ہندوستان میں اسلام کا ارتقا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-06-11

ہندوستان میں اسلام کا ارتقا

muslims-in-india

ہندوستان میں اسلام کے اثرات اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی کہانی لگ بھگ بارہ سو برس پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ میں حملوں کا ذکر تو ضرور ہوتا ہے مگر پر امن تحریکیں اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ ہندوستان میں پہلے پہل جو مسلمان آئے وہ کوئی جنگجو لوگ نہیں تھے جو 712ء میں محمد بن قاسم کے حملے کے بعد آنے لگے تھے۔ بلکہ بہ عرب ملاح اور تاجر تھے جو ان سے پہلے ہی ہندوستان آنے لگے تھے اور کیرالا کے ساحل پر آباد ہونے لگے تھے۔ پہلے پہل ہندوستان آنے والے مسلمان مسقط اور ہرمز کے نو مسلم عرب تاجر تھے جو مالابار کے ساحل پر آ کر آباد ہو گئے تھے۔ اس خیال کی تائید شری کے۔ ایم۔ پانیکر کی کتاب "تاریخ کیرالا" سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ تحریر کرتے ہیں:
"جب اسلام پورے عرب پر چھا گیا تو فوراً اس کا اثر کیرالا میں بھی محسوس کیا گیا۔ ایک خاص قدیم روایت کے مطابق آخری پیرو مل (حکمران) خود بھی مسلمان ہو گیا تھا۔ مالا بار میں اسلام تبدیلئ مذہب اور عرب تاجروں کے سکونت اختیار کر لینے کی وجہ سے پھیل گیا تھا۔ اس کا ایک واضع ثبوت پنتالاپتی کولم (شمالی اركاٹ) میں ایک مسلم کتبے سے ملتا ہے جس پر 166 ہجری کی تاریخ کندہ ہے"۔
بارہویں صدی میں جبکہ ابھی دہلی پر قطب الدین ایبک کا قبضہ بھی نہیں ہوا تھا مالابار میں مسلمانوں نے اتنی اہمیت اختیار کر لی تھی کہ ایک طرف ہندوستان اور پوربی ایشیا اور دوسری طرف ہندوستان اور وسط ایشیا کے ممالک کے درمیان کی تمام سمندری تجارت ان کے کنٹرول میں تھی۔
اس طرح ہندوستان کے بعض حصوں میں مسلمان بارہ سو (1200) برسوں سے رہ رہے ہیں لیكن ہندوستان کی کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں وہ کم سے کم سات سو برس پہلے سے آباد نہ ہوں۔


تہذیبوں کا میل جول
ہندوستانی مزاج کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ وہ ایشور بھگتی، نیکی اور تقدس کے آگے سر جھکا دیتا ہے، اس وجہ سے شیخ معین الدین چشتی مٹھی بھر مسلمانوں کے ساتھ اس وقت اجمیر میں بود و باش اختیار کر سکے جبکہ پرتھوی راج چوہان اور شہاب الدین غوری میں فیصلہ کن جنگ نہیں ہوئی تھی۔ دوسرے درویشوں اور بزرگوں نے لاہور، ملتان ، سرہند، دہلی، آگرہ حتى کہ بنگال اور مدراس جیسی دور دراز جگہوں کو اپنا مسکن بنایا اور ان کے ماننے والوں میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ ان بزرگوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے کبھی کسی شہنشاہ سے کسی قسم کی مدد نہ لی۔ ہندوستان کے ابتدائی مسلمان فرماں روا بڑے سمجھ بوجھ والے تھے۔ ہندو مسلمانوں کے درمیان شادی بیاہ اکبر سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مثال کے طور پر تغلق خاندان کا بانی غازی ملک ایک جاٹ عورت کا لڑکا تھا۔ اس کا بھتیجا فیروز تغلق، محمد تغلق کا جانشین ہوا۔ وہ ابو ہر کے راجہ رانا مل کی لڑکی کے بطن سے تھا


مسلمان فرماں رواؤں نے ہندوؤں کو ملازم رکھ کر اور حکومت میں انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے دے کر مقامی انتظامیہ پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ محمود غزنوی نے ہندو سپاہیوں کی کئی پلٹنیں بھرتی کی تھیں۔ جب اس کے لڑکے مسعود کو اپنے بھائی سے جنگ کرنے یا پنجاب میں امن و امان قائم رکھنے کی ضرورت ہوئی تو اس نے اپنے ہندو جنرل تلک پر بھروسہ کیا اور اس سے مدد حاصل کی۔ مالوہ کے سلطان محمود کا وزیراعظم ایک ہندو چندپری کامیدنی رائے تھا۔ بنگال کے حسین شاہ کے دربار میں پورندر خاں، روپ اور سناتم جیسے ہندو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اس معاملے میں کشمیر کے سلطان زین العابدین اکبر اعظم ہی کی طرح وسیع النظر تھے۔ ایسا ہی رویہ بیجاپور اور گولکنڈہ کے سرداروں کا بھی تھا۔


بہ رواداری اور حسن سلوک یک طرفہ نہ تھا۔ اس وقت کے ہندو فرمان روا بھی ایسے ہی روا دار اور وسیع النظر تھے۔ جب مسلمان ہندوستان میں رچ بس گئے تو وہ ہندوستانی سمجھے جانے لگے۔ مسلمان کالی کٹ کے حکمرانوں (زمورن) کے دربار میں ملازم تھے۔ سلطنت وجیا نگر کے بادشاہوں نے بھی مسلمانوں کو اپنی فوج میں ملازم رکھا تھا۔ بابر کے خلاف لڑنے والوں میں رانا سانگا کے ساتھ مسلمانوں کی فوج کا دستہ بھی تھا۔ رانا سانگا نے مالوہ کے سلطان محمود دوئم کو ایک لڑائی میں ہرایا تھا مگر اس کے باوجود رانا نے فراخدلی سے کام لیتے ہوئے اس کا تخت و تاج اسے واپس کر دیا تھا۔ قتلغ خاں نے سلطان ناصر الدین محمود کے ہاتھ سے شکست کھا کر ایک راجپوت سردار کے ہاں پناہ لی تھی۔ رنتھمبوڑ کے ہمیر دیو نے علاؤ الدین خلجی کے خلاف بغاوت کرنے والے ایک مسلمان سردار کو اپنے یہاں پناہ دی تھی۔


ہندوستان میں مذہب اسلام کی آمد اور فروغ کی وجہ سے ہندؤوں میں مذہبی جوش و خروش پیدا ہوا اور وہ مذہبی اور روحانی باتوں پر غور و خوض کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ بہ ہوا کہ ویشنو مت اور ویر شیو مت جیسے فرقے وجود میں آئے اور پروان چڑھے۔ ان فرقوں کی خصوصیت بہ تھی کہ آن میں ظاہری مذہبی رسوم کا کوئی دخل نہ تھا اور زیادہ زور بھگتی اور وحدانیت پر دیا گیا تھا۔ ہندوؤں کی ایسی تحریکوں سے ملتی جلتی مسلمانوں میں بھی صوفی ازم کی تحریک پروان چڑھی۔ مذہب کے اس گہرے لگاؤ کے باوصف ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے دور نہیں ہوئے بلکہ اس کے برعکس وہ ایک دوسرے کے نزدیک آ گئے کیونکہ بھگتی تحریک اور صوفی مت دونوں میں خدا اور انسانوں سے محبت کی تعلیم دی گئی تھی۔


مذہب میں اس غیر معمولی دلچسپی اور آپس کے میل جول سے علاقائی زبانوں کو فروغ حاصل ہوا۔ مسلمان سنسکرت سے تقریباً ناواقف تھے ، گو کہ البیرونی اور سلطان زین العابدین جیسے چند لوگ اس سے واقف تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی عام جنتا بھی سنسکرت سے ناواقف تھی۔ لہذا اسلام کے فروغ و اشاعت کے لئے مسلمان بزرگوں اور درویشوں کو اس علاقے کی زبان کا سہارا لینا پڑا۔ آن ہی لوگوں کی بدولت ایک نئی ملی جلی زبان "اردو" وجود میں آئی اور پروان چڑھنے لگی۔ ہندو سماج سدھارکوں کو بھی نئی علاقائی زبانوں کا سہارا لینا پڑا کیونکہ انہیں کچھ ایسی باتیں کہنی تھیں جو نئی تھیں اور ان کے مخاطب بھی عام لوگ تھے ، بادشاہ اور امرا نہیں۔ ودیاپتی کے بھگتی سے بھرے ہوئے گیت میتھلی زبان میں ہیں۔ میرا بائی کے راجستھانی میں، چنڈی داس کے بنگلہ میں اور ناتھ سوامی کے مراٹھی میں ہیں۔ کبیر، نانک، سور داس، تلسی داس اور ملک محمد جائسی جیسے صوفیوں اور درویشوں نے ہندی کی مختلف شکلوں کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا۔


اس طرح جب 1526ء میں بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اسلام ہندوستان میں کافی بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا تھا اور اس نئے مذہب کے ماننے والوں اور اس دیس کے پرانے باسیوں کے درمیان کافی حد تک جذباتی یک جہتی اور مفاہمت پیدا ہو چکی تھی۔ بابر اور اس کے جانشینوں کے زبردست مخالف گجرات، مالوہ، جنوبی ہند اور بنگال کے مسلمان صوبے دار اور بہمنی سلطنت کے فرماں روا رہے۔ ان تمام حکمرانوں نے اپنے آپ کو دہلی کی حکومت سے آزاد کر لیا تھا اور خود مختار بن گئے تھے۔


ملکی اتحاد
چنگیز خان اور تیمور کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بابر نے پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور ملک میں ایسے خاندان کی بنیاد ڈالی جو برطانوی حکومت کے قیام تک یعنی لگ بھگ تین سو برسوں تک ہندوستان پر حکومت کرتا رہا۔ مغلوں کے فتح کیے ہوئے ہندوستان کو تین مرحلوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔
(1) بابر کا راجپوتوں اور افغانوں کو اپنا مطیع بنانا۔
(2) افغان سردار شیر شاہ سوری کا ہندوستان کے تخت پر قبضہ کرنا
(3) شیر شاہ کے جانشینوں سے ہمایوں کا ہندوستان پھر جیت لینا اور اکبر کا اس نئی حکومت کو مضبوط اور مستحکم بنانا۔


اکبر مغل شہنشا ہوں میں سب سے بڑا اور عظیم بادشاہ ہوا۔ اس کی سلطنت پچھم میں قندھار سے لے کر پورب میں دکن تک اور اتر میں سری نگر سے لے کر دکھن میں احمد نگر تک پھیلی ہوئی تھی۔
اکبر نہ صرف ایک بہادر سپاہی تھا بلکہ اس اس سے بڑا آرگنائزر، مدبر اور فنون اور ادب کا سرپرست تھا۔ اس کے دربار میں بہادر اور سورما، مدبر اور اسکالر، شاعر اور گویے اور فنون لطیفہ کے پارکھ سبھی موجود رہتے تھے۔ حاضر جوابی میں مشہور بیربل، عظیم موسیقار تان سین، اسکالر اور شاعر فیضی، عالم اور بہادر ابوالفضل ان میں سے چند ہیں۔ اس زمانے کے مہا کوی تلسی داس دربار سے وابستہ نہیں تھے۔ برج بھاشا کی تجدید کیشو، سور اور تلسی کی مرہون منت ہے۔ فتح پور سیکری میں اکبر کی بنائی عمارتیں نہ صرف اس کی شان و شوکت کی مظہر ہیں بلکہ ہندو اور مسلم طرز تعمیر کے مکمل اتحاد کی بھی آئینہ دار ہیں۔ اس کی روا داری اور وسیع النظری کی جھلک سیاست اور ملکی انتظام میں نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان میں ایک ایسی بادشاہت قائم ہوئی جسے اگر قومی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔


جہانگیر اور شاہ جہاں اچھے اور اہل حکمران تھے۔ ان کی سرپرستی میں علوم و فنون کو فروغ حاصل ہوا اور مصوری کا ایک نیا طرز "مغل اسکول" پروان چڑھا۔ شاہ جہان نے بے مثال تاج محل، لال قلعہ، جامع مسجد، دیوان عام، دیوان خاص اور تخت طاؤس بنوائے۔


شاہ جہان کے بیٹے اور وارث اورنگ زیب کے دور حکومت میں مغلیہ سلطنت نے انتہائی وسعت اختیار کی۔ دکن کی مسلم ریاستوں (بیجا پور اور گولکنڈہ وغیرہ) کو فتع کر لیا گیا اور مغلوں کی حکومت دریائے کاویری کے کناروں تک قائم ہو گئی۔ پھر بھی اورنگ زیب کی موت ایک شکست خوردہ انسان کی حیثیت سے ہوئی اور وہ بڑی حد تک مغل سلطنت کی بربادی اور تباہی کا باعث بنا۔ اس نے ملک میں جس طرح کا اتحاد قائم کرنا چاھا اس کی نوعیت قومی نہیں تھی جیسا کہ اکبر نے کیا تھا۔


اورنگ زیب کے کمزور جانشینوں کے دور حکومت میں افغانستان مغلوں کے قبضے سے نکل گیا اور نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی جیسے سرداروں کی آماجگاہ بن گیا۔ پانی پت کے تاریخی میدان میں 1761ء میں احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کا مقابلہ ہوا مگر دونوں میں سے کوئی بھی ہندوستان کو اپنے زیر نگین نہ کر سکا۔ اس طرح میدان بالکل خالی رہا اور ملک میں کوئی ایسی طاقت نہیں رہ گئی تھی جو اس بکھرے ہوئے شیرازے کو اکٹھا کر سکے۔ اس طرح غیر ملکی تاجروں کی جماعت برٹش انڈیا کمپنی کو اس کا پورا موقع مل گیا کہ وہ رفتہ رفتہ ہندوستان میں اپنی سلطنت قائم کر لے۔

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی مسلمان - Muslims in India [Urdu]
ناشر: پبلی کیشنز ڈویژن (مرکزی حکومتِ ہند ، دہلی)۔ سن اشاعت: 1964ء

Muslims in India.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں