اگر ہم کسی ملک کو جاننا، پہچاننا اور سمجھنا چاہتے ہوں تو ہمارے لیے اس کے ادب، تاریخ، فنون لطیفہ، آثار قدیمہ ، روایات ، رسم و رواج اور تہذ یب و شائستگی کا مطالعہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ان سب کو جان لینے کے بعد بھی کبھی کبھی ہم روح کے اضطراب اور دل کی دھڑکنوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں دکھاوا بھی بڑھتا جاتا ہے۔ ہم کچھ کہہ کر بہت کچھ چھپا سکنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے جب کبھی ہم ان پردوں کو ہٹا کر گہرائیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں عوامی ادب ہمارا ہاتھ بٹاتا ہے۔
لوک گیت ، لوک کہانیاں ، جن گان ، جن ناٹیہ ،لوک ناچ ،لوک کہاوتیں، یہ سب عام انسان کی سیدھی سادی زندگی کا ماجرا بیان کر تے ہیں۔ جن میں پیچیدہ فلسفے نہیں ، روشن حقیقتیں ہوتی ہیں۔ فن اور ہئیت کی بازیگری نہیں ، دل کو چھو لینے والی موہنی ہوتی ہے۔ وہ عوامی زندگی کے ترجمان بھی ہوتے ہیں اور انفرادی زندگی کے آئینہ دار بھی۔ ان میں مقامی رنگ بہت گہرا ہوتا ہے لیکن ان سب میں انسانیت کا دل دھڑکتا صاف سنائی دیتا ہے۔
لوک ساہتیہ ہر قوم کا بیش قیمت اور لافانی ورثہ ہوتا ہے جسے وہ ہمیشہ اپنے سینہ سے لگائے رکھتی ہے۔ وہ اگرچہ ضبط تحریر میں نہیں آتا لیکن عوام کے سینوں میں محفوظ رہتا ہے۔ ماں بیٹی کو، باپ بیٹے کو، پرانی نسل نئی نسل کو ورثے میں یہ سرمایہ دیتی آئی ہے اور اس طرح یہ ادب صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا ہے۔ ان کا مصنف کون ہے ، اس کا کس عہد سے تعلق ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
لوک گیت اور ان کی فطری دھنیں کسی بھی قوم کے جذبات کا راست اور فطری اظہار ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ ان میں صناعی اورفن کاری سے زیادہ صداقت اور گرمئ حیات ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو اس سلسلے میں دیس دیس گھومے پھرے ہیں، کہتے ہیں کہ انسانی برادری کی یگانگت کو سمجھنا چاہو تو اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں کہ وہاں کے عوامی ادب سے واقفیت حاصل کرو۔ زبان و ادب جب قواعد کے بندھنوں سے بندھ جاتے ہیں تو ان میں تکلف در آ تا ہے۔ اسی لیے ایک ملک سے دوسرے ملک کا ادب الگ دکھائی دیتا ہے لیکن یہ عام خزانے فطرت سے اپنا ناطہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے زبانیں اور بولیاں الگ الگ ہونے کے باوجود ان میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں۔
ہندوستان ایک عظیم ملک ہے۔ اتر سے لے کر دکھن اور پورپ سے لے کر پچھم تک ہر جگہ رہنے والوں کے کھان پان کے طریقے جدا، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے کے آداب ، شادی بیاہ کے رسم و رواج الگ الگ ہیں۔ اس کے باوجود ان میں کچھ نہ کچھ رنگ مشترک بھی ہیں۔ اس فرق اور اشتراک کو اچھی طرح سمجھنا ہو تو جگہ جگہ گھومئے اور وہاں گائے جانے والے گیت سنیے۔
جاڑے کی راتوں میں الاؤ کے گر دگائی جانے والی سورماؤں کی کہانیاں، ہل چلاتے اور فصل کاٹتے ہوئے کسانوں کے گیت ، پنگھٹ پر جمع ہونے والی پنہارنوں کی چہل ، چرخہ کاتنے والی گرہستن کا گنگنانا، دھمش کرنے والے مزدوروں کی تھاپ، دھان کوٹنے والیوں کے بول، رات کے پچھلے پہر بیل گاڑی ہانکنے والوں کی تانیں، محرم کے الاوے، عورتوں کی زاریاں۔۔۔ پھر ڈھولک کے گیت ، جن میں پیدائش سے لے کر موت تک ، انسانی زندگی کا ہر رخ اور ہر موڑ جیتا جاگتا اپنے منہ آپ کہانی سناتا ہے۔
ان میں بدلتی ہوئی رتوں کی خوشبو، آنگن کے پیڑ پر بولنے والی کوئل ، چھپ کر منڈیر پر کائیں کائیں کرتا کوا۔۔۔ ساس ، نند ، دیورانی ، جٹھانی کی شکایتیں ، گلے شکوے، میکے کی یاد۔۔۔ غرض ہر پسند ناپسند ، درد و غم، نفرت و محبت ، چھوٹی چھوٹی خواہشیں۔۔۔ سبھی کچھ موجود ہیں۔
ان میں ہیر پیچ کی باتیں نہیں ہوتیں۔ دکھاوا نہیں ہوتا۔ یہ تو کھرے، بھولے بھالے، دل کی آواز ہیں۔ ان میں اپنے پن کا رس ہے۔ مان ہے اور مصری کی ڈلی جیسی گہری مٹھاس ہے۔۔
انہیں ابھی شہروں کی تہذیب نے دل کی سچائی پر جھوٹ کا ملمع کرنا نہیں سکھایا، یہ کھری کھری باتیں اَن گڑھ، کھردری سہی مگر سچی ہیں۔ سچے موتی بھی تو سڈول نہیں ہوتے۔
یہ گیت جن سروں میں گائے جاتے ہیں، انہیں سیکھنے کے لیے برسوں کی ریاضت درکار نہیں، نہ خاص خاص سازوں کی احتیاج، موسل کی دھن دھم، چکی کی گھمر گھمر، چرخے کی روں روں، دھنکئے کی تِن تِن با دھمش کی تھاپ، ان گیتوں کے لیے ساز کا کام دیتی ہے۔
ایک ڈھولک مل گئی تو کیا کہنے ورنہ مٹی کے گھڑے سے بھی کام نکل جاتا ہے۔ پھر آواز کے تان سین اور تانی ہونے کی ضرورت نہیں۔ فطری اور توانا آواز میں جب پانچ سات سہاگنیں یا دس بارہ کسانوں کی ٹولی گانے پر اتر آتی ہے، سب کی پچرسی آوازیں ابھرتی ہیں تو سننے والوں کی رگوں میں لہو جوش مارنے لگتا ہے۔ آنگن میں لگے آم کے پیڑ تلے جب لڑکیاں بالیاں گانے لگتی ہیں تو سننے والی بوڑھیوں کی بیتی جوانی جاگتی ہے اور وہ بھی آواز ملانے لگتی ہیں کیونکہ ان گیتوں میں انہیں کی سادہ زندگی کی بہت سی کہانیاں سموئی ہوئی ہوتی ہیں۔
ماخوذ از مقدمۂ کتاب: ڈھولک کے گیت (مرتبین: ڈاکٹر مجید بیدار، فیروز رشید، لطیف الدین)
ناشر: سرور ڈنڈا میموریل سوسائٹی، حیدرآباد۔ سن اشاعت: 2003ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں