میں یہاں تک کہہ رہی تھیں کہ۔۔۔ نگار جان بوجھ کر ٹریکنگ کے وقت پیچھے رہ گئی تھی اور پہاڑ سے پھسل جانے کا ناٹک کر کے فرہاد کے بانہوں میں چلی گئی۔


فرہاد۔۔۔ دل ہی دل میں اللہ سے دعا کررہے تھے کہ پروردگار نگار صحیح سلامت ہوں، کسی طرح ان کی خیریت کی خبر مل جائے۔ اللہ نے ان کی سن لی اور تیسرے دن۔۔۔ نگار جیسے ہی آٹو سے آ کر کالج کے گیٹ کے پاس اتری، فرہاد کی نظر اس پر پڑ گئی۔ فرہاد کو پتہ نہیں وہ کیوں بھاگ کر اس کے پاس پہنچے اور پوچھ بیٹھے۔۔۔ کیسی ہیں آپ؟ دو دن سے آپ کالج کیوں نہیں آ رہی تھیں؟ پتہ ہے ہم سب کتنا پریشان ہو رہے تھے؟
"آپ کیوں پریشان ہو رہے تھے؟"۔ نگار نے عجیب سی دلبرانا انداز سے پوچھا۔
" پتہ نہیں۔۔۔!!"۔ فرہاد کے منھ سے نکل گیا۔
نگار۔۔۔ شرما کے ہنس پڑی اور بس وہی لمحہ۔۔۔ وہی ایک لمحہ۔۔۔ ہزار داستان کہہ گیا۔ فرہاد کو احساس ہوا کہ وہ بیقراری میں کینٹن سے دوڑ کر گیٹ تک آ گئے ہیں اور نگار سے عجیب عجیب سوال کررہے ہیں۔ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ فرہاد سوچنے لگے۔ کیا یہی پیار ہے؟؟!


پھر دونوں ساتھ ساتھ۔۔۔ کلاس تک آئے اور نگار نے بتایا کہ۔۔۔ اس کو بخار ہو گیا تھا۔ نینی تال کی سردی کی وجہ سے زکام اور کھانسی بھی ہو رہی تھی اوپر سے پیر میں بھی درد تھا تو گھر والوں نے کہا کہ دو تین دن آرام کرلو۔ پیر کی سوجن اور درد بھی کم ہوجائے گا۔ فرہاد نے پوچھا کہ اس نے پھر ریسٹ کیوں نہیں کیا؟ آج بھی گھر رہ جاتیں، کل اتوار ہے ایک دن اور ریسٹ مل جاتا۔ سوموار کو کالج جوائن کرتیں۔ مگر فرہاد کو کیا معلوم کہ نگار تو خود ان سے زیادہ بیقرار تھی۔۔۔ وہ خود چاہتی تھی کہ جلد سے جلد بخار اتر جائے تو وہ کالج بھاگے اور اپنے فرہاد کو ایک نظر دیکھ لے۔ وہ بولی۔۔۔ "ایسا ہے کہ دو دن گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہی تھی، سوچا کہیں آپ لوگ مس نہ کررہے ہوں تو چلی آئی۔ اگر آپ کو میرا آنا اچھا نہیں لگا ہے تو میں واپس گھر چلی جاتی ہوں ــ"۔ فرہاد تڑپ گئے۔۔۔ "نہیں، نہیں! یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ہم کو برا لگا ہے۔ ہم سب آپ کو بہت مس کررہے تھے بلکہ پریشان بھی تھے کہ کہیں آپ کی طبیعت زیادہ خراب تو نہیں ہوگئی؟"


نگار نے شرارت سے پوچھا۔۔۔ "اچھا، کون کون مجھے مِس کررہے تھے؟" اور بیچارے فرہاد۔۔۔ دائیں بائیں جھانکنے لگے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے اور سچ بتا بھی نہیں سکتے تھے کہ۔۔۔ وہ ہی اس کو بری طرح مس کررہے تھے۔ کیاجواب دیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور بالکل صحیح وقت میں رخسانہ آگئی اور۔۔۔ نگار سے لپٹ گئی اور بولی۔۔۔ اوئے ڈفر! کہاں غائب ہو گئی تھی؟ ہم لوگ سوچ رہے تھے شاید تیرے پاؤں کا درد بڑھ گیا ہے۔ فرہاد کے جان میں جان آئی کہ رخسانہ نے آکر بچا لیا ورنہ وہ کیا جواب دیتے۔ پھر رخسانہ کی نظر ان پر پڑی تو۔۔۔ آنکھیں بڑی بڑی کر کے بولی۔۔۔" فرہاد بھائی، آپ جا کر نگار کو گھر سے لائے کیا؟ واہ واہ کیا بات ہے، اتنی بیقراری!"۔


فرہاد اس غیر متوقع شرارت سے گڑبڑا گئے کہ کیا بول رہی ہے یہ لڑکی؟ نگار تو شرم سے لال ہوئے جارہی تھی اور فرہاد بھی شرما کے وہاں چلے گئے۔ پھر رخسانہ اور نگار کلاس کی طرف جانے لگیں۔ نگار نے اس کو ڈانٹ لگائی کہ وہ کیوں فرہاد کو پریشان کررہی تھی؟ کیا سوچتے ہونگے بیچارے؟ دیکھا کیسے غصے سے چلے گئے؟ رخسانہ نے کہا۔۔۔" ارے میری جان! تو نہیں جانتی دو دن سے فرہاد میاں۔۔۔ مجنوں بنے پھر رہے تھے، گم صم، پریشان پریشان، کسی سے بات چیت نہیں کررہے تھے، شاید تجھے بہت مس کررہے تھے"۔ نگار نے اس کو چپت لگا دیا۔۔۔ "کیا کیا بولتی رہتی ہے؟ وہ کیوں مجھے مس کریں گے؟ " رخسانہ نے کہا کہ۔۔۔" میں سچ کہہ رہی ہوں نگار۔۔۔ تم مانو یا نہ مانو۔۔۔ تم دونوں کو پیار ہوگیا ہے۔ اور پتا ہے یہ بات پورے کالج کو پتہ ہے مگر تم دونوں کو پتہ نہیں"۔
نگار۔۔۔ حیرت زدہ اس کو گھورے جارہی تھی۔ کیا کہہ رہی ہے رخسانہ؟ پورے کالج میں دونوں کو لے کر یہ سب باتیں ہورہی ہیں۔ یااللہ۔۔۔ اب کیا ہوگا؟ کیا فرہاد کو بھی یہ سب افواہ کے بارے میں پتا ہے؟ ان کے برتاؤ سے تو ایسا نہیں لگتا کہ وہ یہ سب جانتے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو کیا وہ اس کو دیکھ کر بھاگ کر آتے اور اس کی خیریت پوچھتے؟ کلاس میں بھی دوسری کلاس فیلو اس کو شرارتی انداز سے دیکھنے لگیں تو نگار ایک بار پھر اپنے آپ میں سمٹ گئی۔ اس کو لگا۔۔۔ ہر لڑکی کی نظر اس سے سوال کررہی ہے، اس کے دل کا چور پکڑا گیا ہے۔ وہ سب کی نظر بچا کر لڑکوں کی سیٹ کی طرف دیکھنے لگی اور اتفاق سے ٹھیک اسی وقت فرہاد بھی اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دونوں کی نظر آپس میں ٹکراگئیں اور نگار نے شرما کے نظریں جھکا لی۔ نظروں کی رفاقت نے۔۔۔ ایک دوسرے کی محبت کی تصدیق کردی۔۔۔!!


یہ محبت بھی عجیب چیز ہے نا؟ کب ،کہاں اور کس سے ہوجائے۔۔۔ کوئی کہہ نہیں سکتا۔ سنا ہے لیلیٰ سانولی تھی مگر قیص کو اتنی بھاگئی کہ اس کے لئے صحرا کی خاک چھاننے لگا اور۔۔۔ مجنوں بن گیا۔ فرہاد کو تیشا پکڑا دیا پہاڑ سے دریا بہا دینے کے لئے اور۔۔۔ سوہنی کو مٹی کے گھڑے سے چناب پار کرنے کی ہمت بھی اسی محبت نے دی۔ اس محبت نے کتنوں کا خانہ خراب کیا ہے۔۔۔ زندگی کو عذاب بنا دیا ہے اور اسی محبت نے ہی شہزادی کو غلام کے عشق میں پاگل اور۔۔۔ مہہ جبیں جیسی شادی شدہ کو۔۔۔ شاہ جہاں کی ممتاز محل بنا دیا۔اور اس نے اپنی محبت کی نشانی۔۔۔ تاج محل۔۔۔دنیا کو بطور تحفہ دیا کہ دیکھو جس سے محبت کی جائے اس کے لئے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، تخت و تاج چھوڑے جاسکتے ہیں، رسم و رواج موڑے جاسکتے ہیں مگر محبت چھوڑی نہیں جاتی۔


فرہاد اور نگار۔۔۔ کالج میں، کینٹن میں، لائبریری میں۔۔۔ ہرجگہ مرکز گفتگو بن گئے تھے۔ دونوں کی محبت کے چرچے ہر طرف ہو رہے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ۔۔۔ کالج میں پہلی بار کسی لڑکالڑکی نے محبت کی تھی۔ کئی جوڑے ایک دوسرے کی محبت میں چور تھے مگر فرہاد اور نگار کی محبت کے چرچے اس لئے ہو رہے تھے کہ۔۔۔ وہ ابھی تازہ تازہ لوبرڈس (Love Birds) بنے تھے۔ کچھ دن یہ بات سب کی زبان پہ رہی اور پھر سب اپنی اپنی دنیا میں کھو گئے۔ فرہاداور نگار بھی ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔ ان کو کسی افواہ کی فکر نہیں تھی کیونکہ ان کو پتا تھا کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہے ہیں تو پھر۔۔۔کیوں کسی سے ڈریں؟ محبت کرنا کوئی جرم تو نہیں۔۔۔کوئی گناہ تو نہیں؟!


مگر ان کی محبت بھی عجیب تھی۔ ان کی محبت کی کہانی پورے کالج میں ہاٹ ٹاپک بنی ہوئی تھی مگر وہ دونوں آج تک ایک دوسرے سے کوئی عہد و پیماں نہیں کئے۔ دونوں میں ایجاب و قبول بھی نہیں ہوا تھا۔۔۔ نا فرہاد نے اس کو پرپوز کیا اور نہ نگار نے کبھی اس بات کا انتظار کیا۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، ساتھ گھومتے تھے، کینٹن میں ساتھ کھاتے تھے، نگار گھر سے طرح طرح کے پکوان بنا کے لاتی تھی فرہاد کے لئے اوردونوں لنچ (Lunch) ساتھ کرتے تھے۔۔۔ وہ مزے مزے سے کھاتے تھے اور تعریف کرتے تھے مگر کبھی۔۔۔ آئی لو یو نہیں کہا۔ کبھی نگار سے یہ نہیں بولے کہ۔۔۔ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور اگر آپ ہمیں نہیں ملیں تو ہم مر جائیں گے۔ نگار بھی لڑکی تھی اور اس کا د ل بھی چاہتا تھا کہ اس کا محبوب بھی۔۔۔ دوسرے لڑکوں کی طرح اظہارِ محبت کرے، اس کے لئے جینے مرنے کی قسمیں کھائے مگر ہائے افسوس۔۔۔ میرا صنم سب سے نیارا ہے والی بات تھی۔ دونوں طرف سے خاموشی تھی اور محبت۔۔۔ روح کی گہرائی میں اترگئی تھی!


ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں کی محبت پروان چڑھ رہی تھی۔ دونوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا بھی بہت خیال رکھا تھا۔ ہر ویک اینڈ میں دونوں کبھی۔۔۔ محبوب الٰہی ؒ کے دربار میں چلے جاتے تو کبھی لودھی گارڈن تو کبھی لال قلعہ یا قطب مینار۔ کبھی درگاہ تو کبھی بازار۔۔۔ کبھی چاندنی چوک تو کبھی پرگتی میدان۔۔۔ کبھی انڈیا گیٹ تو کبھی لوٹس ٹیمپل۔۔۔ ہر جگہ انہوں نے اپنی محبت کی یادیں نقش کردیئے تھے۔ دونوں ایک دوجے کی سنگت میں بیحد خوش تھے، جدائی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ زندگی بڑی رومانی ہوگئی تھی۔۔۔!!


محبت میں شب و روز پر لگا کر اڑنے لگتے ہیں۔ محبت کے متوالوں کو دن اور تاریخ کا ہوش ہی نہیں رہتا ہے۔ دن چھوٹا اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں۔ دن چشم زدن میں ختم ہوجاتے ہیں اور پتہ ہی نہیں چلتا کب ہفتہ مہینے میں اور مہینہ سال میں بدل جاتا ہے۔ فرہاد اور نگار دونوں کو کچھ ہوش نہیں تھا، جب سالانہ امتحان کے پروگرام کا اعلان ہوا تب انہیں احساس ہوا کہ۔۔۔ تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔پھر دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ گھومنا پھرناکم کرکے اپنی پڑھائی پہ دھیان دینگے۔ اگر اچھے نمبروں سے پاس نہیں کیا تو پھر گھر والوں کو کیا منھ دکھائیں گے؟ اور دونوں نے امتحانات کی تیاری میں راضی بہ رضا۔۔۔ یہ خود ساختہ جدائی۔۔۔ برداشت کرلی۔ دونوں روز ایک دوسرے سے ملتے تھے، خیر و عافیت پوچھتے تھے اور پھر پڑھائی میں مشغول ہوجاتے تھے۔


امتحانات کے ختم ہونے کے بعد۔۔۔ مہینے بھر کے لئے کالج کی چھٹی ہوگئی۔ فرہاد کو احساس ہوا کہ جب سے نگار سے دوستی ہوئی ہے انہوں نے حیدرآباد کا دورہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے امی ابو کو۔۔۔ امتحان کی تیاری کا بہانا بنا دیا تھامگر اب امتحان کے ختم ہونے کے بعد ان کو جانا ہی تھا۔ اب کیا بہانہ کرتے؟ ویسے بھی ان کو گھر جانے کی ضرورت تھی کیونکہ انہوں نے سوچا تھا کہ اب کی بار امیّ سے نگار کے بارے میں ذکرکریں گے۔ مگر نگار کی حالت غیر تھی۔۔۔ کالج بند ہو جائے گا، فرہاد اپنے گھر چلے جائیں گے تو اس کا کیا ہوگا؟ وہ کیسے یہ دن رات کاٹے گی؟اس نے تو چھوٹی جدائی برداشت کرلی تھی کیونکہ روز ملاقات ہوجاتی تھی، ایک دوسرے سے بات ہوجاتی تھی مگر اب فرہاد اس سے دور چلے جائیں گے، تو کیسے ان سے بات کریگی۔ گھر میں فون تو ہے مگر۔۔۔ وہ اباکے کمرے میں ہے۔ وہ کیسے وہاں کھڑی ہوکر فرہاد سے راز و نیاز کی باتیں کریگی۔ اگر باہر سے فون بھی کریگی تو کیا پتا۔۔۔ فرہاد گھر پہ نہ ہوں اور فون ان کی امی یا ابو اٹھا لیں تو وہ کیا کہے گی؟ ایسے ہی طرح طرح کے خیالات سے وہ پریشان پریشان تھی۔ جدائی کا اصلی درد اب محسوس ہو رہا تھا۔۔۔!!


رابطہ مصنف منیر ارمان نسیمی (بھدرک، اوڈیشہ)
Munir Armaan Nasimi
Chota Shakarpur, Bhadrak - 756100. Odisha.
Mobile: +919937123856
WhatsApp: +919090704726
Email: armaan28@yahoo.com / armaan28@gmail.com

Novel "Thank you...CORONA" by: Munir Armaan Nasimi - episode:3

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں