جاذب قریشی - شاعری میں لفظ و بیان کی آگہی رکھنے والا شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-06-23

جاذب قریشی - شاعری میں لفظ و بیان کی آگہی رکھنے والا شاعر

jazib-qureshi
پروفیسر جاذب قریشی (پیدائش: 8/اگست 1940ء) - اردو دنیا کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقاد بروز منگل 22/جون 2021ء کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ پروفیسر مرحوم کی پیدائش کلکتہ کی تھی، مگر بچپن لکھنؤ میں گزرا۔ پھر 1950 میں لاہور منتقل ہوئے۔ ان کی کتاب "شاعری اور تہذیب" (سن اشاعت: جون 1988) کے فلیپ پر لکھا گیا عزیز حامد مدنی کا مضمون پیش خدمت ہے۔

شاعری میں لفظ و بیان کی آگہی رکھنا اور اسے اپنے عصر کے فکری محرکات کی رو میں مستند شعرا کے کلام میں تلاش کرنا ایک ایسی جستجو ہے جسے صاحبانِ ذوق جاذب قریشی کو ضرور دیں گے۔


جاذب قریشی شاعر اور نقاد کی حیثیت سے اپنی ایک انفرادیت رکھتے ہیں اور شعرا کے مختلف ادوار کے متعلق پورے سیاق و سباق میں ان کا مطالعہ ان کے کاموں میں محنت اور یکسوئی کی دلیل ہے۔
نقاد کی ذمہ داری تہذیبی اور تخلیقی دونوں سطحوں پر ہوتی ہے مگر ایک مشکل دور میں جو فنی اور فکری اعتبار سے کئی تغیرات سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے۔ اس دور میں سارے تعصبات سے ہٹ کر گزشتہ اور حال کے رجحانات کو سمجھنے کے لیے پِتا مار کر صرف علم کی حدوں میں ہی نہیں بلکہ اپنی سمجھ کی حدوں میں بھی چیزوں کو سمیٹنا پڑتا ہے، اس زاویے سے بھی جاذب قریشی کی یہ کاوش (شاعری اور تہذیب) بہت وقیع ہے۔


"شاعری اور تہذیب" میں جن شعرا پر تنقیدی مضامین لکھے گئے ہیں، عمروں کے لحاظ سے ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حلقے میں منظور حسین شور، صبا اکبر آبادی، رئیس امروہوی، شان الحق حقی اور افسر ماہ پوری ہیں اور دوسرے حلقے میں جمیل الدین عالی، حنیف اسعدی، شفیع عقیل اور عالم تاب تشنہ ہیں۔ اس حلقے کے ناموں کی شہرت اور اس شہرت کے سن و سال کی پختگی کے باوصف ان کی شاعری میں جوانی کی سی چمک دمک ہے، محفل آرائیاں ہیں، یاریاں اور زاریاں ہیں، مشاعروں اور مذاکروں کے سلسلے ہیں۔
پہلے حلقے کے شعرا موجودہ صدی میں تیسری دہائی کی ادبی اور تنقیدی زندگی کی اس بیدار فضا کی یاد دلاتے ہیں جب ہمارے بزرگ شعرا کی فکری پیکار سے عہد فرنگ میں بھی ادب و فن کا افق جگمگا اٹھتا تھا۔ اقبال کی حیات میں یہ دور ایک عظیم شاعری کا دور بھی تھا اور حسرت، جگر، جوش اور فراق کا عہد بھی تھا۔ اس دور میں سائل دہلوی، بیخود دہلوی اور صفی لکھنوی سے آل رضا سراج لکھنوی اور استاد حیدر دہلوی تک سبھی مشاعروں میں شریک ہوتے تھے اور انہیں مشاعروں میں عہد حاضر کے شعرا میں فیض، مجاز، علی سردار جعفری اور جذبی بھی اپنا کلام سناتے تھے۔


اس کتاب کے پہلے حلقے کے شعرا نے انہیں محفلوں میں اپنے سخن کی داد لی ہے۔ ان شاعروں نے اپنے سخن کی آبیاری سے نئے لکھنے والوں کی شاعری کو پروان چڑھایا ہے، ان کے کلام میں معاشرے کے بدلتے ہوئے رخ کی تیز آنچ سے تپتی ہوئی ابیات میں جو اشارے ملتے ہیں ان کی لفظیات میں ایک جوت ہے جو قاری سے داد کی مستحق ہے۔ نسبتاً ایک وقفے کے بعد اس کتاب کے دوسرے حلقے کے شاعروں کے متعلق بھی کم و بیش یہ بات کہی جا سکتی ہے۔


آزادی کی چالیس اکتالیس برس کی زندگی میں ٹنڈو جام سے ڈیرہ غازی خاں تک پاکستان میں اور ہندوستان کے اتری اور دکنی شہروں کی محفلوں سے باہر نکل کر ناروے کے نقطۂ انجماد کی فضا سے ہوسٹن کی تپش تک ان میں بعض شعرا کی موجودگی کے بغیر مشاعرہ چمک ہی نہیں سکتا ہے۔ دونوں حلقوں کے ان شاعروں سے کون واقف نہیں ہے؟ ان میں سے بعض کے نام ہفتہ در ہفتہ اخبارات کے مضامین کی تالیف و تصنیف میں ضرور ہوتے ہیں کہ کالموں کے مقیاس المکان Space Barometer میں ان کی تحریر سے وقت کے گزرنے کا اندازہ ہوتا ہے۔


شور سے لے کر شفیع عقیل تک سبھی نثرنگار بھی ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہر دور کی شاعری کو اس دور کی نثر کے تقابلی مطالعے کے ساتھ پڑھنا چاہیے کہ اس طرح مشترک اور مختلف زبان و بیان کے زاویے سامنے آتے ہیں جن سے فن کی داخلی کارکردگی کا علم ہوتا ہے۔ ان شعرا کے تنقیدی مطالعے کے درمیان جاذب نے اس رخ کو بھی نمایاں کیا ہے۔


"تہذیب اور شاعری" کے شعرا اپنے ادب کے کلاسک سے بھی خوب واقف ہیں اور باہر کے ادب کا بھی شعور رکھتے ہیں۔ یہ سب سخن سنج بھی ہیں اور سخن فہم بھی ہیں۔ زندگی کی نیک و بد کی اور عشق و ہوس کی وارداتوں سے گزر کر ان کے تجربات کا جو نقش نظم، غزل، رباعی یا دوہے اور گیت میں موجود ہے، وہ ہمارے معاشرے اور ہمارے ادب کے درمیان کی ہنگامہ پرور زندگی کا عکس ہے۔ ان کے یہاں فطرت کے مناظر سے طبیعت کا سکون اور ماحول کے اضطراب سے ایک گرم روی دونوں ہی موجود ہیں۔
اس سلسلے میں شور کی دو نظمیں "بادل" اور "بلیک آؤٹ" بار بار یاد آتی ہیں۔ شور کی شخصیت اور ان کی شاعری میں وہ ساحری ہے جو ان کے ایک ہم عصر اور ہم جماعت جاں نثار اختر میں بھی تھی۔ صبا اکبرآبادی اور رئیس امروہوی اساتذۂ فن شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں لاشعوری رو سے زندگی کے طلسم میں دبی ہوئی ایک ایسی چونکا دینے والی رمزیت آشنا فضا ملتی ہے کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
شان الحق حقی، افسر ماہ پوری اور حنیف اسعدی کی نرم مزاجی ندرت بیان سے گھل مل کر کچھ ایسا مزا دیتی ہے کہ ان کا کلام مسلسل پڑھتے رہنے کو جی چاہتا ہے۔
عالی نے نئے دور کی ترجمانی میں بلینک ورس کی تمثیلی نظم اور غزلیں، دوہے، گیت سبھی کہے ہیں اور وہ عصر جدید کے ایک منفرد شاعر ہیں۔ شفیع عقیل کا طنزِ ملیح معاشرے کے ایک تجربے کار نقاد اور ایک اچھے شاعر کا امتزاج رکھتا ہے۔ عالم تاب تشنہ کی غزل میں تازگی اور رعنائی ہے۔


میں جاذب قریشی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے یہ جو تنقیدی مضامین مجھے پڑھنے کو دئے ہیں ان میں تمام شعرا زبان و بیان کے ہنر سے واقف ہیں اور اپنی تخلیقات میں اپنے عصر کے مواد کی نئی تشکیل کر سکتے ہیں، میں ان کی داد کیا دوں کہ ان کی داد تو ایک زمانے نے دی ہے ع
قبول خاطر و لطفِ سخن خداداد است


"تہذیب اور شاعری" میں جاذب قریشی کے مندرجہ ذیل دس تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔۔۔
شاعری اور تہذیب (ساحر انصاری) / شب گزیدہ خورشید (منظور حسین شور) / جہاں غبار نہیں ہے (صبا اکبرآبادی) / دیوار پر دائرے (رئیس امروہوی) / لفظ تھے آشنا میرے (شان الحق حقی) / لاحاصل کا حاصل (جمیل الدین عالی) / جل گئیں انگلیاں میری (افسر ماہ پوری) / راستے کہاں کے ہیں (حنیف اسعدی) / لوک ورثے (شفیع عقیل) / دریچے ہیں روشن (عالم تاب تشنہ)
***
ماخوذ از کتاب: شاعری اور تہذیب (تحقیقی تنقیدی مضامین)۔
مصنف: جاذب قریشی۔ (ناشر: مکتبہ کامران، کراچی۔ سن اشاعت: جون-1988ء)۔

Jazib Qureshi, a Prominent Urdu Poet

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں