ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ طرزِ معاشرت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-28

ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد اور مشترکہ طرزِ معاشرت

hindu-muslim-unity-and-india-common-culture

سماجی کے لغوی معنی گروہ، انجمن یا اجتماع کے ہیں جس سے مراد باہم مل جل کر رہنا ہے۔ ایسے انسانی گروہ یا اجتماع کو عربی میں معاشرہ اور انگریزی میں سوسائٹی جیسے ہم معنی الفاظ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ سماجی زندگی کی زیب و زینت چونکہ افراد سے ہوتی ہے، اس لئے عوام کے انفرادی مفاد میں اشتراک کا احساس سماج کی تنظیم کا محرک اور انفرادی اور مجموعی مفاد میں تصادم سماجی مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔


سماجی زندگی کی بنیاد خاندانوں کے وجود میں آنے سے پڑی، چند خاندانوں نے مل کر گاؤں کی بنیاد رکھی۔ گاؤں سے ترقی کرتے کرتے شہر اور ملک وجود میں آئے۔ جیسے جیسے انسانی گروہوں میں وسعت پیدا ہوتی گئی ، سماج کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ اس لحاظ سے سماج کو انسانی گروہوں کے ایک ایسے عجائب خانے سے تعبیر کیاجاسکتا ہے جس میں لوگ مل جل کر رہتے اور باہم بھائی چارے استوار کرتے ہیں۔ افراد سے گہرے تعلقات کی بنا پر سماج اور افراد کو ایک ہی سکے کے دو رخ کہاجاسکتا ہے۔ کیونکہ خاندان کے افراد میں ہر چھوٹا بڑا مرد اور عورت باہمی اتحاد کی فطری بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے۔ والدین بچوں کی پرورش کرتے اور تعلیم دلاکر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بناتے ہیں، اولاد بھی بڑھاپے میں والدین کو ہر ممکن آرام پہنچانا اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ہے۔ مجموعی مفاد کے پیش نظر فرائض کی انجام دہی کے اسی احساس پر سماجی زندگی کا انحصار ہے۔


اتحاد کے اس جذبے کا احساس انسان کو بچپن ہی سے ہونے لگتا ہے۔ کھلونوں اور ہم جولیوں کی رفاقت کے بعد اسکول، کالج، یونیورسٹی جیسے تعلیمی اور دیگر سماجی اداروں میں باہمی میل جول کا جذبہ اس کے لئے روحانی مسرت کا باعث بن جاتا ہے۔ اور وہ دوسروں سے یگانگت کے رشتے استوار کرنے میں ہی اپنی بہتری سمجھنے لگتا ہے۔


متعدد انسانی گروہوں کو ایک مخصوص نظام حیات کے تحت لانے کے لئے مختلف شعبوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ شعبوں کی تقسیم ان کے بنیادی کاموں کے تحت کی جاتی ہے۔ اس سے سماج میں خاندان، اسکول ، کالج، یونیورسٹی جیسے ابتدائی اداروں کے علاوہ مندر، مسجد، گرجے ، گرودوارے وغیرہ کئی مذہبی ادارے، ٹریڈ یونین، مزدور یونین کسان سبھا جیسے اقتصادی اور کاروباری ادارے، کانگریس ، جن سنگھ، سوشلسٹ کیمونسٹ پارٹیوں جیسے سیاسی ادارے اور اسی طرح متعدد ادبی اور تفریحی ادارے بھی وجود میں آتے ہیں۔ لیکن یہ تمام ادارے بذات خود سماج کا درجہ نہیں رکھتے۔ وسیع معنوں میں سماج ایک ایسا بڑا ادارہ ہے جس میں کسی مخصوص آبادی کے مذکورہ بالا نوعیت کے چھوٹے بڑے کئی گروہ شامل ہوتے ہیں اور ان کے افراد باہمی میل جول اور بھائی چارے کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں۔


آغاز کار میں انسانوں کی کسی بھی بڑی تعداد کو جو ایک مخصوص علاقے میں رہتی تھی ، سماج کہاجاتا تھا ، جیسے جیسے دیہاتی زندگی سے ترقی کرکے لوگ شہر آباد کرتے گئے ویسے ویسے شہری زندگی میں آرام و آسائش کے وسائل کی وجہ سے ترقی یافتہ انسانی جماعت کو سماج کہاجانے لگا، موجودہ دور میں شہروں سے دور گاؤں بھی ایک بڑیے سماج کا اٹوٹ حصہ سمجھے جاتے ہیں اس لحاظ سے سماج ایک ایسے بڑی انسانی گروہ کو کہتے ہیں جو متعدد انسانی جماعتوں، طبقوں اور گروہوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق کسی مخصوص علاقے میں ایک مخصوص سیاسی اور معاشی نظام کے تحت رہتا ہو اور اس کے افراد ایک مدت سے باہمی رنج و راحت میں شریک رہے ہوں۔


ہندو اور مسلمان طلبا مشترکہ مدرسوں اور اسکولوں میں تعلیم پاتے تھے ، عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ انہیں سنسکرت اور ہندی زبانوں کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مشترکہ تعلیم نے دونوں کو بچپن سے ایک مشترکہ طرز معاشرت کو اپنانے کی ترغیب دی۔ ہندو مسلم عوام کی درگاہوں اور خانقاہوں میں یکساں عقیدت کے احساس نے صوفیوں اور پیروں کو تبدیلی مذہب کے بغیر ہندوؤں کو مرید بنانے پر آمادہ کیا اس طریق کار نے دونوں فرقوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے نزدیک تر کردیا۔


شروع شروع میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے عام کھانے پینے اور پکوان وغیرہ کے طریقوں میں بہت اختلاف تھا۔ قدیم زمانے سے ہندوؤں کی عام خوراک چاول اور گیہوں رہی ہے جن سے وہ مختلف اقسام کے کھانے تیارکرتے ہیں۔ سیدھے سادے طریقے سے ابالے گئے چاولوں کو بھات کہتے ہیں، جسے دال کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
دال اور چاول یک جا ملاکر پکائے گئے کھانے کو کھچڑی اور دال کی بجائے دودھ اور شکر ملا کر پکائے گئے چاولوں کو کھیر کہتے ہیں۔ ہندوؤں کے کچھ فرقے گوشت کھاتے اور بہت سے اس سے پرہیز کرتے تھے۔ جب کہ مسلمانوں کی مرغوب غذا گوشت ہی تھی۔
جیسے جیسے یہ دونوں فرقے ایک دوسرے کے قریب آتے گئے دونوں کے کھانے پینے کی چیزوں میں مماثلت پیدا ہوتی گئی۔ مسلمانوں نے چاول اور گوشت کو یک جا کر کے خشکہ ، قبولی، زردہ، بریانی، قیمہ ، پلاؤ، قیمہ شلہ، ایرانی پلاؤ، کوکو پلاؤ، کوکو قیمہ پلاؤ، موتی پلاؤ، پلاؤ انار دانہ، نورتن پلاؤ ، نرگس پلاؤ ، مرغ پلاؤ، سہ رنگا پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، انگوری پلاؤ، نارنج پلاؤ، فالسی پلاؤ ،قورمہ پلاؤ، مٹر پلاؤ، گری پلاؤ، مچھلی پلاؤ ، وغیرہ کئی کھانے ایجاد کئے جو اکثر ہندو گھرانوں میں بھی بڑی شوق سے پکائے اور کھائے جانے لگے۔


گیہوں کے آٹے سے بھی مسلمانوں نے چکھی، تھولی، بادنجان، کشک، قطاب، تنوری، تنک ، تابکی جیسے نمکین پکوانوں کے علاوہ شیر مال باقر خانی، کلچے، تافتان ، آبی وغیرہ قسم کی روٹیاں ایجاد کیں۔
روٹیوں اور چپاتیوں کے علاوہ ہندو لوگ دعوتوں میں پوری، کچوری، لیچوی، نون بری وغیرہ بناتے تھے۔ ہندوؤں کو گیہوں کے آٹے کی پوریاں وغیرہ تلتے دیکھ کر مسلمانوں نے توے کی روٹیوں پر گھی لگا کر کئی قسم کے لذیذ کھانے تیار کئے اور انہیں پراٹھے کہا جانے لگا۔ یہ پراٹھے اکثر گول، مثلث، چوکور وغیرہ کئی شکلوں کے بنائے جاتے تھے اور ورقی، بیگماتی، مغلئی، حیدرآبادی، پشاوری ، پھینی ، پنیری پراٹھے جیسے مخصوص ناموں سے موسوم کئے جاتے تھے۔
ہندوؤں کے ہاں آٹے کے میٹھے پراٹھے ، محبوبی نان، جلیبی وغیرہ کے علاوہ میٹھے سموسے بھی گیہوں کے آغے سے تیار کرنے شروع کئے۔ رفتہ رفتہ ہندو بھی ان سب کھانوں کو مزے لے لے کر کھانے لگے۔ ہندو چاولوں میں صرف شکر اور دودھ ڈال کر کھیر بناتے تھے۔ مسلمان نے چاولوں میں گھی اور میوے ڈال کر زردہ، مزعفر سفیدہ، متنجن وغیرہ کئی قسم کے کھانے ایجاد کئے جو بلا لحاظ مذہب و ملت مرغوب ہندوستانی کھانے تصور کیے جاتے ہیں۔


سبزیاں مسلمانوں کے ہاں کم پکتی تھیں لیکن ہندوؤں کی دیکھا دیکھی ان کی طبیعت بھی سبزیوں، ترکاریوں کی طرف مائل ہوئی۔ دال ایک خالص ہندوستانی چیز ہے جو ہندوؤں کے ہاں بہت اچھی طرح پکائی جاتی تھی۔ ہندوؤں کے ساتھ گھل مل جانے سے دال نہ صرف مسلم عوام بلکہ بادشاہوں کے درباروں تک میں بھی بار پانے لگی اور رفتہ رفتہ ہمارے مشترکہ کھانوں کا اہم جز بن گئی۔ مونگ کی دال بہادر شاہ ظفر کو بہت پسند ہونے کی وجہ سے "شاہ پسند" کہلاتی تھی۔ ایک دفعہ جب بادشاہ موصوف نے مرزا غالب کو یہی دال تحفے کے طور پر بھیجی تو انہوں نے شکریہ کے طور پر مندرجہ ذیل رباعی کہی ؎


بھیجی ہے جو شہ ذی جاہ نے دال
ہے لطف و عنایات شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جدال
ہے دولت و دیں و آتش و داد کی دال


مٹھائیاں جو خاص طور پر ہندوؤں کے ہاں بکثرت بنتی تھیں کھانے میں بہت لذیذ ہوتی تھیں۔ امرتی، سندیش، چم چم ، رس گلا، موہن بھوگ ، لونگ لتا، چندر کلا، رس ملائی ، مہی دانے ، مگدل، کھیر موہن ، گھیور، پیڑے، تلکٹ، کھرچن جیسی مٹھائیاں جتنی لذیذ ہندو بنا سکتے ہیں اتنی مسلمان نہیں بنا سکتے۔ تاہم مسلمان بھی ان تمام مٹھائیوں کو بڑی رغبت کے ساتھ کھاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں نے خود بھی مٹھائیاں تیار کرنی شروع کیں اور جلیبی، برفی، قلا قند ، گلاب جامن ، بالو شاہی، مگوچھی، خرمے، موتی چور کے لڈو، اور ریوڑی بتاشے جیسی خشک مٹھائیاں ہندوستانی سماج کے کھانوں کا اس طرح جزو بن گئی ہیں کہ ہندوؤں یا مسلمانوں کی مخصوص اختراعات میں تمیز کرنا دشوار ہے۔


حلوا، سویاں، فیرینی ، فالودہ، وغیرہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان پہنچے۔ رہڑی، دہی، لسی، میٹھا، رائتہ، مکھن وغیرہ ان سے پہلے ہندوؤں کے ہاں عام استعمال ہوتے تھے۔ باہمی میل جول سے یہ سب بھی ہندوستانی کھانوں کی حیثیت سے ہمارے مشترکہ کھانوں میں شمار ہونے لگے۔ اسی طرح مربے وغیرہ بھی خاص کر مسلمانوں کے دستر خوانوں کی چیز رہے ہیں۔ آج کل ہندو بھی انہیں عام کھانوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اچار اور چٹنیاں ہندوؤں کے کھانے کا خاص جز ہیں۔ مسلمان بھی ان کی لذت سے آشنا ہوئے تو انہوں نے بھی ان کو بڑے شوق سے اپنایا اور لیموں، آم، ادرک، شلجم ، ہری مرچ ، ککڑی کچالو ، کریل، آنولے ، وغیرہ کے اچار اور سرخ مرچ ، ادرک پیاز ، پودینہ، املی، عرق لیموں وغیرہ کی چٹنی ہمارے مشترکہ کھانے کے لوازمات میں شمار ہونے لگی۔


پان خالص ہندوستانی چیز ہے ، جس کا رواج قدیم زمانے سے ہے۔
مسلمانوں نے اسے بھی ایسا اپنایا کہ پان کھانے میں ہندوؤں کو بھی مات کر دیا۔ اسی طرح روزانہ استعمال کی بہت سی چیزوں کے نام ہندوستانی ماحول میں اس طرح رچ بس گئے کہ ہندو مسلمانوں کی خصوصی مہر پر خط تنسیخ کھینچ کر خالص ہندوستانی بن گئے۔ مثلاً صندوق فارسی لفظ ہے تو پٹارا ہندوستانی ، قینچی ترکی لفظ ہے تو سوئی خالص ہندوستانی ہے۔ دری، گبھا ، پیڑھی، پیڑھا ، مونڈھا، چھپر کھٹ مسہری ہندی الفاظ ہیں تو چار پائی، نہالی، توشک، تکیہ، پلنگ وغیرہ ایرانی الفاظ ہیں، لیکن سماجی اعتبار سے یہ تمام اشیا ہندو مسلم اتحاد کی مظہر ہیں۔


***
ماخوذ: اردو شاعری میں قومی یکجہتی کی روایت
مصنف: ڈاکٹر رام آسرا راز۔ ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ (دہلی)۔ سن اشاعت: دسمبر 1977ء۔

Hindu Muslim unity and their common culture in India. Article: Dr. Ram Aasra Raaz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں