لالہ جگت نرائن - ہندی کا پرستار اردو کا خادم - از جی ڈی چندن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-15

لالہ جگت نرائن - ہندی کا پرستار اردو کا خادم - از جی ڈی چندن

لالـہ جگت نرائن کی کہانی جو 31/مئی 1899 میں وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ (اب پاکستان میں ہے) میں پیدا ہوئے ایک ایسی حقیقت ہے جو افسانے سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔


لالہ جگت نرائن نے لاہور کے ڈی اے وی کالج سے بی۔اے۔ کیا جو اپنے طلبا میں ہندی زبان سے محبت پیدا کرتا ہے۔ 1924 میں اپنے کیرئر کا آغاز بھائی پرمانند کے ہندی ہفت روزہ اخبار "آکاش بانی" لاہور میں شرکت سے کیا اور پھر کچھ برس بعد لاہور ہی میں "شری ورجانند پرنٹنگ پریس" قائم کیا جہاں بیشتر ہندی کتب کی طباعت ہوتی تھی۔
1947 میں ملک تقسیم ہوا تو وہ ہجرت کر کے جالندھر آ گئے جہاں کچھ عرصہ بعد انھوں نے ایک ایسی تحریک میں حصہ لیا جو مشرقی پنجاب میں ہندی کے تحفظ کے لیے تھی۔ اس کی وجہ سے انھوں نے جیل کی قید بھی کاٹی۔ بعد میں جب خالصتانی انتہا پسندوں نے انھیں گولیوں سے ہلاک کر دیا (بتاریخ: 9/ستمبر 1981ء) تو اس کی وجہ بھی انتہا پسندوں کا یہ شک تھا کہ وہ ان کے مسلک کے مخالف ہیں۔ لیکن لالہ جی کی گوناگوں زندگی کا ایک نہایت تابندہ ورق ، جو آج بھی درخشاں ہے ، وہ اردو روزنامہ "ہند سماچار" کا اجرا تھاجو ان کی زندگی ہی میں ملک کا سب سے زیادہ چھپنے والا اردو روزنامہ بن گیا۔


جب 9/ستمبر 1981 کو لدھیانہ کے نزدیک جرنیلی سڑک پر انتہا پسندوں نے لالہ جی کو قتل کیا اس وقت ان کی عمر 82 سال تھی۔ ان 82 برسوں میں 48 سال وہ اپنے وطنِ پیدائش (جسے اب پاکستان کہتے ہیں) میں رہے اور باقی 34 سال ہندوستان میں۔ ان 34 میں سے 33 سال وہ ہند سماچار کے ایڈیٹر ہے۔ جو انھوں نے مئی 1948 میں جاری کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے جالندھر ہی سے 1965 میں ایک ہندی روزنامہ "پنجاب کیسری" اور 1978 میں ایک پنجابی روز نامہ "جگ بانی" جاری کیے۔ وہ اردو کے کوئی عالم نہیں تھے لیکن اپنے اردگرد کے حالات کا گہرا شعور کھتے تھے۔
ملک کی تقسیم اور لاکھوں لوگوں کی ہجرت کے بعد جالندھر نہ صرف نئے منقسم پنجاب کا ، جسے ان دنوں 'مشرقی پنجاب' کا نام دیا گیا، عارضی صدر مقام بلکہ صحافتی دارالخلافہ بھی تھا۔ متحدہ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور کے ، جو متحدہ ہندوستان کے اردو پریس کا ایک زبردست مرکز تھا، ہندو اور سکھ ملکیت کے بہت سارے اخبارات ہجرت کر کے جالندھر آ گئے تھے۔


1950 میں مشرقی پنجاب کے اردو روزناموں کا مجموعی سرکولیشن 81,800 تھا۔ حکومت ہند کے ایک گائڈ کے مطابق یہ عدد ملک کی ہر اس ریاست سے زیادہ تھا جہاں سے اردو اخبار چھپتے تھے۔ سکھ ملکیت کے روز نامہ "اجیت" کا، جو بیک وقت جالندھر اور امرتسر سے شائع ہوتا تھا ، سرکولیشن ریاست کے تمام اردو اخباروں میں سب سے زیادہ تھا۔ اس کا عدد 14,986 تھا۔
ریاست میں اردو کے کل دس روزنامے تھے جن میں بیشتر جالندھر ہی سے چھپتے تھے۔ امر واقعہ یہ تھا کہ اس وقت اردو پریس ہی ریاست کا سب سے موثر لسانی پریس تھا اور اس وقت اس ریاست میں وہ علاقے بھی شامل تھے جو 1966 میں ہریانہ اور ہماچل پردیش کی الگ ریاستیں قرار دیے گئے۔ پھر جالندھر کے اخبار پیپسو [PEPSU] میں بھی دور دور تک پڑھے جاتے تھے۔
یہ علاقہ (پیپسو) ان آٹھ دیسی ریاستوں کا مجموعہ تھا جن کا انضمام 1948 میں کر دیا گیا تھا۔ اس میں پٹیالہ، نابھ (Nabha) ، جیند (Jind) ، فرید کوٹ ، کپورتھلہ ،کلسیا (Kalsia) ، نالہ گڑھ (Nalagarh) اور مالیرکوٹلہ شامل تھے۔
پھر جالندھر کے اردو اخباروں کی طلب جموں و کشمیر ، راجستھان اور اتر پردیش کے نواحی اضلاع میں بھی تھی۔


ہند سماچار نے اپنا آغاز تین ہزار کے قلیل سرکولیشن سے کیا۔ اس کے اجرا کے وقت لالہ جگت نرائن جو گاندھیائی خیالات کے ایک آزمودہ مجاہد آزادی تھے، پنجاب پردیش کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن تھے۔ بعد میں 1952 میں وہ شری بھیم سین سچر کی کابینہ میں تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور صحت کے امور کے وزیر مقرر ہوئے۔
لیکن ان تمام عہدوں نے ہند سماچار کی ابتدا کو حیرت انگیز نہ بنایا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ مقامی اخبارات پرتاپ، ملاپ، ویر بھارت، اجیت اور پربھات جیسے قدیم روزناموں کے علاوہ 'شیر بھارت' اور 'جے ہند' ایسے نئے روزناموں سے بھی مرعوب تھا (ان میں سے اکثر اخباراب بند ہو چکے ہیں)۔
1956 میں لالہ جی کانگریس سے مستعفی ہو گئے اور پھر ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی اور پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) کے انتخابات جیتے۔ ان کی آزادی ، ان کے اخبار کی تحریروں میں بہت نمایاں ہوئی جو اب حکومت نواز نہ رہا۔


ان کا ہاتھ بٹانے والوں میں ان کے دو نوجوان بیٹے شری رومیش چندر اور شری وجے کمار سرفہرست تھے۔ اخبار کے اجرا کے وقت بڑے بھائی رومیش کی عمرقریباً 22 سال اور چھوٹے بھائی وجے کی عمر قریب سولہ سال تھی۔


بڑا بیٹا والد ہی کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔ والد ہی کی طرح وہ بھی ڈی اے وی کالج لاہور سے گریجویشن (بی ایس سی ) کرنے کے بعد مہاتما گاندھی کی 'کوئٹ انڈیا تحریک' میں جیل کاٹ رہا ہوا تھا اور چھوٹے نے ڈی اے وی کالج جالندھر میں 1956 میں داخلہ لیا تھا۔ بہر حال 1956 تک دونوں کل وقتی طور پر 'ہند سماچار' سے وابستہ ہو گئے تھے۔
خود اخبار بھی اپنے مقامی ہم عصروں سے مقابلے کی تیز دوڑ میں شامل ہو چکا تھا۔ ان دونوں نے کسی اردو نصاب کی سبقاً سبقاً تعلیم نہیں پائی تھی لیکن ان کے والد کی رہنمائی اور اخبار کی براہ راست ذمے داری نے انھیں ضابطے کے نصاب کے بجائے عملی تعلیم اور کام کی اونچ نیچ سے بہرہ ور کر دیا تھا۔ حقیقتاً رومیش 1952 سے اخبار کا نائب مدیر اور کچھ برس بعد سے اس کا منیجر اور کمپنی سکریٹری تھا۔


اخبار ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا۔ اب حالات اور مسائل بھی بدل گئے تھے۔ ابتدا میں اسے بے گھر لوگوں کے مسائل سے سابقہ تھا جن کی نمائندگی میں پرتاپ، ملاپ، ویر بھارت، اجیت اور پربھات جیسے مقامی ہمعصر اخبارات زیادہ جوشیلے تھے کیوں کہ وہ خود بھی لاہور سے بے گھر ہوکر آئے تھے۔
1955 میں ریاستوں کی تنظیم نو کے کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی۔ اس میں مشرقی پنجاب کی مزید تقسیم کی حمایت نہ کی گئی۔ اس کے برعکس اس میں یہ سفارش کی گئی کہ پیپسو اور ہماچل پردیش کو جسے 1953 میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت جداگانہ درجہ دیا تھا، مشرقی پنجاب میں ضم کر دیا جائے۔
پنجابی صوبے کے علم برداروں نے اس رپورٹ کو منظور نہ کیا اور لسانی بنیاد پر مشرقی پنجاب کی تشکیل نو کے لیے تحریک شروع کر دی۔ اس سے ریاست کی سیاسیات کی ترجیحات بدل گئیں اور بحالی کے مسئلے کی اولیت معدوم ہو گئی۔ 'ہند سماچار' نے مشرقی پنجاب کی مزید تقسیم کی قدرے شدت سے مخالفت کی ۔اس کی تحریروں سے بڑی گرمی اور حرارت پیدا ہوئی ۔1957 میں اس کا سرکولیشن 5440 تک بڑھ گیا۔ یہ عدد مقامی "پرتاپ" (12325) اور "ملاپ" (9336) کے بعد تیسرے نمبر پر تھا۔
یہ رفتارِ ترقی بڑھتی رہی۔ 1966 میں مشرقی پنجاب کی لسانی بنیاد پر تشکیل نو ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں غیر پنجابی اضلاع اس سے الگ ہو گئے اور وہ ہریانہ اور ہماچل کے نام سے دو نئی ریاستیں بن گئیں۔ البتہ پیپسو کو نئے پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔
بہرحال اس تشکیل نو میں لسانی پریس کے مرتبے میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔ حسب سابق اس پریس کا اجتماع جالندھر ہی میں رہا۔ ریاست کی لسانی تحریک میں لالہ جگت نرائن کی عملی شرکت کی وجہ سے "ہند ساچار" کی کشش اور اہمیت میں اضافہ ہو گیا تھا۔


1966 میں اس کا سرکولیشن تمام مقامی ہم عصروں سے بڑھ گیا اور یہ 17,623 ہو گیا۔ یہ عدد اس کے ابتدائی عدد سے چھ گنا زیادہ تھا۔
1971 میں میں یہ اخبار پورے ملک کا سب سے زیادہ چھپنے والا اردو روزنامہ بن گیا۔ اس بلندی سے یہ تادمِ تحریر نیچے نہیں اترا بلکہ 1976 میں پچاس ہزار کی حد پار کر کے یہ "بڑے" اخباروں کے زمرے میں شامل ہو گیا۔ اس سال اس کا سرکولیشن 52,697 تھا۔ یوں ہندوستان کا واحد "پڑا" اردو روزنامہ کہلایا۔ 1981 میں یعنی لالہ جی کی شہادت کے سال میں اس کا سرکولیشن 68,773 تھا۔


یہ ترقی صرف اشاعت کی تعداد تک ہی محدود نہیں تھی ، اس کی وسعت اخبار کے دوسرے پہلوؤں تک بھی پہنچی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لالہ جی کا مقصد ملک کے سامنے ایک مثالی اردو اخبار پیش کرنا تھا۔ اس کی خبروں کے لیے انھوں نے نہ صرف معیاری ایجنسیوں کی سروس حاصل کی بلکہ دور دراز تک اپنے نامہ نگاروں اور نمائندوں کا ایک ایسا جال بچھایا جن کی مدد سے وہ جگہ جگہ کی خبروں سے مالامال ہو گیا۔ پھر انھوں نے اس کے لیے اردو اور انگریزی کے ممتاز کالم نگاروں اور قلم کاروں کا اشتراک حاصل کیا۔ خیالات کے لحاظ سے لالہ جی نے قوم پرست اور سیکولر انداز نظر روا رکھا جس سے اس میں ہر فرقے کے خیالات کو جگہ ملی۔ تکنیکی لحاظ سے انھوں نے جدید ترین تدبیروں سے کام لیا۔ چنانچہ "ہند سماچار" پہلا اردو روزنامہ تھا جس نے اپنے اوراق میں چار رنگوں کی طباعت پیش کی اور واحد اردو اخبار بنا جو ہفتے میں تین دن (منگل، جمعرات اور اتوار ) کو رنگین ایڈیشن شائع کرتا ہے۔


1966 تقسیم کے بعد پنجاب ایک لسانی (پنجابی) ریاست ہے۔ 1981 کی مردم شماری کے اعتبار سے وہاں 84.88 فی صدلوگ پنجابی بولتے ہیں اور 14.60 فیصد ہندی۔ اردو اب وہاں ایک داستان پارینہ ہے لہذا ایک اردو اخبار کی اشاعت کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے لیکن اپنے والد کی خواہش کے احترام سے، ان کے دونوں بیٹوں نے اخبار کی برقراری کے لیے جوش اور جذبے سے کام کیا ہے۔ ان ہی کی کوششوں کی بدولت اخبار میں اب مشینی طریقے سے کمپوزنگ ہوتی ہے۔ یہ وہ طریقۂ عمل ہے جو اسی (80ء) کے دہے کے اوائل تک اردو دنیا کے لیے ایک ناممکن بات تصور کی جاتی تھی۔ کیوں کہ اس زبان کے ان گنت جوڑوں کو مشین کے کل پرزوں سے آپس میں ملانا محال تھا۔


12/مئی 1984 کو رومیش چندر کو بھی خالصتانی انتہا پسندوں نے گولیوں سے بھون دیا۔ لیکن چھوٹے بھائی وجے نے والد کی خواہشات کو برابر پیش نظر رکھا اور مونو ٹائپ لیزر کو کمپیوٹر کے نستعلیق فوٹو ٹائپ سیٹنگ کے جدید طریقے سے کام لیتے ہوئے اخبار میں کمپیوٹری نظام رائج کیا۔ اب "ہند سماچار" کا نوے فیصد حصہ فوٹو کمپوز ہوتا ہے۔ اس پرقریباً ایک کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ لیکن اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اردو صحافت کاتب اور لیتھو کی پریشان کن اور ہمت شکن اسیری سے آزاد ہو سکتی ہے۔ نیا طریقہ بہت گراں بار ہے لیکن اس شعبے میں مزید تجربے ہو رہے ہیں۔ لہذا آنے والے برسوں میں اس کی لاگت اور اخراجات میں اصلاح ہونے کی توقع ہے۔


جالندھر کے تقریباً تمام سرکردہ اردو روزنامے اندرون ریاست عدم پذیرائی اور دیگر پیشہ ورانہ مشکلات کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ ان مشکلات میں اب ایک اور مسئلہ یہ بڑھا ہے کہ خالصتانی انتہا پسند ان کی تقسیم میں مہلک رخنے ڈالتے ہیں اور اخباروں کے عملے کو قتل کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ریاست کے قدیم ترین اردو روز نامہ "پرتاپ" نے پچھلے سال دسمبر کے آخر میں اپنی اشاعت عارضی طور معطل کر دی تھی۔ "ہند سماچار" کی حالت آج ایک گل صحرائی کی ہے لیکن یہ پودا لالہ جگت نرائن مرحوم کی یادگار ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کب تک زندہ رہے گا لیکن یہ حیات ہو یا مرحوم ، اس کا مرتبہ اردو صحافت کے ایک عظیم قصے کے طور پر قائم رہے گا۔

ہند سماچار (اردو) آج بھی تین مقامات سے شائع ہو رہا ہے: جالندھر، چندی گڑھ اور جموں۔
اسی طرح روزنامہ "پرتاپ" دہلی سے بپابندی آج بھی شائع ہو رہا ہے۔
***
ماخوذ از کتاب: اردو صحافت اور صحافی (جی ڈی چندن کی نایاپ تحریریں)۔
مرتب: عمران عاکف خان۔ زیراہتمام: تنظیم ترقی اردو، مہاراشٹرا۔ سن اشاعت: دسمبر 2020ء

Lala Jagat Narain, the founder of Hind Samachar Urdu. Article: G.D. Chandan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں