مولانا وحید الدین سلیم - خاکہ از مولوی عبدالحق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-06-07

مولانا وحید الدین سلیم - خاکہ از مولوی عبدالحق

maulana-waheeduddin-saleem
مولوی سید وحید الدین سلیم (پیدائش: 1867ء ، پانی پت - وفات: 29/جولائی 1928ء، ملیح آباد، لکھنؤ)
اسی سرزمینِ پانی پت کے فرزند ہیں جس نے جدید رجحانات کے پہلے علمبردار مولانا الطاف حسین حالی کو جنم دیا تھا۔ پروفیسر وحید الدین سلیم پانی پتی ایک بلند پایہ عالم، محقق، نثرنگار، شاعر، ماہر لسانیات اور واضع اسطلاحات رہے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ قائم ہوئی تو وہ اردو کے پہلے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور بعد ازاں پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب "وضعِ اصطلاحات" تصنیف کی جو اصطلاح سازی کے فن پر اردو میں پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ "افاداتِ سلیم" ان کے مضامین کا مجموعہ ہے اور ان کی وفات کے بعد ان کی شاعری کا مجموعہ "افکارِ سلیم" کے زیرعنوان 1938ء میں شائع کیا گیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے شخصی خاکوں پر مبنی اپنی کتاب "چند ہم عصر" میں مولوی صاحب پر جو خاکہ تحریر کیا تھا، وہ یہاں پیش ہے۔ واضح رہے کہ مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے بھی اپنا نہایت مقبول خاکہ "ایک وصیت کی تعمیل" مولوی وحید الدین سلیم پر ہی تحریر کیا تھا۔

مولانا سلیم کے انتقال سے اردو ادب کی صف میں ایک جگہ خالی ہو گئی ہے جس کا پر کرنا آسان نہیں ہے۔ جامعہ عثمانیہ ہی کو ان کا جانشین ملنا مشکل نہیں بلکہ اب ان جیسا ادیب سارے ملک میں نظر نہیں آتا۔ وہ ایک جامع حیثیات شخص تھے۔ عربی اور فارسی کے جید عالم تھے، اردو زبان پر ان کی وسیع نظر تھی ، خاص کر نئے الفاظ بنانے میں انہیں بڑا ملکہ تھا۔ ان کی کتاب "وضعِ اصطلاحاتِ علمیہ" ایک حد تک ان کی وسعت نظری اور تبحر کی شاہد ہے۔ وہ اعلیٰ درجہ کے نثار تھے اور شعر بھی خوب کہتے تھے۔ شاعری ان کے زور طبیعت کا نتیجہ تھی ، بعینہٖ جیسی مولوی نذیر احمد مرحوم کی شاعری، لیکن "سلیم" مرحوم ان سے سبقت لے گئے تھے۔ ان کے قلم اور آواز میں بڑا زور تھا۔ ان کے چہرے سے ان کی طباعی اور ذہانت معلوم ہوتی تھی ، یہ سب باتیں مولوی نذیر احمد سے ملتی جلتی تھیں۔


مرحوم نے عمر بھر یا تو طالب علمی کی یا علم و ادب کی خدمت کی۔ علاوہ ایک بلند پایہ ادیب ہونے کے وہ اعلیٰ درجے کے اخبار نویس بھی تھے۔ "مسلم گزٹ" کے پرچے جن صاحبوں نے غور سے پڑھے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ایسے زبردست مضامین معاملات وقت پر کسی دوسرے اخبار میں نہیں نکلے۔ "علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ" کو جب انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کی کایا پلٹ دی ، یا تو وہ ایک مردہ اخبار تھا یا دفعتاً زندہ ہو گیا۔ ان کا رسالہ "معارف" اردو کے ان چند رسالوں میں سے ہے جنہوں نے ملک میں علمی ذوق پیدا کر کے زبان کی حقیقی خدمت کی ہے۔ وہ کسی رنگ میں ہوں ، تھے وہ ادیب ہی، سیاسیات کا انہیں کوئی ذوق نہ تھا، البتہ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے حامی تھے۔


مولانا بڑے زندہ دل اور ظریف الطبع تھے، یہاں تک کہ بعض اوقات ظرافت میں حد سے تجاوز کر جاتے تھے ، مگر بڑے سادہ طبیعت کے آدمی تھے۔ مصلحت، سلیقے اور صفائی کا داغ ان کے دامن پر نہ تھا، جو جی میں آتا کہہ بیٹھتے تھے اور جو چاہتے تھے کر گزرتے تھے۔ جہاں کسی نے غلطی کی فوراً ٹوک دیتے تھے، کبھی یہ نہ سوچا کہ اس کا محل وقوع بھی ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ان کی طبیعت سے واقف نہ تھے، ان کی باتوں سے اکثر ناراض ہو جاتے تھے۔ جس طرح باوجود زبردست اخبار نویس ہونے کے، سیاسیات کا ذوق نہ تھا اسی طرح باوجود زبردست عالم و فاضل ہونے کے، مذہب سے بیگانہ تھے ، یہ ذوقی چیز ہے اسے مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔


جس طرح انہیں طالب علمی میں مولانا فیض الحسن جیسے بے مثل ادیب استاد ملے، اسی طرح اس کے بعد سر سید اور مولانا حالی جیسے عالی خیال پیشوا بھی نصیب ہوئے۔ ان بزرگوں نے ان کے خیالات اور ادب پر بہت اثر ڈالا۔ مگر وہ عمر بھر طالب علم ہی رہے ، مصلحتِ وقت اور زمانہ شناسی ان کے نصیب میں نہ تھی اور جو کبھی بدنصیبی سے انہوں نے اس کوچہ میں قدم رکھا تو پہلے ہی قدم میں لغزش کھائی۔ اس چیز کے لئے کچھ تو فطری مناسبت ہونی چاہئے اور کچھ صحبت اور تجربہ۔ ان میں سے ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔


ان کے دوست بہت ہی کم تھے ، شاید دو چار ہی ہوں گے مگر جن کے دوست تھے ، دل سے تھے لیکن ساتھ ہی بہت مرنج و مرنجان تھے۔ کسی کو حتی المقدور ناراض نہیں ہونے دیتے تھے۔ خود خوش رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنا چاہتے تھے۔ بہت بے تکلف تھے اور خوب باتیں کرتے تھے اور خوب ہنستے اور ہنساتے تھے۔


اس میں شک نہیں کہ جامعہ عثمانیہ کو مولانا سے بہتر پروفیسر نہیں مل سکتا تھا۔ شاید قدرت کو یہ منظور تھا کہ جس یونیورسٹی کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے وہاں اردو کا پروفیسر بھی ایسا ہونا چاہئے تھا جو اس کی شان اور ضرورت کے مناسب ہو۔ انہوں نے اس جامعہ کے طلبا میں جو علمی اور ادبی ذوق پیدا کیا ہے وہ انہی کا کام تھا اور یہ بہت بڑا احسان ہے۔ تعلیم کا اصل منشا ذوق پیدا کرنا ہے اور پھر وہ اپنا راستہ خود نکال لیتا ہے۔


مرحوم کی طالب علمی کا زمانہ بہت عسرت میں گزرا اور آخری زمانہ جو فارغ البالی کا تھا وہ بھی افسوس ہے کہ عسرت ہی میں بسر ہوا۔ انہیں اپنی فارغ البالی سے کچھ لینا نہ تھا۔ گو ان کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی شاید اڑسٹھ کے لگ بھگ، لیکن ان کے قویٰ ایسے اچھے تھے کہ بہت دنوں اور جی سکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی صحت و صفائی کا خیال نہ رکھا اور نہ کبھی اپنے کھانے پینے کا کوئی معقول انتظام کیا۔ وہ ان چیزوں کو جانتے ہی نہ تھے ، یہی ان کی بیماری اور بالآخر ان کی موت کا باعث ہوا۔


انجمن ترقی اردو اور خاص کر رسالہ "اردو" سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ ان کے بعض بہترین مضامین "اردو" میں شائع ہوئے ہیں۔ مولانا شرر مرحوم کے انتقال پر جب انجمن نے مرحوم کے نام سے "اردو" کے بہترین مضامین کے لئے مستقل طور پر سالانہ تین انعامات کی تجویز کی تو سب سے پہلا انعام جو دو سو روپیہ کا تھا، مولانا نے خود ہر سال دینا منظور فرمایا ، وہ صرف ایک سال دینے پائے تھے کہ دوسرے سال خود اس دنیا سے منہ موڑ کر چلے گئے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ میرے مہربان اور شفیق دوست تھے اور مجھے ان کی موت کا بے حد رنج ہے، میں ان کی موت کو قومی حادثہ سمجھتا ہوں۔ ان کے ہونے سے ہمیں بڑا سہارا تھا، ہر علمی اور ادبی کام میں ہم ان کا نام سب سے پہلے شریک کرتے تھے۔ اب جو وہ نہیں ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قوت کم ہو گئی ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ مولانا جیسی طبیعت اور ذہانت اور جدت کے بہت کم لوگ ہوتے ہیں، ان کی تحریر میں بڑی قوت تھی اور حافظہ بھی غیر معمولی پایا تھا۔ بات کی تہہ کو خوب پہنچتے تھے اور زبان کے تو استاد تھے۔ جدید تعلیم نہیں پائی تھی، مگر مغربی تعلیم کا جو منشا ہے اس سے ایسے واقف تھے کہ بہت کم جدید تعلیم یافتہ واقف ہوں گے۔ انگریزی نہیں جانتے تھے مگر جب انگریزی سے اردو میں اصطلاحات یا ترجمہ کرنے کی ضرورت پڑتی تھی تو انگریزی داں بھی ان کی واقفیت کو دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے ، وہ الفاظ کے کینڈوں اور ان کی فطرت کو خوب سمجھتے تھے۔ اور لفظوں کی تلاش یا نئے لفظوں کے بنانے میں کمال رکھتے تھے۔ اور لفظ ایسے موزوں اور جلد بناتے تھے کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دماغ میں سانچے بنے بنائے رکھے ہیں جن میں سے الفاظ ڈھلتے چلے آ رہے ہیں۔


ہمیں ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے مرحوم کی طرح اپنی ساری عمر علم و ادب کی خدمت میں وقف کر دی ہو، اس راہ میں مخدوم بننا آسان ہے مگر خادم بننا بہت دشوار ہے۔ انہوں نے محض اپنی محنت اور قابلیت سے یہ درجہ پایا۔ ایک غریب لڑکا جس کے پاس پڑھنے کو کتابیں اور بھر پیٹ کھانے کو روٹی نہ تھی، وہ اپنی ہمت اور شوق اور اپنے علم و فضل کے زور سے ایسا ہوا کہ آج اس کی موت پر ایک حقیقی طبقے کو رنج اور افسوس ہے، اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو علم و ادب کا ایک ستون گر گیا۔ ان کی زندگی صاف بتاتی ہے کہ شو ق اور محنت عجیب چیزیں ہیں، جسے ہم کمال کہتے ہیں وہ انہیں دونوں کا خانہ زاد ہے۔

***
ماخوذ از کتاب: چند ہم عصر (مصنف : بابائے اردو مولوی عبدالحق)۔
ناشر: انجمن ترقی اردو ہند۔ سن اشاعت: 1991ء۔

Maulana Waheeduddin Saleem, a sketch by Maulvi Abdul Haq.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں