علامہ فضل حق خیرآبادی - آزادئ ہند کا عظیم مجاہد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-26

علامہ فضل حق خیرآبادی - آزادئ ہند کا عظیم مجاہد

allama-fazl-e-haq-khairabadi-indian-freedom-fighter

علامہ فضل حق خیرآبادی 1797ء میں علامہ فضل امام فاروق خیرآبادی صدر الصدور دہلی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے والد فضل امام اور حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی و حضرت عبد العزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔
1809ء میں جب آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی اس وقت تک تمام علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تکمیل کر لی۔ ایک مدت تک درس و تدریس میں مصروف رہے اور 1815ء میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگئے۔ ا183ء میں نواب فیض محمد خاں والی جھجھر (ہریانہ) نے عزت و احترام کے ساتھ اپنے یہاں بلایا اور پانچ سو روپے نذرانہ پیش کرتے رہے۔


علامہ فضل حق خیر آبادی جھجھر کے لیے روانہ ہورہے تھے، اس وقت بہادر شاہ ظفر نے اپنا دوشالہ اتارکر آپ کو اوڑھا دیا اورنم آنکھوں سے گویا ہوئے:
"چوں کہ آپ جانے کو تیار ہیں، میرے لیے بجز اس کے کوئی چارہ کار نہیں کہ میں بھی اس کو منظور کرلوں لیکن خدا جانتا ہے کہ لفظ وداع زبان پر لانا دشوار ہے۔"
جھجھر کے بعد آپ مہاراجہ الور کی دعوت پر ریاست الور، پھر نواب ٹو نک اس کے بعد نواب رام پور میں ملازمت کی ، رام پور کے بعد لکھنو کے صدرالصدور اور "حضورتحصیل" کےمہتمم بنائے گئے۔ سہارن پور میں بھی دو سال تک کسی بڑے عہدے پر فائز رہے۔ ایک عرصہ تک دہلی کے سر رشتہ دار بھی رہے۔ مرزا غالب سے علامہ کے پرخلوص اور گہرے تعلقات تھے، کیوں کہ دونوں بالکل ہم سن تھے، دونوں 1797ء میں پیدا ہوئے تھے۔


علامہ فضل حق خیرآبادی 1857ء میں لکھ چھوڑ کر ریاست الور چلے گئے۔ اس دوران آپ نے انقلاب کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ مہاراجہ الورکو آپ نے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ علامہ، الور سے مئی 1857ء میں دہلی پہنچے۔ اسی وقت میرٹھ اور دوسری فوجی چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے ہندو مسلم فوج ناراض ہو گئی۔ چپاتی اور کمل کی تقسیم کی خاص اسکیم کے تحت گاؤں گاؤں پہلے سے ہو ہی چکی تھی۔
10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی چھاؤنی میں اچانک فوجیوں نے بغاوت کردی، باغی فوجیں 11/ مئی 1857ء کو دہلی پہنچ گئیں، بادشاہ دہلی سرگرمیوں کا مرکز بنے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی بھی شریک مشورہ رہے۔ آپ سے جنرل بخت خاں ملاقات کے لیے پہنچے۔ مشورہ کے بعد علامہ نے اپنے ترکش سے آخری تیر نکالا۔
بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی) میں علماکے سامنے تقریر کی۔ استفتاء پیش کیا۔ مفتی صدر الدین خاں آزردہ صدر الصدور دہلی ، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ دہلوی ، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی ، سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔ اس فتوی کے منظر عام پرآتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دہلی میں نوے ہزار سپاہی جمع ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ اپنی فوج کولڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑائی کرو، تو انھوں نے کہا:
" افسوس تو اسی بات کا ہے سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جو ان کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں۔"
(بحوالہ: غدر کی صبح شام ، ص: 220)


مولانافضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سور ما ایسے تھے جو گوشہ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔


بغاوت وسط مئی 1857ء میں شروع ہوئی ، جوں ہی اس کی اطلاع ملی علامہ اہل خانہ کو الور چھوڑ کر دہلی آ گئے اور سرگرمی سے بغاوت کی رہنمائی کی ، ساتھ ہی حکومت کے دستور عمل کی ترتیب شروع کر دی۔ جولائی میں جنرل بخت خاں کے دہلی آنے پرفتوائے جہاد مرتب کر کے علماکے دستخط کرائے۔ اسی دوران راجہ الوربنے سنگھ کی خبر ارتحال پر الور چلے گئے۔ پھر ایک ماہ بعد واپس دہلی آ گئے۔
5ا/ دن دہلی میں قیام کر کے الور آئے اور اپنے اہل وعیال کو لے کر اوائل ستمبر میں دہلی آگئے۔ وسط ستمبر میں دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کے تمام امرا و متعلقین بھی اپنے اہل و عیال کو لے کر گھروں میں مال و متاع چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان سب کے شہر چھوڑ کر چلے جانے سے شہریوں پر سراسیمگی طاری ہوگئی ، وہ بھی مکان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ جب شہر خالی ہو گیا تو انگریز فوجیں ان کے مکانوں میں داخل ہوئیں اور جو بھی مال و متاع تھا لوٹ لیا۔ باغی سپاہی موقع غنیمت جان کر بھاگ کھڑے ہوئے۔


اس وقت دہلی میں مولوی عبدالحق اور ان کی والدہ وغیرہ موجودتھیں۔ وہ ان سے ملے، کوئی لشکر اور شہری باقی نہ رہا۔ انگریزوں کا پوری طرح شہر پر تسلط قائم ہو گیا۔ دشمنوں نے غلہ اور پانی پر قبضہ جما لیا تھا۔ پانچ روز تک اسی طرح بھوکے پیاسے گزار کر اپنی عزیز ترین متاع کتابیں، مال و اسباب چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ کر کے اہل وعیال کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ علامہ اپنے وطن خیر آباد ، اودھ کی طرف چلے جا رہے تھے، راستہ خوف ناک اور دشوار تھا۔ انگریز اور اس کا لشکر دن رات علامہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ جاٹوں نے سارے ناکے بند کر دیے تھے۔ کسی گھاٹ پرکوئی کشتی نہ چھوڑی تھی۔ الله تعالی نے علامہ اور ان کے متعلقین کو محفوظ رکھ کر پل اور کشتی کی مدد کے بغیر دریاؤں کو عبور کرا دیا۔ اور اللہ کے بے پایاں رحم وکرم کے سائے میں وہ اپنے وطن میں احباب و رشتہ دار تک پہنچ گئے۔


اودھ میں بیگم حضرت محل فرنگیوں کے خلاف نبرد آزما تھیں۔ ان کے لشکر کے ساتھ بھی علامہ فضل حق خیرآبادی جنگ میں شریک ہوئے، لیکن قسمت فرنگیوں کے ساتھ تھی ، پے در پے انھیں فتح نصیب ہوتی گئی۔ بیگم حضرت محل اس تباہی و بربادی کے بعد بچے ہوئے تھوڑے سے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹیوں کو عبور کر کے نیپال کی سرحد میں داخل ہو گئیں۔
علامہ فضل حق خیرآبادی مسافرت، غربت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اپنے گھر، اہل وعیال تک پہنچنے کے لیے قدم بڑھتے چلے جارہے تھے کہ امن و امان کا وہ پروانہ جسے ملکہ وکٹوریہ نے جاری کیا تھا اور قسموں سے مؤکد کیا گیا تھا ، نظر پڑا۔ اس پروانہ پر بھروسہ کر کے وہ اہل وطن میں پہنچ گئے۔ انھیں بالکل خیال نہ رہا کہ بےایمان کے عہد و پیان پر بھروسہ اور بے دین کے قسم و یمین پر اعتماد کسی حالت میں درست نہیں۔ تھوڑے دن بعد ہی ایک انگریز حاکم علامہ کو مکان سے بلا کر قید کر دیا اور دارالسلطنت لکھنو بھیج دیا۔ ان کا معاملہ ایسے ظالم حاکم کے سپرد کیا جو مظلوم پر رحم کرنا ہی نہ جانتا تھا اور آپ کی چغلی ایسے دو مرتد افراد نے کھائی جو آپ سے قرآن کی محکم آیت میں مجادلہ کرتے تھے۔ 1858ء میں آپ پر مقدمہ چلا اور مندرجہ ذیل الزامات عائد کیے گئے۔


1- بغاوت اور قتل کی سازش: 1857ء اور 1858ء میں باغی سرکار کی حیثیت میں دہلی اور اودھ اور دوسری جنگوں پر بغاوت اورقتل میں مد دی تھی۔


2- بوندی (اودھ) میں ماہ مئی 1858ء میں باغی سردار مموخاں (اودھ) کے | مشیر خاص کی حیثیت سے نمایاں کام انجام دیا۔


3- بندی میں ماہ مئی 1858ء میں ملازم عبد الحکیم کی سرکار انگلشیہ کے خلاف سازش قتل کی۔


عدالت نے علامہ کو مندرجہ ذیل وجوہ پر مجرم قرار دیا۔


1857ء اور 1858ء میں باغیوں کی کونسل میں خاص کام انجام دیے، خاص طور پر باغی سردار ممو خاں کے مشیر خاص کی حیثیت سے ایسے اصولوں کی اشاعت کی جس سےقتل کے امکانات پیدا ہوئے۔ 4 ؍مارچ کو مجرم کو عمر قید بعبور دریائے شور ( کالا پانی ) بحیثیت قیدی سرکار انگلشیہ اور ضبطی جائیداد کی سزادی گئی۔ مقدمے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:


1859ء میں سلطنت مغلیہ کی وفاداری یا فتوائے جہاد یا جرم بغاوت میں مولا نا ماخوز ہوکر سیتا پور سے لکھنو لائے گئے۔ مقدمہ چلا۔ مولانافضل حق خیر آبادی کے فیصلے کے لیے جیوری بیٹھی۔ ایک اسیسر نے واقعات سن کررہا کرنے کا فیصلہ کیا۔


سرکاری وکیلوں کے مقابل خود مولانا بحث کرتے تھے۔ لطف یہ تھا کہ چند الزامات خود اپنے اوپر قائم کیے اور پھر خود مثل تار عنکبوت عقلی و قانونی ادلہ سے توڑ دیے۔ جج یہ رنگ دیکھ کر پریشان تھا اور ان سے ہمدردی بھی تھی۔
کرے تو کیا کرے؟
ظاہر یہ ہو رہا تھا کہ مولانا بری ہو جائیں گے۔ سرکاری وکیل لا جواب تھے۔ دوسرادن آخری دن تھا۔ علامہ نے اپنے اوپر جس قدر الزامات عائد کیے تھے ان کو ایک ایک کر کے رد کیا اور جس مخبر نے فتوی کی خبر دی تھی اس کے بیان کی توثیق و تصدیق کی اور فرمایا: اس گواہ نے سچ کہا تھا۔ وہ فتویٰ صحیح ہے۔ میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے۔ چنانچہ اس کے بعد بے حد رنج کے ساتھ عدالت نے حبس دوام کا حکم سنایا۔ علام فضل حق خیرآبادی نے مسرت سے منظور کیا۔


اس حکم کے بعد علامہ کی کتابیں، جائیداد، مال و متاع اور اہل وعیال کے رہنے کا امکان، ہر چیز پر غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا۔ انگریزوں نے علامہ کو قید کرنے کے بعد ایک قید خانے سے دوسرے میں منتقل کرنا شروع کیا۔ ان کا جوتا اتار لیا ، لباس اتار کر موٹے اور سخت کپڑے پہنادیے۔ زم اور بہتر بستر چھین کر خراب ، سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالہ کر دیا۔ نہ پلیٹ ، نہ لوٹا اور نہ کوئی برتن ان کو دیا۔ ماش کی دال گرم پانی کے ساتھ کھلایا جاتا۔ اس طرح جزیرہ انڈمان کے کنارے ایک اونچے پہاڑ پر پہنچا دیا گیا، جہاں کی آب و ہوا ناموافق تھی۔ سورج ہمیشہ سر پر رہتا، پانی زہر ہلاہل۔
وہ ایسی جگہ تھی جہاں کے سنگ ریزے بدن کی پھنسیاں، ہوا بدبودار اور بیماریوں کا مخزن تھی۔ مرض سستا اور دوا گراں، بے شمار بیماریاں خارش و قوباء (وہ مرض جس سے بدن کی کھال پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے) عام تھی۔ ایسے حالات میں کالے پانے کی معمولی بیماری بھی خطرناک تھی۔ بخار موت کا پیغام ، مرض سرسام ہلاکت کا راستہ تھا۔ ڈاکٹر مرض نہ پہچانتے ہوئے دو اپلاکر موت کے قریب پہنچادیتے تھے۔ جب کوئی مریض مر جاتا تو بغیر کفن کے ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے کپڑےاتار کر ریت کے تودے میں دبا دیا جاتا تھا۔ نہ قبر کھودی جاتی،نہ نماز جنازہ پڑھی جاتی۔


علامہ متعدد سخت امراض میں مبتلا ہو گئے۔ صبح و شام اس طرح بسر ہوتی کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا تھا۔ اور ایک دن 12/صفر 1278ھ مطابق 1861ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی عظیم مجاہد آزادی کی روح قفس عنصری سے آزاد ہو گئی۔
علامہ کی قبر انڈمان کے ساؤتھ پوائنٹ (جسے عرف عام میں نمک بھٹہ کہتے ہیں) کی ایک بستی میں ہے جس کا ایک سمندری کنارہ Ross جزیرہ سے قریب ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں علما وغیرہ کو جہاز سے اتارا جاتا تھا۔

***
ماخوذ: ذرا یاد کرو قربانی (مضامین)
مصنف : پرویز اشرفی۔ ناشر: اپلائڈ بکس، نئی دہلی (سن اشاعت: 2017ء)۔

Allama Fazl-e-Haq Khairabadi, a great Indian Freedom fighter. Article: Pervez Ashrafi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں