اور داد مل گئی - انشائیہ از مبارک علی مبارکی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-04

اور داد مل گئی - انشائیہ از مبارک علی مبارکی

aur-daad-mil-gayi

برسوں ہو گئے مجھے شاعری کرتے ہوئے۔ اپنا معیاری کلام بہت سے معیاری کہے جانے والے رسائل و اخبارات کو ارسال کیا۔ لیکن کسی بھی مدیر نے میری غزلیں شائع کرنے کی ہمّت نہ کی۔
شاید سارے مدیران گرامی احساسِ کمتری کے شکار تھے۔ اُنھیں اپنا رسالہ یا اخبار میری غزلوں کے معیار کا نہ لگا۔ جیسے میرے جیسا بستی میں رہنے والا غریب آدمی اگر غلطی سے کوٹ پینٹ اور ٹائی خرید بھی لے تو سوٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر محلّے میں نکلتے ہوئے شرم آتی ہے۔
میں اُن مدیرانِ گرامی کی مجبوری سمجھ سکتا تھا۔ بلکہ مجھے اُن سے ہمدردی بھی تھی۔ لیکن اپنے معیاری کلام سے عوام النّاس کو محروم رکھنا مجھے اچّھا نہیں لگ رہا تھا۔
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں بیحد اعلیٰ درجے کی شاعری کرتا ہوں جس کا اعتراف میرے دشمنان بلکہ رقیبان تک کرتے ہیں۔ ویسے آپ کی بات بھی درست ہے کہ آپ نے آج تک کسی شاعر یا ناقد کو میری شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے نہیں سُنا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لوگ میری شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ دراصل اُن کی خاموشی کا ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے دشمن حسد کے مارے میری شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہیں کرتے جبکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ لوگ دل ہی دل میں مجھے اکیسویں صدی کا مرزا غالب سمجھتے ہیں۔


خیر خاک ڈالئے مخالفین پر۔ میرے ہمدردوں اور مدّاحوں کی تعداد بھی کچھ کم تھوڑی نا ہے !
ماشاءاللہ میرے محلّے کے بہت سے ادب نواز آج بھی صرف میری اعلیٰ پائے کی شاعری سُننے کے لالچ میں ہر شام جمّن بھائی کے چائے خانے پر جمع ہوجاتے ہیں۔
ویسے اُنہیں تو میری شاعری سُننے کے علاوہ کوئی اور لالچ نہیں ہے۔ لیکن اُن کی ادب نوازی دیکھتے یوئے میں ہی زبردستی اُن کی چائے اور آلو چاپ، سموسے، کباب پراٹھے وغیرہ کا بِل ادا کردیتا ہوں۔
سچ پوچھئے تو جمّن بھائی کا چائے خانہ کولکاتا کے مرحوم "ڈائمنڈ ہوٹل" کا پُنرجنم ہے جہاں کالا چاند، ڈوما بھائی، لڈّن بھائی، پھیکو بھائی، کلّو بھائی، کان کٹّا راجو، لولھا شکیل، کانا سینڈو اور اُن جیسے بہت سے ادب نواز و شعر شناس، ناقدینِ فکر و فن میرے اشعار پر داد دے دے کر اردو شعروادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے ہیں۔
ویسے تو یہ سبھی بڑے قابل لوگ ہیں لیکن لڈّن بھائی تو ماشاءاللہ چائے خانے کا اردو اخبار تک پڑھ لیتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے:
"مبارک بھائی، آپ اپنا گجل اکھبار میں کاہے نہیں چھپواتے ہیں ؟"
میں نے اصلیت چُھپاتے ہوئے کہا:
"بھائی میں شہرت کا بھوکا نہیں ہوں۔ اپنی تسکین کے لئے شعر کہتا ہوں۔"
"ہاں ہاں ، تسکین بھابھی کو بھی سنایئے۔ ہم کب منع کرتے ہیں۔ لیکن اکھبار میں چھپنے سے آپ کا پبلک سیٹی ہوگا۔"
" بھائی ! تسکین آپ کی بھابھی نہیں ہے۔ وہ تو ........"
"اچھا اچھا ! سمجھ گئے۔ گرل پھرینڈ ہے۔"
"نہیں بھائی، آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میرا مطلب تھا کہ میں اپنے دل کی ......"
"ہاں ہاں ، سمجھ گئے۔ دل کی رانی ، ماسوکا "
"یار سمجھا کیجئے ۔ میری کوئی معشوقہ وعشوقہ نہیں ہے۔ میں تو بس .....,... "
"اجی چھوڑیئے نا ! ہم کیا کسی کو بولنے تھوڑی نا جا رہے ہیں۔ آجکل تو یہ سب چیز عام ہے۔ اور ساعر لوگ کا گرل پھرینڈ نہیں ہوگا تو کیا ہم لوگ کا ہوگا۔"


اب تو مجھے خود اپنا کیرکٹر مشکوک بلکہ مخدوش نظر آنے لگا ۔ لہٰذا لڈّن بھائی کی غلط فہمی دور کرنے کی کوش بجائے اُن سے پِنڈ چُھڑانا ہی بہتر سمجھا اور مجبوراً سچ بول دیا:
"بھائی، میں نے اپنی کئی غزلیں اخبار والوں کو بھیجیں لیکن وہ شائع ہی نہیں کرتے۔ "
"اوہ ! یہ بات ہے ؟" لڈّن بھائی نے تشویشناک لہجے میں کہا:
"تو آپ ایسا کیجئے کہ اپنا ساعری پھیس بُک پر ڈال دیجئے۔ آجکل اُدھر بھی بہت سیر ساعری ہوتا ہے۔ "
"لڈّن بھائی، میں نے بہت سی غزلیں ڈالی ہیں فیس بُک پر لیکن دو چار دوستوں کے علاوہ کوئی داد ہی نہیں دیتا۔" میں نے تقریباً روتے ہوئے جواب دیا۔
"ارے ! آپ نے پھیس بُک پر گجل ڈالا ہے ؟ " لڈّن بھائی سراپا حیرت بن گئے۔ "کون سا نام سے ڈالے ہیں ؟"
"کون سے نام سے ڈالوں گا؟ اپنے ہی نام سے ڈالی ہیں۔ پورا نام لکھا ہے۔ مبارک علی مبارکی۔" میں نے غصّے سے کہا۔


یہ سُنتے ہی لڈّن بھائی پر تو جیسے ہنسی کا دورہ ہی پڑگیا۔ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے۔ اور میں حونّقوں کی طرح اُنکا مُنہ تک رہا تھا۔
آخرکار اُن کی ہنسی میں کچھ کمی آئی تو بولے "واقعی آپ بہت سیدھے ہیں۔ کان اِدھر لایئے۔ ہم بتاتے ہیں داد لینے کا طریقہ۔"
لڈّن بھائی نے سرگوشیانہ انداز میں کچھ مشورہ عنایت فرمایا۔ اور اسی رات ایک بالکل نئی شاعرہ مرمریں ترنّم کا ایک شعر فیس بُک پر نظر آیا۔
پھر گلی میں گول گپّے لے کر آیا ہے کوئی
مُنہ میں پھر پانی مِرے آنے لگا ہے دوستو


شعر کی پوسٹگی کے ایک گھنٹے کے اندر پچپن ادب نواز حضرات شاعرہ کو انگوٹھا دِکھا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر چکے تھے۔ سرسٹھ لوگوں نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا تھا۔ بائیس لوگ پتہ نہیں کیوں شاعرہ کے غم میں شریک ہوکر آنسو بہا رہے تھے۔ اور نیچے کمنٹس میں داد کی بھرمار ہو رہی تھی۔
* کمال کردیا ۔ کیا غضب کا شعر کہا ۔
* گول گپّے کے استعارے کا جواب نہیں۔
* بالکل نیا خیال پیش کیا ہے۔
* واہ! لاجواب !! آپ نے صنفِ نازک کے درد کو دو مصرعوں میں بیان کردیا۔
* مرمریں ترنّم ! جب نام ہی اتنا خوبصورت ہے تو شعر خوبصورت کیسے نہ ہوتا۔
* لگتا ہی نہیں کہ یہ کسی کمسِن شاعرہ کا شعر ہے۔ ابھی سے اِتنی پختگی ! ماشاءاللہ !! آپ بہت آگے جائیں گی۔
* آپ نے عورت ذات کی محرومی کا بیحد عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔ یہ شعر اِس بے حِس سماج کو جھنجھوڑ کے رکھ دے گا۔
* آپ ہندوستان کی پروین شاکر ہیں۔


شعر کو منظرِ عام پر آئے ہوئے تین دن اور چار راتیں گزر چکی ہیں۔ لیکن کمنٹس کا سلسلہ بُلیٹ ٹرین کی رفتار سے جاری و ساری ہے۔
اور تو اور کچھ معزّز قسم کے بزرگ حضرات اِن-باکس میں آکر نہ صرف شاعرہ کی عزّت افزائی و حوصلہ افزائی کر رہے ہیں بلکہ شرفِ ملاقات بخشنے کی ایپلیکیشنس بھی ڈال رہے ہیں۔ حتٰی کہ دو تین اہلِ خیر حضرات نے تو شاعرہ کا مجموعۂ کلام شائع کروانے کی پیشکش بھی کر دی ہے۔


یہ سب دیکھ کر مجھے بےحد خوشی ہو رہی ہے۔ اشعارِ مبارک کو داد نہیں ملی تو کیا ہوا کلامِ مرمریں کو تو مِل گئی نا !
ویسے بھی شیکسپیئر نے کہا تھا۔

What's in a name !

نام میں کیا رکھا ہے !


***
"Hayat Rise", 4th Floor, 19, Alimuddin Street, Kolkata-700 016.
ای-میل: mubarak.mubarki[@]gmail.com
موبائل: 08961342505
فیس بک : Mubarak Ali Mubarki
مبارک علی مبارکی

Aur daad mil gayi. Humorous Essay: Mubarak Ali Mubarki

1 تبصرہ: