جیکی شراف (پیدائش: یکم/فروری 1957ء ، بمبئی)
کا اصل نام جےکشن ککو بھائی شراف ہے جن کے والد گجراتی اور ماں کا تعلق قازقستان کے ترکمان قبیلے سے رہا ہے۔ بالی ووڈ فلمی دنیا میں جیکی شراف کا داخلہ دیوآنند کی فلم "سوامی دادا" (ریلیز: دسمر 1982) میں ایک معمولی سے اجنبی کردار کے ذریعہ ہوا تھا مگر ٹھیک ایک سال بعد دسمبر-1983 میں سبھاش گھئی کی ہدایت میں ریلیز ہونے والی سولو ہیرو فلم "ہیرو" کے ذریعہ انہوں نے راتوں رات اسٹار کا رتبہ حاصل کر لیا۔ اپنی منفرد اور متنوع اداکاری کے بل پر انہوں نے بالی ووڈ میں اپنی نمایاں شناخت قائم کی ہے۔ ان کی یادگار فلموں میں کرما، اندر باہر، کاش، دہلیز، کھلنائک، 1942 اے لو اسٹوری، رام لاکھن، سوداگر، انگار، گردش وغیرہ شامل ہیں۔ جیکی شراف کے نوجوان فرزند ٹائگر شراف (پہلی فلم: ہیروپنتی - 2012ء) بھی بالی ووڈ فلموں کی موجودہ نسل کے ایک مقبول ہیرو ہیں۔ 1993ء کے ابتدائی مہینوں میں ان کی چند فلموں کی ناکامی کے بعد مشہور فلمی ماہنامہ "شمع" کے شمارہ مئی:1993 میں ان کا ایک دلچسپ انٹرویو شائع ہوا تھا، جو یہاں پیش خدمت ہے۔
مدراس کے پریذیڈنٹ ہوٹل میں جیکی شراف سے جب ملاقات ہوئی تو اسے کالا لمبا اوور کوٹ اور کالی ہیٹ پہنے دیکھ کر ایسا لگا جیسے وہ ہندی فلموں کا نہیں، ہالی ووڈ کی سنسنی خیز فلموں کا ہیرو ہو۔ معمولی کی طرح سلگتی ہوئی بیڑی جیکی کے ہونٹوں میں دبی ہوئی تھی اور بڑے مزے سے بیڑی کا کش لیتے ہوئے اس نے اپنے آئیندہ پروگرام کے متعلق بتایا:
"اب میں اپنے اوپر خود سیلنگ (فلموں کی تعداد کی پابندی) لگانے جا رہا ہوں۔ میں اگلے سال 1994ء سے صرف چار فلمیں ہر سال کیا کروں گا۔"
سوال:
کیوں، کیا آپ فلموں سے بور ہو چکے ہیں؟
جواب:
نہیں ۔۔۔ نہیں۔ فلموں سے بور ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فلمیں تو میری رگ رگ، میرے خون، میرے دل و دماغ میں بس گئی ہیں۔ فلموں کے بغیر تو میں جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن اب میں صرف چنے ہوئے لوگوں کے ساتھ، چنی ہوئی فلمیں کرنا چاہتا ہوں۔ اب تک مجھے پیسے کی ضرورت تھی، معاشی تحفظ کی ضرورت تھی، اس لیے دن رات کام اور بس کام کرتا رہا۔۔۔ لیکن اب مجھے پیسہ اتنا ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ رات دن کام کر کے اپنا حال بےحال کر لوں اور گھر کا وقت بھی فلموں کو دیتا رہوں۔ تو جناب اب اور پیسے نہیں۔ بس اسی سال اپنی اب تک کی ساری فلمیں مکمل کروں گا اور اگلے برس سے سال میں صرف چار فلمیں کیا کروں گا۔
سوال:
لیکن کیا آپ اس بات کو نہیں مانتے کہ ہندی فلم انڈسٹری میں سال میں صرف چار فلمیں کرنا کسی بھی ایکٹر کے لیے زبردست پروفیشنل خطرہ مول لینا ہے، جان بوجھ کر زوال کی طرف جانا ہے؟
جواب:
اتار چڑھاؤ کے سارے رنگ دیکھ کر میں تین بتی والے چھوٹے سے گھر سے یہاں تک آیا ہوں۔۔۔ میری کتنی ہی فلمیں ہر سال لڑھک جاتی ہیں۔ ہٹ فلمیں کم ہوتی ہیں، فلاپ زیادہ۔ پھر بھی میری مانگ کم نہیں ہوتی۔ پروڈیوسر مجھے پسند کرتے ہیں اور برابر اپنی فلموں کی آفرز دیتے رہتے ہیں، اس لیے مجھے اب یہ احساس نہیں ہوتا کہ کم فلمیں کرنے میں کوئی خطرہ ہے۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ تین سال میں چار فلمیں کروں اور وہ چاروں لڑھک جائیں اور ساتھ ہی میں بھی لڑھک جاؤں ۔۔۔ لیکن میں ایسے وقت میں سبھاش گھئی جی کو یاد کر لیتا ہوں۔ فلم "ہیرو" میں بھی انہوں نے مجھے کھڑا کیا تھا۔ ایسا کبھی ہوا تو سبھاش جی مجھے پھر کھڑا کر دیں گے۔
سوال:
یہ تو حقیقت ہے کہ درجنوں فلموں کی ناکامی کے باوجود آپ کی مانگ میں کمی نہیں آئی، جس کا ایک سبب آپ کی لمبی اونچی شہ زور شخصیت ہے تو دوسرا سبب آپ کا ایک اچھا اداکار ہونا ہے۔ بلکہ سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ آپ ایک اچھے آرٹسٹ ہی نہیں ایک ایسے اچھے انسان بھی ہیں جو گھمنڈ سے کوسوں دور، ایکٹر سے اسٹار بننے کے باوجود اپنی زمین پر آج بھی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ یہی سبب ہے کہ جس پروڈیوسر ڈائرکٹر کے ساتھ آپ ایک بار کام کر لیتے ہیں، وہ بار بار آپ کو لینا چاہتا ہے۔
مگر پچھلے سال آپ کی فلمیں پریم دیوانے، لاٹ صاحب، سپنے ساجن کے، سنگیت وغیرہ بری طرح جو ناکام ہوئی تھیں، ایسی ناکامیوں پر آپ کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟
جواب:
اب میں اس حد سے آگے بڑھ چکا ہوں جہاں فلم کی کامیابی یا ناکامی ایک ایکٹر کو بےچین یا نڈھال کر دیتی ہے۔ جب میں نے بڑے بڑے مہارتھی پروڈیوسروں کی فلمیں کی تھیں، ناکامی ان دنوں بھی دیکھی تھی۔ میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب میں نے من موہن دیسائی کے ساتھ "اللہ رکھا"، شکتی سامنت کے ساتھ "پالے خاں"، گلشن رائے کے ساتھ "یدھ"، بی آر چوپڑا کے ساتھ "دہلیز" کی تھی۔ یہ سب فلمیں بڑے پیمانے پر بنی تھیں اور سب ہی اڑ گئیں۔ دوسری طرف آپ دیکھیے کہ میں نے کئی نئے ڈائرکٹروں کے ساتھ ہٹ فلمیں دی ہیں۔ اشوک گائیکواڑ کے ساتھ "عزت" دی، ششی لال نائر کے ساتھ "انگار" دی، ودھو ونود چوپڑا کے ساتھ "پرندہ" دی ہے۔
کامیابیوں اور ناکامیوں کی وجوہات کا تجزیہ کرنے بیٹھیں تو گھوم پھر کر بات قسمت پر ہی آتی ہے۔ آپ کتنا بھی حساب کتاب منصوبہ بندی کر لیجیے، کچھ نہیں ہوتا۔ یہی مان کر میں نے اب اس بارے میں سنجیدہ ہونا چھوڑ دیا ہے۔ تاہم میں ایک عام انسان ہوں، فلم کی کامیابی اور ناکامی سے خوشی اور غم تو ضرور ہوتا ہے۔ پھر بھی میں اب اپنے دل پر ان کا اثر نہیں پڑنے دوں گا۔
سوال:
آپ نے "اللہ رکھا" اور "کنگ انکل" دو فلمیں ایسی کی ہیں جن کا اسکرپٹ امیتابھ بچن کے لیے لکھوایا گیا تھا۔ لیکن آپ کی یہ دونوں فلمیں ناکام ہو گئیں۔ اب مستقبل میں بھی امیتابھ کی کوئی فلم آپ کو ملی تو کیا آپ اس میں کام کریں گے؟
جواب:
ضرور کروں گا۔ سو فیصد کروں گا۔ جو اسکرپٹ امیت جی کے لیے لکھا گیا ہو، وہ مجھے کرنے کو ملے تو یہ میرے لیے بڑا اعزاز ہے، آگے بھی کوئی ایسی فلم ملی تو میں ضرور کروں گا۔
سوال:
پرندہ اور انگار جیسی یادگار فلموں میں بہترین اداکاری کے باوجود آپ کو نیشنل ایوارڈ کیوں نہیں ملا؟
جواب:
جج صاحبان کو مجھ سے بھی زبردست ایکٹر جچے ہوں گے، اسی لیے انہیں ایوارڈ دئے گئے۔ ویسے بھی میں ایوارڈ کے لیے کام نہیں کرتا۔ میری کوئی فلم جب ہٹ ہوتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میرا ایوارڈ مجھے مل گیا۔ عوامی ایوارڈ سے بڑا ایوارڈ میری نظر میں کوئی نہیں۔ ویسے میں مانتا ہوں کہ نیشنل ایوارڈ اداکار کے فن کی قدرشناسی ہے۔ مگر میں شاید ابھی نیشنل ایوارڈ کے لائق نہیں ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ ناکام فلموں کے باوجود جیکی شراف ایک ایسا اداکار ہے جو فلم انڈسٹری میں سب کا ساتھی ہے۔ دوستوں کی فلموں میں وہ پیسے کے بغیر بھی کام کر دیتا ہے، پیسہ دے دو تو ٹھیک، نہ دو تو بھی ٹھیک۔ بتایا جاتا ہے کہ فلم "انگار" کی ریلیز تک بھی جیکی شراف نے اپنے دوست ششی لال نائر سے ایک پیسہ تک نہیں لیا تھا، اوپر سے سب سے زیادہ شوٹنگ، یعنی ساٹھ شفٹیں کیں۔ جبکہ وہ اپنی عام فلموں کو تیس پینتیس دن کی شفٹوں میں مکمل کر دیتا ہے۔ "انگار" کے لیے اس نے اپنی دوسری فلموں سے شفٹیں چرا چرا کر "انگار" کو دے دیں کیونکہ یہ دوست کی فلم تھی اور کافی عرصے تک لٹکی بھی رہی تھی۔
اسی طرح پریشان لوگوں کے لیے اپنی جیب ہلکی کرنے میں بھی جیکی کو کوئی جھجھک نہیں ہوتی۔ جس کی تائید کرتے ہوئے جیکی شراف کے میک اپ مین ششی ساونت نے بتایا:
میں شروع سے ہی جیکی صاحب کے ساتھ ہوں اور دیکھتا آ رہا ہوں کہ کامیابی اور دولت پانے کے باوجود جیکی بالکل نہیں بدلے ہیں۔ وہ کبھی اسٹار جیسے رنگ نہیں دکھاتے۔ اسی لیے بہت سے لوگ انہیں آج بھی جگو دادا یا جیکی دادا کہتے ہیں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ فوٹو کھنچوانے اور آٹوگراف دینے کو وہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ دوستوں کی ہر طرح کی مدد کرتے ہیں۔ غریبوں کا حال سنتے ہی کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر شخص کی بات پر جلد یقین کرنے کا کبھی کبھی یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جھوٹے اور ڈھونگی لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ ایک بار ایک بوڑھی عورت نے انہیں اپنے بیٹے کے لیے دواؤں کی لمبی سی فہرست لا کر دی۔ جیکی صاحب نے اس کے لیے اپنے کیمسٹ سے دوائیں منگوا دیں۔ دوائیں مہنگی تھیں، اس لیے تقریباً ساڑھے چھ ہزار روپے کا بل آیا۔ مگر جب اس بڑھیا نے دوائیں لے جا کر اسی کیمسٹ کی دکان پر بیچ دیں تو وہ پکڑی گئی۔ صاحب کو بہت دکھ ہوا کہ لوگ کس طرح پیسے کے لیے ضرورت کا ناٹک رچا بیٹھتے ہیں۔ اس طرح کے کئی واقعات کے بعد بھی ان کا دل پگھلنے سے باز نہیں آتا۔ اگرچہ مدد کرتے وقت وہ کبھی کبھی آج بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ لیکن اس کا ہمارے صاحب کو زیادہ غم نہیں ہوتا۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس دھوکے کو بھول جاتے ہیں۔ دوستوں کی مدد کرنے کے لیے تو صاحب جیسے انتظار میں ہی رہتے ہیں۔ کتنے ہی دوستوں کی فلمیں معاوضہ وصول کیے بغیر پوری کر دیتے ہیں۔ فلم "انگار" کے لیے صاحب نے ساٹھ شفٹیں دیں کیونکہ ششی لال نائر سے جیکی صاحب کی پرانی دوستی ہے۔ اتنی شفٹوں میں تو وہ تین فلموں کی شوٹنگ پوری کرتے ہیں۔ ایسے ہیں ہمارے صاحب!
سوال:
سبھاش گھئی کے ساتھ آپ نے اب تک چار فلمیں کی ہیں: ہیرو، کرما، رام لکھن اور کھل نائک۔ کیا وجہ ہے کہ صرف ایک "ہیرو" کو چھوڑ کر کسی اور فلم کے لیے انہوں نے آپ کو ہیرو کا رول نہیں دیا؟
جواب:
سبھاش جی مجھ سے اگر کہیں کہ ایکسٹرا میں کھڑے ہو جاؤ تو میں ان کی فلم میں ایکسٹرا بن جاؤں گا۔ کیونکہ مجھے کامیاب ایکٹر انہوں نے ہی بنایا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سبھاش جی نے مجھے 'ہیرو' کے بعد اپنی کسی اور فلم میں 'ہیرو' نہیں بنایا، لیکن دوسری فلموں میں جو رول انہوں نے مجھے دئے وہ سب کے سب اداکاری کے نقطۂ نظر سے میرے لیے مفید ہی رہے۔ 'کرما' اور 'رام لکھن' کے رولز کا ذکر آج بھی ہوتا ہے۔ آپ دیکھیے گا کہ 'کھلنائک' کے رول کے لیے بھی مجھے پسند کیا جائے گا۔ میں نے سچ مچ کسی ایسی بات کی طرف دھیان نہیں دیا کہ وہ مجھے ہیرو بناتے ہیں یا زیرو؟ میرے لیے یہی خوشی اور فخر کی بات ہے کہ میں سبھاش جی کی فلم میں ہوتا ہوں۔ ان کی فلم میں میری موجودگی ہی میرے لیے بڑی بات ہے۔
سوال:
آپ اپنے بیٹے ٹائیگر کو بہت چاہتے ہیں۔ دو سال تک بیٹے کی محبت میں آپ نے کسی بھی فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ بمبئی سے باہر نہیں کی کیونکہ آپ کا ننھا بیٹا باپ کے بغیر نہیں رہ پاتا تھا۔ ٹائیگر کا اصلی نام جے ہیمنت ہے اور جے ہیمنت کی چھوٹی بہن کرشنا بھی اس دنیا میں آ چکی ہے۔ یہ بتائیے کہ آپ نے اور آپ کی بیگم آئشہ نے کتنے بچوں کی پلاننگ کی ہے؟
جواب:
بس دو یا تین بچے ہوتے ہیں گھر میں اچھے۔ ہمارے گھر میں ایک بیٹا اور بیٹی تو آ ہی چکے ہیں۔ ایشور دونوں کو تندرست رکھے۔ ابھی ہم نے تیسرے بچے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا ہے، بعد میں سوچیں گے۔
سوال:
کیا آپ نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ فلموں میں مانگ کم ہو گئی تو کیا کریں گے؟
جواب:
یہ سارا ڈپارٹمنٹ اوپر والے کا ہے۔ میرا کام تو کرم کرنا ہے۔ اپنے حساب سے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اتنی جلدی نہیں ہٹ سکتا۔ فلموں میں میری مانگ یکایک تو ختم ہوگی نہیں۔ کیونکہ میں لفٹ سے چڑھ کر کامیابی کے اس مقام تک نہیں پہنچا۔ میں ایک ایک سیڑھی چڑھ کر سخت جدوجہد اور کٹھن تپسیا کے بعد یہاں پہنچا ہوں۔ جب واپسی میں نیچے اتروں گا تو بھی ایک ایک سیڑھی کر کے ہی نیچے آؤں گا۔
سوال:
فلمیں کس کے بوتے پر چلتی ہیں؟
جواب:
قسمت کے بوتے پر۔ اسی لیے میری فلم 'تیری مہربانیاں' ایک کتے نے ہٹ کرا دی تھی۔ قسمت اچھی ہو تو فلم کو کتے اور بندر بھی کھینچ کر لے جاتے ہیں۔۔۔ میرے باپ ایک جیوتشی ہیں اور میں خود قسمت کا دل سے قائل ہوں۔
جیکی شراف کے چند یادگار فلمی نغمے:
اماں دیکھ تیرا منڈا بگڑا جائے (فلم: اسٹنٹ مین - 1994)
یہ سفر بہت ہے کٹھن مگر (فلم: 1942 اے لو اسٹوری-1995)
سن بیلیا شکریہ مہربانی (فلم: 100 ڈیز-1991)
تیرا نام لیا تجھے یاد کیا (فلم: رام لکھن-1989)
او یارا تو پیاروں سے ہے پیارا (فلم: کاش-1987)
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: مئی 1993
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں