کمار پاشی (پیدائش: 4/جولائی 1935ء، بہاولپور - وفات: 17/ستمبر 1992، دہلی)
ایک منفرد شاعر ، افسانہ نگار اور سنجیدہ ادیب رہے ہیں، جن کا اصل نام شنکر دت کمار تھا۔ ان کی تصنیف "پرانے موسموں کی آواز" نے تمام اردو دنیا میں شور برپا کر دیا تھا۔ انہیں ہندوستانی اساطیر کا شاعر قرار دیا جاتا ہے۔
کمار پاشی نے افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ادبی رسالے 'سطور' کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئیے۔ ان کی تصانیف میں "پرانے موسموں کی آواز (1966ء)"، "خواب تماشا (1968ء)"، "انتظار کی رات (1973ء)"، "رو بہ رو (1976ء)"، "اک موسم میرے دل کے اندر ، اک موسم میرے باہر (1979ء)"، "زوالِ شب کا منظر"، "اردھانگنی کے نام (1987ء)"، "چاند چراغ (بعد از مرگ 1994ء)"، "پہلے آسمان کا زوال (افسانوی مجموعہ 1972ء)"، جملوں کی بنیاد (ایک بابی ڈراموں کا مجموعہ 1974ء)"، "کلیاتِ کمار پاشی" شامل ہیں۔
کمار پاشی کے 86 ویں جنم دن پر ان کے افسانوں کا مجموعہ "پہلے آسمان کا زوال" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 4 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
کمار پاشی ایک منفرد شاعر ہی نہیں، صاحبِ طرز کہانی کار بھی ہیں۔ ان کی کہانیاں اپنی پراسرار فضا اور علامتی تخیل، بھرپور تخلیقی قوتوں اور الفاظ پر فنکارانہ دسترس کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ اپنی کہانیوں کی فضا آفرینی جس انداز سے کرتے ہیں، وہ انہی کا اسلوب ہے۔ جس نے بھی ان کی دو چار کہانیاں پڑھ لی ہیں، وہ ان کی کسی نئی کہانی کو دیکھتے ہی کہہ اٹھے گا کہ یہ انداز کمار پاشی کا معلوم ہوتا ہے اور یہ کامیابی معمولی نہیں ہے۔ اسی روشنی میں ان کے زیرنطر مجموعہ "پہلے آسمان کا زوال" کا مطالعہ کیجیے۔
زیادہ تر دانشوروں نے کمار پاشی کو ہندوستانی اساطیر کا شاعر قرار دینے کی کوشش کی ہے جبکہ وہ اپنے عہد کے کرب کو بھی خود میں سمیٹے جی رہے تھے اور ان میں سماجی اور سیاسی شعور کی کبھی کمی نہیں رہی۔
کمار پاشی نے خود ایک مقام پر لکھا ہے کہ ۔۔۔ہمارے نقادوں نے اکثر کسی شاعر کی تخلیقات کو پڑھ کر اسے یک موضوعی حصار میں قید کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے ساتھ بھی قریب قریب یہی ہوا ہے۔ میرے پہلے شعری مجموعے 'مرانے موسموں کی آواز' کو سامنے رکھ کر مجھے ہندوستانی دیومالا کا شاعر قرار دیا گیا تھا۔ آج کل میری شناخت اکثر اسی حوالے سے ہوتی ہے جبکہ میرا ذہنی سفر ماورائیت سے ارضیت کی طرف رہا ہے۔ اپنے ملک کی قدیم تہذیبی اقدار مجھے ہمیشہ سے عزیز رہی ہیں اور میں نے ہمیشہ قدیم ہندوستان کی گمشدہ روشنیوں میں اپنی پہچان کے نقوش تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی کی تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی قدریں مجھے وراثت میں ملی ہیں اور میری شاعری نے ان ہی جڑوں سے خوراک حاصل کی ہے۔ موجودہ سیاسی نظام نے جس فرقہ وارانہ فضا کو جنم دیا ہے اور جس کے نتیجے میں غیرمحفوظیت کا جو احساس ہر دل میں پیدا ہو گیا ہے، اس نے میرے ذہن کو اکثر متاثر کیا ہے۔ میری شاعری ایک ایسے آدرش معاشرے کی تلاش میں ہے جہاں رنگ و نسل کا بھید نہ ہو، جہاں انسان انسان میں امتیاز نہ ہو۔
***
نام کتاب: پہلے آسمان کا زوال (افسانے)
مصنف: کمار پاشی
ناشر: شالیمار پبلیکیشنز، حیدرآباد (سن اشاعت: 1972ء)
تعداد صفحات: 100
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Pahle Aasman Ka Zawal by Kumar Pashi.pdf
فہرست افسانے | ||
---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | صفحہ نمبر |
الف | میری کہانی | 9 |
1 | صد سطری حکم نامہ | 9 |
2 | تنگ اندھیرا زینہ | 17 |
3 | س کا جنم | 23 |
4 | زرد گھاس کا میدان | 30 |
5 | ٹوٹی ہوئی رات | 41 |
6 | اس کی لاش | 46 |
7 | بانہوں کے گھیرے میں | 55 |
8 | دوسرا آدمی | 61 |
9 | رات سے گھر تک | 69 |
10 | پینتیس برس پرانا آدمی | 76 |
11 | آدمی نامہ | 83 |
12 | پہلے آسمان کا زوال | 92 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں