ہجور آما - شبیر احمد کا ناول - تبصرہ از مقصود حسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-06-12

ہجور آما - شبیر احمد کا ناول - تبصرہ از مقصود حسن

hajur-aama-shabbir-ahmed

نامور افسانہ/ناول نگار صدیق عالم کہتے ہیں:
"شبیر احمد نے تانیثی نقطۂ نظر سے 'ہجور آما' کی شکل میں اردو فکشن کو ایک لازوال کردار دیا ہے۔"


میرے خیال میں ایک اچھے افسانے یا ناول کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ شروع سے ہی قاری کو باندھے رکھتا ہے اور دوران مطالعہ قاری خود کو اس فن پارے کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس فن پارے میں جو دنیا خلق کی گئی ہوتی ہے، وہ اس کے ساتھ خود بھی جینا شروع کر دیتا ہے۔ قاری کے اندر ایک طرف تجسس اور بے چینی ہوتی ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے تو دوسری طرف جیسے جیسے وہ فن پارہ اپنے اختتام کی جانب پہنچنے لگتا ہے تو اس کے اندر ایک افسردگی بھی پیدا ہونے لگتی ہے کہ بہت جلد وہ اس فن پارے سے جدا ہونے والا ہے۔ اس طرح وہ فن پارہ / ناول، قاری کی یادداشت کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے۔۔۔


اس لحاظ سے دیکھا جائے تو "ہجور آما " میں درج بالا خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ناول کا بنیادی خیال اس کے مرکزی کردار 'ہجور آما' کی جدوجہد ہے یعنی اپنے بھادی طبقے کو پستی /پسماندگی کی دنیا سے باہر نکال کر مین اسٹریم میں لانا ہے اور جس میں وہ کامیاب بھی ہوتی ہے۔۔۔
اس طرح ناول نگار نے ہجور آما کی شکل میں ایک مضبوط کردار کو جنم دیا ہے۔ جس کے اندر قیادت کی خوبیاں [leadership qualities] بھرپور ہیں، وہ ذہین اور پڑھی لکھی ہے، سیاسی شعور رکھتی ہے، اس میں خود سے فیصلہ لینے اور حالات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے دل میں اپنے قوم کے لوگوں کیلئے ہمدردی ہے اور ان کی بہتری کیلئے وہ کوئی بھی خطرہ مول لے سکتی ہے، کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔۔ چنانچہ ان ہی خوبیوں کی وجہ سے وہ ناول میں ایک لیجنڈ [Legend] کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ۔۔۔


ہجور آما نیپالی زبان میں دادی کو کہتے ہیں۔۔ عام طور پر یہ لفظ اس عورت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جو پورے کنبے / قبیلے کیلئے سرپرست یا مثالی عورت کی حیثیت رکھتی ہے۔۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اردو ادب میں نیپالی یا گورکھا طبقے اور انکے مسائل کو شاید ہی کسی ناول کا موضوع بنایا گیا ہو۔۔۔ مغربی بنگال کے شمال اور شمال مشرق میں واقع علاقوں میں گورکھا قوم آباد ہے، ان میں کچھ طبقے ایسے ہیں جن کی حالت دلتوں جیسی ہے، وہ نہایت کسمپرسی میں ذلت کی زندگی گزارتے ہیں۔ جہالت اور دقیانوسی رسومات کی وجہ سے جسم فروشی ان کا پیشہ بن گیا ہے جس کا اونچے طبقے کے لوگ بری طرح استحصال کرتے ہیں، بھادی طبقہ بھی انہی طبقوں میں سے ایک ہے۔۔۔


چونکہ شبیر احمد صاحب خود لینڈ ریونیو آفیسر رہ چکے ہیں اور کسی زمانے میں ان کی پوسٹنگ دارجلنگ اور اس کے گرد و نواح میں رہی ہے اس لئے انہوں نے پہاڑی یا گورکھا لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کی رسومات، رہن سہن، کھانے پینے کے طور طریقے ، چائے کے باغات میں کام کاج، مذہبی عقائد، ہمرو پردیش آندولن کی جدوجہد وغیرہا کا مشاہدہ کیا ہے۔ اور یوں ان ساری باتوں کو اپنے ناول میں بڑی خوبصورتی اور چابکدستی سے پرویا ہے جس کے لئے ناول نگار بے شک مبارکباد کے مستحق ہیں ۔۔۔


ناول میں بظاہر ایک سافٹ لو اسٹوری چل رہی ہے مگر اس کے پس پردہ بھادی طبقے میں پھیلے جسم فروشی کے پیشے، انکے فرسودہ سماجی نظام، اسطور، پسماندگی اور عورتوں کا استحصال جیسی چیزوں کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ اور اس ماحول سے اسی سماج کی ایک باشعور لڑکی 'دیب لینا' کس طرح انہیں باہر نکالتی ہے اور کس طرح تلسی گڑھ جیسے قصبے کو ایک مثالی سماج میں تبدیل کرتی ہے، ان باتوں کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔


ناول میں منظر نگاری بھی اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ دارجلنگ اور کالمپونگ کی چائے کے باغات، ہمیشہ کہرے میں لپٹی پہاڑیاں، پل پل بدلتا موسم اور وہاں کے لینڈ اسکیپ کی بڑی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔ بعض مقامات پر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے لفظوں سے برش کا کام لیا ہے، چنانچہ پورا منظر آنکھوں کے سامنے جیتا جاگتا نظر آتا ہے!


ناول کے دونوں مرکزی کردار یعنی دیب لینا اور ارباز یقیناً توانا اور زندہ کردار ہیں اور قاری پر دیر پا اثر چھوڑتے ہیں۔۔۔
ناول کا بیانیہ بھی بہت دلچسپ ہے، مکالموں میں جابجا نیپالی زبان کے استعمال نے انہیں فطری بنا دیا ہے جس سے بارہا احساس ہوتا ہے کہ ہم دارجلنگ کی پہاڑیوں میں سیر کر رہے ہیں اور وہاں کے مقامی لوگوں کو گفتگو کرتے ہوئے بغل سے گزرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔۔۔


اخیر میں فکشن کے ایک عام قاری کی حیثیت سے میں یہ بات بلا جھجھک کہہ سکتا ہوں کہ "ہجور آما" ایک کامیاب اور معیاری ناول ہے اور پچھلے چند برسوں میں ہندوستان میں جو اردو ناول منظر عام پر آئے ہیں ان میں یہ ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔۔۔
اس شاندار ناول کی تخلیق کیلئے ناول نگار شبیر احمد صاحب یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اس ناول کی بھرپور پذیرائی کرتے ہوئے اسے قارئین کے وسیع حلقوں تک پہنچایا جائے۔

خورشید اکبر (پٹنہ) بجا طور پر لکھتے ہیں کہ:

"شبیر احمد کا ناول 'ہجور آما' اتنا پُر لطف ہے کہ کوئی پڑھنا شروع کرے تو پڑھتا ہی چلا جائے۔۔ یہ ناول ایک اچھوتے موضوع پر لکھا گیا ہے جس پر میری دانست میں اس سے قبل اردو میں کوئی ایسی تخلیقی و تحقیقی دستاویز نہیں ملتی۔ کوہستانی نشیب و فراز کے سلسلے اور پرپیچ وادیوں کے بتانِ ہزار شیوہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ناول نگار نے اپنے فکر و فلسفے، تاریخ اور نفسیات کی موشگافیوں کے جوہر بھی خوب دکھائے ہیں مگر اس ضمن میں کسی کی تقلید نہیں کی ہے۔ یہ اوریجنلٹی ہی ناول نگار کی اصل شناخت ہے۔"

اسی طرح حسن امام (لاہور، پاکستان) لکھتے ہیں ۔۔۔

شبیر احمد کے افسانے اپنی دھرتی سے جڑے ہوتے ہیں اور ان کا ناول 'ہجور آما' اپنے منفرد اسلوب سے قاری کے ذوق مطالعہ کی آبیاری کرتا ہے۔ ہماری آج کی دنیا جن محورات پر گردش کر رہی ہے اس میں سیاست، استحصال اور جنس نمایاں ہیں۔ ناول نگار نے بڑی ہنرمندی سے ان محورات کے گرد کہانی بنی ہے۔
یہ ناول کتابی شکل (ہارڈ کور) میں درج ذیل فون نمبر/ ای-میل پر ربط کر کے منگوایا جا سکتا ہے۔
ناول: ہجور آما
مصنف: شبیر احمد
طبع اول: 2020
صفحات: 480
قیمت: 500 روپے
رابطہ :8961491731 / 9903890289
ای-میل: shabbir36@gmail.com
***
Maqsood Hasan,
Addl Superintendent of Police (HQ),
Office of the Superintendent of Police, Baruipur Police District,
Zila Parishad Bhawan, Kulpi Road
PO : Baruipur, Kolkata -700144
Email: maqsooddysp@gmail.com
مقصود حسن

Hajur Aama, a review on Shabbir Ahmed's novel. Reviewer: Maqsood Hasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں